حاصل مطالعہ
وصیت معیار ہے ایمان کے کامل ہونے کا
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :
’’وصیت کی تحریک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اور اس کے ساتھ بہت سے انعامات وابستہ ہیں۔ ابھی تک جنہوں نے وصیت نہ کی ہووہ کر کے اپنے ایمان کے کامل ہونے کا ثبوت دیں۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے جو شخص وصیت نہیں کرتا مجھے اس کے ایمان میں شبہ ہے۔ پس وصیت معیار ہے ایمان کے کامل ہونے کا۔ مگر دسویں حصہ کی وصیت اقل ترین معیار ہے۔ یعنی یہ تھوڑے سے تھوڑا حصہ ہے۔ جو وصیت میں دیا جاسکتا ہے۔ مگر مومن کو یہ نہیں چاہئے کہ چھوٹے سے چھوٹے درجہ کا مومن بننے کی کوشش کرے بلکہ بڑے سے بڑے درجہ کا مومن بننا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ رشتہ داروں اور لواحقین کو مدنظر رکھ کر کہا گیا ہے کہ 3/1حصہ سے زیادہ وصیت میں نہ دے۔ لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ دسویں حصہ سے زیادہ وصیت نہ دے۔ مگر دیکھا گیا ہے کہ اکثر دوست 10/1حصہ کی وصیت کرنے پر کفایت کرتے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید ان کا خیال ہو کہ وصیت کا مفہوم دسویں حصہ کی وصیت کرنا ہی ہے۔ حالانکہ یہ ادنیٰ مقدار بیان کی گئی ہے اور مومن کے لئے یہی بات مناسب ہے کہ جس قدر زیادہ دے سکے دے۔ ایمان اور مومن کی شان کو مدنظر رکھتے ہوئے تو یہی ہونا چاہئے۔ جو وصیت کرے 3/1حصہ کی وصیت کرے۔ ہاں جو اتنا حصہ مجبوراً نہ دے سکے۔ وہ اس سے کم دیدے۔ پس اصل وصیت 3/1حصہ کا نام ہے ہاں جو نہ دے وہ اس سے کم 10/1حصہ تک دے سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر ایک شخص اپنی موت کا نظارہ اپنی آنکھوں کے سامنے لائے اور اپنی حالت پر نظر کرے تو اسے معلوم ہوکہ مجھ سے بے شمار غلطیاں اور کمزوریاں سرزد ہوچکی ہیں اب مرنے کے وقت تو مجھے خدا تعالیٰ سے صلح کر لینی چاہئے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ7؍مئی1926ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 10صفحہ 167)
(مرسلہ:م۔ ا۔ شہزاد)
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی خود نوشت سوانح کا خاکہ
روایت : حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ ولد مفتی عنایت اللہ صاحب سکنہ بھیرہ ضلع شاہ پور حال قادیان دارالامان
عاجز راقم محمد صادق (ولد مفتی عنایت اللہ صاحب مرحوم فیض بی بی صاحبہ مرحومہ) بھیرہ ضلع شاہ پور میں 11جنوری 1872ء میں پیدا ہوا جس کے رو سے 11جنوری 1938ء کو آج میری عمر چھیاسٹھ (66)سال (سڑسٹھ) (67)ہو گئی ہے۔
انٹرنس تک بھیرہ میں تعلیم پائی اس کے بعد ایف اے کا امتحان جموں ہائی سکول میں مدرس ہونے کے زمانہ میں پرائیویٹ طور پر پاس کیا 1890ء میں جموں میں ریاست کے مدرسہ میں مدرس ہو گیا۔
1890ء میں وہاں کی ملازمت ترک کرکے لاہور انجمن حمایت اسلام کے مدرسہ میں مدرس ہو گیا ۔
اسی سال انجمن کی ملازمت چھوڑ کر لاہور دفتر اکوٹنٹ جنرل میں کلرک ہو گیا جس سے مستعفی ہو کر 1901ء میں قادیان ہائی سکول میں پہلے سیکنڈ ہیڈماسٹر، بعد میں ہیڈ ماسٹر ہو گیا۔
1905ء میں اخبار بدر کا ایڈیٹر و مینیجر مقرر ہوا۔
1914ء میں اخبار بدر کے بند ہو جانے پر حضرت خلیفہ ثانی نے مبلغ مقرر کیا۔
1915ء میں حیدر آباد دکن میں کتاب تحفۃ الملوک لے کر تبلیغ کی۔
1916ء میں مدراس میں پارہ اول قرآن شریف کا انگریزی ترجمہ چھپوایا۔
1917ء میں مبلغ ہو کر 6؍اپریل کو لندن پہنچا ۔تین سال وہاں تبلیغ کی۔
1920ء میں امریکہ بھیجا گیا وہاں چار سال تبلیغ کا کام کیا۔
1923ء کے آخر میں امریکہ سے واپس ہندوستان اور صدرانجمن کا سیکرٹری مقرر ہوا۔
1934ء میں پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح (الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز) مقرر ہوا۔
جولائی 1937ء میں بہ سبب علالت طبع نظارت کے کاموں سے سبکدوش کیا گیا اور پنشن مقرر ہو گئی۔
مفصلہ ذیل کتابیں تصنیف و تالیف کیں
1 واقعات صحیحہ (متعلق پیر صاحب گولڑوی)
2۔ تحفہ بنارس (اہل ہنود کو تبلیغ)
3۔ کفارہ (رد عیسائیت)
4۔ آئینہ صداقت
5۔ زاملہ (بزبان انگریزی)
6۔ تحقیقات جدید متعلق قبر مسیح
7۔ ذکر حبیب
8۔ بائیبل کی بشارات متعلق سرور کائنات
9۔ مقصد حیات
10۔ تحدیث بالنعمت
11۔ نولکھا ہار ( اہل لکھنو کو تبلیغ)
دستخط مفتی محمد صادق صاحب
38/1/22
(نقل مطابق اصل رجسٹر روایات نمبر 5 صفحہ 115)
خدا تعالیٰ کی مغفرت
حضرت مفتی صاحبؓ نے جلسہ خلافت جوبلی کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں نے حضرت اقدس سے بارہا سنا کہ کوئی شخص اگر گناہ کرنے کے بعد سچے دل سے اور خالص نیت سے توبہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ ضرور اس کے گناہ کو بخش دیتا ہے۔ ‘‘
فرمایا:
’’ہمیں جس قدر نصرت مولوی نور الدین صاحب سے پہنچی ہے اور کسی سے نہیں پہنچی‘‘
ایک دفعہ فرمایا کہ بھیرہ سے ہمیں بہت نصرت پہنچی ہے۔
(نقل مطابق اصل رجسٹرروایات نمبر 13صفحہ 141)
(مرسلہ: ابن فضل الرحمان)
نیل آرمسٹرونگ کا اسلام قبول کرنا!
یاسر پیرزادہ صاحب روزنامہ جنگ 6؍دسمبر2020ء کے ایک کالم میں لکھتے ہیں :
’’1983ءمیں ملیشیا اور سری لنکا کے اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی کہ چاند پر قدم رکھنے والے پہلے خلاباز نیل آرمسٹرونگ جب چاند پر گئے تو انہوں نے وہاں ایک آواز سنی، پہلے تو انہوں نے اسے واہمہ خیال کیا مگر پھر اُن کے ساتھیوں نے بھی اُس آواز کو صاف سنا۔
بعد ازاں جب وہ مختلف ممالک میں لیکچر دینے گئے تو قاہرہ بھی اُن کا جانا ہوا اور انہوں نےوہی آواز سنی، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ تو اذان کی آواز ہے، ہو بہو وہی جو انہوں نے چاند پر سنی تھی۔ یہ سُن کر انہیں بہت تعجب ہوا اور انہوں نے اسلام کے بارے میں تحقیق و مطالعہ شروع کیا اور بالآخر متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ یہ خبر بعد میں دنیا کے دیگر اخبارات نے بھی نقل کرکے شائع کی اور یوں پوری دنیا میں پھیل گئی۔
مولانا وحید الدین خان اپنی کتاب ’’اسباق تاریخ‘‘ میں یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ خبر پڑھی تو نیل آرمسٹرونگ کو خط لکھ کر اِس خبر کی بابت پوچھا۔
جواب میں نیل آرمسٹرونگ نے ذاتی دستخطوں سے خط کا جواب دیا اور لکھا:’’آپ کے خط کا شکریہ۔
میرے اسلام قبول کرنے کی خبریں، اذان کی آواز کو چاند پر اور اس کے بعد قاہرہ میں سننا، سب خلاف واقعہ ہیں۔ میں کبھی مصر نہیں گیا۔ ملیشیا، انڈونیشیا اور دوسرے مقامات کے کچھ رسالوں اور اخبارات نے یہ خبریں بغیر تصدیق کیے ہوئے چھاپی ہیں۔ اِس اہل صحافت نے آپ کو جو بھی زحمت دی ہو اس کے لیے میں معذرت چاہتا ہوں۔ خلوص کے ساتھ۔
نیل آرمسٹرونگ۔ ‘‘
مولانا وحید الدین لکھتے ہیں کہ
’’کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمانوں نے آرم سٹرونگ اور ان جیسے دوسرے بندگان خدا کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو تو پورا نہیں کیا۔
البتہ فرضی کہانیاں بنا کر خوش ہو رہے ہیں کہ چاند سے لے کر امریکی خلاباز تک سب کو ان کے دین نے فتح کر رکھا ہے۔ ‘‘
مولانا وحید الدین خان کی عمر اِس وقت پچانوے برس ہے اور وہ بلاشبہ اسلام کے ایک جید سکالر اور بہت بڑے عالم دین ہیں، اُن کی دین کی تعبیر یا سیاسی نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے، مگر اُن کی علمی وجاہت سے انکار ممکن نہیں۔
ہم میں سے شاید ہر کسی نے نیل آرمسٹرونگ کے ’قبول اسلام ‘ کا واقعہ سُن رکھا ہے مگر کبھی اِس کی تصدیق کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ مولانا وحید الدین خان نے البتہ تصدیق کرنا ضروری سمجھا اور سیدھا آرمسٹرونگ کو ہی خط لکھ کر پوچھ لیا کہ میاں بتاؤ سچ کیا ہے۔ ایک کھرے اور غیر جانبدرا محقق کی یہی نشانی ہے۔
وہ اپنے تعصبات سے بالا تر ہو کر صرف سچائی کی جستجو کرتا ہے اور اِس بات کی پروا نہیں کرتا کہ کون سی بات اُس کے افکار و خیالات کے موافق ہے اور کون سی مخالف۔
آرمسٹرونگ کا واقعہ اگر سچ ہوتا تو مولاناوحید الدین خان سے بڑھ کر بھلا کسے خوشی ہوتی مگر انہوں نے اِس واقعے کی تحقیق کرکے مسلمانوں کو احساس دلایا کہ وہ کہاں غلطی پر ہیں۔
ادھر ہم مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ جو شخص بھی ہمیں غلطی کا احساس دلاتا ہے ہم اسی کے پیچھے لٹھ لےکر پڑ جاتے ہیں، اپنی غلطی درست کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ اسی طرح میں نے مولانا وحیدالدین خان کے کسی مذہبی نقطہ نظر کا حوالہ دیا تھا جو ہماری روایتی فکر سے میل نہیں کھاتا تھا تو بہت سے لوگو ں نے مجھے ای میل کرکے مولانا کے بارے میں بدزبانی کی۔ ہمیشہ کی طرح دلیل اُن کے پاس کوئی نہیں تھی۔
اِس دنیا میں پونے دو ارب سے زائد مسلمان بستے ہیں جو آج منہ اٹھا کر مغرب کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کب وہ کورونا کی ویکسین ایجاد کرے اور کب ہم اپنے بازوؤں میں ٹیکے لگوا کر دوبارہ انہی مغربی ممالک کی تباہی وبربادی کی دعائیں مانگیں۔
ہم کہتے ہیں کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک نے ہمارے مذہب کے اصولو ں کو اپنا کر فلاحی معاشرے قائم کیے جہاں سے اگر صرف فحاشی ختم ہو جائے اور اُن کے عوام کلمہ پڑھ لیں تو وہ مکمل اسلامی نظام کہلائے گا۔ بندہ پوچھے کہ اگر اُن ممالک نے ہمارے اصولوں سے کوئی فلاحی معاشرہ قائم کر لیا ہے تو ہمیں اپنے ہی دین کے اصول اپنانے او ر لاگو کرنے سے کس نے روکا ہے ؟
ہماری تمام ترکوشش اُن ممالک کے عوام کو کلمہ پڑھانے کی توہے مگر خود ہم سب نے جو کلمہ پڑھ رکھا ہے اُس کی روشنی میں اپنے اعمال درست کرنے کی ہماری کوئی نیت نہیں۔
اگر پوری غیر مسلم دنیا کے بارے میں ہمارا رویہ مخاصمانہ ہوگا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ باقی دنیا کے دل میں ہمار ے لیے محبت کے جذبات ہوں ! بقول مولانا وحید الدین ’’اِس قسم کی ’خدمت اسلام‘سے اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا …دوسری قومیں جب ہمارے لیے نفرت کا موضوع بن جائیں تو ان کے لیے ہمارا دین محبت کا موضوع کیوں بنے گا۔ ‘‘
انفرادی سطح پر جب کوئی شخص ترقی کرتاہے تو اسے رول ماڈل تصور کیا جاتا ہے، ناکام شخص کے بارے میں کوئی اپنا وقت ضائع نہیں کرتا کہ وہ زندگی کیسے گزارتا ہے۔
اسی طرح کامیاب قومیں بھی رول ماڈل ہوتی ہیں، دوسری قومیں اُن کی معاشی، سماجی اور سائنسی ترقی کے ماڈل اپناکر ترقی کی راہ پر چلتی ہیں۔ مسلمانوں کے عروج کے دور میں اُن کا علمی ماڈل مغرب نے مستعار لیا اور پھر نشأۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی۔
آج مغرب کا عروج ہے تو مسلمانوں کو اُن سے سیکھنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے۔ مگر شرط یہ ہے کہ نیت سیکھنے کی ہواور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب مسلمان ممالک اپنے ہاں ویسی ہی علمی فضا پنپنے دیں جیسی مغرب میں ہے، اگر کسی کا خیال ہے کہ اس آزادانہ علمی فضا کی غیر موجودگی میں مسلمانوں کی ترقی اِس لیے ممکن ہے کہ تاریخ میں ہر قوم کے عروج و زوال کا وقت معین ہےاور یہ وقت کسی معجزے کے نتیجے میں جلد آ جائے گا تو یہ ہم مسلمانوں کا تاریخی مغالطہ ہے۔
جھوٹی خبر یں پھیلا کرنیل آرمسٹرونگ کو مسلمان کرنے سے کہیں بہتر تھاکہ مسلمان اپنی سپیس شٹل چاند کی طرف بھیجتے جس میں کوئی صالح خلا باز سوارہوتا جو چاند پرپہنچ کر اذان دیتا اور یوں ارض و سماوات میں اللہ کا پیغام گونج اٹھتا۔
یہ کام چونکہ مشکل تھا اِس لیے ہم نے نہیں کیا۔ ُگوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے‘!‘‘
(مرسلہ:ذیشان محمود)
٭…٭…٭