متفرق مضامین

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا حکومتی اداروں اور کارندوں کی مخالفت اور دشمنی کے سامنےمثالی نمونہ

(اواب سعد حیات)

مسیح ناصری علیہ السلام کی طرح امت محمدیہ میں ظاہر ہونے والےمثیل مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ بھی مخالفین کامقدمہ بازی کرنا مقدر تھا جیسا کہ مثیل موسیٰﷺ کو بھی موسیٰ بن عمران علیہ السلام کی طرح اپنے زمانے کے شریروں کی سرکوبی کے لیے تلوار اٹھانی پڑی تھی کیونکہ موسوی اور محمدی سلسلہ کی مشابہت اور مماثلت پر قرآن کریم، احادیث نبویہؐ اور صحف سابقہ میں واضح دلائل موجود ہیں۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانے میں آپ کے خلاف قائم کیے جانے والے مقدمات اور عدالتی کارروائیوں کی تاریخ طویل ہے۔اس مہم جوئی میں آپؑ کی مخالفت پر کمربستہ جہاں دیگر تمام مذاہب و فرق کے نمائندگان یکساں مصروف رہے وہاں حکومت وقت کے کارندے بھی اس جری اللہ کی دشمنی اور ایذا دہی میں اپنی کوششیں کرتے رہے۔ لیکن مسیح آخر الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے لوہے کی زنجیریں پہننا خدائے قادر کی طرف سے مقدر ہی نہ تھا ورنہ مخالفین تو ایک دفعہ ایک مقدمہ کے ضمن میں روزانہ پلیٹ فارم پر جاتے تھے کہ شاید آج ہی قادیان کے مرزا صاحب کوسپاہیوں کے نرغے میں ہتھکڑی لگے دیکھ لیں لیکن ان کی حسرت کی یہ آگ بجائے بجھنے کے روز افزوں ہی رہی۔

ایک راوی بیان کرتے ہیں کہ جس روز ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ صاحب قادیان میں حضرت کے مکان کی تلاشی کے لیے آئے تھے اور قبل از وقت اس کا کوئی پتہ اور خبر نہ تھی اور نہ ہوسکتی تھی۔اس(واقعہ مذکورہ) کی صبح کو کہیں سے حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے سن لیا کہ آج وارنٹ ہتھکڑی سمیت آوے گا۔ میر صاحب حواس باختہ سر از پانشناختہ حضرت کو اس کی خبر کرنے اندر دوڑ گئے اور غلبہ رقت کی وجہ سے بصد مشکل اس ناگوار خبر کے منہ سے برقع اتارا۔ حضرت اس وقت نورالقرآن لکھ رہے تھے اور بڑا ہی لطیف اور نازک مضمون درپیش تھا۔ سر اٹھا کر اور مسکرا کر فرمایا کہ

’’میر صاحب ! لوگ دنیا کی خوشیوں میں چاندی سونے کے کنگن پہنا ہی کرتے ہیں۔ ہم سمجھ لیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں لوہے کے کنگن پہن لئے۔ ‘‘ پھر ذرا تامل کے بعد فرمایا : ’’ مگر ایسا نہ ہوگا ، کیونکہ خدا تعالیٰ کی اپنی گورنمنٹ کے مصالح ہوتے ہیں وہ اپنے خلفائے مامورین کی رسوائی پسند نہیں کرتا‘‘

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 1صفحہ 599)

تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے ہمیں ملتا ہے کہ وقت چلتا رہا اور روشنی کا تیزی سے سفر جاری رہا۔ جس پر بھانت بھانت کے مخالفین بے پناہ جماعتی ترقیات اور فتوحات سے آگ بگولہ ہوکر اپنی بولہبی میں بڑھتے چلے گئے۔پھر ایک وہ وقت بھی آیا کہ اسی مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ اور پوتے حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحبؒ کوبھی پابند سلاسل کیا گیا، فوجی عدالت نے مارشل لاء ضوابط کے تحت ان رجال فارس کو برسوں کی قید بامشقت اور ہزاروں روپے جرمانے کی سزائیں سنائیں۔حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی گود کے پالوں کو ہفتوں حبس بے جا میں رہنا پڑا۔ تب حسن و احسان میں مسیح موعودؑ کے نظیر، اور آپ کی ذریت و تخم حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے بھائی اور بیٹے کی اسیری کے دکھ کوللّہی دعاؤں اور بھاری صبر کے ساتھ برداشت کیااور ان اسیران کی بشاشت اور بہادری کے قائل تب سب سرکاری کارندے بھی تھے۔ ایسا کیوں نہ ہوتاکیونکہ ان رجال فارس کی لوہے کے کنگنوں سے بے خوفی اور شجاعت مردمی کی تاریخ ایک صدی گزر جانے کے باوجود اسی طرح تابناک رہی ہے۔اسی طرح ذکر ملتا ہے کہ دَور خلافت رابعہ میں سال 1999ء میں جب حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب کو ان کے وکیل نے سرکاری جج اورمتعلقہ انتظامیہ کے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر کمرہ عدالت سے ’’اِدھراُدھر‘‘ ہونے کا مشورہ دیا تو اس موقع پر حضرت مسرور ایدہ اللہ الودودنے کوہ وقار بن کر جس دلاوری اور جگرداری کا مظاہرہ کیا ، قریبا ًربع صدی گزرنے کے باوجود اس بہادری کا رعب قائم و دائم ہے۔

ذیل میں چند ایسے واقعات کی دہرائی پیش ہے جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دَور خلافت میں حکومت وقت کے کارندوں کے اندھے تعصب اور بےجا عداوت کے سبب پیش آئے اور اس صریح دشمنی، مخالفت اور زیادتی کے سامنے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مثالی نمونہ قائم فرمایا۔

حضرت مصلح موعودؓ اور آپ کی جماعت کے خلاف اس دشمنی میں سرکاری میونسپلٹی کے عام درجے کے کارندوں سے لےکر صوبائی گورنر تک سب ملوث نظر آتے ہیں اوریہ مخالفت، دشمنی اور ایذا رسانی مختلف پیراؤں میں جاری رہتی تھی،اس کی شدت کبھی کم ہوجاتی تھی اور کبھی بہت زیادہ، لیکن اس کے مقابل پر ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓکی تربیت اور اٹھان مسیح وقت علیہ السلام کے زیر سایہ ہوتی رہی،جن کا اعلان عام تھاکہ

عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں

نہاں ہم ہوگئے یار نہاں میں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مقدمہ مارٹن کلارک کے دنوں میں بھی اپنےاس نوعمر بیٹے کو دعائیں اور استخارہ کرنے کا ارشادفرمایاتھا۔ تب بھی اللہ تعالیٰ نے صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اقدام قتل کے اس خطرناک مقدمہ خون سے صاف بریت کا واضح نظارہ دکھا یا جس کی تعبیر من و عن ظاہر ہوئی۔اسی طرح مسیح پاکؑ کے زمانہ میں مقدمہ دیوار کی تفصیلات سے احمدی آگاہ ہیں، اس مشکل اور تکلیف دہ دَور میں بھی آپ رضی اللہ عنہ دعاؤں میں مصروف رہے، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو زور زبردستی کی دیوار کے انہدام کا نظارہ دکھایا جواپنے وقت پر عین جزئیات سمیت ظاہر ہوا۔

(تاریخ احمدیت جلدچہارم صفحہ30اور44)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے باون سالہ دَور خلافت میں ہر مظلوم کی مدد کے لیے جماعت احمدیہ صف اوّل میں کھڑی ہوئی،چاہے وہ پہاڑوں میں گھری ہوئی مختصر سی ریاست چمبہ کے مجبور ولاچار باسی ہوں، یا برصغیر کے طول و عرض میں قائم کسی بڑی شہری اکائی کے فرد۔ا س کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ مخالف سیاستدان، ریاستوں کے والیان اور ان کی انتظامیہ احمدیوں کو نشانے پر رکھتے تھے۔ مثلاً ایک سیاست دان کا ذکر ملتا ہے کہ مظلومین کشمیر کی مدد کرنے کے لیے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ لاہور میں سر سکندرحیات خان صاحب کی کوٹھی پرایک اہم میٹنگ میں مدعو تھے، وہاں کانگریسی خیال کے مسلمان سیاست دان چودھری افضل حق صاحب بھی موجود تھے، وہاں باتوں باتوں میں وہ جوش میں آگئے…اور حضرت مصلح موعودؓ کے سامنے ہی کہنے لگے کہ اب تو ہم نے فیصلہ کر لیاہے کہ احمدیہ جماعت کو کچل کر رکھ دیں۔ تب حضورؓ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اگر جماعت احمدیہ کسی انسان کے ہاتھ سے کچلی جاسکتی تو کبھی کی کچلی جا چکی ہوتی۔اور اب بھی اگر کوئی انسان اسے کچل سکتا ہے تو یقینا ًیہ رہنے کے قابل نہیں ہے۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد پنجم، صفحہ 525)

اب انہی مظلومین کشمیر کی مدد کرنے پر ہندوستان پر حکومت کرنے والی انگریز سرکار، جو ریاست کشمیر کی بھی نگران تھی، جماعت احمدیہ کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے سلطان نصیر حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ لکھتے ہیں کہ

’’حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجھے بذریعہ تارپالم پور بلوایا اور فرمایا۔خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب شملہ میں ہیں آپ وہاں جائیں اور فارن سیکرٹری مسٹر گلینسی سے ملیں ۔خان صاحب کو میں نے ہدایت بھیج دی ہے آپ اپنے طریق پر ان سے بات کریں ۔ اور کہیں کہ کشمیر میں کام کرنے سے اب ہمیں روکا جا رہا ہے یہ درست پالیسی نہیں نیز جن حالات میں مجھے اور شیخ بشیر احمد صاحب کو وہاں سے نکالا گیا ہے وہ بھی پیش کروں چنانچہ میں ان اخبارات کے بہت سے تراشے لے گیا۔ مسٹر گلینسی نے اثنائے گفتگو میں اپنا وہی مشورہ دہرایا ۔اتفاق سے ان دنوں چارانگریز جاسوس روس میں گرفتار کئے گئے تھے۔اور ملاقات سے ایک دن پہلے میں نے اخبار میں پڑھا کہ برٹش گورنمنٹ نے روس کو بمبارڈ کرنے کی دھمکی دی ہے۔میں نے کہا چار انگریز پکڑے جائیں اور برٹش حکومت سارے ملک کو بمبارڈ کرنے کے لئے تیار ہو جائے ۔ یہ تو آپ کے لئے جائز اور لاکھوں مسلمان کشمیر میں پامال ہوں اور ان کے بھائیوں کو یہ اجازت بھی نہ دی جائے کہ وہ ان کی جائز مدد کریں یہ کہاں کا انصاف ہے ۔اس پر وہ بگڑے اور خان صاحب سے کہنے لگے

’’Well Moulvi Sahib the gentleman is reflecting on the Britishers.‘‘

یعنی اچھا مولوی صاحب یہ نوجوان انگریزوں کو طعنہ دیتا ہے۔یہ کہہ کر انہوں نے گھنٹی بجائی اور ہمیں رخصت کیا‘‘

(ماخوذ از تاریخ ا حمدیت جلد پنجم، صفحہ 437تا 438)

یہ تو تھا انگریزی حکومت کا رویہ اور سلوک۔اب لگے ہاتھوں ریاست کشمیر کے اندرموجود مقامی حکام اورانتظامیہ کے برتاؤ کی بھی سن لیں۔ان کارندوں نے ریاست کشمیر سے باہر کے معزز احمدیوں کی کڑی نگرانی کرنی شروع کردی، اور بعض کو اخراج از ریاست کی سزا بھی دی گئی۔ چنانچہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ، صوفی عبدالقدیر نیاز صاحب بی اے، چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر ایٹ لاء، شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ، محمد یوسف خان صاحب وکیل اور شیخ مبارک احمد صاحب مولوی فاضل کو ایک دفعہ 24 گھنٹوں کے اندر اندر ریاست سے نکلنےکا حکم دیا گیا۔ مہاشہ محمد عمر صاحب اور مولانا ابوالعطاء صاحب کو اخبار ’’سیاست‘‘ کا پرچہ ساتھ رکھنے کے جرم پر جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

برصغیر میں دُور اور نزدیک کے مقامات پراپنوں اور غیرمظلوموں کی مدد اور دادرسی کے لیے قادیان دارالامان تو گویا وقف تھا۔ مثلاً 1918ء کے شروع میں کٹک صوبہ بہار کے مظلوم احمدیوں پر ایسے ایسے ظلم و ستم توڑے گئےجن کے تصور سے لرزا طاری ہوجاتا ہے۔ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس زمانہ کے معاند اخبار اہل حدیث کے پرچہ سے ہی ہوجاتا ہے جس میں تفصیل سے لکھا ہے کہ زندہ تو زندہ فوت شدہ احمدی بھی معاندین کے شر سے محفوظ نہیں ، حتی ٰکہ میونسپلٹی کاسرکاری عملہ بھی بجائے داد رسی کے ان مظلوموں کی تکالیف اور دکھوں میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ207)

شہر کی میونسپلٹی سے لےکر مقامی عدالتوں تک سب لوگ احمدیوں کی عداوت پر کمربستہ تھے۔مثلاً 1922ء میں مالابار کے علاقے میں ایک احمدی کی بیوی کا نکاح غیر احمدیوں نے دوسری جگہ پڑھادیا، انصاف کی امید سے مقدمہ دائر کیا گیا تو ماتحت عدالت نے ان مجرموں کو بری کردیا۔انصاف کی تلاش میں مدراس ہائی کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کی گئی اور حضرت مصلح موعودؑ کی ہدایت اور رہ نمائی میں حضرت چودھری سر ظفراللہ خان صاحبؓ لاہور سے مدراس مقدمہ کی پیروی کے لیے گئے۔

(ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ302)

پھر1923ء میں ہندوستان کی وسطی ریاست میں، ملکانہ کے علاقوں میں مقامی آبادیوں کی ارتداد کے سدباب کے لیے جماعت احمدیہ اور حضرت مصلح موعود ؓکی کوششوں اور قربانیوں کی تابناک تاریخ ہے۔اس دوران احمدی مجاہدین نے جہاں مسلمانوں اور آریوں کے مظالم اور دشمنی سہی،وہاں سرکاری انتظامیہ کی بے رحمی بھی کچھ کم نہ تھی۔ان کے سامنے قدم قدم پر مشکلات و مصائب کے پہاڑ کھڑے کیے گئے۔ مثلاً اترپردیش کے علاقہ اِکرن میں ایک ہندو تھانےدار نے احمدی مبلغین کو علاقے سے نکل جانےکا حکم دیا۔

اسی جہاد کے دوران مقامی ریاست بھرت پور کے مہاراجہ بھرت پور نے پوری ریاست میں یہ ظالمانہ حکم دے دیا کہ کوئی غیر ریاستی پرچارک (مبلغ) ریاست کی حدود میں چوبیس گھنٹے سے زیادہ نہ رہے۔تب مجاہدین نے حدود ریاست سے باہر کیمپ لگالیا۔ایک مجاہد ریاست میں جاتا اور موضع اکرن میں 24گھنٹے ٹھہر کر واپس آجاتا۔اس کے بعد دوسرا مجاہد پہنچ جاتا اور اس طرح باری باری اکرن میں شدھی کے خلاف مورچہ کی نگرانی ہوتی رہی۔ریاستی حکام نے جب یہ صورت دیکھی تو بڑے سٹ پٹائے۔آخر مہاراجہ بھرت پور نے احمدی مبلغین کے داخلہ ریاست پر قطعی پابندی عائد کر دی ۔

ریاست کی اس مذہبی دراندازی پر مسلم پریس نےبھی اپنااحتجاج ریکارڈ کروایا، اور جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے (جو حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ ایڈیٹر الحکم،حضرت چودھری سر ظفراللہ خان صاحبؓ اورمولوی فضل دین صاحب وکیل پر مشتمل تھا)ناظم ریاست سے ملاقات کی اور یہ ظالمانہ حکم واپس لینے کی اپیل کی۔مگر ریاستی حکام ٹس سے مس نہ ہوئے۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ 385تا386)

حضرت مصلح موعودؓ کا برصغیر سے باہر اسلام احمدیت کا زندگی بخش پیغام پھیلانے کا عزم ہی تھا کہ آپ کے ایک مبلغ مولوی ظہور حسین صاحب قادیان سے چل کر روسی علاقے تک پہنچ گئے، روسی حکام نے جاسوس سمجھ کر قید کرلیا۔اس مرد مجاہد پر جو بیتی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔آپ بتاتے ہیں کہ ایک رات اپنی سخت تکلیف دیکھ کر میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک دعا یہ کی کہ اے خدا ! تو میرے آقا حضرت خلیفۃ المسیح …کو خبر دے دے کہ میں قید میں اس تکلیف میں مبتلا ہوں ……اللہ تعالیٰ نے …… دوسرے تیسرے دن مجھ کو بذریعہ خواب بتایا کہ حضور میرے لیے کوشش فرما رہے ہیں جس پر مجھ کو یقین ہو گیا کہ یہ خواب درست ہے۔چنانچہ جب عاجز آزاد ہو کر قادیان آیا تو میرے استاد محترم حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ نے مجھ کو واضح الفاظ میں فرمایا کہ حضور کو خوابوں کے ذریعہ تیرے قید ہونے اور تکالیف برداشت کرنے کی خبر دی گئی تھی۔چنانچہ اس بنا پر حضورؓ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓکو جوان دنوں ناظر امور خارجہ تھے حکم دیا کہ آپ فوراً ماسکو میں انگریز سفیر کو اس مضمون کا خط لکھیں کہ ہم نے ایک سال سے اپنا مبلغ بخارا کی طرف بھیجا ہوا ہے جس کا ہم کو کچھ علم نہیں ہو سکا

المختصر روسی حکام نے ڈیڑھ پونے دو سال تک آپ کو قید رکھنے کے بعد ہنزلی ( ایران کی بندرگاہ) پر چھوڑ دیا۔ جہاں سے آپ تہران،بغداد اور کراچی سے ہوتے ہوئے 25؍اکتوبر 1926ء کی صبح کو قادیان پہنچ گئے۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ 473)

برصغیر سے باہر افغانستان کے علاقوں سے بھی حضرت مصلح موعود ؓکو حکام وقت کی طرف سے معصوم احمدیوں پر مظالم کی برابر خبریں پہنچتی رہتی تھیں۔اس لیے حضورؓ کے حکم پر افغان وزیر خارجہ اور مشہور ترکی جنرل جمال پاشا (مقیم افغانستان)کو اس طرف بار بار توجہ دلائی جاتی رہی۔ حضورؓ کے بھیجے ہوئے وفود افغان انتظامیہ سے ملاقاتیں کرکے افغانستان میں سرکاری سرپرستی میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے رہے۔لیکن تمام تر حکومتی یاددہانیوں کے باوجود احمدیوں کو قید و بند میں پھینکنے کا سلسلہ جاری رہا۔اور پھر ایک دن حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب جو قادیان میں مدرسہ احمدیہ کے متعلم تھے، اور افغانستان میں اپنے احمدی بھائیوں کی تعلیم و تربیت پر مامور تھے، سخت قید میں ڈالے گئے، وہاں سے محکمہ شرعیہ ابتدائیہ میں پیش کیے گئے۔جہاں ارتداد اور واجب القتل ہونے کا فتویٰ لگایاگیا، اور کابل کی عدالت مرافعہ نے بھی جرائم کی توثیق کرتے ہوئے قتل کی بجائے بڑے ہجوم کے سامنے سنگسارکرنے کا فیصلہ دیا۔کابل کی گلیوں میں پابجولاں پھیرا کر اس مرد مجاہد کو بڑے مجمعے کے سامنے کابل چھاؤنی کے میدان میں کمر تک گاڑھ کر پتھروں کے ڈھیر تلے بظاہر ابدی نیند سلادیا گیالیکن وہ حیات ابدی کا وارث ٹھہرا۔حکام کی دشمنی کا یہ عالم تھا کہ شہید مرحوم کے جسد خاکی پر پہرا بیٹھا دیا گیا، حتی کہ مرحوم کے غیر احمدی معمر باپ کی نعش وصول کرنے کی درخواست بھی رد کر دی گئی۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ 478)

معصوم احمدی کو قتل کرنے پر جب دنیا بھر سے افغان حکومت کو احتجاج کی خبریں ملیں تو اس نے مشتعل ہوکر5؍فروری 1925ء کو مزید احمدیوں مولوی عبدالحلیم صاحب ساکن چراسہ اور قاری نور علی ساکن کابل کو بھی بےدردی سے شہید کر دیا۔ جب یہ خبر قادیان پہنچی تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اسی وقت بیت الدعا تشریف لے گئے، اور دعا کی کہ الٰہی اس حکومت پر رحم فرما اور ان کو ہدایت دے۔دعا کے بعد حضور رضی اللہ عنہ نے ایک تقریر کی، جس میں پوری جماعت کو صبر وسکون سے کام لینے کی تلقین کی بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی نصیحت فرمائی کہ وہ تاریخ کے اوراق میں افغان حکومت کے ان مظالم کو پڑھ کر جوش اور غضب میں عیسائیوں کی طرح اخلاق سے نہ پھر جائیں۔ اور واضح فرمایا کہ جب ان خدمات کے بدلے آنے والی نسلوں کو بادشاہتیں اور حکومتیں نصیب ہوںگی تب ان ظالموں کے ظلموں پر نگاہ نہ کریں۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ508)

قادیان دارالامان جماعت احمدیہ کا مرکز اور معروف مقام ہے۔وہاں مقامی لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر ایک مذبح خانہ قائم تھا، جہاں عید الاضحی اور دوسرے مواقع پر گوشت کی فراہمی کا انتظام کیا جاتا تھا۔قادیان میں حکومت کی طرف سے سمال ٹاؤن کمیٹی قائم ہونے کے بعد اس مذبح کی باقاعدہ درخواست کرکے ڈپٹی کمشنر گرداسپور سے مذبح کی باقاعدہ منظوری حاصل کی گئی لیکن 1929ء میں سینکڑوں لوگوں پر مشتمل ایک شوریدہ سر ہجوم نے پولیس کی موجودگی میں یہ مذبح خانہ محض پندرہ منٹ میں منہدم کردیا۔ڈپٹی کمشنر اور کمشنر تک باضابطہ رابطے کیے گئے لیکن بجائے داد رسی کے ان سرکاری افسران نے مذبح خانہ کا لائسنس ہی منسوخ کردیا۔ یوں ہر سطح کے سرکاری افسران نے جماعت احمدیہ کی دشمنی میں اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ 147)

جماعت احمدیہ کے خلاف اس دشمنی اور ایذا رسانی میں ملکی اخبارات بھی کچھ پیچھے نہ تھے۔ مثلاً 3؍جون 1930 ء ایک وسیع الاشاعت ہندو نواز اخبار اخبار ٹریبیون نے اپنے امرتسر کے نامہ نگار کے حوالے سے یہ جھوٹی خبر شائع کردی کہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی ہے۔

(تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ 199)

تاریخ احمدیت جلد پنجم کے صفحہ 267 پر انگریز حکومت کی غفلت شعاری کے حوالے سے ذکر ہے کہ

انگریزی حکومت کی غفلت شعاری اور حضورؓکااعلان

حکومتیں ہمیشہ زبردست کا ساتھ دیا کرتی ہیں۔ان دنوں انگریزی حکومت یہی مظاہرہ کررہی تھی۔ مسلمانوں کے خلاف فسادات برپا ہوتے تو گواہی دینے والے مسلمان ہی مقدمات میں پھانس لیے جاتے تھے۔حضرت اورنگ زیب رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے مسلمان بادشاہوں اور بزرگوں پر برابر حملے ہوتے رہتے ۔ حتیٰ کہ امتحان کے پرچوں میں بھی مسلم بادشاہوں کو گالیاں دی جاتیں مگر حکومت ٹس سے مس نہ ہوتی ۔

1931ء میں حکومت کی اس دورخی پالیسی کا جماعت احمدیہ کو خاص طور پر نشانہ بننا پڑا۔بنگال میں ایک بدباطن نے ایک کتاب لکھی جس میں حضرت مسیح موعود ؑکو شرمناک گالیاں دی گئیں ۔ مگر حکومت نے اس پر کوئی نوٹس نہ لیا۔ اس کے مقابل ہماری طرف سے لیکھو نام لکھ دینے پر حکومت کی مشینری حرکت میں آگئی ۔بحالیکہ جب پنڈت لیکھرام کا نام ہی لیکھو ہو تو اسے لیکھو نہ لکھا جائے تو اور کیا لکھا جاتا۔

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے اس نہایت غیر دانشمندانہ اور نامنصفانہ اقدام پر زبردست احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے احمدی مصنفین کی درست ترین راہ کی طرف رہ نمائی فرمائی۔

تاریخ احمدیت کی جلد ششم کے صفحہ 389 پر جماعت احمدیہ اور انگریز دشمنی کے عنوان کے تحت انگریز حکومت کی اس غلط فہمی اور بے اطمینانی کا ٹھوس شواہد اور دلائل کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے جو احرار اور دیگر مخالفین احمدیت کی کوششوں کے نتیجہ میں پید ا ہوئی تھی،اور بے بنیاد پروپیگنڈا کا شکا ر ہونے والے برصغیر پر حکمران انگریزی حکومت کے محض اعلیٰ افسر ہی نہیں بلکہ وائسرائے ہند اور گورنر پنجاب وغیرہ بھی تھے۔ انہی غلط خبروں پر یقین کرنے کا شاخسانہ تھا کہ ایک وقت میں خود انگریز حکومت اوراس کی مشینری ہی جماعت احمدیہ کے مقابل پر کھڑی ہوگئی تھی۔

احرار کی منظم سازش اور چومکھی شرارت میں انگریز حکومت بھی باقاعدہ شریک ہوگئی جب حکومت نے ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت حضرت مصلح موعود ؓکی ڈاک پر سنسر شپ بٹھا دی، یہ گویا جماعت احمدیہ کے مقدس امام کی ایک قسم کی ناکہ بندی تھی جس سے حکومت کا مقصد واضح تھا کہ وہ کسی نہ کسی بہانے سے حضور ؓپر گرفت کرنے پر تلی ہوئی تھی۔

تب صرف ڈاک ہی نہیں بلکہ حضور ؓکے منہ سے نکلنے والے ایک ایک حرف پر نگاہ رکھی جاتی تھی، آپ کے خطبات اور تقاریر کو زبردست ناقدانہ نگاہ سے دیکھا اور پرکھا جاتا تھا، سی آئی ڈی کے افسر ہر وقت پیچھے لگے رہتےتھے۔ تب حکومت کے افسر اور گورنر روزانہ میٹنگ اور مشورے کرتےتھے کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات ہاتھ لگ جائے مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔

(تاریخ احمدیت جلد ششم صفحہ 427تا 428)

احرار کے اجتماع کے دنوں میں احراریوں نے قادیان میں اپنا ڈیرہ بنا لیا تھا اورادھر احمدی آبادی پر پولیس کی چیرہ دستیوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا تھا۔ مورخہ 2؍نومبر 1934ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعود ؓنے قادیان میں احمدیوں کو اپنی ہی گلیوں اور محلوں میں حکومت وقت کی طرف سے پہنچنے والی مسلسل تکالیف اور مظالم کا تذکرہ فرمایا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 16مختلف مقامی واقعات کی تفصیل بتا کر عیاں کیا کہ کس طرح اوپر سے نیچے تک ہر سطح کے سرکاری افسران جماعت احمدیہ کے خلاف ناانصافی پر اترے ہوئے تھے۔

اس ظلم کی انتہا یہ تھی کہ احرار کی قادیان میں کانفرنس کے موقع پر واضح طور پر نقضِ امن کا خدشہ موجود تھاکیونکہ یہ لوگ علی الاعلان قادیان کے مقدس مقامات کی بے حرمتی اور انہدام کے متعلق تقریریں کرتے تھے۔حضرت مصلح موعود ؓکو نعوذباللہ قتل کرنے کا اعلان کرچکے تھے۔اس پر پنجاب حکومت کے چیف سیکرٹری نے حضرت مصلح موعودؓ کے نام زبان بندی اور ہر طرح کی پابندیوں کا حکم نامہ بذریعہ مجسٹریٹ علاقہ رات کے گیارہ بجے نافذکردیا، اس ظالمانہ حکم کانہایت دندان شکن جواب دیتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ

’’میں اپنے مذہب کے حکم اور سلسلہ کی روایات کی وجہ سے اس حکم نامہ کی تعمیل کرنے پر مجبور ہوں، ورنہ یہ حکم ایسا غیر منصفانہ اور ناجائز ہے کہ ایک شریف آدمی کے لئے یہ سمجھنا بھی مشکل ہے کہ ایک مہذب حکومت ایسا حکم کس طرح جاری کرسکتی ہے؟

حکومت وقت سے اس طرح تعاون کرنے کے بعد اس قسم کے حکم کا بھجوادینا حکومت کے وقار کو کھونا ہے اور حکومت کی مضبوطی نہیں بلکہ کمزوری کا موجب ہے اور مجھے افسوس ہے کہ حکومت نے اس قسم کے حکم کو جاری کر کے اس اعتماد کو نقصان پہنچایا ہے جو اس پر ملک معظم اور ان کی حکومت نے کیا تھا بہرحال چونکہ میرا مذہب وفاداری اور اطاعت کا حکم دیتا ہے میں اس حکم کی جس کی غرض سوائے تذلیل اور تحقیر کے کچھ نہیں پابندی کروں گا اور انشاءاللہ پوری طرح اس کی تعمیل کروں گا۔ باقی اس حکم کی نسبت آئندہ نسلیں خود فیصلہ کریں گی کہ اس کے دینے والے حق پر تھے یا نہ تھے وافوض امری الی اللّٰہ وھو احکم الحاکمین ۔ خاکسار مرزا محمود احمد ‘‘

مجلس احرار کے نام پر قادیان میں جمع ہونے والوں کی طرف سےمسلسل سخت نقص امن کا خطرہ تھا، ایسے میں مقامی سرکاری حکام نے یہ انوکھا حکم بھی جاری کر دیا کہ کوئی احمدی اپنےپاس کیمرہ نہیں رکھ سکتے ورنہ سخت فساد کا خطرہ ہے۔چہ بوالعجبی!!

احرار کی اس نام نہاد تبلیغ کانفرنس کا انعقاد سراسر سرکاری تعاون اور نگرانی سے ممکن ہوا۔یاد رہے کہ ہر جگہ پولیس کے نوجوانوں کی مثال اور حالت تومحض سوٹے کی طرح تھی، اصل دماغ اور سوچ تو ان کے اعلیٰ افسران اور مجسٹریٹ سطح کے سرکاری افسران کی ہوتی ہے۔لیکن یہاں یہی افسران اورسرکار کے ہاتھ اور پاؤں بننے والے مجسٹریٹ مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے۔ان کے سامنے مذہبی حملے بھی ہوئے اور شرفاء کو ان کے گھر میں گھس کر اشتعال دلایاگیا، ان کی دل آزاری کی گئی۔معصوموں کے قتل عمد پر اکسایا گیا، لیکن یہ سرکاری افسران خاموش تماشائی بنے رہے۔ادھر بعد کے واقعات نے صاف عیاں کیا کہ گورنر پنجاب سمیت اعلیٰ افسران نے اعتراف کیا کہ مقامی انتظامیہ اور ڈپٹی کمشنر تک سب نے جماعت احمدیہ کے خلاف برتاؤ میں غلطیاں کیں اور اپنے اختیارات کا ناجائز اور ظالمانہ استعمال کیا۔

جوں جوں جماعت احمدیہ کے خلاف احرار کی ایذا رسانیاں بڑھتی چلی گئیںقادیان میں پولیس کی جمعیت میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیاحتیٰ کہ سپاہیوں کی تعداد ایک سو پچیس 125 تک پہنچ گئی۔ معمول کی پولیس کے علاوہ ملٹری پولیس بھی رکھی گئی، اور 17؍جنوری 1935ء کو ایک متعصب ہندو لالہ جواہر لال صاحب کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ انچارج پولیس قادیان کے طورپر تعینات کر دیا گیا۔

ان سب مظالم کے مقابل پر حضرت مصلح موعودؓکا زبردست انتباہ بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔

انگریزی حکومت کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکا زبردست انتباہ

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے سالانہ جلسہ 1934ء پر انگریزی حکومت کو انتباہ فرمایا کہ

’’حکومت کے افسروں کو پولیس اور سول کے حکام کو اور احراریوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ باوجود ان اشتعال انگیزیوں کے جو وہ کر رہے ہیں ہم بالکل پر امن ہیں …ہمیں جوش آتا ہے اور آئے گا مگر وہ دل میں ہی رہے گا ۔ہمیں غیرت آئے گی مگر وہ ظاہر نہ ہو گی ۔ہمارے قلوب ٹکڑے ٹکڑے ہوں گے مگر زبانیں خاموش رہیں گی ۔ہاں ایک اور ہستی ہے جو خاموش نہ رہے گی وہ بدلہ لے گی اور ضرور لے گی حکومتوں سے بھی اور افراد سے بھی ۔کوئی بڑے سے بڑا افسر کوئی بڑے سے بڑا لیڈر کوئی بڑے سے بڑا جتھا اور کوئی بڑی سے بڑی حکومت اس کی گرفت سے بچ نہ سکے گی ۔حکومت انگریزی بہت بڑی اور طاقتور حکومت ہے مگر جو اس کے غدار اور فرض ناشناس حاکم ہیں انہیں وہ خدا کی گرفت سے نہیں بچا سکتی ۔وہ ایسے حکام کو بم کے گولوں سے بچانے کا انتظام کر سکتی ہے اور وہ احمدیوں نے چلانےنہیں ۔ مگر ہیضہ ،قولنج اور طاعون کے حملہ سے وہ کسی کو نہیں بچا سکتی۔اور نہ کوئی اور طاقت ہے جو خدا کی گرفت سے بچا سکے۔اگر یہی حالت جاری رہی اور کسی دن بددعا نکل گئی تو حکومت دیکھ لے گی کہ اپنے تمام سامانوں اور اپنی تمام حفاظتوں کے باوجود ان کو بچا نہ سکے گی۔ہمارا خدا ظلم اور ناانصافی کرنے والوں کو دیکھ رہا ہے وہ ہمارے زخمی قلوب اور ان میں جو جذبات ہیں ان کو دیکھتا ہے پھر ہمارے صبر کو دیکھتا ہے آخر وہ ایک دن اپنا فیصلہ نافذ کرےگا۔اور پھر دنیا دیکھ لے گی کہ کیا کچھ رونما ہوتا ہے…ہمارا حکومت سے کوئی ٹکراؤ نہیں ۔اس کا میدان عمل اور ہے اور ہمارا اور ہے لیکن اگر وہ خود ہم سےٹکرائے گی تو اس کا وہی حال ہو گا جو کونے کے پتھر سے ٹکرانے والے کا ہوتا ہے۔‘‘

اس قدر عظیم الشان غلبے والی حکومت کو صریح ظلم و زیادتی کرنے پر حضرت مصلح موعود ؓکا یہ انتباہ نہ صرف جماعتی روایات کا عکاس ہے بلکہ جماعت کی سو سال سے بھی زیادہ طویل تاریخ کا خلاصہ بھی۔

تاریخ احمدیت کی جلد ششم کے فصل دہم میں اس وقت پیش آمدہ واقعات کاریکارڈ محفوظ ہے۔

قادیان کی حدود میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ پرسخت خطرناک قاتلانہ حملہ کے بعدسرکاری انتظامیہ کی بے حسی سے شہ پاکر ایک دفعہ مورخہ 17؍ستمبر 1936ء کو حضرت مصلح موعود ؓکی کار پر ایک بد قماش نے حملہ کر دیا۔

اس المناک حادثہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓاپنے لختِ جگر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصراحمد صاحبؒ کو اسٹیشن پر الوداع کہہ کر سات بجے شام کے قریب جب بذریعہ موٹر اپنے گھر تشریف لا رہے تھے تو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓکی گلی میں جب موٹر پہنچی تو کسی بدباطن معاند نے ایک پتھر زور سے حضور ؓکی کار پر پھینکا۔مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پتھر موٹر کی چھت پر لگا ۔ موٹر فوراً ٹھہرالی گئی۔ اور چند منٹ تک اِدھر اُدھرحملہ آور کی تلاش کی گئی مگر کوئی دکھائی نہ دیا۔اس کے بعد حضور ؓموٹر پر ہی سوار ہو کر گھر تشریف لے گئے۔

یہ واقعہ اگرچہ نہایت درجہ اہم اور رُوح فرسا تھا ۔مگر بطور احتجاج تھا نہ میں اس کی کوئی اطلاع نہ دی گئی ۔ کیونکہ ان دنوں حکومت پنجاب کے افسروں کی آنکھیں بدلی ہوئی تھیں۔ اور پولیس کے بہرے کانوں پر جماعت کی مسلسل چیخ و پکار کا کوئی اثر نہ تھا۔ اور نہ وہ احرؔار کی بڑھتی ہوئی شرارتوں اور ان کی انتہائی کمینہ حرکات کا کوئی مناسب تدارک کرتی تھی۔

(تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحہ 317)

1940ءمیں ایک دفعہ مقامی سرکاری حکام نے ایک موقع پر جماعت احمدیہ کو گزند پہنچایا اور اختیارات کا ناجائز استعمال کیا تو حضرت مصلح موعودؓ نے ان حکام کو انتباہ کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’وہ حکام جو فتنہ پردازوں کے سامنے…دب جاتے ہیں اور شرفاء کی شرافت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ ہرگز انتظام حکومت کے قابل نہیں …‘‘

(تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ107)

واقعۂ ڈلہوزی

حکومت پنجاب کے بعض اعلیٰ افسر سالہا سال سے جماعت احمدیہ کو باغی ثابت کرکے اس کے خلاف جارحانہ اور منتقمانہکارروائیوں پر تُلے ہوئے تھے۔اِس خوفناک منصوبہ نے جو اندر ہی اندر ایک خاص سکیم کے تحت جاری تھا 1941ء میں یکایک ایک نئی اور بھیانک شکل اختیار کر لی جس کی نسبت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے یہ رائے ظاہر فرمائی کہ سلسلہ کی تاریخ میں ایک نرالہ واقعہ ہے۔ایسا نرالہ کہ میں اسے 1934ء کے اس واقعہ سے بڑھ کر سمجھتا ہوں جبکہ گورنر پنجاب نے مجھ کو رات کے وقت نوٹس بھجوایا تھا کہ تم احمدیہ جماعت کے افراد کو روک دو کہ وہ قادیان میں نہ آئیں اور بعد میں گورنر کونسل نے اِس کے متعلق دو دفعہ معذرت کی اور اپنی غلطی کا اقرار کیا۔

واقعہ ڈلہوزی کے نام سے معروف یہ اہم واقعہ 10؍ستمبر1941ء کو پیش آیا جب حضرت مصلح موعودؓتبدیلی آب و ہوا کے لیے ڈلہوزی میں مقیم تھے۔حضرت مصلح موعودؓکی زبان مبارک سے اس واقعہ ڈلہوزی کی تفصیلات اور سازش کی سنگینی کا بیان تاریخ احمدیت کی جلد نہم کے صفحہ 249سے 260 پر محفوظ ہے۔گو اس واقعہ کے بعد مسلم اور غیر مسلم پریس نے مذکورہ بالا حکومتی رویہ اور اقدامات کی مذمت کی اور پنجاب حکومت نے بھی تحریری طور پر حضرت مصلح موعودؓ سے معذرت کی لیکن ایسے واضح شواہد موجود ہیں کہ انگریزی حکومت کے سرکردہ افسران اور سی آئی ڈی کے محکمہ کے لوگوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف جارحانہ اور منتقمانہکارروائیاں کی تھیں۔

پھر 1943ءمیں قادیان کے قریبی گاؤں بھامبڑی میں ایک سانحہ پیش آیا، جس کی تفصیلات حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کے قلم سے محفوظ کرکے تاریخ احمدیت میں ریکارڈ کردی گئی ہیں۔ جب ان تشویشناک حالات کی اطلاع حضرت مصلح موعود ؓکو دی گئی تو آپ نے جماعت کے نام اپنے مکتوب میں فرمایا کہ

’’برادران جماعت احمدیہ!السَّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ…

…اس وقت جماعت پر اس کے دشمنوں نے ایک سخت حملہ کیا ہے اور حکومت کے کچھ کَل پُرزے بھی اس میں شامل معلوم ہوتے ہیں ۔ احمدیت کے لئے پھر ایک ابتلاء کی صورت پیدا ہو رہی ہے ۔ گورنمنٹ کے دلی دشمن جو اس کے ملازموں میں شامل ہیں ، انہیں ہماری جنگی خدمات نہیں بھائیں اور چونکہ کُھلا مقابلہ وہ نہ کر سکتے تھے۔انہوں نے دوسرے اوچھے ہتھیاروں سے کام لینا شروع کیا ہے۔چند دنوں تک حقیقت واضح ہو جائے گی ۔ مَیں زندہ رہوں یا مروں، جماعت کی عزت کی حفاظت کے لئے آپ لوگوں کا ہر قربانی کرنا فرض ہے ۔ کیا پچاس سال شکست کھا کر دشمن اب غالب آجائے گا۔ کیا آج احمدیت کا ایمان جماعت کو گذشتہ قربانیوں سے زیادہ قربانیاں پیش کرنے کے لئے آمادہ نہ کرے گا۔مَیں امید کرتا ہوں کہ آپ میں سے ہر شخص کہے گا کہ ضرور ضرور اور آسمان آپ کی آواز پر تصدیق کرے گا اور احمدیت کے پوشیدہ دشمن ایک دفعہ پھر مُنہ کی کھائیں گے۔اچھا خدا حافظ آج بھی اور ہمیشہ ہی ۔اِس دُنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی بہادر بنو اور کسی انسان سے نہ ڈرو سوائے خدا کے۔ والسَّلام‘‘

(تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ416)

تقسیم ملک کے دوران اوراس کے بعد بھی قادیان دارالامان کو نقصان پہنچانے کی از حد کوششیں کی گئیں اور سرکاری سرپرستی میں کی گئیں۔

اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو کس نوع کی سرکاری زیادتیوں اور ایذا رسانیوں کاسامنا کرنا پڑا، اس کا اظہار اس درج ذیل مثال سے ہوسکتا ہے۔

19؍مارچ 1953ء کو حکومت پنجاب کی خصوصی ہدایت پر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ضلع جھنگ ربوہ آئے، اور گورنر پنجاب کا ایک نہایت ظالمانہ اور غیر منصفانہ نوٹس بغرض تعمیل پیش کیا، حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے نوٹس تو لے لیا، مگر ساتھ ہی نہایت پرجلال انداز میں ارشاد فرمایا:

’’آپ اس وقت اکیلے مجھ سے ملنے آئے ہیں اور کوئی خطرہ محسوس کیے بغیر میرے پاس پہنچ گئے ہیں اسی لیے کہ آپ کو یقین ہے کہ گورنمنٹ آپ کی پشت پر ہے پھر اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ گورنمنٹ کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے حکومت آپ کی مدد کرے گی ۔ تو کیا مَیں جو خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ ہوں مجھے یقین نہیں ہونا چاہیئے کہ خدا میری مدد کرے گا۔ بے شک میری گردن آپ کے گورنر کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ کے گورنر کی گردن میرے خدا کے ہاتھ میں ہے ۔ آپ کے گورنر نے میرے ساتھ جو کچھ کرنا تھا وہ کر لیا اب میرا خدا اپنا ہاتھ دکھائے گا۔‘‘

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button