متفرق مضامین

عربی زبان میں خدا داد فصاحت و بلاغت کا عظیم الشان نشان (قسط چہارم)

(محمد طاہر ندیم۔مربی سلسلہ عربک ڈیسک یوکے)

مقامات حریری وغیرہ سے سرقہ كے الزام كا اصولی اورعلمی ردّ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام كی عربی تحریرات میں چونكہ بعض فقرے ایسے موجود ہیں جوبعینہٖ یا كسی قدر تبدیلی كے ساتھ مقامات حریری یا همذانی وغیره كتب میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ان پرجاہل اور كوتاه علم مخالفین اُس وقت سے لے كر آج تك اعتراض كرتے جا رہے ہیں كہ نعوذ بالله حضور علیہ السلام نے یہ ان مقامات سے سرقہ كیے ہیں۔

ان كے اعتراضا ت كی حقیقت اوراس كا اصولی جواب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود ہی دےد یا تھا اور محض چند الفاظ یا ایك ایك جملے میں جوابات كے مآخذ كی طرف اشاره فرمادیا ہے۔

١۔ پہلی اصولی بات۔

بعض فقرات كی بنا پر سرقہ كا الزام جہالت ہے

حضور علیہ السلام كا موقف یہ ہے كہ یہ اسلوب ادبی كتب میں بلكہ آسمانی كتب میں بھی پایا جاتا ہے كہ بعض معروف ادباء کے کلام سے توارد ہو جاتا ہےاور ایسے چند فقرات کی بنا پر ان کتب پر سرقہ کا الزام محض جہالت ہے۔ ایسے توارد پر نہ صرف یہ کہ اعتراض نہیں ہو سکتا بلكہ ادباء كے نزدیك یہ طریق مستحسن ہے اور ادبی ملكہ شمار كیا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:

’’خود اُدباء کے نزدیک اس قدر قلیل توارد نہ جائے اعتراض ہے اور نہ جائے شک۔ بلکہ مستحسن ہے کیونکہ طریق اقتباس بھی ادبیہ طاقت میں شمار کیا گیا ہے اور ایک جُز بلاغت کی سمجھی گئی ہے۔ جو لوگ اس فن کے رجال ہیں وہی اقتباس پر بھی قدرت رکھتے ہیں ہر یک جاہل اور غبی کا یہ کام نہیں ہے۔ ماسوا اس کے ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خدا تعالیٰ کی تائید سے اس انشاء پردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے تا معارف حقائق قرآنی کو اس پیرایہ میں بھی دنیا پر ظاہر کریں۔ اور وہ بلاغت جو ایک بیہودہ اور لغو طو رپر اسلام میں رائج ہو گئی تھی اس کو کلام الٰہی کا خادم بنایا جائے اور جبکہ ایسا دعویٰ ہے تو محض انکار سے کیا ہو سکتا ہے جب تک کہ اس کی مثل پیش نہ کریں یوں تو بعض شریر اور بدذات انسانوں نے قرآن شریف پر بھی یہ الزام لگایا ہے کہ اس کے مضامین توریت اور انجیل میں سے مسروقہ ہیں اور اس کی امثلہ قدیم عرب کی امثلہ ہیں جو بالفاظہا سرقہ کے طو رپر قرآن شریف میں داخل کی گئی ہیں۔ ایسا ہی یہودی بھی کہتے ہیں کہ انجیل کی عبارتیں طالمود میں سے لفظ بلفظ چُرائی گئی ہیں۔ چنانچہ ایک یہودی نے حال میں ایک کتاب بنائی ہے جو اس وقت میرے پاس موجود ہے اور بہت سی عبارتیں طالمود کی پیش کی ہیں جو بجنسہٖ بغیر کسی تغیر تبدّل کے انجیل میں موجود ہیں اور یہ عبارتیں صرف ایک دو فقرے نہیں ہیں بلکہ ایک بڑا حصہ انجیل کا ہے اور وہی فقرات اور وہی عبارتیں ہیں جو انجیل میں موجود ہیں اور اس کثرت سے وہ عبارتیں ہیں جن کے دیکھنے سے ایک محتاط آدمی بھی شک میں پڑے گا کہ یہ کیا معاملہ ہے اور دِل میں ضرورکہے گا کہ کہاں تک اس کو توارد پر حمل کرتا جاؤں اور اس یہودی فاضل نے اِسی پر بس نہیں کی بلکہ باقی حصّہ انجیل کی نسبت اُس نے ثابت کیا ہے کہ یہ عبارتیں دوسرے نبیوں کی کتابوں میں سے لی گئی ہیں اور بعینہٖ وہ عبارتیں بائبل میں سے نکال کرپیش کی ہیں اور ثابت کیا ہے کہ انجیل سب کی سب مسروقہ ہے اور یہ شخص خدا کا نبی نہیں ہے بلکہ اِدھر اُدھر سے فقرے چُرا کر ایک کتاب بنالی اور اس کا نام انجیل رکھ لیا۔ اور اس فاضل یہودی کی طرف سے یہ اس قدر سخت حملہ کیا گیا ہے کہ اب تک کوئی پادری اِس کا جواب نہیں دے سکا۔ یہ کتاب ہمارے پاس موجود ہے جو ابھی ملی ہے۔ اب چونکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ حضرت مسیح نے ایک یہودی اُستاد سے سبقًاسبقًا توریت پڑھی تھی اور طالمود کو بھی پڑھا تھا اِس لئے ایک شکی مزاج کے انسان کو اِس شبہ سے نکلنا مشکل ہے کہ کیوں اِس قدر عبارتیں پہلی کتابوں کی انجیل میں بلفظہا داخل ہو گئیں اورنہ صرف وہی عبارتیں جو خدا کی کلام میں تھیں بلکہ وہ عبارتیں بھی جو انسانوں کے کلام میں تھیں۔ مگر اس سنت اﷲ پر نظر کرنے سے جس کو ابھی ہم لکھ چکے ہیں یہ شبہ ہیچ ہے کیونکہ خدا تعالیٰ بباعث اپنی مالکیّتکے اختیار رکھتا ہے کہ دُوسری کتابوں کی بعض عبارتیں اپنی جدید وحی میں داخل کرے اس پر کوئی اعتراض نہیں چنانچہ براہین احمدیہ کے دیکھنے سے ہر ایک پر ظاہر ہو گا کہ اکثر قرآنی آیتیں اور بعض انجیل کی آیتیں اور بعض اشعار کسی غیرملہم کے اس وحی میں داخل کئے گئے ہیں جو زبردست پیشگوئیوں سے بھری ہوئی ہے جس کے منجانب اﷲ ہونے پر یہ قوی شہادت ہے کہ تمام پیشگوئیاں اُس کی آج پوری ہو گئیں اور پوری ہو رہی ہیں۔ ‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ437تا438)

اس اقتباس میں اور دیگر كئی مقامات پر حضور علیہ السلام نے ایك نہایت عارفانہ نكتہ كی نشاندہی كی ہے اوروه یہ ہے كہ اگر كسی كا كوئی جملہ یا كلام خدا كے الہام میں شامل ہو جائے تو اگرچہ كلمات تو وہی رہتے ہیں لیكن اس كلام كی عظمت خارق عادت ہو جاتی ہے اورجس كو چشم بینا عطا ہوئی ہو وه دیكھ سكتا ہے كہ اگرچہ یہی كلام فلاں ادیب نے كہا تھا لیكن اس كی كوئی وقعت نہ تھی تاہم جب یہ فقره یا جملہ خدا تعالیٰ كی وحی میں شامل ہوا تو عظیم الشان پیشگوئی اور عظمت وجلال والے كلام كی حیثیت اختیار كرگیا۔

آ پ علیہ السلام كو زلزلہ كی نسبت دی جانے والی پیشگوئی جن الفاظ میں دی گئی وه لبید بن ربیعہ كے شعر كا ایك مصرعہ تھا۔ اس پر بہت اعتراض كیا گیا جس كے جواب میں آپ علیہ ا لسلام نے اس عارفانہ مضمون كو بیان فرماتے ہوئے لكھا كہ

’’اب یاد رہے کہ وحی الٰہی یعنی

عَفَتِ الدّیارُ مَحلّها ومَقَامُها

یہ وہ کلام ہے جو آج سے تیرہ سو برس پہلے خدا تعالیٰ نے لبید بن ربیعۃ العامری کے دل میں ڈالا تھا جو اُس کے اس قصیدہ کااوّل مصرع ہے جو سبعہ مُعلّقہ کا چوتھا قصیدہ ہے اور لبید نے زمانہ اسلام کا پایا تھا اور مشرف باسلام ہوگیا تھا اور صحابہ رضی اللّٰه عنہم میں داخل تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کے کلام کو یہ عزّت دی کہ جو آخری زمانہ کی نسبت ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی کہ ایسی ایسی تباہیاں ہوں گی جن سے ایک ملک تباہ ہوگا وہ اُسی کے مصرع کے الفاظ میں بطور وحی فرمائی گئی جو اس کے منہ سے نکلی تھی۔ پس یہ تعجب سخت نادانی ہے کہ ایک کلام جو مسلمان کے منہ سے نکلا ہے وہ کیوں وحی الٰہی میں داخل ہوا۔ کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کرچکے ہیں وہ کلام جو عبداللہ بن ابی سرح کے منہ سے نکلا تھا یعنی

فَتَبَارَكَ اللّٰهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ

وہی قرآن شریف میں نازل ہوا جس کی وجہ سے عبد اللہ بن ابی سرح مرتد ہوکر مکہ کی طرف بھاگ گیا۔ پس جب کہ خدا تعالیٰ کے کلام کا ایک مرتد کے کلام سے توارد ہوا تو اس سے کیوں تعجب کرناچاہیے کہ لبید جیسے صحابی بزرگوار کے کلام سے اس کے کلام کا توارد ہوجائے۔ خدا تعالیٰ جیسے ہرایک چیز کا وارث ہے ہر ایک پاک کلام کا بھی وارث ہے اور ہر ایک پاک کلام اُسی کی توفیق سے مُنہ سے نکلتا ہے۔ پس اگر ایسا کلام بطور وحی نازل ہو جائے تو اس بارے میں وہی شخص شک کرے گا جس کو اسلام میں شک ہو…اِسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کلام سے بھی کئی مرتبہ قرآن شریف کا توارد ہوا جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ قال: قال عمر:

وَافَقْتُ رَبِّیْ فِیْ اَرْبَعٍ

یعنی چارباتیں جو میرے منہ سے نکلیں وہی خدا تعالیٰ نے فرمائیں ……اگر کسی شخص کا کلام خدا کے کلام میں بطور وحی کے داخل ہوجائے تو وہ بہرحال اعجاز کا رنگ پکڑ سکتا ہے۔ مثلاً یہی وحی الٰہی یعنی عَفَتِ الدّیارُ مَحلّها ومَقَامُها جب لبید ر ضی اللہ عنہ کے مُنہ سے شعر کے طور پر نکلی تو یہ معجزہ نہ تھی۔ لیکن جب وحی کے طور پر ظاہر ہوئی تو اب معجزہ ہوگئی۔ كيونكہ لبید ایک واقعہ گذشتہ کے حالات پیش کرتا ہے جن کا بیان کرنا انسانی قدرت کے اندر داخل ہے لیکن اب خدا تعالیٰ لبید کے کلام سے اپنی وحی کا توارد کرکے ایک واقعہ عظیمہ آئندہ کی خبر دیتا ہے جو انسانی طاقتوں سے باہرہے پس وہی کلام جب لبید کی طرف منسوب کیا جائے تو معجزہ نہیں ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے تو بلاشبہ معجزہ ہے۔ آج سے ایک سال پہلے اس بات کو کون جانتا تھا کہ ایک حصہ اس ملک کا زلزلہ شدیدہ کے سبب سے تباہ اورویران ہو جائے گا یہ کس کو خبر تھی کہ اس قدر شہر اور دیہات یک دفعہ زمین میں دھنس کر تمام عمارتیں نابود ہو جائیں گی اور اُس زمین کی ایسی صورت ہو جائے گی کہ گویا اس میں کبھی کوئی عمارت نہ تھی پس اسی بات کا نام تو معجزہ ہے کہ کوئی ایسی بات ظہور میں آوے جو پہلے اس سے کسی کے خیال و گمان میں نہ تھی اور امکانی طور پر بھی اس کی طرف کسی کاخیال نہ تھا۔ ‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21صفحہ162تا163)

اس ساری بحث پر نظر كرنے سے حضور علیہ السلام كی بات ہی سچی ثابت ہوتی ہے كہ كسی كے كلام میں پائے جانے والے قدیم كتب كے چند فقرے یا الفاظ كو سرقہ قرار دیا جائے تو پھر اس سے تو كوئی كتاب بھی محفوظ نہیں رہے گی بلكہ الہامی كتب بھی اس الزام سے باہر نہیں رہیں گے۔ جیسا كہ آپ نے فرمایا:

’’ اگر اس کو ایک جائز اعتراض سمجھا جائے تو نہ اس سے قرآن شریف باہر رہ سکتا ہے اور نہ احادیث نبویہ اور نہ اہل ادب کی کتابوں میں سے کوئی کتاب۔ ‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18صفحہ432)

نیز اس قسم كے سرقہ كے الزام كے بارے میں آپ علیہ السلام نے فرمایا كہ’’…بجز ایک پاگل آدمی کے کوئی خیال نہیں کرتا کہ یہ سرقہ ہے۔ انسان تو انسان خدا کے کلام میں بھی یہی پایا جاتا ہے۔ اگر بعض پُر فصاحت فقرے اور مثالیں جو قرآن شریف میں موجود ہیں شعرائے جاہلیت کے قصائد میں دیکھی جائیں تو ایک لمبی فہرست طیّار ہو گی اور ان امور کو محققین نے جائے اعتراض نہیں سمجھا۔ ‘‘(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18صفحہ434)

آپ علیہ السلام كی بات سو فیصد درست ہے۔ كیونكہ قرآن كريم كے بعض ایسے فقرات كے بارے میں بعض جلد باز مخالفین نے اعتراض كیے ہیں اور اس نكتہ كو نہ سمجھنے كی بنا پر بعض عیسائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جاہلیت كے زمانے كے قصائد سے سرقہ كا الزام عائد كرتے ہیں۔ ذیل میں اس كی چند مثالیں پیش ہیں۔

آیت قرآنی

ہعَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِيلِ وَمِنْهَا جَائِرٌ۔ (النحل:10)

کو امرؤ القیس کے کلام کی نقل قرار دیا گیا ہے۔ امرؤ القیس نے کہا تھا:

وَمِنَ الطَّرِيْقَةِ جَائِرٌ وَهدى

قَصْد السَّبِيْل، وَمِنْهُ ذُو دَخل

(دیوان امرؤ القیس، صفحہ 131۔ ’’قافیۃ ل‘‘ دا رالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ۔ (الرحمٰن:57)

اور امرؤ القیس کہتا ہے:

مِن القاصِراتِ الطَّرفِ، لو دبَّ مُحوِلٌ

من الذرِّ فوقَ الإتبِ مِنها لأثَّرَا

(دیوان امرؤ القیس، صفحہ 65 ’’قافیۃ الراء‘‘ دا رالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

قرآن مجید میں ہے:

وَ مَا یُبۡدِئُ الۡبَاطِلُ وَ مَا یُعِیۡدُ۔ (سبا:50)

اور ابن الابرص کہتا ہے:

أَقْفَرَ مِن أَهْلِهِ عَبِيدُ

فاليومَ لا يُبْدِي ولا يُعِيدُ

(الشعر والشعراء لابن قتیبہ۔ زیر لفظ عبید بن الابرص صفحہ 95)

پھر قرآن مجید میں ہے:

إنَّ عَذَابَها کَانَ غَرَامًا۔ (الفرقان:66)

ابن ابی خازم کہتا ہے:

وَيَوم النسَارِ وَيَوم الجفَارِ

كانَا عذابًا وكانَا غرامًا

(دیوان بشر بن ابی خازم الاسدی، صفحہ 135۔ قافیۃ المیم دار الکتاب العربی بیروت 1994ء)

قرآن مجید میں آیا ہے:

خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ۔ (الرحمٰن:15)

اور امیہ بن ابی الصلت کہتا ہے:

كَيْفَ الجحُودُ، وَإِنَّما خُلِقَ الْفَتَى

مِنْ طِيْنٍ صَلْصَالٍ لَهُ فَخَّار

(دیوان امیۃ بن الصلت صفحہ 82قافیۃ الراء۔ دار صادر بیروت 1998ء)

قرآن مجید میں ہے:

مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ۔ (یٰس:79)

زھیر بن ابی سلمیٰ کہتا ہے:

لَولَا تَسُبّنِي الْعَرَبُ لَآمَنْتُ أنَّ الَّذِيْ أَحْيَاكَ بَعْدَ يبِس سَيُحْيِيْ الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيْم.

(الملل و النحل جلد 3الباب الثالث: آراء العرب فی الجاھلیۃ۔ الفصل الثانی: معتقداتھم)

قرآن شریف میں ہے:

قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ۔ اللّٰهُ الصَّمَدُ۔ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ۔ (الاخلاص:2تا4)

قس بن ساعدہ کہتا ہے:

كَلّا بَلْ هُوَ اللّٰهُ إِلَهٌ وَاحِدٌ

لَيْسَ بِمَولُودٍ وَلَا وَالِد

(الملل و النحل جلد 3 الباب الثالث: آراء العرب فی الجاھلیۃ۔ الفصل الثانی: معتقداتھم)

قرآن کریم میں ہے:

إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ۔ (قريش:3)

نیز آتا ہے:

قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَه۔ (عبس:18)

امرؤ القیس کے شعر میں آتا ہے:

يَتَمَنَّى الْمَرْءُ فِي الصَّيْفِ الشِّتَا

فَإِذَا جَاءَ الشِّتَا أَنْكَرَه

فَهُوَ لَا يَرْضَى بِحَالٍ وَاحِدٍ

قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَه

(حاشیۃ الشہاب علی تفسیر البیضاوی سورۃ العبس آیت 18جلد 9صفحہ417)

قرآن کریم میں آتا ہے:

اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ۔ (القمر:2)

امرؤ القیس کا شعر ہے:

اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ

عَنْ غَزَالٍ صَادَ وَنَفَر

نیز قرآن میں آتا ہے:

إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا۔ واخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا۔ (الزلزال:2-3)

جبکہ امرؤ القیس کہتا ہے:

إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا

واخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا

تَقُومُ الأَنَامُ عَلَى رِسْلِهَا

لِيَومِ الْحِسَابِ تَرَى حَالهَا

يُحَاسِبُهَا مَلِكٌ عَادِلٌ

فَإِمَّا عَلَيْهَا وَإِمَّا لَهَا

(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر از علامہ عبدالرؤف المناوی جلد2صفحہ187)

یہ وہ چند مثالیں ہیں جن كے بارے میں مخالفین اسلام كا خیال ہے كہ یہ فقرات یا تراكیب قرآن كریم كے نزول سے پہلے معروف تھیں اور نعوذ بالله محمد صلی الله علیہ وسلم نے وہاں سے چرا كر قرآن كریم میں شامل كرلیں۔ دوسرے معنوں میں وه قرآن کریم كے پرانی كتب سے سرقہ ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ آج كے معترضین بھی انہی کی روش اختیار کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے عربی كلام پر ایسے ہی اعتراضات کر تے ہیں۔ جبكہ حقیقت یہ ہے كہ اگر گذشتہ سطور میں مذكور حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے دلائل كو مدّ نظر ركھا جائے تو قدیم اشعار کی بعض تراكیب اور جملوں كا قرآن كریم میں آنا مورد اعتراض نہیں ٹھہرتا۔

علامہ ابن رشیق اپنی کتاب العُمْدَةُ فِي مَحاسِنِ الشِّعْرِ وَآدَابِهِ میں لکھتے ہیں :

’’وَمِمَّا يُعَدُّ سَرَقًا وَلَيْسَ بِسَرَق اشْتِراكُ اللَّفْظِ المُتَعارَفِ كَقَوْلِ عَنْتَرَةَ.‘‘

یعنی الفاظ متعارفہ کا اشتراک سرقہ میں داخل نہیں ہے۔ اور پھر اس کی امثلہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں كہ جيسے عنترۃ كا قول ہے:

وَخَيلٍ قَد دَلَفتُ لَها بِخَيلٍ

عَلَيها الأُسدُ تَهتَصِرُ اِهتِصارا

اورقول عمرو بن معدیکرب یوں ہے:

وَخَيلٍ قَد دَلَفتُ لَها بِخَيلٍ

تَحِيّةُ بَينِهِمْ ضَرْبٌ وَجِيْعُ

اورقول خنساء یہ ہے :

وَخَيلٍ قَد دَلَفتُ لَها بِخَيلٍ

فَدَارَتْ بَيْنَ كَبْشَيْهَا رَحَاهَا

اسی طرح ایك اعرابی كا قول ہے:

وَخَيلٍ قَد دَلَفتُ لَها بِخَيلٍ

تُرى فُرسَانُها مثل الأَسْوَدِ

اور ان مثالوں کو ذکر کر کےابن رشیق لکھتے ہیں كہ ’’وأمثالُ هذا کثیرٌ‘‘

یعنی ایسے لفظی اشتراك كی بے شمار مثالیں ہیں۔

(العمدۃ فی محاسن الشعر و آدابہ، باب السرقات و ما شاکلھا، جزء 2 صفحہ292)

اس لفظی اشتراك كو توارد بھی كہا جاسكتا ہے اور ایسے توارد کی چند مزید مثالیں پیش ہیں۔

امرؤ القیس کہتا ہے:

إِنّي حَلَفتُ يَمينًا غَيرَ كاذِبَةٍ

أَنَّكَ أَقْلَفُ إِلاَّ ما جَنَى القَمَرُ

(دیوان امرؤ القیس صفحہ81 قافیۃ الراء دارالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

حضرت حسان بن ثابتؓ کہتے ہیں :

إِنّي حَلَفتُ يَمينًا غَيرَ كاذِبَةٍ

لَو كانَ لِلحارِثِ الجَفنِيِّ أَصحابُ

(دیوان حسان بن ثابتؓ صفحہ 30قافیۃ الباء۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

امرؤ القیس کہتا ہے :

كأنّ الحَصَى مِنْ خَلفِهَا وَأمامِهَا

إذا نجَلَته رِحلُها حَذْفُ أعسَرَا

(دیوان امرؤ القیس صفحہ 73 ’’قافیۃ الراء‘‘۔ دا رالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

شماخ ذبیانی کہتا ہے:

لَها مَنسِمٌ مِثلُ المَحارَةِ خُفُّهُ

كَأَنَّ الحَصى مِن خَلفِهِ خَذفُ أَعسَرا

(الشعر و الشعراء لابن قتیبۃ، صفحہ34)

پھر امرؤ القیس کہتا ہے:

سَليمَ الشَظى عَبلَ الشَوى شَنَجَ النَسا

لَهُ حَجَباتٌ مُشرِفاتٌ عَلى الفالِ

(دیوان امرؤ القیس صفحہ 127 ’’قافیۃ ل‘‘دا رالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

درید بن الصمة كا شعرہے:

سَليمِ الشَظى عَبلِ الشَوى شَنِجِ النَسا

طَويلِ القَرا نَهدٍ أَسيلِ المُقَلَّدِ

(الصناعتين أبو هلال الحسن بن عبد اللّٰه الباب التاسع شرح البديع الفصل السادس والعشرون فی السلب والإيجاب)

حضرت کعب بن زہیرؓ کہتے ہیں :

شَديدُ الشَظى عَبلُ الشَوى شَنِجُ النَسا

كَأَنَّ مَكانَ الرِدفِ مِن ظَهرِهِ وَعى

(الشعر و الشعراء لابن قتیبۃ صفحہ35)

اسی طرح امرؤالقیس کہتا ہے :

وُقوفًا بِها صَحبي عَلَيَّ مَطِيَّهُم

يَقولونَ لا تَهلِك أَسىً وَتَجَمِّلِ

(دیوان امرؤالقیس، صفحہ 110 ’’قافیۃ ل‘‘ دا رالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

فرزدق (تابعی) کہتاہے:

وُقوفًا بِها صَحبي عَلَيَّ وَإِنَّما

عَرَفتُ رُسومَ الدارِ بَعدَ التَوَهُّمِ

يَقولونَ لا تَهلِك أَسىً وَلَقَد بَدَت

لَهُم عَبَراتُ المُستَهامِ المُتَيَّمِ

(دیوان فرزدق صفحہ 524 حرف المیم دار الکتب العلمیۃ بیروت 1987ء)

  • علامہ ابو ہلال عسکری اپنی مشہور و معروف تصنیف کتاب الصناعتین کے صفحہ 147پر لکھتے ہیں :

وَرُبَّمَا أَخَذَ الشّاعِرُ القَوْلَ المَشْهورَ وَلَمْ يُبالِ؛ كَمَا فَعَلَ النّابِغَة، فَإِنَّهُ أَخَذَ قَوْلَ وَهْبِ بْنِ الحَارِثِ ابْن زَهْرَةَ:

تَبْدُو كَواكِبُهُ والشَّمْسُ طَالِعَة

تُجْرَى عَلَى اَلْكاسِ مِنْهُ الْصابُ وَالْمَقَرُّ

وَقَالَ النّابِغَةُ:

تَبْدُو كَواكِبُهُ والشَّمْسُ طَالِعَة

لَا النّورَ نُورٌ وَلَا اَلْإِظْلامُ إِظْلامٌ

بسا اوقات شعراء کسی مشہور قول کو لے کر بلامضائقہ اسے اپنے اشعار میں استعمال کر لیتے ہیں جیسے وهب بن الحارث بن زهرة كا یہ شعرہے:

تَبْدُو كَواكِبُهُ والشَّمْسُ طَالِعَة

تُجْرَى عَلَى اَلْكاسِ مِنْهُ الْصابُ وَالْمَقَرُّ

اس میں سے نابغہ نے پہلا مصرعہ لیتے ہوئے یہ شعر لكھاہے:

تَبْدُو كَواكِبُهُ والشَّمْسُ طَالِعَة

لَا النّورَ نُورٌ وَلَا اَلْإِظْلامُ إِظْلامٌ

(الصناعتين أبو هلال الحسن بن عبد الله الباب السادس فی حسن الاخذ الفصل الاول تداول المعانی صفحہ 197)

ان ابیات میں جو صنف بیان ہوئی ہے اسے تضمین كہتے ہیں اوریہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام میں بھی پائی جاتی ہے۔

اشتراک لفظی، تضمین اور توارد شعراء کے کلام میں کثرت سے پایا جاتا ہے اور اس میں سرقہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ جیساکہ سطور بالا میں شعراء کے کلام میں سے دی گئی بعض مثالوں سے بات واضح ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ابن رشیق ’’العمدہ‘‘ میں لکھتا ہے:

’’وَسُئِلَ أَبُو عَمْرِو بْنُ العَلاءِ: أَرَأَيْتَ الْشاعِرَينَ يَتَّفِقَانِ فِي المَعْنَى وَيتَوَارْدَانِ فِي اللَّفْظِ لَمْ يَلْقَ واحِدٌ مِنْهُمَا صاحِبَهُ وَلَمْ يَسْمَعْ شِعْرَهُ؟ قَالَ: تِلْكَ عُقولُ رِجالٍ توَافَتْ عَلَى أَلْسِنَتِها، وَسُئِلَ أَبُو الطَّيِّبِ عَنْ مِثْلِ ذَلِكَ فَقَالَ: الشِّعْرُ جادَّةٌ، وَرُبَّمَا وَقَعَ اَلْحافِرُ عَلَى مَوْضِعِ الْحافِرِ‘‘

(العمدۃ فی محاسن الشعر و آدابہ، باب السرقات وما شاکلھا جزء 2صفحہ289)

یعنی ابو عمرو بن العلاء سے پوچھا گیا كہ آپ كا ایسے دوشعراء كے بارے میں كیا خیال ہے جن كى بعض شعروں میں لفظی اور معنوی توارد ہو جبكہ وه دونوں آپس میں نہ كبھی ملے ہوں نہ ہی ایك نے دوسرے كے شعر كو سنا ہو؟ ابو عمرو بن العلاء نے جواب دیا كہ یہ لوگوں كے باہم ملتے جلتےافكار ہیں جو ان كی زبانوں سے ادا ہوتے ہوئے بھی ایك دوسرے سے مطابقت اختیار كرگئے۔

اور ابو الطیب المتنبی سے بھی اسی طرح كا سوال ہوا تو انہوں نے كہا كہ شعر کو بھی ایک راستہ ہی سمجھو۔ اور راستہ میں چلتے ہوئے بسا اوقات ایک گھوڑے کے قدم كے نشان پر اس کے بعد میں آنےوالے گھوڑے کا قدم آن پڑتا ہے۔

علاوه ازیں حضرت انس بن مالكؓ بیان كرتے ہیں كہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

’’میرے رب نے تین باتوں میں میری موافقت فرمائی، (1)میں نےعرض كیا یا رسول اﷲ! کاش! ہم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنائیں تو الله تعالیٰ كا حکم نازل ہوا۔

(وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلّى

یعنی: مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ)۔ (2) اور میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اﷲ! کاش آپ ازواج مطہرات کو پردے کا حکم فرمائیں کیونکہ ان سے نیک اور بد ہر قسم کے لوگ کلام کرتے ہیں تو پردے كے حكم والی آیت نازل ہوئی۔ (3) اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ازواج مطہرات نے آپس كی فطری غیرت کے باعث جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر دباؤ ڈالا تو میں نے انہیں کہا ’’اگر آنحضرتﷺ آپ سب کو طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ ان کا رب انہیں اور بیویاں عطا فرما دے جو آپ سے بھی بہتر ہوں۔ ‘‘تو یہی آیت نازل ہوئی۔

(صحیح بخاری، كتاب الصلوٰة)

اگر اس حدیث كے عربی الفاظ پڑھیں تو تجویز دیتے ہوئے حضرت عمر رضی الله عنہ نے بعینہٖ وہی الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو بعد میں آیت كی صورت میں قرآن میں نازل ہوئے ہیں۔

اب سوال یہ ہے كہ كیا نعوذ بالله آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے اچھے اچھے خیالات لے كر بعد میں اسے وحی الٰہی بنا كر پیش كر دیتے تھے؟ یا وہی بات درست ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی ہے كہ وحی الٰہی میں كسی انسان كے كلام كا بھی توارد ہو سكتا ہے۔ اور اگر وحی الٰہی میں ایسا ہو سكتا ہے تو پھر انسان كے كلام میں تو بدرجہ اولیٰ ایسا ممكن ہے۔

افسوس كہ مسلمان معترضین حضرت مسیح موعود علیہ السلام كی دشمنی میں ایسے اعتراضات كرنے سے بھی باز نہیں آتے جو ڈائریكٹ قرآن كریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑتے ہیں۔ ایسے اعتراض كرنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پرغیر مسلموں كے اسی طرح كے اعتراضات كے جواب دینے كا حق كھو چكے ہیں۔ اور یوں خدا تعالیٰ نے شاید ایسے اعتراضات كی پاداش میں ان سے اسلام كے دفاع كا حق چھین كر اپنے مسیح كے ہاتھ میں دے دیا ہے۔

٢۔ دوسری اصولی بات۔

توارد اور اس كی ضرورت

چوری تو وه ہوتی ہے كہ پوری كی پوری عبارتیں مع اس كے مطالب كے اٹھا كر اپنے نام سے شائع كردی جائیں۔ لیكن اگر كوئی دس ہزار فقرات پر مشتمل ایك كتاب یا كئی كتب لكھتا ہے اور اس میں دس باره فقرے یا پچاس فقرے ایسے بھی آجاتے ہیں جن كی نظیر دوسری كتب میں موجود ہے، تو ایسی بات كو سرقہ كہنا سراسر جہالت ہو گی۔

اس كی وضاحت بھی حضور علیہ السلام نے خود فرمادی۔ فرمایا:’’بیس ہزار فقرہ میں سے دس باراں فقرے جن میں سے کوئی آیت قرآن شریف کی اور کوئی عرب کی مثال اور کوئی بقول اُن كے حریر ی یا ہمدانی کے کسی فقرہ سے توارد تھا۔ افسوس کہ اُن کو اس اعتراض کے کرتے ہوئے ذرہ شرم نہیں آئی اور ذرہ خیال نہیں کیا کہ اگر ان قلیل اور دو چار فقروں کو توارد نہ سمجھا جائے جیسا کہ ادیبوں کے کلام میں ہوا کرتا ہےاور یہ خیال کیا جائے کہ یہ چند فقرے بطور اقتباس کے لکھے گئے تو اس میں کون سا اعتراض پیدا ہو سکتا ہے؟‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ432)

توارد كیوں ضروری ہے؟

كوئی كہہ سكتا ہے كہ اگر كسی كو لسان عربی میں كمال حاصل كرنے كا دعویٰ ہے اوركامل وسعت علمی حاصل ہے تو پھر توارد كی ایسی كیا ضرورت ہے؟

اس كا بھی جواب حضور علیہ السلام نے خود ہی دیا ہے اور وضاحت كی ہے كہ توارد كیوں ہو تا ہے اور اس كی ضرورت كیونكر پڑتی ہے؟ فرمایا:

’’بعض محاورات ادبیّہ کا کوچہ ایسا تنگ ہے کہ یا تو اُس میں بعض اُدباء کو بعض سے توارد ہو گا اور یا ایک شخص ایک ایسے محاورہ کو ترک کرے گا جو واجب الاستعمال ہے۔ ظاہر ہے کہ جس مقام پر خصوصیات بلاغت کے لحاظ سے ایک جگہ پر مثلاً اقْتَحَمَ کا لفظ اختیار کرنا ہے نہ اور کوئی لفظ تو اس لفظ پر تمام اُدباء کا بالضرور توارد ہو جائے گا اور ہر ایک کے مُنہ سے یہی لفظ نکلے گا۔ ہاں ایک جاہل غبی جو اسالیبِ بلاغت سے بے خبر اور فروقِ مفردات سے ناواقف ہے وہ اس کی جگہ پر کوئی اور لفظ بول جائے گا اور اُدباء کے نزدیک قابل اعتراض ٹھہرے گا۔

ایسا ہی اُدباء کو یہ اتفاق بھی پیش آجاتا ہے کہ گو بیس شخص ایک مضمون کے ہی لکھنے والے ہوں جو بیس ہی ادیب اور بلیغ ہوں مگر بعض صورتوں کے ادائے بیان میں ایک ہی الفاظ اور ترکیب کے فقرہ پر اُن کا توارد ہوجائے گا۔ اور یہ باتیں ادباء کے نزدیک مسلّمات میں سے ہیں جن میں کسی کو کلام نہیں۔ ا ور اگر غور کرکے دیکھو تو ہر ایک زبان کا یہی حال ہے۔ اگر اُردو میں بھی مثلاً ایک فصیح شخص تقریر کرتا ہے اور اُس میں کہیں مثالیں لاتا ہے کہیں دلچسپ فقرے بیان کرتا ہے تو دُوسرا فصیح بھی اُسی رنگ میں کہہ دیتا ہے اور بجُز ایک پاگل آدمی کے کوئی خیال نہیں کرتا کہ یہ سرقہ ہے۔ انسان تو انسان خدا کے کلام میں بھی یہی پایا جاتا ہے۔ ‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ433تا434)

٣۔ تیسری اصولی بات۔

اقتباس ایك ملكہ ہے نہ كہ سرقہ!

تيسری اصولی بات یہ ہے كہ بڑے بڑے ادباء بھی اپنے ہم عصروں یا اپنے قدیم ادباء كے كلام سے اقتباس كرتے ہوئے اپنی كتب میں كسی مضمون كے تحریر كرتے وقت چند جملے بطور اقتباس درج كر دیتے ہیں جوہو سكتا ہے كہ پرانی كتب میں كسی اور مضمون كو ادا كرنے كے لیے استعمال ہوئے ہوں لیكن اس نئے مضمون میں ایسے سلیقے سے پروئے جاتے ہیں كہ اس نئے مضمون كا ہی جزو بن جاتے ہیں اور ایسے محسوس ہوتا ہے كہ یہ فقرات اسی مضمون كے لیے ہی لكھے گئے تھے۔

توارد اوراقتباس میں یہ فرق ہے كہ توارد بغیر علم كے كسی خاص موقع پر بعینہٖ وہی كلمات یا تركیب یا محاوره استعمال كرناہے جیسے كسی اور نے ماضی میں ویسی ہی یا اس سے ملتی جلتی صورت حال میں كیا۔ اوراس كی وجہ جیسا كہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے یہ ہے كہ بعض محاورات ادبیّہ کا کوچہ ایسا تنگ ہے کہ اُس میں بعض اُدباء کو بعض سے توارد ہونا عین ممكن ہے۔

لیكن اقتباس بعض فقرات كا بعض پرانی معروف كتب یا معروف مصنفین كے كلام سے اقتباس كر كے اثنائے كلام اسے اپنے مضمون كا حصہ بنانا ہے۔

اقتباس كوئی عیب كی بات نہیں بلكہ لكھنے والے كی قادرالكلامی اور علمی دسترس، وسعت معلومات اور كمال پر دلالت كرتا ہے اور اس پر بھی اعتراض محض جہالت كی وجہ سے ہی كیا جاتا ہے۔ اس كے بارے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود وضاحت فرماد ی چنانچہ فرمایا:

’’اگر…یہ خیال کیا جائے کہ یہ چند فقرے بطور اقتباس کے لکھے گئے، تو اس میں کون سا اعتراض پیدا ہو سکتا ہے؟خود حریری کی کتاب میں بعض آیات قرآنی بطور اقتباس موجود ہیں۔ ایسا ہی چند عبارات اور اشعار دوسروں کے بغیر تغییر تبدیل کے اس میں پائے جاتے ہیں اور بعض عبارتیں ابوالفضل بدیع الزمان کی اس میں بعینہٖ ملتی ہیں۔ تو کیا اب یہ رائے ظاہر کی جائے کہ مقامات حریری سب کی سب مسروقہ ہے؟‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ433)

اقتباس ایك بہت مشكل امر ہے اور سوائے قادر الكلام حضرات كے كوئی اور نہیں كرسكتا۔ كیونكہ اقتباس كے لیے جو چیزیں ضروری ہیں ان میں سے اول نمبرپر وسعت علمی آتی ہے۔ یعنی آپ كسی تحریركے دوران كسی پرانے مؤلف كے كلام سے اقتباس تبھی كر سكتے ہیں جب آپ نے ایسے مؤلفین كی كتب كو اتنے غور سے پڑھا ہو كہ ان كے فقرات كے فقرات آپ كو مستحضر ہوں اور جب آپ كوئی مضمون لكھنے لگیں توبعض مفاہیم كے مناسب حال پرانے ادباء كی كتب كے فقرات خود بخود آپ كی نوكِ قلم پر آجائیں۔

یہ ایك ایسا ملكہ ہے كہ جولكھاری جس قدر اپنے كلام میں اقتباس كرے گا اسی قدریہ بات اس كی وسعت علمی پر دلالت كررہی ہوگی اور ثابت ہوگا كہ اس شخص نے مختلف مؤلفین كی كتب كو كھنگالا ہے اوران كتب كے كئی ہزار جملے اسے زبانی یاد ہیں جنہیں وه جب چاہے اور جیسے چاہے اپنے مضمون كے دوران نئے مفاہیم كی ادائیگی كے لیے استعمال كرسكتا ہے۔ اسی لیے بعض محققین نے اقتباس اور تناص میں كوئی فرق نہیں كیا اور اس قسم كے اقتباس كو تناص یعنی ایك نئی نص قرار دیا ہے۔ یعنی گو كہ كلمات تو پرانے كسی ادیب كے ہیں لیكن چونكہ وه الفاظ نئے مضمون میں ایك نیا مفہوم ادا كررہے ہیں اس لیے یہ ایك نئی نص ہے۔

اور بلا شبہ ایسی قدرت ركھنا تو بہت مشكل كام اور ایك بے مثال ملكہ ہے۔ یہ بات بھی حضور علیہ السلام نے خود ہی بیان فرمائی ہے چنانچہ فرمایا:

’’ادیب جانتے ہیں کہ ہزارہا فقرات میں سے اگر دوچار فقرات بطور اقتباس ہوں تو اُن سے بلاغت کی طاقت میں کچھ فرق نہیں آتا بلکہ اس طرح کے تصرّفات بھی ایک طاقت ہے… نادان انسان کو اگر یہ بھی اجازت دی جاوے کہ وہ چُر اکر ہی کچھ لکھے تب بھی وہ لکھنے پر قادر نہیں ہو سکتا کیونکہ اصلی طاقت اُس کے اندر نہیں۔ مگر وہ شخص جو مسلسل اور بے روک آمد پر قادر ہے اس کا تو بہرحال یہ معجزہ ہے کہ اُمور علمیہ اور حکمیّہ اور معارف حقائق کو بلاتوقف رنگین اور بلیغ فصیح عبارتوں میں بیان کر دے، گو محل پرچسپاں ہو کر دس ہزار فقرات بھی کسی غیر کی عبارتوں کا اُس کی تحریر میں آ جائے۔ کیا ہر یک نادان غبی بلید ایسا کر سکتا ہے ؟‘‘(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ443)

اگر ایسا بر محل اقتباس كرنے والا دس ہزار فقرے كا بھی اقتباس كرلے تب بھی وه اس كا كمال شمار ہوگا۔ لیكن جس كا یہ دعویٰ ہو كہ اسے خدا تعالیٰ كی طرف سے وسعت علمی عطا ہوئی ہے اس كے كلام میں اقتباس جیسی صنف كا اظہار نہ ہو تو عیب شمار ہو گا۔ ایسے كمال كے اظہار پر اعتراض كوئی جاہل ہی كرسكتاہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام كےاور دیگر ادباء كے اقتباس یا تناص میں فرق

علم بلاغت پر لكھنے والوں كا اقتباس یا تناص اور تضمین كے بارے میں اختلاف ہے۔بعض اس كو سرقہ قرار دیتے ہیں اور بعض اس كو بلاغت كی ایك اعلیٰ صنف سمجھتے ہیں۔ان كی بات كوسمجھنے كے لیے اگر دو امور كا فرق واضح كر دیا جائے تو مسئلہ حل ہوجاتا ہے اور فریقین كی بات اپنی اپنی جگہ پر درست ثابت ہوتی ہے۔اگر كوئی اقتباس كرتے ہوئے كسی پرانے ادیب كے كلام كو اس كی نص اورمفہوم سمیت اٹھا لے اور اس كا حوالہ دیے بغیر اپنے نام سے اپنی كتاب میں لكھ لے تو اسے بلاشبہ سرقہ قرار دیا جائے گا۔

جبكہ اگر كوئی پرانے ادیب كا كوئی جملہ اپنے مضمون كے سیاق كلام میں اس طرح لكھے كہ اس جملہ كا معنی بالكل بدل جائے اور یہ جملہ اس كاتب كے نئے مضمون كا حصہ بن جائے تو اسے سرقہ نہیں بلكہ اقتباس یا تناص كہا جائے گا، جسے محققین ایك فن اور قادر الكلامی شمار كرتے ہیں۔

لیكن حضرت مسیح موعود علیہ السلام كے اقتباس كو جو چیز پوری دنیا كے تمام ادباء كے اقتباس سے ممتاز كرتی ہے وه حضور علیہ السلام كا یہ دعویٰ ہےكہ میرا اقتباس، كسب كردہ علم اور ذاتی كوشش سے نہیں ہے، بلكہ وه خدا كی دین ہے كہ بعض اوقات كسی پرانے ادیب یا شاعر كا كوئی فقره دوران مضمون ایسےآجاتا ہے كہ وه اس مضمون كا حصہ بن جاتا ہے نیزاكثر اوقات تو ایسے فقرات میرے لیے علم غیب ہے جس پر الله تعالیٰ مجھے اطلاع دیتا ہے۔ہو سكتاہےایسے فقرات كسی كے علم میں ہوں كہ فلاں كتاب سے ہیں لیكن میں لكھتے وقت نہیں جانتا كیونكہ یہ مجھے خدا كی عطاسے مل رہے ہوتے ہیں،اس لیے میرے لیے وه علم غیب كی حیثیت ركھتے ہیں۔

اور یہ بات اقتباس كرنے والے كسی ادیب كے حصے میں نہ آئی ہے نہ آسكتی ہے۔چنانچہ آپؑ نے فرمایا:

’’بارہا بعض امراض کے علاج کے لئے مجھے بعض ادویہ بذریعہ وحی معلوم ہوئی ہیں قطع نظر اس سے کہ وہ پہلے مجھ سے جالینوس کی کتاب میں لکھی گئی ہیں یا بقراط کی کتاب میں۔ایسا ہی میری انشاء پردازی کا حال ہے۔جو عبارتیں تائید کے طور پر مجھے خدائے تعالیٰ سے معلوم ہوتی ہیں مجھے اُن میں کچھ بھی پروا نہیں کہ وہ کسی اور کتاب میں ہوں گی بلکہ وہ میرے لئے اور ہر یک کے لئے جو میرے حال سے واقف ہو معجزہ ہے۔‘‘

(نزول المسیح ،روحانی خزائن جلد 18صفحہ 434حاشیہ)

نیز فرمایا:’’عربی تحریروں کے وقت میں صد ہا بنے ہوئے فقرات وحی متلو کی طرح دِل پر وارد ہوتے ہیں اور یا یہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھا دیتا ہے اور بعض فقرات آیات قرآنی ہوتے ہیں یا اُن کے مشابہ کچھ تھوڑے تصرف سے۔اور بعض اوقات کچھ مُدّت کے بعد پتہ لگتا ہے کہ فلاں عربی فقرہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے برنگ وحی متلو القا ہوا تھا وہ فلاں کتاب میں موجود ہے .چونکہ ہر ایک چیز کا خدا مالک ہے اس لئے وہ یہ بھی اختیار رکھتا ہے کہ کوئی عمدہ فقرہ کسی کتاب کا یا کوئی عمدہ شعر کسی دیوان کا بطور وحی میرے دل پر نازل کرے……مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہی عادت اﷲ میرے ساتھ ہے اور یہ نشانوں کی قسم میں سے ایک نشان ہے جو مجھے دیا گیا ہے جومختلف پیرایوں میں امور غیبیہ میرے پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں اور میرے خدا کو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کہ کوئی کلمہ جو میرے پر بطور وحی القا ہو وہ کسی عربی یا انگریزی یا سنسکرت کی کتاب میں درج ہو کیونکہ میرے لئے وہ غیب محض ہے۔جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بہت سے توریت کے قصّے بیان کرکے ان کو علم غیب میں داخل کیا ہے کیونکہ وہ قصّے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے علمِ غیب تھا گو یہودیوں کے لئے وہ غیب نہ تھا۔پس یہی راز ہے جس کی وجہ سے مَیں ایک دنیا کو معجزہ عربی بلیغ کی تفسیر نویسی میں بالمقابل بلاتا ہوں ورنہ انسان کیا چیزاور ابن آدم كی کیا حقیقت کہ غرور اورؔ تکبر کی راہ سے ایک دنیا کو اپنے مقابل پر بُلاوے۔‘‘

(نزول المسیح ،روحانی خزائن جلد 18صفحہ435-436)

خلاصہ یہ كہ ادباء كے نزدیك معروف اقتباس، كسب كردہ علم سے آتا ہے اورجو اقتباس كررہا ہوتا ہے اسے علم ہوتا ہے كہ وه كس ادیب كا كتنا قول اور كلام اقتباس كے طور پراپنے مضمون میں درج كررہا ہے۔لیكن حضرت مسیح موعود علیہ السلام كا اقتباس خداداد ملكہ ہے كیونكہ اكثر آپ كو لكھتے وقت معلوم ہی نہیں ہوتا كہ یہ فقره یا فقرات فلاں مؤلف كے ہیں یا فلاں كتاب سے ہیں بلكہ وه آپ كے لیے علم غیب كی حیثیت ركھتے ہیں اور بعد میں پتہ چلتا ہے كہ فلاں فقره فلاں كتاب میں بھی ہے۔اور اقتباس كی یہ نوعیت اپنی ذات میں یكتا ہے جو صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام كا خاصہ ہے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button