تعارف کتاب

سیلابِ رحمت

(ابو سدید)

نام کتاب : سیلابِ رحمت

مصنفہ: امۃ الباری ناصر

سن اشاعت : 2019ء

رابطہ : ڈاکٹر منصور احمد قریشی۔ امریکہ

ضخامت: 412صفحات

یکے از مطبوعات شعبہ اشاعت لجنہ اماء اللہ کراچی بسلسلہ صد سالہ جشن تشکر

زیر نظر کتاب ’’سیلابِ رحمت‘‘جس کا تعارف پیش کرنا مقصود ہے، لجنہ اماء اللہ کراچی کے شعبہ اشاعت کی خدمات کے سفر کی کہانی ہے۔ 1989ء کا سال جماعت احمدیہ کے صد سالہ جشن تشکر کا سال کہلاتا ہے، اس موقع پر خوشی اور شکرانے کے طور پر لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں وعدہ کیا کہ وہ صد سالہ جشن تشکر کی نسبت سے ان شاءاللہ 100کتب شائع کریں گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے 1989ء سے شروع ہونے والایہ سفر 2018ء میں مکمل ہوگیا۔ زیر نظر کتاب جو محترمہ امۃ الباری ناصر صاحبہ نے عرقریزی اور ادبی مہارت سے تصنیف کی ہے، لجنہ کراچی کے اشاعت کتب کے سلسلہ کی 101ویں کتاب ہے۔ اشاعت کتب کے اس مشکل تر، صبر آزما سفراور ایڈیٹنگ، پروف ریڈنگ اور پبلشنگ کی کانٹو ں بھری راہوں کو سر کرنے کے بعد جو نعمتیں، برکتیں اور رحمتیں ان کے حصے میں آئیں وہ سب اس کتاب میں سجائی گئی ہیں۔ لامحالہ خلفائے کرام کی دعائیں، رہ نمائی اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے اس سفر کی تکمیل ہوئی اور خلافت کی برکات کا حصول بھی انہی کے حصہ میں آیا، محترمہ امۃ الباری ناصر نے ان عنایات اور نعماء کو صفحہ قرطاس پر یکجا کرکے اس کتاب کے ذریعہ ایک تاریخ رقم کردی ہے گویا بہتے دریاؤں اور ٹھاٹھیں مارتے سمندروں کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ قارئین کو بتاتے چلیں کہ محترمہ امۃ الباری ناصر کا شمار ان انتہائی خوش قسمت احمدی شعراء میں ہوتا ہے جنہیں دربارِ خلافت سے پذیرائی اور قبولیت و پسندیدگی کی سند بھی حاصل ہوتی رہی ہے۔ بعض جگہوں پر آپ کی نثر، نظم سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ یہ کتاب اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ کا طرز تحریر ادبی محاسن کا مرقع ہے، آسان عبارتیں مناسب حال الفاظ کا چناؤ، منفرد تراکیب اور بندشوں کا استعمال، غرض ادبی ذوق کی سیرابی کا جملہ سامان کافی مقدار میں مہیا کیا گیا ہے۔

روحانی، دینی، اور ادبی شخصیات کے خطوط اپنے اندر علوم ومعارف کے بے بہا قیمتی خزانے چھپائے ہوتے ہیں جو اپنے دور کی ثقافت اور ادب کی تاریخ کی عکاسی کرتے ہیں اور بلاشبہ ان کا سرمایہ حیات اور ورثہ ہوتے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے ادبی لطافت اور علمی گنجینہ معانی سے مزین بابرکت مکتوبات انتہائی مہارت اور محنت سے سیاق وسباق کے ساتھ آویزاں کیے گئے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع  کے خطوط اپنی شان، عظمت اور رفعت میں لاثانی اور بے نظیر ہیں۔ اسی وجہ سے وہ گرانقدر سرمایہ اور انمول موتی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مصنفہ ان خطوط کے بارے میں لکھتی ہیں کہ حضور کے خطوط میرے لیے کیا اہمیت رکھتے ہیں بیان نہیں کرسکتی ۔ حضور کے مقام و مرتبہ کی بلندی کا اندازہ بھی نہیں کر سکتی۔ نادانی جرأت آموز ہوتی ہے۔ وہ سب کچھ لکھ دیتی ہوں جو لکھنا چاہتی ہوں۔ پھر خوفزدہ رہتی ہوں، استغفار کرتی ہوں۔ خط آتا ہے تو ڈرتے ڈرتے کھولتی ہوں۔ حضور بے حد شفیق ہیں پھر بھی ڈر لگتا ہے، مگر خط کھول کر سارے غم بھول جاتی ہوں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی محبتوں، شفقتوں اور احسانات و عنایات کو یاد کرتے ہوئے محترم منیر احمد جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری نے بیس صفحات پر مشتمل بہت عمدہ پیش لفظ رقم فرمایا ہے۔ جس میں انہوں نے اپنی یادوں کے جھروکوں سے وہ سارا زمانہ اس طرح عمدہ طریق پر قلمبند کیا ہے کہ جیسے ہم بھی اُسی دَور میں پہنچ گئے ہوں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ امۃ الباری ناصر صاحبہ کے خطوط کا حضور ہمیشہ بڑی توجہ سے جواب لکھوایا کرتے تھے اور کئی دفعہ تو ان کے خطوط پر پڑھتے ہوئے ہی بے اختیار لمبے نوٹ رقم فرمادیا کرتے تھے۔

منیر جاوید صاحب مزید لکھتے ہیں کہ زیر نظر کتاب ’’سیلاب رحمت ‘‘ان(مصنفہ موصوفہ) کے اس مقام وکمال کی ایک جھلک ہے۔ کتاب کے مندرجا ت اور موضوعات پر بھی انہوں نےاس طرح اظہار خیال کیا ہے: اس کتاب کے ابتدا میں حضر ت خلیفۃ المسیح کی محبت سے چُور اور خلافت کی محبت سے مخمور کراچی کی لجنہ کی انتھک محنت اور اشاعتی کارناموں کا ایک ریکارڈ ہے۔ 100 بہترین کتابوں کی اشاعت کے منفرد اعزاز اور ریکارڈ کی ایک تفصیل ہے جو جماعت اور بالخصوص جماعت احمدیہ کراچی کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعنے لجنہ کراچی کو شہد کی مکھیاں قرار دیا تھا۔ شہد کی انہی مکھیوں کا احمدیہ لٹریچر کے گل و گلشن کے پھول پھول سے شہد کی صورت ایک سو کتابوں کا یہ ایسا تحفہ ہے کہ جو اخلاقی و روحانی شفا کے سامان لیے ہوئے ہے۔ یہ کتاب کیا ہے گویا ایک سمندر ہے جو سیرت طاہر اور برکات خلافت کے مختلف پہلوؤں سے موجزن ہے۔ اس سیلاب رحمت کا بہاؤحضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی رحلت کے بعد بھی بڑی تیزی سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی مہربانیوں، شفقتوں اور دعاؤں کی صورت میں پوری آب و تاب سے جاری ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مستجاب اور مقبول دعاؤں کی وجہ سے آپ اور آپ کی نسلوں کے بخت ہمیشہ ہمیش کے لیے سنور گئے ہیں۔

اس تاریخی کتاب کو منظر عام پر لانے والی مصنفہ، مایہ ناز ادیب، عظیم دانشور، خوبصورت لہجے کی مالک شاعرہ محترمہ امۃ الباری ناصر صاحبہ آج کل ڈیٹرائٹ امریکہ میں مقیم ہیں۔ اللہ ان کو صحت وسلامتی والی لمبی عمر عطا فرمائے آمین۔ پرسکون بہتے دریا جیسی ان کی رواں دواں تحریر کا راز یہ ہے کہ اردو ادب میں سے نہ جانے کہاں سے مناسب حال الفاظ کا ذخیرہ ڈھونڈ لاتی ہیں کہ ان مقفع مسجع اور اچھوتے الفاظ کا چناؤ ان کی نثرنگاری اور شاعری میں ایسے رنگ بھر دیتا ہے کہ دُور سے بھی ان رنگوں کا ان کی تحریرات اور رشحات قلم میں رچاؤ اور شوخی نظر آتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ٹھوس علمی، ادبی اور صحافتی زبان کا امتزاج پڑھنے کو ملتا ہے اور ذوقِ لطافت کی تسکین کا باعث بن جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ معلومات کے خزانے اور ہیرے جواہرات مفت میں ملکیت بن جاتے ہیں۔ خاکسار نے اپنے صحافتی اور ابلاغی تجربے میں ایسی نادر اور نایاب تحریرات بہت کم دیکھی ہیں جن میں مذکورہ بالا اوصاف اور امتیاز شامل ہوں۔

اس مرقع ادب اور گہرے مطالب پر مشتمل کتاب کی ورق گردانی اور اس پر کچھ کہنے سے پہلے جماعت کی اس دیرینہ خادم، ادیب اور شاعرہ کی زندگی پر ایک اچٹتی ہوئی سی نظر ڈالتے ہیں تاکہ ان کے تعارف اور مقام و مرتبہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس کتاب کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ آپ نے بےشمار بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے آنے والی نسلوں کی بنیادیں مضبوط اور پائیدار بنائیں۔ اپنی پوری زندگی کو علم و عمل سے سجائے رکھااور ساتھ ہی باوقار اور بامقصد جماعتی خدمات سرانجام دے کر اللہ کے فضل، رحمتیں، برکتیں اور نعمتیں حاصل کرتی اور سمیٹتی چلی گئیں۔ 1956ء میں گہوارہ علم جامعہ نصرت ربوہ میں داخل ہوئیں۔ ایف اے سے ہی ہر مضمون میں اعلیٰ پوزیشن بلکہ اکثر پہلی پوزیشن حاصل کرتی رہیں، ہر بزم کی تقریبات، مباحثوں اور مشاعروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ان کا شیوہ تھا گویا اپنی درسگاہ کی محفلوں کی جان سمجھی جاتی تھیں۔ یہ دور طالب علمی انہوں نے بھرپور انداز میں گزارا، آج بھی یاد کرتے کرتے آنکھوں میں نمی لیے اُس دور کو اپنی زندگی کا بہترین دور کہتی ہیں۔ بی اے کے امتحان میں یونیورسٹی میں اردو میں فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے کی وجہ سے وظیفہ کی حقدار ٹھہریں، اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں دل لگا کر پڑھا۔ اس بنتِ درویش کو مطالعہ کتب کا اتنا ذوق و شوق تھا کہ لاہور کی ہر لائبریری کے اردو ادب کے حصے کی ہر کتاب پڑھ ڈالی۔ نیک نامی اور پردے کی پابندی کے ساتھ تعلیم مکمل کی اور ایم اے اردو میں پنجاب یونیورسٹی میں تیسری پوزیشن حاصل کرکے احمدی بچیوں کی تعلیمی کارکردگی میں ایک منفرد اعزاز حاصل کیا۔

1962ء میں جامعہ نصرت کے سٹاف میں بطور لیکچرار اردو شامل ہوکر اپنی بزرگ اساتذہ کی کولیگ بن گئیں۔ پہلی مرتبہ کالج کا مجلہ النصرت نکالا، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحب ایم اے اور حضرت چھوٹی آپا سے پیغامات لکھواکر اس میں شامل کیے اور پہلی مرتبہ ہی اداریہ بھی ضبط ِتحریر کیا۔ گویا یہ آپ کے اردو ادب کے عملی میدان میں پہلا قدم تھا۔ پڑھنے پڑھانے کے ساتھ ساتھ لجنہ اماء اللہ کی خدمات سرانجام دینے کی بھی سعادت حاصل ہوتی رہی۔ آل پاکستان لجنہ کے مقابلوں اور مقابلہ مضمون نگاری میں اوّل آتی رہیں۔ 63۔1962ء میں مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ میں سیکرٹری تعلیم، 64۔1963ءمیں سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ مرکزیہ کے عہدوں پر خدمات کا موقع ملا۔ پھر محترم ناصر احمد قریشی صاحب کے ساتھ شادی کے بعدکچھ شہروں میں اپنے میاں کے ساتھ مختصر قیام کے بعد کراچی مقیم ہوگئیں اور لجنہ کراچی میں خدمات شروع کیں۔ قیادت نمبر ایک کراچی کی 9سال جنرل سیکرٹری رہیں۔ آپ کو سیکرٹری اشاعت لجنہ کراچی نامزد کرکے جماعت احمدیہ کے صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر 100کتب کی اشاعت کا کام سپرد کیاگیا۔ اس اہم منصوبہ کے تحت آپ کو اپنی ٹیم کے ساتھ سو کتب کی ایڈیٹنگ اور پبلشنگ کی توفیق ملی جس میں بائیس کتب آپ نے لکھیں اور بائیس کتب مرتب کیں، 100 کے قریب ایم ٹی اے کے لیے پروگرامز ریکارڈ کرائے۔

جماعتی اخبارات و رسائل میں آپ کی نثری اور منظوم تحریرات گاہے بگاہے شائع ہوتی رہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے دعاؤں کے تحفے اور رہ نمائی کے بابرکت خطوط ان کی زندگی کا حاصل ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ منظوم کاوشوں اور نثر پاروں پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع  نے انتہائی شفقت سے اور دل کھول کر داد و تحسین سے نوازا۔ آپ کے منجھے ہوئے کلام کی انفرادیت اور جذب و اثر کی وجہ سے حوصلہ افزائی کے لیے آپ کو خلیفۃ المسیح کی طرف سے ڈھیروں ڈھیر تبرکات حاصل کرنے کی توفیق ملی۔ گویا یہ رتبہ بلند آپ ہی کے حصہ میں آیاہے۔ جس کی وجہ سے آپ اور آپ کی نسلیں بجا طور پر ناز کریں گی۔ اپنے شعرگوئی کے سفر کے آغاز کے بارے میں لکھتی ہیںکہ خاکسار کے شعر گوئی کے سفر کا آغاز طالب علمی کے زمانے سے ہوا۔ کالج و یونیورسٹی میں رنگینیٔ بزم کے لیے شریر نظمیں یا طرحی مشاعروں کے لیے گھڑی ہوئی غزلیں کہتے ہوئے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ میری بےساختہ فطری صلاحیت کسی گنتی اور شمار میں آ سکتی ہے۔ آپ نے علم و ادب میں ایسی ترقی کی کہ دربارِ خلافت سے پذیرائی ملنے کے ساتھ ساتھ آپ کا شمار جماعت احمدیہ کے چوٹی کے شعراء میں ہونے لگا۔

زیر نظر کتاب مبارک دادوتحسین کےمبارک تبصروں، آپ کے لجنہ کراچی کی مجاہدانہ قلمی خدمات کا مرقع100 کتب کی اشاعت کے سفر میں حاصل ہونے والی نعماء کی تحدیث نعمت اور آپ کی زندگی اور عمر رفتہ کے رموز پر مشتمل ہے۔ آئیے اس کتاب کے مندرجات پر مختصر سی نظر ڈالتے ہیں۔

پہلے باب میں آنحضرتﷺ کے طبقہ نسواں پر احسانات کا ذکر ہے۔ اگلا باب لجنہ کی اشاعتی خدمات، خلفائےکرام اور بزرگان سلسلہ کی نظر شفقت حوصلہ افزائی اور دعاؤں پر مشتمل ہے۔ لجنہ اماء اللہ مرکزیہ ربوہ اور پھر لجنہ کراچی کی خدمات کے دوران جو آپ نے فیض حاصل کیے ان کی روداد بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ کتاب کے حصہ اول میں خلافت رابعہ میں اشاعتی خدمات کی تفصیل اور اس کے مندرجات لجنہ اماء اللہ کی تاریخ کا سنہری باب ہیں جو اس کتاب کی زینت ہے۔ خدمات کا آغاز، مشکلات اور صبر آزما مراحل سے لے کر کامیابیوں تک کا سفر بہت سبق آموز اور قابل تقلید مثالوں سے مزین ہے۔ لیکن اصل مضمون تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی شفقتوں کے گرد ہی گھومتا ہے۔ اس دور کی یادوں کو آواز دیتے ہوئےمصنفہ لکھتی ہیںکہ یہ احساس کہ رؤوف و رحیم خداتعالیٰ کا نمائندہ ہمیں پیار سے دیکھ رہا ہے، ہمارا کام ان کی نظروں میں ہے، بڑی تقویت دیتا تھا۔ صد سالہ تاریخ احمدیت بطرز سوال وجواب کی اشاعت کے کارنامے کی روداد بھی شامل ہے۔ المحراب سووینیئر کےصد سالہ جشن تشکراور صد سالہ جلسہ سالانہ نمبرکے سلسلے میں لجنہ کراچی نمبر کی اشاعت پر سلسلہ کے بزرگان کے پُر تاثیر تبصرے اپنی مثال آپ ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی طرف سے ارسال کی گئی خاص طور پر المحراب لجنہ کراچی کے لیےپُرخلوص دعاؤں کے ساتھ خوبصورت تصویر بھی اس حصے کی زینت بڑھا رہی ہے۔ لجنہ کراچی کے اشاعتی سفر کی کہانی کا نقشہ بہت تفصیل سے کھینچا گیا ہے۔ ایک ایک کرکے بہار آفریں کتب کی اشاعت اور اس دوران آنے والی مشکلات اور اللہ کے فضل و کرم سے ان کا حل اور پیارے آقاکی خوشنودی اور رہ نمائی کے خطوط، بزرگان کے تبصرے اور ساتھ ساتھ جماعتی اخبارات یعنی الفضل انٹر نیشنل لندن اور الفضل ربوہ کے تعارفی نوٹ اور تجزیوں کا تڑکا شامل کرکے کتاب کے ان حصوں کو مزید خوشبوداراور پُر ذائقہ بنایا گیا ہے۔

لجنہ اماءاللہ کراچی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل وکرم سےاس دور کے سلطان القلم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا سلطانِ نصیر بن کے آپؑ کے قلمی جہاد کا عملی حصہ بنتے ہوئے بہت سی علمی، دینی اور تعلیم و تربیت کے خزانوں سے پُر کتب شائع کرنے کی خاردار اور لق و دق صحرا عبورکرنے جیسی مشکل مہمات سر کرنے کا اعزاز بخشا۔ اس سلطان القلم کے فیضان اورقلمی جہاد کو آگے بڑھانے اور جماعتی لٹریچر میں قیمتی کتب کا گرانقدر اضافہ کرنے پرجملہ ممبرات و صدور لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی اور اس اشاعتی مشن کی روح رواں اور مصنفہ کتاب ہٰذا محترمہ امۃ الباری ناصر صاحبہ خراج تحسین اور مبارکباد کی مستحق ہیں۔ ان راہوں پر چلتے ہوئے لجنہ کراچی کوبلا شبہ کئی مشکلات اور صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ملتے رہے اور کامیابیوں نے بھی قدم چومے۔ انہی کامرانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ مصنفہ یوں رقمطراز ہیںکہ کتب کی اشاعت کا کام جس تیز رفتاری سے جاری تھا، جس طرح ہر کام کے لیے سلطان ِ نصیر مل رہے تھےاور جس طرح آسمان سے مقبولیت کی ہوائیں چل رہی تھیں اس سے ہمارے دل شکر گزاری میں ہمہ وقت سجدہ ریز رہتے۔

2003ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی وفات ہوئی۔ اس حوالے سے مصنفہ لکھتی ہیںکہ ہمیں قدم قدم پر پل پل حضرت صاحب  کی شفقتوں کی عادت ہوگئی تھی بہت بڑا دھکا لگا ایسا خلا جو کبھی پُر نہیں ہوسکتا۔ یہ روداد جو میں لکھ رہی ہوں اس کا مقصد بھی خلیفہ وقت کی مہربانیوں کی وسعتوں کا ذکر کرنا ہے

مضمون کے حصہ دوم میں خلافت خامسہ کے مبارک دور میں لجنہ کراچی کی اشاعتی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جون 2003ء میں لجنہ کراچی کی کاوشوں سے حضرت مسیح موعودؑ کی پاکیزہ اور پُر معارف اردونظموں کا مجموعہ درثمین بہت خوبصورت اور دیدہ زیب انداز میں زیور طبع سے آراستہ ہوا تو سب سے پہلی کتاب پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا نام لکھا اور دعا کی درخواست کے ساتھ آپ کی خدمت اقدس میں تحفہ بھیجا تو حضور ایدہ اللہ نے اس پیشکش پر خوشنودی کا اظہار فرمایااور دعاؤں سے نوازتے ہوئے تحریر فرمایا:درثمین کا نیا نسخہ مل گیا ہے۔ ماشاء اللہ آپ لوگوں نے اس پر خوب محنت کی ہے۔ طباعت بھی عمدہ اور دیدہ زیب ہے۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔

لجنہ کراچی کے حصہ میں ایک سعادت یہ بھی آئی کہ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے پہلے شہید محتر م صاحبزادہ مرزا غلام قادر احمد پر ایک بہترین کتاب شائع کی، جس پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک مبسوط تبصرہ فرمایا اور خوشنودی کےاظہارکے ساتھ ساتھ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قادر سے میرا ذاتی تعلق بھی تھا آپ کی کتاب دیکھ کر تمام پرانی یادیں ذہن میں آنا شروع ہوگئیں۔

درثمین اردو، کلام محمود اور درثمین فارسی کے اشاعتی سفر کی روداد بھی خوب ہے۔ اعراب اور فرہنگ کے ساتھ درثمین فارسی شائع کرنے کا کام تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خود لجنہ کراچی کے سپرد فرمایا تھا جس کو انہوں نے کامیابی کے ساتھ بہت خوبصورت انداز میں چھاپ کر مکمل کیا۔

’’اک خاک کے ذرے پہ عنایات کا عالم‘‘کے عنوان کے تحت مصنفہ کی منظوم کوششوں پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی داد و تحسین اور دعائیں یکجا ہیں۔ حضور  کے اپنے دستِ مبارک سے لکھے ہوئے تبرکات کے عکس شامل کر کے چار چاند لگا دیے ہیں۔ آپ کی شعر گوئی اور علمی ذوق ہے ہی اس معیار کا کہ خلیفۃ المسیح سے داد وصول کرتا ہے۔ اس کے معیار کی بلندی کیسے ہوئی ؟ مصنفہ کی ہی زبانی سنیے، فرماتی ہیںکہ درثمین اردو، درثمین فارسی، کلامِ محمود، کلامِ طاہر اور بخارِ دل جیسے اعلیٰ مرتبہ کا منظوم کلام پوری توجہ سے ڈوب کر پچاسوں بار پڑھنے کی بدولت شعر کی لطافت، عرفان، چاشنی، شان، عظمت اور اثر کی انتہائی بلندیوں سے شناسائی ہوئی۔

اس باب کے ساتھ ہی دوسرے حصہ ’’دیکھ کر تجھ کو چمن بس کہ نمو کرتا ہے‘‘ میں آپ نے اپنی نثر ی کاوشوں پرحضرت خلیفہ رابع  کی طرف سے موصول ہونے والی حوصلہ افزائی اور دعاؤں کو اکٹھا کیا ہے۔

اہم علمی نکات پر اتنی کثیر تعداد میں مکتوباتِ طاہر کا جو مجموعہ آپ نے یکجا کیا ہے جماعتی لٹریچر میں اس انداز کی تاریخ اکٹھی کرنےکی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ حضور  کے ان پُرمعارف، پُرتاثیر اور مبارک خطوط کو پڑھتے پڑھتے انسان ان کی لطافت اور پاکیزگی میں ڈوب کر ایک نئی دنیا میں جا نکلتا ہے۔

محترم منیر احمد جاوید صاحب نے اس کیفیت کا نقشہ اپنے پیش لفظ میں بہت مہارت سے کھینچا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس کتاب میں جہاں جماعت کی تاریخ کے بہت سے ابواب خزانے کی شکل میں جمع کردیے گئے ہیں وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعکی سیرت اور سوانح کا ایک ایسا قیمتی خزانہ ہے کہ جو اسی کتاب کا خاصہ ہے کہ اور کہیں سے یہ سوغات ملنے کی نہیں۔

لجنہ کراچی کی محیر العقول کاوشوں پر مبنی بعض مطبوعات کے رنگین ٹائٹلز کے عکس بھی تاریخ میں محفوظ کرنے کے لیے شامل ہیں۔ جن کو دیکھ کر تیس سال میں منظر عام پر آنے والی کتب کی یادیں دماغ میں ایک بار پھر گھوم گئیں۔ جماعت کی مرکزی ویب سائٹ www.alislam.org پر ’’کتب لجنہ اماء اللہ کراچی ‘‘کے عنوان سے جملہ کتب میسر ہیں۔ اس عرصہ میں وفات پانے والی صدور اور ممبرات کو یاد کرتے ہوئے ان کا ذکر خیر ’’ ہم آپ کو بہت یاد رکھیں گے‘‘کے تحت عمدگی سے کیا گیا ہے۔ ایم ٹی اے کے لیے کراچی لجنہ کی پیشکش درثمین کے مشکل الفاظ اور درست تلفظ بھی دلچسپ ہے۔ وہ خواب جو بیداری میں دیکھا تھا، اُ س خواب کو بھی بیان کردیا گیا ہے۔ اس کی تفصیل یہاں اس لیے چھوڑ دی گئی ہے کہ قارئین خود اس کتاب میں پڑھیں گے تو زیادہ لطف اندوز ہوں گے۔ مصنفہ کی لندن کی طرف پرواز اور لمبے عرصہ کی پیاس بجھانے کا احوال اور اس کی روداد کیا ہی دلچسپ الفاظ میں پروئی گئی ہے۔ حضورسے ملاقات کے بارے میں یوں رقمطراز ہیںکہ ملے جلے جذبات سے مغلوب اشک اندر اُنڈیلنے کی کوشش میں تھی کہ آفس میں جانے کا اشارہ ہوگیا۔ صرف اتنا ہی بتا سکوں گی کہ وہاں ہزاروں منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ مٹھاس، ٹھنڈک، خوشبو، چاندنی، مامتا، نورِمجسم سے مل آئی۔ دفتر پر ایک نظر ڈالی، باہر جانے والے دروازے کے ہینڈل کو کچھ دیر تھام کر چھوڑ دیااور آگئی۔ کیا دیکھا، کیا سنا…۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعنے جو کام آپ کے سپرد فرمائے، ان میں سے چند کاموں کی تکمیل کا ذکر ’’تعمیلِ ارشاد‘‘ کے باب میں موجود ہے۔ یہ بھی ایک سعاد ت ہے کہ پیارے آقا کسی غلام کو اس قابل سمجھیں کہ ان کا حکم بجا لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ خوش قسمتی اور خوش بختی ہر ایک کے نصیب میں نہیں آتی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے لطف و کرم کی غیر معمولی عنایات پڑھیں تو پڑھتے چلے جائیں، کتاب ہاتھ سے چھوڑنے کو دل نہیں مانتا۔ کہیں حضور سے ٹیلی فون پر بات کرنے کی بارہا سعادت ملنا، کہیں مصنفہ کے گھرانے پر احسانات اور ہر فرد تک آپؒ کی دعاؤں کی برکتوں کا فیض اور پھر تبرکات کا حصول، یہ ہر کس و ناکس کی دسترس میں کہاں۔ حضور کی بلند پایہ شاعری اور پُر شوکت مضامین کا اندازہ آپ کو اُس وقت ہوا جب کلام طاہر کی نظر ثانی کے دوران حضور کے ارشادات اور رہ نمائی موصول ہوئی۔ اس شاہکار کی زیارت مصنفہ نے اس باب میں کرائی ہے۔ ایک جگہ لکھتی ہیںکہ پیارے حضور  نے نظموں کی اصلاح کرتے ہوئے جو حکمتیں سمجھا ئی ہیں وہ علوم کا ایک خزانہ ہیں۔ جن کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کسی چیز کو سرسری نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ حرف حرف اور لفظ لفظ کے مزاج کی تہ میں اُتر تے ہوئے مناسب جگہ پر استعمال فرماتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک مربوط فکری پس منظر ہوتا ہے۔

’’قلبِ طاہر کا درد اور دردمندی، کلام طاہر کی روشنی میں‘‘کا باب اپنی ذات میں خود ایک تفصیل ہےجو زبان حال سے ظاہر ہے۔ محترم منیر احمد جاوید صاحب نے اس کا ذکر اپنی تحریر میں بہت عمدگی اور مشاقی سے کیا ہے، ملاحظہ کریں:

اس میں انہوں (مصنفہ )نے بہت ہی خوبصورتی سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعکے کلام کا انتخاب پیش کیا ہے، جس سے ہر پڑھنے والا شعروں کے جھروکے سے اس دعا دعا چہرے اور سراپا محبت وجود کو جھانک کر دیکھ سکتا ہے اور محسوس کرسکتا ہے کہ خلیفۃ المسیح کا اپنی جماعت کے ایک ایک فرد سے کتنا پیار تھا اور کس قدر جماعت کا غم اور درد تھا، جس کا سینہ جواں مرگ امنگوں کا مزار تھا جو ایک زیارت گاہِ صدقافلہ ہائے غم و حزن تھا۔

قارئین کرام ! آخر پر جاتے جاتے آ پ کو اس کتاب کے آغاز میں لکھے گئے انتساب سے بھی آگاہ کرتے چلیں جو اس لیے بچا کر رکھا تھا کہ اس کا ذائقہ دیر تک منہ اور قلب و نظر میں باقی رہے گا۔ مندرجہ ذیل شعر کے ذریعےاندازہ لگائیں کہ اس کتاب کو کہاں منسوب کیا گیا ہے۔ پڑھیے اور سر دُھنیے۔

حقیر کاوش کا سارا حاصل کیا خلافت کے نام میں نے

اسی کے سائے میں لمحہ لمحہ سکون پایا مدام میں نے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button