حق جُو کے سوال میں بوئے تقویٰ ہوتی ہے
دربارِ شام میں آریہ لوگوں میں سے چند لوگ حضرت اقدسؑ کی زیارت کے واسطے آئے۔ حضرت نے پوچھا آ پ بھی اس جلسہ کی تقریب پر آئے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ حضور ہم لوگ تو اصل میں یہ بات سن کر آئے ہیں کہ آپ کا بھی لیکچر ہوگا ورنہ ہماری اس جگہ آنے کی چنداں خواہش نہ تھی۔
حضر ت اقدسؑ نے فرمایا کہ
اصل بات یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر قوم میں کچھ شریف لوگ بھی ہوتے ہیں جن کا مقصد کسی بےجا حقارت یا کسی کو بےجا گالی گلوچ دینا یا کسی قوم کے بزرگوں کو برا بھلا کہنا اُن کا مقصد نہیں ہوتا۔ مگر ہم تو جو کام کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے حکم اور اس کی اجازت اور اس کے اشارہ سے کرتے ہیں۔ اس نے ہمیں اس قسم کے زبانی مباحثات سے رو ک دیا ہوا ہے چنانچہ ہم کئی سال ہوئے کہ کتاب انجام آتھم میں اپنا یہ معاہدہ شائع بھی کر چکے ہیں اور ہم نے خدا سے عہد کیا ہے کہ زبانی مباحثات کی مجالس میں نہ جاویں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ ایسے مجمعوں میں مختلف قسم کے لوگ آتے ہیں۔ کوئی تو محض جاہل اور دھڑے بندی کے خیال پر آتے ہیں۔ کوئی اس واسطے کہ تا کسی کے بزرگوں کو گالی گلو چ دے کر دل کی ہوس پوری کرلیں اور بعض سخت تیز طبیعت کے لوگ ہوتے ہیں۔ سو جہاں اس قسم کا مجمع ہوا یسی جگہ جاکر مذہبی مباحثات کرنا بڑا نازک معاملہ ہے۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ جب دو شخص مقابل میں کھڑے ہوتے ہیں جب تک وہ یہ ثابت کرکے نہ دکھادیں کہ دوسرا مذہب بالکل غلطی پر ہے اور اس میں صداقت اور روحانیت کا حصہ نہیں وہ مردہ ہے اور خدا سے اُسے تعلق نہیں ہے تب تک اس کو اپنے مذہب کی خوبصورتی دکھانی مشکل ہوتی ہے کیونکہ یہ دوسرے کے معائب کا ذکر کرناہی پڑے گا۔ جو غلطیاں ہیں اس میں اگر ان کا ذکر نہ کیا جاوے تو پھر اظہارِ حق ہی نہیں ہوتا۔ تو ایسی باتوں سے بعض لوگ بھڑک اٹھتے ہیں۔ وہ نہیں برداشت کرسکتے۔ طیش میں آکر جنگ کرنے کو آمادہ ہوتے ہیں لہٰذا ایسے موقعہ پر جانا مصلحت کے خلاف ہے۔ اور مذہبی تحقیقات کے واسطے ضروری ہے کہ لوگ ٹھنڈے دل اور انصاف پسند طبیعت لے کر ایک مجلس میں جمع ہوں۔ ایسا ہو کہ اُن میں کسی قسم کے جنگ و جدال کے خیالات جوش زَن نہ ہوں تو بہتر ہو۔ پھر ایسی حالت میں ایک طرف سے ایک شخص اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور جہاں تک وہ بول سکتا ہے بولے۔ پھر دوسری طرف سے جانب مقابل بھی اسی طرح نرمی اور تہذیب سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے۔ اسی طرح بار بار ہوتا رہے مگر افسوس کہ ابھی تک ہمارے ملک میں اس قسم کے متحمل لوگ اور صبر اور نرم دِلی سے تحقیق والے نہیں ہیں۔ ابھی ایسا وقت نہیں آیا۔ ہاں امید ہے کہ خدا جلدی ایسا وقت لے آوے گا۔ ہم نے تو ایسا ارادہ بھی کیا ہے کہ یہاں ایک ایسا مکان تیار کرایا جائے جس میں ہر مذہب کے لوگ آزادی سے اپنی اپنی تقریریں کرسکیں۔ درحقیقت اگر کسی امر کو ٹھنڈے دل اور انصاف کی نظر اور بردباری سے نہ سناجاوے تو اس کی سچی حقیقت اور تہ تک پہنچنے کے واسطے ہزاروں مشکلات ہوتے ہیں۔ دیکھئے ایک معمولی چھوٹاسا مقدمہ ہوتا ہے تو اُس میں جج کس طرح طرفین کے دلائل، ان کے عذر وغیرہ کس ٹھنڈے دل سے سنتا ہے اور پھر کس طرح سوچ بچار کر پوری تحقیقات کے بعد فیصلہ کرتا ہے۔ بعض اوقات سال ہی گذرجاتے ہیں۔ جب دنیا کے مقدمات کا یہ حال ہے تو دین کے مقدمات کا کیونکر دو چار یا دس بارہ منٹ میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ سائل کو سوال کرنا تو آسان ہے مگر جواب دینے والے کو جو مشکلات ہوتی ہیں ان کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ ایک شخص اعتراض کر دیوے کہ نظام شمسی کے متعلق اور ستاروں اور زمین کے متعلق حالات مجھے بتا دو اور جتنے وقت میں مَیں نے سوال کیا ہے اتنا ہی تمہیں وقت دیا جاتا ہے کہ اتنے وقت کے اندر اندر جواب دو۔ ورنہ تم جھوٹے ہو۔ اب صاف عیاں ہے کہ جواب دینے والا کیا کرے۔ وہ جب تک کئی جز کی کتاب نہ لکھے تب تک جواب پورا نہ ہونا ہوا۔ غرض اس طرح کی مشکلات ہیں جو ہم کو درپیش ہیں۔ یہ وجو ہ ہیں جو ہمیں ان جلسوں میں جانے سے روکتے ہیں۔
حق جُو کے سوال میں بوئے تقویٰ ہوتی ہے
اگر سائل ایسا کرے کہ لو صاحب میں نے سوال کیا ہے تم جب تک اس کا جواب کامل کرو میں خاموش ہوں تو جواب دینے والے کو بھی مزہ آوے۔ اصل میں جو باتیں خدا کے لیے ہوں اور جو دل خدا کی رضا کے واسطے ایسا کرتا ہے اور اس کا دل سچے تقویٰ سے پُر ہے وہ تو کبھی ایسا کرتا نہیں۔ مگر آج کل زبان چھری کی طرح چلتی ہے اور صرف ایک حجت بازی سے کام لیا جاتا ہے۔ خدا کے لیے ایسا ہوگا تو وہ باتیں اَور وہ طرز ہی اور ہوتی ہے جو دل سے نکلتاہے وہ دل ہی پر جا کر بیٹھتا ہے۔ حق جُو کے سوال کی بھی ہم کو خوشبو آ جاتی ہے۔ حق جُو ہو تو اس کی سختی میں بھی ایک لذت ہوتی ہے۔ اس کا حق ہوتا ہے کہ جو امر اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ اس کے متعلق اپنی تسلی کرائے اور جب تک اس کی تسلی نہ ہو اور پورے دلائل نہ مل جاویں تب تک بیشک وہ پوچھے ہمیں برا نہیں لگتا۔ بلکہ ایسا شخص تو قابلِ عزت ہوتا ہے۔ جو باتیں خدا کے لیے ہوتی ہیں وہ کہاں اور نفسانی ڈھکو نسلے کہاں؟
(ملفوظات جلد 5صفحہ 141۔ 144۔ ایڈیشن 1984ء)
٭…٭…٭