احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
1860ء تا 1867ء
سیالکوٹ کا زمانہ
…… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… …… ……
مذہبی مناظرے، علمی مجالس عرفان بزرگوں اور مشاہیراورپادریوں سے ملاقاتیں
(حصہ پنجم)
پنڈت سہج رام
جن دنوں آپؑ کچہری میں ملازم تھے وہاں کے دفاترکاسپرنٹنڈنٹ ایک متعصب ہندو پنڈت سہج رام تھا۔یہ سخت قسم کا متعصب دشمن اسلام توتھاہی لیکن جب دوسری طرف حضرت اقدسؑ کی امانت ودیانت اور ذہانت ولیاقت کی وجہ سے کچہری کے عملہ اور افسران کی نظر میں عزت وتوقیر کاسلوک دیکھا تو لگتاہے کہ اس کے تعصب اور عناد کی آگ مزیدبھڑک اٹھی۔اور اس کااظہار وہ حضرت اقدسؑ کے ساتھ بحث کے ذریعہ کرتا اور مفوضہ کاموں میں سختی برتتے ہوئے کرتاجیساکہ بعض اوقات تنگ نظر اور حاسدومتعصب افسران کیاکرتے ہیں۔
آپؑ کی سیرت کاایک پہلویہ بھی ہے کہ بحیثیت ایک ماتحت کے جن اخلاق فاضلہ کااظہار کیاجانا ضروری تھا وہ تمام کے تمام آپؑ کے نمونہ سے ظاہر ہوئے۔ آپؑ کمال سنجیدگی اورمتانت اورعجزوانکسار سے اپنے اس ظالم افسرکی اطاعت بھی کرتے اور اس کی پوری کوشش کے باوجوداپنے فرائض میں کمی وکوتاہی کی کسی بھی قسم کی شکایت کا موقع ہی پیدانہ ہونے دیتے۔ اورجہاں تک اس کی طرف سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا تعلق تھا اس کے جواب دینے میں ذرہ بھربھی مداہنت یا کمزوری کا اظہاربھی نہ ہونے دیتے۔اورباوجودایک اہلکار اور اس کے ماتحت ہونے کے اپنی عزت نفس اور وقار اور خودداری واستغنا کاایک قابل رشک وتقلید نمونہ رہے۔
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ بیان کرتے ہیں :
’’جن دنوں آپؑ سیالکوٹ میں ملازم تھے۔ہر چند آپؑ معمولی درجہ کے اہلکاروں میں سے تھے مگر آپؑ سلف ریسپکٹ(خودداری) اور استغنا کا ایک نمونہ تھے۔ آپؑ کی قابلیت بہر حال ضلع بھر میں مسلم تھی یہاں تک کہ تلخ تر دشمن اور آپؑ کے حالات کو قصہ کا رنگ دینے والا دشمن بھی اعتراف کرتا ہے کہ وہ اپنی خدا داد قابلیت کی وجہ سے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کی نظروں میں عزت رکھتے تھے۔اس وقت سیالکوٹ کے دفاتر کا سپر نٹنڈنٹ ایک شخص پنڈت سہج رام نام تھا۔وہ ایک متعصّب دشمن اسلام تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ سے وہ ہمیشہ مذہبی مباحثہ کیا کرتا تھا۔اسے یہ دھوکہ لگا ہوا تھا کہ حضرت مرزا صاحب میرے ماتحت ایک سر شتہ میں اہلکار ہیں۔اس لئے مذہبی مباحثات میں میری وجاہت اور اثر ان کو حق گوئی سے شائد روک دے گا۔لیکن حضرت مرزا صاحب جو اعلائے کلمۃالاسلام کے لئے مبعوث ہونے والے تھے جن کی فطرت میں یہ قوت اور جوش رکھا گیا تھا کہ
دلبر کی رہ میں یہ دل ڈرتا نہیں کسی سے
ہوشیار ساری دنیا اک باولا یہی ہے
وہ بھلا کب خاطر میں لاسکتے تھے۔مذہب کے معاملہ میں جب اس سے گفتگو ہوتی نہایت آزادی دلیری اور جرأت سے ایسی گفتگو ئیں ہوتی تھیں۔اور جب اسے نادم اور لاجواب ہونا پڑتا تو اپنی لاجوابی اور کمزوری کا بخار سرشتہ کے کاموں میں تعصّب کے اظہار سے نکالتا۔اسے فطرتاً دین اسلام سے ایک کینہ تھا اس لئے ناممکن تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ اسے کچھ بھی تعلق یا لگاؤ ہو سکتا۔آپ کے ساتھ وہ برتاؤ کرنے میں اپنے تمام اخلاق اور شریفانہ تعلقات کو نظر انداز کر دیتا مگر اس کا نتیجہ عموماً یہ ہوتا کہ اگر وہ صاحب ڈپٹی کمشنر صاحب کے سامنے بھی کوئی اعتراض کرتا تو اس کا دندان شکن جواب وہیں پاتا۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کبھی اس سے دبتے نہیں تھے۔یہاں تک کہ بعض اوقات آپ کے دوست اور مخلص دوست لالہ بھیم سین صاحب نے مشورہ دیا کہ ترقی و کامیابی بظاہر اس شخص کے ہاتھ میں ہے مگر حضرت مسیح موعود ؑایسا موحد اور خدا پرست انسان اس قسم کی باتوں پر کب توجہ کر سکتا تھا وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی ہی ذات سے ہر قسم کی بہتری اور بھلائی وابستہ ہے یہ مردہ کیڑے کیا کر سکتے ہیں؟ اس لئے آپؑ اپنے فرض منصبی کو تو دیانتداری سے ادا کرنے میں کوئی دقیقہ باقی نہ رکھتے تھے اور خوشامد اور دربارداری کو اپنی وضع اور مومنانہ غیرت کے سراسر خلاف جانتے تھے۔اس بات نے اس کو اور بھی آپؑ کے ساتھ بدکن بنادیا تھا مگر وہ بھی آپ کو کوئی ضرر نہ پہنچا سکا کیونکہ صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر آپ کی لیاقت اور دیانت سے خوب واقف اور اثر پذیر تھا۔‘‘
(حیات احمدؑ،جلداول صفحہ274،273)
اسی پنڈت سہج رام کی اسلام دشمنی اورکینہ فطرت کا ذکر حضرت اقدسؑ نے بھی کیاہے۔آپؑ فرماتے ہیں :
’’ایک شخص سہج رام نام…ضلع سیالکوٹ میں صاحب ڈپٹی کمشنر کاسررشتہ دار تھا اوروہ مجھ سے ہمیشہ مذہبی بحث کیاکرتاتھا اوردین اسلام سے فطرتاً ایک کینہ رکھتا تھا…‘‘
(حقیقة الوحی،روحانی خزائن جلد22صفحہ309)
لیکن ظلم کرنے والایہی افسر بعدمیں تنزلی کاشکار ہو کر وہاں سے تبدیل ہوا اور کمشنری امرتسر میں سرشتہ دار ہو گیا۔
مزید برآں مرنے سے پہلے ہاتھ جوڑکراپنے ظلموں کی معافی کاطلبگاربھی ہوا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو اس کی وفات کی خبراوریہ سارانظارہ کشفی رنگ میں دکھایا گیا۔ گویا جو ساری عمر آپؑ سے اسلام کی سچائی پر بحث کرتارہا اس کی موت بھی اسلام اورحضرت اقدسؑ کی سچائی کاایک روشن نشان بن گئی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی وفات کی خبرکو ایک نشان قراردیتے ہوئے بیان فرمایا:
نشان نمبر127:’’میرے ایک بڑے بھائی تھے انہوں نے تحصیلداری کا امتحان دیا تھا اور امتحان میں پاس ہو گئے تھے اور وہ ابھی گھر میں قادیان میں تھے اور نوکری کے امیدوار تھے۔ ایک دن میں اپنے چوبارہ میں عصر کے وقت قرآن شریف پڑھ رہا تھا جب میں نے قرآن شریف کا دوسرا صفحہ الٹانا چاہا تو اسی حالت میں میری آنکھ کشفی رنگ پکڑ گئی اور میں نے دیکھا کہ سہج رام سیاہ کپڑے پہنے ہوئے اور عاجزی کرنے والوں کی طرح دانت نکالے ہوئے میرے سامنے آکھڑا ہوا۔ جیسا کہ کوئی کہتا ہے کہ میرے پر رحم کرا دو میں نے اس کو کہا کہ اب رحم کا وقت نہیں اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ اسی وقت یہ شخص فوت ہو گیا ہے اور کچھ خبر نہ تھی۔ بعد اس کے میں نیچے اترا اور میرے بھائی کے پاس چھ سات آدمی بیٹھے ہوئے تھے اور ان کی نوکری کے بارہ میں باتیں کر رہے تھے۔ میں نے کہا کہ اگر پنڈت سہج رام فوت ہو جائے تو وہ عہدہ بھی عمدہ ہے۔ ان سب نے میری بات سن کر قہقہہ مار کر ہنسی کی کہ کیا چنگے بھلے کو مارتے ہو دوسرے یا تیسرے دن خبر آگئی کہ اسی گھڑی سہج رام ناگہانی موت سے اس دنیا سے گزر گیا۔‘‘
(حقیقة الوحی،روحانی خزائن جلد22صفحہ309)
دیگر احباب
سیالکوٹ کے زمانہ میں آپؑ کی صحبت سے فیض یاب ہونے والے خوش نصیب ہم نشینوں کے جو اسماء ملتے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں:حضرت میرحسام الدین صاحبؓ، مولوی محبوب عالم صاحب نقشبندی (سیالکوٹ کے ایک صوفی بزرگ)، شمس العلماء علامہ سیدمیرحسن صاحب(علامہ اقبال کے استاد)، لالہ بھیم سین صاحب (ایک معروف پلیڈر)،حضرت میاں فضل دین صاحب،ڈاکٹرامیرشاہ صاحب، مرادبیگ آف جالندھر المعروف مرزامؤحد، شیخ الہ دادصاحب (کچہری میں ایک منشی)، حکیم منصب علی صاحب، شیخ فضل دین صاحب دکاندار۔
سیالکوٹ کے زمانہ سے متعلق کچھ اہم واقعات
مکان کی چھت گرنے کا واقعہ(حصہ اوّل)
سیالکوٹ کے اس قیام کے دوران بھی ہم قدم قدم پرخدائے حفیظ ورحمان کی نگہبانی مشاہدہ کرتے ہیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضر ت مسیح موعودعلیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ جب میں کسی سفر میں تھا۔رات کے وقت ہم کسی مکان میں دوسری منزل پر چوبارہ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اسی کمرے میں سات آٹھ اَور آدمی بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔جب سب سو گئے اور رات کا ایک حصّہ گذر گیا تو مجھے کچھ ٹک ٹک کی آواز آئی اور میرے دل میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اس کمرے کی چھت گرنے والی ہے۔ اس پر میں نے اپنے ساتھی مسیتا بیگ کو آواز دی کہ مجھے خدشہ ہے کہ چھت گرنے والی ہے۔اس نے کہا میاں یہ تمہارا وہم ہے نیا مکان بنا ہوا ہے اور بالکل نئی چھت ہے آرام سے سو جاؤ۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ میں پھر لیٹ گیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد پھر وہی ڈر میرے دل پر غالب ہو ا میں نے پھر اپنے ساتھی کو جگا یا مگر اس نے پھر اسی قسم کا جواب دیا میں پھر ناچار لیٹ گیا مگر پھر میرے دل پر شدت کے ساتھ یہ خیال غالب ہوا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا شہتیر ٹوٹنے والا ہے۔ میں پھر گھبرا کر اُٹھااور اس دفعہ سختی کے ساتھ اپنے ساتھی کو کہا کہ میں جو کہتا ہوں کہ چھت گرنے والی ہے اُٹھو۔ تو تم اُٹھتے کیوں نہیں۔اس پر ناچار وہ اُٹھااور باقی لوگوں کو بھی ہم نے جگا دیاپھر میں نے سب کو کہا کہ جلدی باہر نکل کر نیچے اُتر چلو۔دروازے کے ساتھ ہی سیڑھی تھی میں دروازے میں کھڑا ہوگیا اور وہ سب ایک ایک کر کے نکل کر اُترتے گئے۔جب سب نکل گئے تو حضرت صاحب فرما تے تھے کہ پھر میں نے قدم اُٹھایا ابھی میرا قدم شاید آدھاباہر اور آدھا دہلیز پر تھا کہ یک لخت چھت گری اور اس زور سے گری کہ نیچے کی چھت بھی ساتھ ہی گر گئی۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم نے دیکھا کہ جن چارپائیوں پر ہم لیٹے ہوئے تھے وہ ریزہ ریزہ ہوگئیں۔خاکسار نے حضرت والدہ صاحبہ سے دریافت کیا کہ مسیتا بیگ کون تھا ؟ والد ہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہ تمہارے دادا کا ایک دور نزدیک سے رشتہ دار تھا اور کا رندہ بھی تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفة المسیح ثانیؓ نے اس روایت کو ایک دفعہ اس طرح پر بیان کیا تھا کہ یہ واقعہ سیالکوٹ کا ہے جہاں آپ ملازم تھے اور یہ کہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے تھے کہ اس وقت میں یہی سمجھتا تھا کہ یہ چھت بس میرے باہر نکلنے کا انتظار کر رہی ہے اور نیز حضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ نے بیان کیا کہ اس کمرہ میں اس وقت چند ہندو بھی تھے جو اس واقعہ سے حضرت صاحب کے بہت معتقد ہو گئے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر9)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت اس مکان میں جولوگ موجودتھے ان میں سے ایک لالہ بھیم سین صاحب بھی تھے۔چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحب ؓ بیان فرماتے ہیں:
’’حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓبیان فرماتے ہیں کہ جوچھت گرنے کاواقعہ ہے اس میں بھی غالباً لالہ بھیم سین صاحب شریک تھے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 149)
(باقی آئندہ)