متفرق مضامین

یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (قسط سوم)

(عمانوایل حارث)

[تسلسل کے لیے دیکھیں اخبار الفضل انٹرنیشنل9؍فروری 2021ء]

برطانوی سیاح مسٹرڈ کسن کی قادیان میں آمد

Mr Dickson

17؍نومبر1901ء

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا دستور مبارک تھا کہ اپنے خدام کے ساتھ صبح سیر کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ دربار شام میں تو حضور علیہ السلام شام کو مسجد مبارک میں رونق افروز ہو کر اپنے مقدس کلما ت سے نوازتے تھے اور صبح کی سیر کے دوران میں علم ومعرفت کے پھول بکھیرتے۔ یہ بھی گویا ایک چلتا پھرتا دربار تھا جس میں یہ روحانی شہنشاہ تقریروں سے اپنے عشاق کی تشنگی بجھاتا اور ان کو ایک زندہ ایمان عطا فرماتا۔

17؍نومبر1901ء کا واقعہ ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام حسب معمول سیر کے لیے گئے۔ راستہ میں حضرت میر ناصر صاحبؓ نے (ایک عزیز کے نام ) اپنا ایک تبلیغی خط سنانا شروع کیا۔ خط کافی لمباتھا جو حضور علیہ السلام کے واپس گھر پہنچنے پر بھی ختم نہ ہواتھا۔ لہٰذا حضور علیہ السلام حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے مطب میں بیٹھ گئے۔ حضرت میر صاحبؓ کے عزیز نے اپنے خط میں ترکوں کی مذمت کی تھی۔ حضرت میر صاحب اس کا معقول جواب سنارہے تھے کہ حضرت اقدسؑ نے اس پر روشنی ڈالی۔ چنانچہ فرمایا:

’’اگر چہ ہمار ے نزدیک

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات:14)

ہی ہے اور ہمیں خواہ مخواہ ضروری نہیں کہ ترکوں کی تعریف کریں یا کسی اَورکی، مگر سچی اور حقیقی بات کے اظہار سے ہم رک نہیں سکتے۔ تُرکوں کے ذریعہ سے اسلام کو بہت بڑی قوت حاصل ہوئی ہے…غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں خدا تعالیٰ نے دو ہی گروہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایک تُرک، دوسرے سادات۔ تُرک ظاہر ی حکومت اور ریاست کے حقدار ہوئے اور سادات کو فقر کا مبداء قرار دیا گیا؛ چنانچہ صوفیوں نے فقر اور رُوحانی فیوض کا مبداء سادات ہی کو ٹھہر ایا ہے اور مَیں نے بھی اپنے کشف میں ایسا ہی پایا ہے۔ دنیا کا عروج ترکوں کو ملاہے۔ ‘‘

حضورؑ یہ ذکر فرما ہی رہے تھے کہ ایک یورپین !السلام علیکم کہتے ہوئے مطب میں آپہنچے اُن کے السلام علیکم کہنے پر مختلف خیال حاضرین کے دل میں گزرے۔ کسی نے تُرک سمجھا اور کسی نے نَو مُسلم۔ صاحب موصُوف کو بیٹھے ہوئے ایک منٹ ہی گزرا ہوگا کہ خان صاحب نواب خاں صاحب تحصیلدار گجرات نے پُوچھا: آپ کہاں سے آئے ہیں ؟جس پر یورپین نےجواب دیا کہ مَیں سیاح ہوں۔

خان صاحب نےپوچھا کہ آپ کا وطن؟یورپین نے جواب دیا کہ مَیں اتنی اُردو نہیں جانتا اور پھر سمجھ کر بولا۔ او ہاں انگلینڈ۔

اتنے میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب آگئے۔ حضرت اقدس علیہ السلام کے ایماء سے وہ ترجمان ہوئے اور اس طرح پر حضرت اقدسؑ اور یورپین نو وارد میں حسب ذیل گفتگو ہوئی:

’’حضرت اقدسؑ : آپ کہاں سے آئے ہیں ؟

یورپین : میں کشمیر سےکُلُّوگیا تھا اور وہاں سے ہو کر اب یہاں آتا ہوں۔

حضرت اقدسؑ : آپ کا اصل وطن کہاں ہے ؟

یورپین : انگلینڈ۔ میں سیاح ہوں۔ اور عرب اور کربلا بھی گیا تھا۔ اب مَیں یہاں سے مصؔر، الجیریا، کارتھیج اور سوڈان کو جاؤں گا۔

حضرتؑ : آپ کے سفر کا کیا مقصد ہے؟

یورپین : صرف دید، شنید، سیاحت۔

حضرت اقدسؑ : کیا آپ بحیثیت کسی پادری کے سفر کرتے ہیں ؟

یورپین : ہرگز نہیں۔

حضرتؑ : آپ کی دلچسپی زیادہ تر کس امر کے ساتھ ہے۔ کیا مذہب کے ساتھ یا علمی امور کی طرف یا پولیٹیکل امور کے ساتھ۔

یورپین : میں صرف نظارہ ٔ عالم دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ کسی طرح دلِ مُضطر کو قرار ہو۔

حضرتؑ: آخر آپ کے سفر کی کوئی غرض بھی ہے؟

یورپین : کوئی مدّعا نہیں۔

حضرتؑ: کیا آپ فری میسن ہیں ؟

یورپین : میں ان میں یقین نہیں رکھتا۔ بلکہ میں اپنا آپ ہی بادشاہ ہوں اور آپ ہی اپنا لاج ہوں۔ مَیں سب کا دوست ہوں اور کسی کا دشمن نہیں۔

حضرتؑ: آپ کا نام کیا ہے؟

یورپین : ڈی۔ ڈی۔ ڈکسن۔

حضرتؑ: عیسائی فرقوں میں سے آپ کس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ؟

یورپین : میں کسی فرقہ کا پابند نہیں ہوں۔ میرا اپنا مذہب خاص ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جس میں صداقتیں نہ ہوں۔ میں ان سب مذاہب میں سے صداقتوں کو لے کر اپنا ایک الگ مذہب بناتا ہوں۔

حضرتؑ : اگرآپ کا کوئی مذہب نہیں تو یہ مجموعۂ انتخاب بھی تو ایک مذہب ہی ہونا چاہیے۔

یورپین : ہاں اگر اسے مذہب کہنا چاہیے، تو میرا یہی مذہب ہے کہ مختلف صداقتیں لیتا ہوں۔

حضرتؑ: اچھا، جو مذہب آپ نے مختلف مذاہب کی صداقتوں کو لے کر جمع کیا ہے وہ غلطیوں سے بالکل منزہ ہے یا کوئی اَور مذہب بھی ایسا آپ کے نزدیک ہے جو بالکل غلطیوں سے مبرا ہو؟

یورپین : جو مذہب میں نے جمع کیا ہے وہ تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے اچھا ہے اور وہ مسیحؑ کی اس تمثیل کے اس اصول پر ہے جو اُس نے کسی مالدار آدمی کی بیان کی ہے کہ اس نے اپنے نوکروں کو کچھ روپیہ دیا ۔ان میں سے ایک نے تو اس روپیہ کو کسی مصرف میں لگایااور کچھ بنایا۔ دوسرے نے کچھ نہ کیا۔ پس خدا نے جو کچھ ہم کو دیا ہے اگر ہم اس سے کچھ بنائیں تو وہ خوش ہوتا ہے اور جو کچھ نہیں بناتا اس سے ناراض ہوتا ہے۔

حضرتؑ: اچھا! آپ کچھ روز یہاں قیام کریں گے؟ تاکہ آپ ہمارے مذہب سے جو ہم پیش کرتے ہیں۔ فائدہ اٹھائیں۔

یورپین : میں ایک دن کے بعد واپس جانا چاہتا ہوں اور زیادہ سے زیادہ کل تک ٹھہر سکتا ہوں۔

حضرتؑ: آپ ایک ہفتہ تک نہیں ٹھہر سکتے؟

یورپین : نہیں میں نہیں ٹھہر سکتا۔ مسٹر کینڈی ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس بٹالہ میں میرے منتظر ہوں گے۔ مَیں انہیں آج آنے کو کہہ آیا، مگر خیر کل چلا جاؤں گا۔

حضرتؑ: جب آپ کسی کے نوکر نہیں اور اپنے آپ ہی بادشاہ ہیں اور صرف نظارۂ عالم کے لیے آپ نکلے ہیں تو پھر کیوں آپ ایک ہفتہ تک نہیں ٹھہر سکتے؟

یورپین : یہ سچ ہے مگر میں نے اپنے پیش نظر کُل دنیا کا دیکھنا رکھا ہے۔ اگر میں اس طرح پر ٹھہرنے لگوں تو مجھے اندیشہ ہے کہ بہت سی دلچسپیاں مجھے ٹھہراتی جائیں گی۔

حضرتؑ: آپ کے چہرہ سے اچھے آثار نظر آتے ہیں اور آپ سمجھدار اور زیرک معلوم ہوتے ہیں۔ کیا اچھا ہو کہ آپ ایک ہفتہ یہاں رہ جاویں اور ہماری باتوں کو سمجھ لیں۔ اگر آپ کا ارادہ ہو اور آپ پسند کریںتو صاحب کو ایک چٹھی لکھ دی جاوے۔

یورپین : میں آپ کا بہت مشکور ہوں اور مجھے افسوس ہے کہ میں ایک دن سے زیادہ نہیں ٹھہر سکتا۔ ‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ580تا582، ایڈیشن1988ء)

حضرت ا قدسؑ یہ ہدایت دے کر کہ شیخ مسیح اللہ خانساماں ان کے حسب منشاء کھانا تیار کریں اور ان کو گول کمرہ میں ٹھہرایا جائے اندرون خانہ تشریف لے گئے۔ حضرت شیخ مسیح اللہ صاحبؓ 313 اصحاب میں سے ایک تھے۔ آپ کا تعلق بھارت کے صوبہ اترپردیش کے مشہور شہر اترپردیش سے تھا۔ آپ کو بطور خانساماں مہتمم محکمہ انہار ملتان ملازمت کے دوران احمدیت کا پیغام پہنچا۔ اور آ پ کو ایک لمبا عرصہ انگریزوں کی خانسامہ گیری کرنے کا تجربہ تھا اسی لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مہمان کو اچھا اور من پسند کھانا مہیا کرنے کے لیے آپ کا انتخاب فرمایا۔

مسٹر ڈکسن کو مولوی محمد علی صاحب اور بعض دوسرے احباب مدرسہ تعلیم الاسلام دکھانے لے گئے۔ سکول کی لائبریری میں ناٹووچ روسی سیاح کی کتاب ’’مسیح کی نامعلوم زندگی کے حالات ‘‘دیکھ کر ڈکسن نے مطالعہ کی خواہش ظاہر کی جسے پورا کر دیا گیا۔ کتاب لیے وہ گول کمرے میں آئے جہاں حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ اور مولوی محمد علی صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ مناسب رنگ میں انہیں تبلیغ کرتے رہے۔ مسیح کی قبر کشمیر، عربی ام الالسنہ اور جماعت احمدیہ کی امتیازی خصوصیات کے بارے میں خصوصاً گفتگو ہوتی رہی۔

عصر کی نماز کے بعد انہوں نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے تین فوٹو لیے دو فوٹو آپ کے خدام کے ساتھ اور ایک فوٹو صرف آپ کا الگ لیا۔

دوسرے دن صبح چونکہ ڈکسن صاحب نے بٹالہ کی طرف واپس جاناتھا اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ان کی مشایعت کے لیے بٹالہ کی طرف ہی سیر کو نکلے اور نہر کے پل تک تشریف لے گئے اور انہیں الوداع کہا۔ دوران سیر حضورؑ نے ڈکسن صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے ایک پُرجوش تقریر فرمائی جس میں اپنے دعویٰ کی غرض و غایت بتائی کہ پاک زندگی جو گناہ سے بچ کر ملتی ہے وہ ایک لعل تاباں ہے جو کسی کے پاس نہیں ہے۔ ہاں خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے کہ میں دنیا کو ا س لعل تاباں کے حصول کی راہ بتادوں۔ اس راہ پر چل کر میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہر ایک شخص یقین کو حاصل کرے گا۔ فلاسفر آسمان اور زمین کو دیکھ کر اور دوسرے مصنوعات کی ترتیب ابلغ و محکم پر نظر کرکے صرف اتنا بتاتا ہے کہ کوئی صانع ہونا چاہیے۔ مگر میں اس سے بلند تر مقام پر لے جاتاہوں۔

ملفوظات جلد دوم صفحہ 8تا25کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں بھی بعض دلچسپ باتیں ہوتی رہیں۔

مسٹر ڈکسن پر حضور کی پُر معارف تقریرکا اتنا اثر ہوا کہ اس نے کہا کہ

’’میں نےآپ کا مدّعا خوب سمجھ لیا ہے اور مَیں آپ کویقین دلاتا ہوںکہ جہاں کہیں مَیں جاؤں گا مَیں یورپین لوگوں میں اس کا تذکرہ کروں گا۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ24، ایڈیشن 1988ء)

اس تقریر کو ختم کرتے نہر کا پل آگیا۔ یہاں پہنچ کر مسٹر ڈکسن روانہ ہوگیا۔

مسٹر ڈ کسن حضرت مسیح موعودؑ کے دینی خیالات، آپ کے حسن سلوک اور مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوئے اور بالخصوص یہ دیکھ کر تو ان کی عقل دنگ رہ گئی کہ کس طرح آپ کی شخصیت نے ایک چھوٹے سے گاؤں میں جس میں دنیاوی اعتبار سے کوئی کشش موجود نہیں مشرقی و مغربی علوم کے ماہر جمع کر دیے ہیں۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button