حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مسیح موعودؑ نے امّت مسلمہ میں سے ہی آنا تھا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

پس آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عیسائیوں کو چیلنج کیا ہے۔ عیسائیت جس تیزی سے پھیل رہی تھی یہ آپؑ ہی ہیں جنہوں نے اس کو روکا ہے۔ ہندوستان میں اس زمانے میں ہزاروں لاکھوں مسلمان عیسائی ہو رہے تھے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی تھے جنہوں نے اس حملے کو نہ صرف روکا بلکہ اسلام کی ساکھ دوبارہ قائم کی۔ پھر افریقہ میںجماعت احمدیہ نے عیسائیت کی یلغار کو روکا۔ اسلام کی خوبصورت تصویر دکھائی، ہزاروں لاکھوں عیسائیوںکو احمدی مسلمان بنایا۔ تو یہ تھے مسیح کے کارنامے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دکھائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک آپؑ کی دی ہوئی تعلیم اور دلائل کے ساتھ جماعت احمدیہ دلوں کو جیتتے ہوئے منزلیںطے کرر ہی ہے اور انشاء اللہ کرتی چلی جائے گی۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ ایک دن یہ لوگ مایوس ہو کررجوع کریں گے۔

تو یہ ہے وضاحت اس بات کی کہ کس طرح ان لوگوں کے دجل اور فریب کو ختم کر نا ہے۔ یہ ہے خنزیر کو قتل کرنے اور صلیبوں کو توڑنے کا مطلب اور دجال سے مقابلے کا مطلب، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے۔ آج بھی جیسا کہ مَیں نے کہا جماعت احمدیہ ہی ہے جو ہر جگہ عیسائیت کا مقابلہ کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ٹی وی پر ایک پروگرام آ رہا تھا شاید جیو یا ARY پر،یا اسی قسم کے کسی ٹی وی پر جوایشیا سے آتے ہیں تو اس میں ایک علامہ ڈاکٹراسرارصاحب یہ فرما رہے تھے کہ کیونکہ مسلمان علماء جاہل تھے اور دینی علم بالکل نہیں تھا۔ نہ قرآن کا علم تھا ،نہ بائبل کا علم تھا اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ایک علمی آدمی تھے، بائبل کا علم بھی رکھتے تھے، دوسرے مذاہب کا علم بھی رکھتے تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے اس وقت عیسائیوں کا مقابلہ کیا اور ان کا منہ بند کر دیا۔ ان کے الفاظ کامفہوم کچھ اس قسم کا تھا۔ تو بہرحال یہ تو انہوںنے تسلیم کر لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی (جیسا کہ خود آپؑ نے فرمایا) دلائل قاطعہ کے ذریعہ سے، مضبوط دلائل کے ذریعہ سے ان کو ردّ کیا وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہی ہیں جنہوں نے اس وقت عیسائیت کے حملے روکے اور مسلمانوں کو عیسائی ہونے سے بچایا۔ آگے وہ اپنی اوٹ پٹانگ مختلف وضاحتیں کر رہے ہیں، مختلف وضاحتیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف بھی کچھ بولے کہ مسیح نہیںہو سکتے۔ بہرحال یہ تو آج تک مانا جاتا ہے کہ اگر عیسائیت کے مقابلے پر کوئی کھڑا ہوا اور اس کی تعلیم کو دلائل سے ردّ کیا تو وہ ایک ہی پہلوان تھا جس کا نام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔

پس چاہے یہ لوگ آج تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے ایک دن ان کو ماننا پڑے گا کہ یہ مسیحی دلائل ہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دئیے اور جنہوں نے دجّال کا خاتمہ کیا اور آپؑ ہی مسیح موعود ہیں۔

مسیح موعودؑ نے امّت مسلمہ میں سے ہی آنا تھا

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس حدیث کا غلط اور ظاہری مطلب لینے کی وجہ سے مسلمان ابھی تک مسیح کا انتظار کر رہے ہیںکہ مسیح ابن مریم آسمان سے فرشتوں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے اترے گا۔ اس کو مزید کھولتے ہوئے کہ ان کا یہ مطلب غلط ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حدیث ہی سے وضاحت فرمائی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’منجملہ ان دلائل کے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں جو آنے والے مسیح جس کا اس امت کے لئے وعدہ دیا گیا ہے وہ اسی امت میں سے ایک شخص ہو گا بخاری اور مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں

اِمَامُکُمْ مِّنْکُمْ

اور

اَمَّکُمْ مِّنْکُمْ

لکھا ہے جس کے یہ معنی ہیں وہ تمہارا امام ہو گا اور تم ہی میں سے ہو گا۔چونکہ یہ حدیث آنے والے عیسیٰ کی نسبت ہے اور اسی کی تعریف میں اس حدیث میں حکَم اور عَدَل کا لفظ بطور صفت موجود ہے جو اس فقرہ سے پہلے ہے اس لئے امام کا لفظ اسی کے حق میں ہے۔ اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اس جگہ مِنْکُم کے لفظ سے صحابہ کو خطاب کیا گیا ہے۔ اور وہ وہی مخاطب تھے لیکن ظاہر ہے کہ ان میں سے تو کسی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اس لئے مِنْکُم کے لفظ سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو خداتعالیٰ کے علم میں قائمقام صحابہ ہے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ صحابہ کا قائمقام ہے۔ ان کی جگہ پر ہے۔’’ اور وہ وہی ہے جس کو اس آیت مفصّلہ ذیل میں قائمقام صحابہ کیا گیا ہے ۔ یعنی یہ کہو

َاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ۔(آیت 4۔5)۔

کیونکہ اس آیت نے ظاہر کیا ہے کہ وہ رسول کریمؐ کی روحانیت سے تربیت یافتہ ہے۔ اور اسی معنے کی رو سے صحابہ میں داخل ہے اور اس آیت کی تشریح میں حدیث ہے

لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ فَارِس۔

اور چونکہ اس فارسی شخص کی طرف وہ صفت منسوب کی گئی ہے جومسیح موعود اور مہدی سے مخصوص ہے یعنی زمین جو ایمان اور توحید سے خالی ہو کر ظلم سے بھر گئی ہے پھر اس کو عدل سے پر کرنا لہٰذا یہی شخص مہدی اور مسیح موعود ہے اور وہ میں ہوں‘‘۔

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17۔صفحہ 114۔115)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button