تعدد ازدواج کی حکمت اور شراب کی مضرت
مرزا خدا بخش صاحب مالیر کو ٹلہ سے تشریف لائے تھے۔ ا ن سے وہاں کے جلسہ کے حالات دریافت فرماتے رہے۔ انہوں نے سنایا کہ ایک شخص نے یوں اعتراض کیا کہ اسلام میں جو چار بیویاں رکھنے کا حکم ہے یہ بہت خراب ہے اور ساری بد اخلاقیوں کا سر چشمہ ہے۔
حضر ت اقدس نے فرمایا کہ
چار بیویاں رکھنے کا حکم تو نہیں دیا بلکہ اجازت دی ہے کہ چار تک رکھ سکتا ہے۔ اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ چار ہی کو گلے کا ڈھول بنا لے۔ قرآن کا منشاء تو یہ ہے کہ چونکہ انسانی ضروریات مختلف ہوتی ہیں اس واسطے ایک سے لے کر چار تک کی اجازت دے دی ہے۔ ایسے لوگ جو ایک اعتراض کو اپنی طرف سے پیش کرتے ہیں اور پھر وہ خود اسلام کا دعویٰ بھی کرتے ہیں میں نہیں جانتا کہ ان کا ایمان کیسے قائم رہ جاتا ہے۔ وہ تو اسلام کے معترض ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ ایک مقنن کو قانون بناتے وقت کن کن باتوں کا لحاظ ہوتا ہے۔ بھلا اگر ایک شخص کی بیوی ہے اسے جذام ہو گیا ہے یا آتشک میں مبتلا ہے یا اندھی ہو گئی ہے یا اس قابل ہی نہیں کہ اولاد اس سے حاصل ہوسکے وغیرہ وغیرہ عوارض میں مبتلا ہوجاوے تو اس حالت میں اب اس خاوند کو کیا کرنا چاہیے کیا اسی بیوی پر قناعت کرے؟ ایسی مشکلات کے وقت وہ کیا تدبیر پیش کرتے ہیں۔ یا بھلا اگر وہ کسی قسم کی بد معاشی زنا وغیرہ میں مبتلا ہوگئی تو کیا اب اس خاوند کی غیرت تقاضا کرے گی کہ اسی کو اپنی پُر عصمت بیوی کا خطاب دےرکھے؟ خدا جانے یہ اسلام پر اعتراض کرتے وقت اندھے کیوں ہو جاتے ہیں۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ مذہب ہی کیا ہے جو انسانی ضروریا ت کو ہی پورا نہیں کرسکتا۔ اب ان مذکو رہ حا لتوں میں عیسویت کیا تدبیر بتاتی ہے؟
قرآن کریم ہر انسانی ضرورت کے لئے قانون پیش کرتا ہے
قرآن شریف کی عظمت ثابت ہوتی ہے کہ انسانی کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کا پہلے سے ہی اس نے قانون نہ بنا دیا ہو۔ اب تو انگلستا ن میں بھی ایسی مشکلات کی وجہ سے کثرتِ ازدواج اور طلاق شروع ہوتی جاتی ہے۔ ابھی ایک لارڈ کی بابت لکھا تھا کہ اس نے دوسری بیوی کر لی آخر اسے سزا بھی ہوئی مگر وہ امریکہ میں جا رہا۔
غور سے دیکھو کہ انسان کے واسطے ایسی ضرورتیں پیش آتی ہیں یا نہیں کہ یہ ایک سے زیادہ بیویاں کرلے جب ایسی ضرورتیں ہوں اور ان کا علاج نہ ہو تو یہی نقص ہے جس کے پورا کرنے کو قرآن شریف جیسی اتم اکمل کتاب بھیجی ہے۔
شراب اور شراب کے بسکٹ
اسی اثنامیں شراب کا ذکر شروع ہو گیا۔ کسی نے کہا کہ اب تو حضور شراب کے بسکٹ بھی ایجا د ہوئے ہیں۔ فرمایا:
شراب تو انتہائی شرم، حیا، عفت، عصمت کی جانی دشمن ہے۔ انسانی شر افت کو ایسا کھو دیتی ہے کہ جیسے کتے، بلے، گدھے ہوتے ہیں۔ اس کا پیکر بالکل انہی کے مشابہ ہو جاتا ہے۔ اب اگر بسکٹ کی بلا دنیا میں پھیلی تو ہزاروں ناکردہ گناہ بھی ان میں شامل ہوجایا کریں گے۔ پہلے تو بعض کو شرم وحیا ہی روک دیتی تھی۔ اب بسکٹ لیے اور جیب میں ڈال لیے۔ بات یہ ہے کہ دجال نے تواپنی کوششوں میں تو کمی نہیں رکھی کہ دنیا کو فسق وفجور سے بھرد ے مگر آگے خدا کے ہاتھ میں ہے جو چاہے کرے۔ اسلام کی کیسی عظمت معلوم ہوتی ہے ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے اسلام پر کوئی اعتراض کیا۔ اس سے شراب کی بد بو آئی۔ اس کو حد ما ر نے کا حکم دیا گیا کہ شراب پی کر اسلام پر اعتراض کیا۔ مگر اب تو کچھ حد وحسا ب نہیں۔ شراب پیتے ہیں، زنا کرتے ہیں، غرض کوئی بدی نہیں جو نہ کرتے ہوں مگر بایں ہمہ پھر اسلام پر اعتراض کرنے کو تیار ہیں۔
(ملفوظات جلد 5صفحہ 130۔ 132۔ ایڈیشن 1984ء)