خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍ فروری 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد ذوالنّورین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

حضرت عثمانؓ تو وہ انسان تھے جنہوں نے اسلام کی اتنی خدمات کی تھیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ وہ اب جو چاہیں کریں خدا ان کو نہیں پوچھے گا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ نیکی میں اس قدرترقی کرگئے تھے کہ یہ ممکن ہی نہیں رہا تھا کہ ان کا کوئی فعل اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہو

چار مرحومین مکرم عبدالقادر صاحب(شہید) بازیدخیل پشاور، مکرم اکبر علی صاحب اسیرِ راہِ مولیٰ آف شوکت کالونی ضلع ننکانہ صاحب، مکرم خالد محمود الحسن بھٹی صاحب وکیل المال ثالث و نائب صدر مجلس انصار اللہ پاکستان اور مکرم مبارک احمد طاہر صاحب مشیر قانونی صدرانجمن احمدیہ پاکستان کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍ فروری 2021ء بمطابق 26؍تبلیغ1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے مورخہ 26؍ فروری 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم عطاءالنور ہادی صاحب کے حصے میں آئی۔

تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت عثمانؓ کےزمانے کی فتوحات کا ذکرچل رہا تھا،آج وہی بیان کروں گا۔آپؓ کے عہدِ خلافت میں فتح طبرستان30؍ ہجری،فتح آرمینیا اور فتح خراسان 31؍ہجری اسی طرح موجودہ افغانستان کے بعض علاقے 32؍ہجری میں فتح ہوئے۔ اہلِ روم کے ساتھ معرکہ صواری 31؍یا 34؍ ہجری میں پیش آیا۔ 32؍ ہجری میں امیرمعاویہ بلادِ روم میں پیش قدمی کرتے ہوئے قسطنطنیہ کے دروازے پر جاپہنچے۔ حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی سرح ؓنے فرنگیوں یعنی فرنچ اور بربریوں کوافریقہ اور اندلس میں شکست دی تو رومی بڑے سیخ پا ہوئےاور قسطنطین بن ہرقل کے پاس جمع ہوکر مسلمانوں کے خلاف پانچ سو بحری جہازوں پر مشتمل عدیم المثال لشکر لے کر نکلے۔ دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو سخت مقابلہ ہوا اور بالآخر اللہ تعالیٰ کی نصرت سے مسلمانوں کوفتح نصیب ہوئی۔حضرت عثمانؓ کے دَور میں برِّصغیر پاک وہند میں تب اسلام پہنچا جب آپؓ نے حضرت عبیداللہ بن معمر ؓکو فوج کا ایک دستہ دے کر مکران اور سندھ کی طرف بھیجا جہاں فتوحاتِ مکران میں انہوں نے بہادری کے جوہر دکھائے۔ اسی طرح حضرت مجاشع بن مسعود سلمیؓ نے اسلامی فوج کے ایک دستے کی قیادت کرتے ہوئےموجودہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مخالفین اسلام سے جہاد کیا۔ اس زمانے میں کابل بلادِ ہند میں شمار ہوتا تھا۔ حضرت مجاشعؓ نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں مخالفینِ اسلام سے جنگ کی اور اس سے ملحقہ علاقے سجستان پر علَمِ اسلام لہرایا۔ جس کے بعد مسلمانوں نے برِّصغیر کے ان علاقوں میں سُکونت اختیار کرلی۔

حضرت عثمانؓ کے دَورِخلافت میں فتنوں کے متعلق آنحضرتﷺکی پیش گوئیاں بھی موجود ہیں۔ نبی کریمﷺ نےآپؓ سے فرمایا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایک قمیص پہنائے۔ اگر لوگ اسے اتارنے کا مطالبہ کریں تو اسے ہرگز نہ اتارنا۔ حضرت کعب بن عجرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ ایک قریب کے فتنے کا ذکر فرمارہے تھےکہ ایک شخص چادر سے سر ڈھانپے ہوئے وہاں سے گزرا۔ آپؐ نےفرمایااُس دن یہ شخص ہدایت پر ہوگا، اس پرمَیں نے چھلانگ لگا کراس شخص کو پکڑا تووہ حضرت عثمانؓ تھے۔ اسی طرح آنحضرتﷺ اپنی بیماری میں حضرت عثمانؓ سے تنہائی میں ملے اورآپؓ سے گفتگو فرمانے لگےجس پرعثمانؓ کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔’یوم الدّار‘ یعنی جس روز منافقین نے حضرت عثمانؓ کو گھر میں محصورکرکے انتہائی بےدردی سے شہید کردیا، اُس روز آپؓ نے فرمایا رسول اللہﷺ نے مجھے ایک تاکیدی ارشاد فرمایا تھا مَیں اس پر مضبوطی سے قائم ہوں۔

حضرت عثمانؓ کے دَورِ خلافت میں اختلافات کے آغاز اور اس کی وجوہات کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ دونوں بزرگ اسلام کے اولین فدائیوں میں سے ہیں۔ ان بزرگوں اور ان کے دوستوں کے متعلق جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ اسلام دشمنوں کی کارروائی ہے۔ نہ حضرت عثمانؓ نے اسلام میں کوئی بدعات شامل کیں اور نہ حضرت علیؓ خود خلیفہ بننا چاہتے تھے۔ حضرت عثمانؓ تو وہ انسان تھے جنہوں نے اسلام کی اتنی خدمات کی تھیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ وہ اب جو چاہیں کریں خدا ان کو نہیں پوچھے گا۔جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ نیکی میں اس قدرترقی کرگئے تھے کہ یہ ممکن ہی نہیں رہا تھا کہ ان کا کوئی فعل اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہو۔ آپؓ کی خلافت کے ابتدائی چھ سال میں کوئی فساد نظر نہیں آتا لیکن ساتویں سال میں آپؓ کے بعض گورنروں کےخلاف تحریک نظر آتی ہے۔ حضرت عثمانؓ لوگوں کے حقوق کا خیال رکھتے لیکن یہ لوگ سابقین اور قدیم مسلمانوں کے برابرتو نہ تھےچنانچہ اندر ہی اندر یہ لوگ صحابہؓ کے خلاف عوام میں جوش پھیلاتےرہے۔ ان لوگوں کا مرکز کوفہ میں تھا مگر اباحتی خیالات کے تابع شریعت پر عمل کرنے کو فعلِ عبث سمجھنے والے یہ لوگ مدینے تک پہنچ چکے تھے۔یہ سب شورش ایک خفیہ منصوبہ کا نتیجہ تھی جس کے اصل بانی یہودی تھے اور یہ سازشی عناصر خوب جانتے تھے کہ آپؓ کی حکومت میں کوئی ظالم کم زور اور بےوارثوں پر ظلم و تعدی نہیں کرسکتا۔ حضرت عثمانؓ نے مفسدوں اور صحابۂ کرام کو جمع کیا جہاں مخبروں نے مفسدوں کی موجودگی میں ان کی سازشوں کاحال بیان کیا۔ اس پر سب صحابہؓ نے ان لوگوں کے قتل کا فتویٰ دیا لیکن حضرت عثمانؓ نے ان سے صرفِ نظر فرمایا اور ان کے لغو اور بےسروپا اعتراضات کا باری باری جواب دیا۔ صحابہؓ ان مفسدوں سے بالکل متنفر تھے وہ دیکھتے تھے کہ ان لوگوں کو جلد سزا نہ دی گئی تواسلامی حکومت تہ وبالا ہوجائے گی۔ مگر حضرت عثمانؓ رحمِ مجسم تھے وہ چاہتے تھے کہ ان لوگوں کو ہدایت مل جائے اور یہ کفر پر نہ مریں۔چاہیے تو یہ تھا کہ یہ شرپسند آپؓ کے عفو کو دیکھتے ہوئے اپنے گناہوں سے توبہ کرتے،جفاؤں پر پشیمان ہوتےلیکن یہ لوگ غیض و غضب کی آگ میں اور بھی زیادہ جلنے لگے اورآئندہ کے لیے اپنی بقیہ تجویز کےپورا کرنے کی تدابیر سوچتے ہوئے واپس چلے گئے۔

حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت کا یہ تذکرہ آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد خطبے کے دوسرے حصّے میں 4مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

پہلاذکر مکرم عبدالقادر صاحب ابن بشیراحمدصاحب بازیدخیل پشاورکاتھا جنہیں 11؍ فروری کو 65 برس کی عمر میں شہید کیا گیا۔

اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

شہید مرحوم اپنے چچا کے کلینک پر کام کرتے تھے جہاں دیگر احباب کے ساتھ کمرے میں ظہر کی نماز ادا کرنے لگے تھے کہ گھنٹی بجی جس پر آپ نے دروازہ کھولا تو سامنے کھڑے لڑکے نےآپ پر فائرنگ کردی۔ جنوری 2009ء میں اسی کلینک پر حملہ ہونے پر شہید مرحوم کی ٹانگ پرگولی لگی تھی۔ آپ نمازِ تہجد اورتلاوت قرآن کے پابند،دعوتِ الیٰ اللہ کا جوش رکھنے والے،خلافت کے شیدائی، نہایت شفیق اور ملنسار طبیعت کے مالک تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چاربیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔

دوسرا ذکر مکرم اکبر علی صاحب اسیرِ راہِ مولیٰ ابن ابراہیم صاحب آف شوکت کالونی ضلع ننکانہ صاحب کا تھا۔ مرحوم 16 فروری کوشیخوپورہ جیل میں بحالتِ اسیری 55 برس کی عمر میں بوجہ ہارٹ اٹیک وفات پاگئے۔

اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذآپ کے والد کے ذریعے 1920ء میں ہوا تھا۔ مرحوم فوج سے بحیثیت حوالدار ریٹائرڈ ہوئے تھے۔دعوتِ الیٰ اللہ کا شوق رکھنے والے، مہمان نواز، غریبوں کے ہمدرد تھے۔ پسماندگان میں دو بیوگان ایک بیٹا اور ایک بیٹی شامل ہیں۔

تیسرا ذکرِ خیر مکرم خالد محمود الحسن بھٹی صاحب وکیل المال ثالث، نائب صدر انصار اللہ پاکستان اور نائب افسر جلسہ سالانہ ربوہ کا تھا جو 67 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔

اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم نے پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور تاریخ میں ایم اے کیا پھر دو سال سرکاری ملازمت میں بطور لیکچررکام کیا۔جہاں سے استعفیٰ دے کر 1982ءمیں زندگی وقف کردی اور مختلف حیثیتوں میں تقریباً 38سال خدمت کی توفیق ملی۔ انڈونیشیا،سنگاپور،برما، سری لنکا، نیپال اور یوگنڈا وغیرہ ممالک کے دورہ جات کا بھی موقع ملا جہاں جماعتی نظام اور خلافت سے مضبوط تعلق استوار کرنے کے لیے بڑی گہرائی میں جاکرکام کیا۔ خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ کی مرکزی عاملہ اور قضا بورڈ سمیت مختلف کمیٹیوں کے ممبر رہے۔ جماعتی اموال کی حفاظت کرنے والے، خلافت کے وفادار اور جماعتی روایات کے امین تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹے خرم عثمان صاحب واقفِ زندگی اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔

اگلا ذکرِ خیر مکرم مبارک احمد طاہر صاحب مشیر قانونی صدرانجمن احمدیہ کا تھا جو 17؍فروری کو 81برس کی عمر میں وفات پاگئے۔

اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد محترم صوفی غلام محمد صاحب کے ذریعے 1927ءمیں آئی۔ مرحوم نے ایم اے اکنامکس اور ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کرنے کےبعدایک خواب کی بِنا پر1970ءمیں زندگی وقف کی۔ پچاس سال سے زائد عرصۂ خدمت میں وکالت مال علیااوروکالت مال ثانی میں کام کرنے کے علاوہ مشیرِ قانونی تحریکِ جدید اور یوگنڈا میں بطور ٹیچر خدمت کی توفیق ملی۔حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے لاہور میں مختلف وکلا ءکے ساتھ انکم ٹیکس اور جائیداد کےکام کی ٹریننگ دلوائی۔1983ءمیں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نےآپ کو مشیرِ قانونی صدر انجمن احمدیہ مقرر فرمایا تاوفات آپ اسی خدمت پر مامور تھے۔دوسروں کا دکھ بانٹنے والے،خوش مزاج، نوافل اور تلاوت کےعادی، درود شریف بکثرت پڑھنے والے بڑے ہمدرد انسان تھے۔ حضورِانور نے فرمایا : جب مَیں ناظرِ اعلیٰ تھا اور اس سے پہلے بھی بعض معاملات میں ان کے ساتھ واسطہ پڑا۔ بڑا توکل تھا ان میں، خلیفۂ وقت کی دعاؤں پر بڑا یقین تھا ہمیشہ صدقہ و خیرات اور دعاؤں کے ساتھ کام شروع کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مالی کشائش بھی عطا کی تھی اور اس سے ہمیشہ غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کیا کرتےتھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چار بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ ایک بیٹے حافظ اعجاز احمد طاہر صاحب مربی سلسلہ اور استاد جامعہ احمدیہ یوکے ہیں جبکہ ایک اور واقفِ زندگی بیٹے نصر احمد طاہر ریویو آف ریلیجنز کینیڈا میں کام کر رہے ہیں۔

حضورِانور نے تمام مرحومین کی بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی اور ان کا نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button