پیشگوئی مصلح موعود ایک عظیم الشان خدائی نشان
اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے
وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا۔ (الاحزاب:63)
اور تو کبھی بھی اللہ کی سنت میں تبدیلی نہیں پائے گا۔
خدا تعالیٰ کی قدیم سے سنّت ہے کہ جب بھی دنیا میں ظلمت چھائی اس نے اس کو دُور کرنے کے لیے نور کا ظہور فرمایا۔ اس دَور میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ان وعدوں کے مطابق حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو مبعوث فرمایا اور پھر اپنے اس مرسل کے ذریعہ اسلام کی مدد فرمائی اور بے شمار نشانات اوروعدوں سے نوازا جو اپنے اپنے وقت پر پوری شان سےپورے ہوتے رہے اور ہو رہے ہیں۔ انہیں عظیم الشان نشانات میں ایک پیشگوئی مصلح موعود ہے۔ یہ عظیم الشان پیشگوئی اپنی ذات میں بھی ایک زبردست آسمانی نشان اورصداقت کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ عظیم پیشگوئی آپؑ کے فرزندارجمندحضرت مرزابشیرالدین محموداحمدصاحبؓ کے بابرکت وجود کے ذریعہ لفظ بلفظ پوری ہوئی۔
جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ مَیں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
(درثمین)
پیشگوئی کے الہامی الفاظ
’’پہلی پیشگوئی
بِاِلْہَامِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَاِعْلَامِہِ عَزَّوَجَلَّ
خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے (جَلَّ شَانُہٗ وَعَزَّ اِسْمُہٗ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کرکے فرمایا کہ مَیں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں۔ اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو مَیں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایۂ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفرکو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر !تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں وہ موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ مَیں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جوخدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خد اکے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیﷺ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک ذکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہو گا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔ اس کا نام عَنْمَوَائِیْل اور بشیر بھی ہے۔ اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے۔ وہ نوراللہ ہے۔ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت وغیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا(اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند
مَظْہَرُ الْاَوَّلِ وَالْاٰخِرِ۔ مَظْہَرُ الْحَقِّ وَا لْعلَاءِ۔ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ
جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا۔ نور آتا ہے نور۔ جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا
وَ کَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔
پھر خدائے کریم جَلَّ شانُہٗ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور مَیں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہریک شاخ تیرے جَدِّی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہو جائے گی۔ اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے۔ ان کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا۔ لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔ خدا تیری برکتیں اردگرد پھیلائے گا اور ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا۔ اور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا۔ تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبزرہے گی۔ خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے، عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ میں تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلاؤں گا۔ پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے در پے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلّی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پرتا بروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے۔ خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علیٰ حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے۔ تُو مجھ سے ایسا ہے جیسے انبیائے بنی اسرائیل۔ تُو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید۔ تُو مجھ سے اور مَیں تجھ سے ہوں اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دل میں تیری محبت ڈالے گا یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندہ کی نسبت شک میں ہو۔ اگر تمہیں اس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندہ پر کیا تو اس نشان رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو اگر تم سچے ہواوراگر تم پیش نہ کر سکو اور یاد رکھو کہ ہرگز پیش نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو کہ جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کےلئے تیارہے۔ ‘‘
(اشتہار20؍فروری1886ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 100تا103)
اس پُر شوکت پیشگوئی میں ایک عظیم الشان بیٹے کی ولادت کی خبر دی گئی تھی یہ کوئی عام اولاد کا وعدہ نہیں تھا بلکہ اس میں خدائے بزرگ وبرتر نے موعود بیٹے کی خبر دی تھی جو اس کے روحانی کمالات کی نظیر ومثیل ہو گا۔ جس نے تمام احیائے عالم میں اپنی زندگی میں ہی نہیں بلکہ رہتی دنیا تک ایک بلند نام اور وسعت پذیر کام اپنے پیچھے چھوڑنے تھے۔ جس نے دین حق کی بنیادی تعلیمات کو زمین کے کناروں تک پہنچانا تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :
’’قوموں نے ہماری مخالفت کی، ملکوں نے ہماری مخالفت کی، حکومتوں نے ہماری مخالفت کی مگر خدا نے ہمارا ساتھ دیا اور جس کے ساتھ خدا ہو اُسے نہ حکومتیں نقصان پہنچا سکتی ہیں، نہ سلطنتیں نقصان پہنچا سکتی ہیں، نہ بادشاہتیں نقصان پہنچا سکتی ہیں …تم مت سمجھو کہ میں اِس وقت بول رہا ہوں۔ اِس وقت میں نہیں بول رہا بلکہ خدا میری زبان سے بول رہاہے۔ میرے سامنے دینِ اسلام کے خلاف جو شخص بھی اپنی آواز بلند کرے گا جو شخص میرے مقابلے میں کھڑا ہوگاوہ ذلیل کیا جائے گا، وہ رُسوا کیا جائے گا، وہ تباہ وبرباد کیا جائے گامگرخدا بڑی عزت کے ساتھ میرے ذریعہ اسلام کی ترقی اوراُس کی تائید کےلئے ایک عظیم الشّان بنیاد قائم کردے گا۔ میں ایک انسان ہوں میں آج بھی مَر سکتا ہوں اور کل بھی مَر سکتا ہوں لیکن یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ میں اِس مقصد میں ناکام رہوں جس کے لئے خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے۔ ‘‘
(میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں، انوارالعلوم جلد 17صفحہ 232تا233)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ اپنی عربی تصنیفِ لطیف ’’سرالخلافہ‘‘میں فرماتے ہیں :
’’اور میں تیرے سامنے ایک عجیب و غریب قصہ اور حکایت بیان کرتا ہوں کہ میرا ایک چھوٹا بیٹا تھا جس کا نام بشیر تھا، اللہ تعالیٰ نے اسے شیر خواری میں ہی وفات دے دی….تب اللہ تعالیٰ نے مجھے الہاماً بتایا کہ ہم اسے از راہ احسان تمہارے پاس واپس بھیج دیں گے۔ ایسا ہی اس بچے کی والدہ نے رؤیا میں دیکھا کہ بشیر آگیا ہے اور کہتا ہے کہ میں آپ سے نہایت محبت کے ساتھ ملوں گا اور جلد جدا نہ ہوں گا۔ اس الہام و رؤیا کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے دوسرا فرزند عطا فرمایا تب میں نے جان لیا کہ یہ وہی بشیر ہے اور خدا تعالیٰ اپنی خبر میں سچا ہے چنانچہ میں نے اس بچے کا نام بشیر ہی رکھا اور مجھے اس کے جسم میں بشیر اول کا حلیہ دکھائی دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی سنت رؤیا کے ذریعہ ثابت ہوگئی کہ وہ دو بندوں کو ایک ہی نام کا شریک بناتا ہے۔ ‘‘
(سرالخلافہ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 381)
نیزایک اورجگہ فرمایا:
’’خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مَیں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذریت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اُس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا اور اس کے ذریعہ سے حق ترقی کرے گا اور بہت سے لوگ سچائی کو قبول کریں گے سو اُن دنوں کے منتظر رہو اور تمہیں یاد رہے کہ ہر ایک کی شناخت اُس کے وقت میں ہوتی ہے اور قبل از وقت ممکن ہے کہ وہ معمولی انسان دکھائی دے یا بعض دھوکہ دینے والے خیالات کی وجہ سے قابل اعتراض ٹھہرے جیسا کہ قبل از وقت ایک کامل انسان بننے والا بھی پیٹ میں صرف ایک نطفہ یا علقہ ہوتا ہے۔ ‘‘
(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306 حاشیہ)
پیشگوئی میں جن خوبیوں کا ذکر ہے اوروہ تما م نشانات جن کا خدائے عزوجل نے اپنے مسیح سے وعدہ کیا تھا۔ جس کو ناصرف اپنوں بلکہ غیروں نے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھا اور اس کی گواہی دی۔ جس نے جلد جلد روحانی و علمی ترقیات کی منازل طے کیں۔ آپ کی ولولہ انگیز قیادت نے نہ صرف جماعت احمدیہ کو مستفیض کیا بلکہ دیگر قوموں نے بھی اس برکت سے حصہ پایا۔
اللہ تعالیٰ نےایک خواب کے ذریعہ حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمدصاحب پر منکشف فرمایا کہ آپ ہی پیشگوئی مصلح موعود کے مصداق ہیں۔چنانچہ آپؓ نے 28 ؍ جنوری1944ءکوقادیان دارالامان میں اپنے خطبہ جمعہ میں مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا۔ پھر آپؓ نے 20؍فروری 1944ءکو ہوشیار پور کے مقام پر ایک جلسہ میں اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا۔ 12؍مارچ 1944ء کو بمقام لاہور جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اس پر شوکت پیشگوئی کے متعلق آپؓ فرماتے ہیں :
’’میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کا حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا تھااور میرے ذریعہ ہی دور دراز ملکوں میں خدائے واحد کی آواز پہنچے گی، میرے ذریعہ ہی شرک کو مٹایا جائے گااور میرے ذریعہ ہی محمد رسول اللہﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کانام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا۔ خصوصاً مغربی ممالک میں جہاں توحید کا نام مٹ چکا ہے وہاں میرے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ توحید کو بلند کرے گااور شرک اور کفر کوہمیشہ کے لئے مٹادیا جائے گا۔ تب جبکہ خدا نے مجھے یہ خبر دےدی میں نے اس کا دنیا میں اعلان کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ آج مَیں اِس جلسہ میں اُسی واحد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھا لینا لعنتیوں کا کام ہے اور جس پر افتراء کرنے والا اس کے عذاب سے کبھی بچ نہیں سکتا کہ خدا نے مجھے اسی شہر لاہور میں 13ٹمپل روڈ پر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے مکان میں یہ خبر دی کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کے ذریعہ اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اور توحید دنیا میں قائم ہوگی۔ ‘‘
(میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں، انوارالعلوم جلد 17 صفحہ228تا229)
آپؓ فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ کے اذن اور اسی کے انکشاف کے ماتحت میں اس امر کا اقرار کرتا ہوں کہ وہ مصلح موعود جس نے رسول کریمﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیشگوئیوں کے ماتحت دنیا میں آنا تھا اور جس کے متعلق یہ مقدر تھا کہ وہ اسلام اور رسول کریمﷺ کے نام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے گااور اس کا وجود خداتعالیٰ کے جلالی نشانات کا حامل ہوگا۔ وہ میں ہی ہوں اور میرے ذریعہ ہی وہ پیش گوئیاں پوری ہوئی ہیں جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ایک موعود بیٹے کے متعلق فرمائی تھیں۔ یاد رہے کہ میں کسی خوبی کا اپنے لئے دعویدار نہیں ہوں۔ مَیں فقط خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک نشان ہوں اور محمد رسول اللہﷺ کی شان کو دنیا میں قائم کرنے کےلئے خدا تعالیٰ نے مجھے ہتھیار بنایا ہے۔ اس سے زیادہ نہ مجھے کوئی دعویٰ ہے نہ مجھے کسی دعویٰ میں خوشی ہے۔ میری ساری خوشی اسی میں ہے کہ میری خاک محمد رسول اللہﷺ کی کھیتی میں کھاد کے طور پر کام آجائے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر راضی ہوجائےاور میرا خاتمہ رسول کریمﷺ کے دین کے قیام کی کوشش پر ہو۔ ‘‘
(الموعود، انوار العلوم جلد 17صفحہ527)
آپؓ نے فرمایا کہ ایک پیشگوئی یہ بھی کی گئی تھی کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو میرے ذریعہ سے پورا کیا۔ اول تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کو ہدایت دی جن کی طرف مسلمانوں کو کوئی توجہ نہیں تھی اور وہ نہایت ذلیل اور پست حالت میں تھیں۔ وہ اسیروں کی سی زندگی بسر کرتی تھیں۔ نہ ان میں تعلیم پائی جاتی تھی۔ نہ ان کا تمدن اعلیٰ درجے کا تھا۔ نہ ان کی تربیت کا کوئی سامان تھا۔ جیسے افریقن علاقے ہیں کہ ان کو دنیا نے الگ پھینکا ہوا تھا اور وہ صرف بیگار اور خدمت کے کام آتے تھے۔ ابھی مغربی افریقہ کا ایک نمائندہ (دوران جلسہ تقریر کرتے ہوئے۔ ناقل) آپ لوگوں کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔ اس ملک کے بعض لوگ تعلیم یافتہ ہیں لیکن اندرون ملک میں کثرت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کپڑے تک نہیں پہنتے اور ننگے پھرا کرتے تھے اور ایسے وحشی لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے ذریعہ ہزارہا لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ وہاں کثرت سے عیسائیت کی تعلیم پھیل رہی تھی اور اب بھی بعض علاقوں میں عیسائیوں کا غلبہ ہے لیکن میری ہدایت کے ماتحت ان علاقوں میں ہمارے مبلغ گئے اور انہوں نے ہزاروں لوگ مشرکوں میں سے مسلمان کئے اور ہزاروں لوگ عیسائیت میں سے کھینچ کر اسلام کی طرف لے آئے۔ اس کا عیسائیوں پر اس قدر اثر ہے کہ انگلستان میں پادریوں کی ایک بہت بڑی انجمن ہے جو شاہی اختیارات رکھتی ہے اور گورنمنٹ کی طرف سے عیسائیت کی تبلیغ اور اس کی نگرانی کے لئے مقرر ہے۔ اس نے ایک کمیشن اس غرض کے لئے مقرر کیا تھا کہ وہ اس امر کے متعلق رپورٹ کرے کہ مغربی افریقہ میں عیسائیت کی ترقی کیوں رک گئی ہے۔ اس کمیشن نے اپنی انجمن کے سامنے جو رپورٹ پیش کی اس میں درجن سے زیادہ جگہ احمدیت کا ذکر آتا ہے اور لکھا ہے کہ اس جماعت نے عیسائیت کی ترقی کو روک دیا ہے۔ غرض مغربی افریقہ اور امریکہ دونوں ملکوں میں حبشی قومیں کثرت سے اسلام لا رہی ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان قوموں میں تبلیغ کا موقع عطا فرما کر مجھے ان اسیروں کا رستگار بنایا ہے اور ان کی زندگی کا معیار بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ ‘‘
(ماخوذ از الموعود، انوار العلوم جلد17صفحہ581تا582)
حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی نمایاں خصوصیت کی حامل ہے۔ آپؓ کی زندگی کا ہر لمحہ اورہر دن منہ بولتا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ کی تائید ہمیشہ آپ کے شامل حال رہی۔ آپ کا زمانہ خلافت کامیابی کے لحاظ سے بہت ہی نمایاں دور تھا۔ آپ کے زمانہ خلافت میں جماعت نے بے پناہ ترقی کی۔ آپ کے لگائے ہوئے بیج پھل داراور تناور درخت بن کر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پھلتے پھولتے جارہے ہیں۔ آپ کی ظاہری اور باطنی برکتوں سے اشاعتِ دین کی مضبوط بنیاد قائم ہوئی اور الٰہی نوشتے پورے ہوئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز فرماتے ہیں :
’’پس آپ کے کام کو دیکھ کر حضرت مصلح موعودؓ کی پیشگوئی کی شوکت اور روشن تر ہو کر سامنے آتی ہے…
پس آج ہمارا بھی کام ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں مصلح بننے کی کوشش کریں۔ اپنے علم سے، اپنے قول سے، اپنے عمل سے اسلام کے خوبصورت پیغام کو ہر طرف پھیلا دیں۔ اصلاحِ نفس کی طرف بھی توجہ دیں۔ اصلاحِ اولاد کی طرف بھی توجہ دیں اور اصلاحِ معاشرہ کی طر ف بھی توجہ دیں۔ اور اس اصلاح اور پیغام کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے بھرپور کوشش کریں جس کا منبع اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو بنایا تھا۔ پس اگر ہم اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں گے تو یومِ مصلح موعود کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔‘‘
(خطبہ جمہ فرمودہ 18؍فروری 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل11؍مارچ2011ءصفحہ9)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ
’’آنکھیں کھول کردیکھ لینا چاہئےکہ یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے۔ جس کو خدائے کریم جلّ شانہٗنے ہمارے نبی کریم رؤف ورحیم محمد مصطفیٰﷺ کی صداقت وعظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے اور درحقیقت یہ نشان ایک مردہ کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلیٰ و اولیٰ و اکمل و افضل واتم ہے۔ کیونکہ مُردہ کے زندہ کرنے کی حقیقت یہی ہے کہ جناب الٰہی میں دعا کرکے ایک روح واپس منگوایا جائے…اس جگہ بفضلہ تعالیٰ واحسانہ وببرکت حضرت خاتم الانبیاءﷺ خداوندکریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کرکے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری وباطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔ سو اگرچہ بظاہر یہ نشان احیائے موتی کے برابر معلوم ہوتا ہے مگر غور کرنے سے معلوم ہوگاکہ یہ نشان مُردوں کے زندہ کرنے سے صد ہا درجہ بہتر ہے۔ مُردہ کی بھی روح ہی دعا سے واپس آتی ہے اور اس جگہ بھی دعا سے ایک روح ہی منگوائی گئی ہے۔ مگر اُن روحوں اور اِس روح میں لاکھوں کوسوں کا فرق ہے۔ ‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 99 تا 100مطبوعہ ربوہ)
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز فرماتے ہیں :
’’اصل میں یہ تو(یعنی پیشگوئی مصلح موعود)آنحضرتﷺ کی پیشگوئی ہے، جس سے ہمارے آقاومطاع حضرت محمدﷺ کے اعلیٰ اور دائمی مرتبے کی شان ظاہر ہوتی ہے لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس پیشگوئی کے پوراہونے کا تعلق صرف ایک شخص کے پیدا ہونے اور کام کر جانے کے ساتھ نہیں ہے۔ اس پیشگوئی کی حقیقت تو تب روشن تر ہو گی جب ہم میں بھی اُس کام کو آگے بڑھانے والے پیدا ہوں گے جس کام کو لے کر حضرت مسیح موعودؑ آئے تھے اور جس کی تائید اور نصرت کےلئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مصلح موعود عطا فرمایا تھا جس نے دنیا میں تبلیغ اسلام اور اصلاح کےلئے اپنی تمام تر صلاحیتیں لگا دیں۔ پس آج ہمارا بھی کام ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں مصلح بننے کی کوشش کریں۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍فروری 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل11؍مارچ2011ءصفحہ9)
پس یہ دن ہمیں بھی اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے ترقی کے لیے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی طرف توجہ دلاتاہے۔ ہمارا فرض ہے کہ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی خواہشات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں اور اشاعت دین کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہیں۔ ہم بہت خوش نصیب ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں امام وقت کو ماننے کی توفیق دی اور اس کی روحانی برکتوں سے فیض یاب ہو رہے ہیں اگر ہم کوشش کر کے ان سے فائدہ اٹھائیں تو ہم اپنے مقصد حیات کو پالیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے حضورعاجزانہ دعاہے کہ وہ ہمیں ان علوم ِ ظاہری وباطنی سے اپنی جھولیاں بھر نے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
٭…٭…٭