حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مصلح موعودؓ کی یاد میں
عجب محبوب تھا سب کی محبت اس کو حاصل تھی
دلوں میں جڑ ہو جس کی وہ عقیدت اس کو حاصل تھی
ہیں سب یہ جانتے کہ کام معمولی نہ تھا اس کا
کہ مامورِ زمانہ کی نیابت اس کو حاصل تھی
اُسے قدرت نے خود اپنے ہی ہاتھوں سے سنوارا تھا
تھا جس کا شاہکار اس کی ضمانت اس کو حاصل تھی
علومِ ظاہری اور باطنی سے پُر تھا گر سینہ
تو میدانِ عمل میں خاص شہرت اس کو حاصل تھی
اُولوالعزم و جواں ہمت تھا وہ عالی گہر ایسا
زمانے بھر سے ٹکرانے کی ہمت اس کو حاصل تھی
رضا کے عطر سے ممسوح کر کے اُس کو بھیجا تھا
وہ ایسا گُل تھا کہ ہر گُل کی نگہت اس کو حاصل تھی
اُسے ملتا تھا جو بھی وہ اسی کا ہو کے رہ جاتا
کہ دل تسخیر کر لینے کی قوت اس کو حاصل تھی
اُٹھاتا تھا نظر اور دل کے اندر جھانک لیتا تھا
خدا کے فضل سے ایسی بصیرت اس کو حاصل تھی
خدا نے خود اسے ’’فضلِ عمر‘‘ کہہ کے پکارا تھا
عمرؓ سا دبدبہ ویسی ہی شوکت اس کو حاصل تھی
وہ نورِ آسمانی تھا زمیں پہ جو اتر آیا
کلمۃُ اللہ ہونے کی سعادت اس کو حاصل تھی
وجیہ و پاک لڑکے کی خدا نے خود خبر دی تھی
عجب رنگِ ذکا، شانِ وجاہت اس کو حاصل تھی
وہ ذہن و فہم کی جس کے خدا نے خود گواہی دی
ذہانت اس کو حاصل تھی، فراست اس کو حاصل تھی
’’یہ ممکن ہے اسیروں کے جہاں میں رستگار آئیں‘‘
کہاں وہ بات لیکن جو فضیلت اس کو حاصل تھی
جو نظروں کو جکڑ لے ایسی صورت کا وہ مالک تھا
دلوں کو کھینچ لے جو ایسی سیرت اس کو حاصل تھی
تبسم زیرِ لب، روشن جبیں، روئے گلاب آسا
جو یوسفؑ کو ملی تھی ایسی طلعت اس کو حاصل تھی
وہ اس کی زندگی کہ سعئ پیہم سے عبارت تھی
نہ دن کا چین، نہ شب کی فراغت اس کو حاصل تھی
ہجوم افکار کا، جِہدِ مسلسل اور کٹھن راہیں
مگر پھر بھی طبیعت کی بشاشت اس کو حاصل تھی
نظیرِ حسن و احسانِ مسیح و مہدئ دوراں
تھا جس کی ذریّت اس کی شباہت اس کو حاصل تھی
مصائب سے وہ کھیلا اور طوفانوں سے ٹکرایا
نہ اس کے عزم میں اور حوصلے میں لیک فرق آیا
الٰہی روح پہ اس کی صدا نوروں کی بارش ہو
جماعت پہ بھی اس کی تیرے فضلوں کا رہے سایہ
(صاحبزادی امۃالقدوس بیگم صاحبہ سلمہا اللہ)