چاند پر خِرام (20؍ جولائی 1969ء) سے پچاس سال گزر چکے
پس منظر
صدیوں سے حضرتِ انسان کُرّۂ ارض کا طول و عرض ناپتا رہا، نا مساعد حالات و موسمی تغیرات جھیلتا رہا، طوفانِ باد و باراں سے گزرا، دشت و صحرا کو پاٹا، کوہساروں کوکا ٹا، جو ملا کھا کر گزارہ کرتا رہا، تقدیر الٰہی درجہ بدرجہ اس کی ذہنی صلاحیتوں کو ارتقائی منازل طے کراتی رہی۔
عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ(العلق: 6)
انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ اس کے شعور کوجِلا بخشی اور ترقی کرنے کےودیعت کردہ رجحان نے اسے ایک دور سے دوسرے دور میں اپنے لیے سہولیات پیدا کرنے میں مشغول رکھا۔ شعور و تجربات نے تنظیم عطا کی جس نے مجموعی طور پر علم و عمل میں آگے بڑھتے رہنے کے جذبہ کو فروغ دیا۔
الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ(العلق :5)
جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سب سے پہلےلکھنےکا آغاز موجودہ علاقہ عراق اور مصر سے(3300-3400ق م) میں ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے ترجمہ قرآنِ کریم کے نوٹ میں فرمایا:
’’جس نے تمام انسانی ترقی کا راز قلم میں رکھ دیا ہے۔ تحریر کا ملکہ انسان کو عطا نہ کیا جاتا تو کوئی ترقی ممکن نہیں تھی۔‘‘
پرواز کی خیال بندی
لمبےعرصہ پر محیط بے انتہا ترقیات کے باوجود جب بھی انسان کھلے آسمان کی وسعتوں میں ٹکے ہوئے روشن چاند، سورج اور دمکتے ہوئے ستاروں اور ہواؤں کے دوش پر پھیلے ہوئے بادلوں اور فضا میں اِدھر اُدھرچہکتے ہوئے آزاد پرندوں کو دیکھتا تو دل مسوس کررہ جاتا۔ دل چٹکیاں جو لیتا تو اُڑنےکے خواب دیکھ لیتا اور پھر غور وفکرکی عمیق گہرائیوں میں کھو کر اپنی دیرینہ آرزو کو کہانیوں کے رنگ میں الفاظ کا جامہ پہنا کرطفل تسلی کرتا اور دوسروں کو محظوظ کرنے کے ساتھ ساتھ دعوتِ فکر بھی دیتا رہا۔ اسی طرف قرآن کریم نے سورۃالملک آیت 20میں توجہ دلائی ہےکہ’’کیا انہوں نے پرندوں کو اپنے اوپر پَر پھیلاتے اور سمیٹتے ہوئے نہیں دیکھا۔ رحمٰن کے سوا کوئی نہیں جو انہیں روکے۔ یقیناً وہ ہر چیز پر گہری نظر رکھتا ہے۔ ‘‘
ایک عرصہ تک کئی ماورائی کہانیاں دل بہلاوے کا سامان بنی رہیں : مثلاً ’’اُڑن کھٹولا۔ جادو کا تخت۔ اُ ڑتا قالین ‘‘وغیرہ وغیرہ
پہلا شخص جس نے خلائی سفر سے چاند پر پہنچنے کا ذکر کیا وہ دوسری صدی کا مصنف ’’لو قیان‘‘(Lucian 125 bce)تھا جس نے اپنے ناول ’’سچی تاریخ‘‘( Vera Historia)میں اپنے بہادر یونانی ہیرو ’’اوڈیسیس‘‘(Odyssius) کےکارنامےبتائے۔ اورچاند تک لےجانے کا نیا طریقہ۔ اپنی دوسری کتاب کے ہیرو Icaromenippusکو دو پَر۔ ایک عقاب کا اور دوسرا گدھ کا لگا کر چاند پر بٹھا دیا۔ مشہور ایرانی شاعر فردوسی (940۔ 1020ء) نےاپنے شہنشاہ ایران ’’کیکاؤس‘‘کو ’’جادو کےتخت‘‘پر بٹھا کر آسمانوں کی سیر کرا دی۔ ایسی امیدیں اور خوا ہشات پلتی رہیں اور غور و فکر کے ساتھ تجربات کا سلسلہ چلتا رہا۔
پہلوں کے نظریات
یونانی حکماء ’’پلوٹارک‘‘ (Plutarch, 46-.119) اور ’’ارسطو‘‘ (Aristotle, 322-.384)کو یقین تھا کہ زمین ہی کائنات کا مرکز ہے۔ اور باقی اجرامِ فلکی اس کے گرد گردش کرتے ہیں۔ زمانے کی کروٹ کے ساتھ ساتھ خیالات و نطریات بھی بدلتے رہے۔ تا آنکہ پولینڈ کے مشہور ہیئت دان ’’نکولاس کوپرنیکس‘‘ (Nicholas Copernicus, 1473-.1543) نے اپنی کتاب ’’آسمانی کرّوںکی حرکت‘‘(De Revolutionibus Orbium Coelestium)میں ثابت کیا کہ کائنات کا مرکز زمین نہیں بلکہ سورج ہے۔
پھر اٹلی کے نامی گرامی سائنس دان ’’گلیلیو گلیلی‘‘ ( Galilio Galilei , 1564.-.1642) نے اپنی ایک کتاب ’’ستاروں کا پیغامبر‘‘(Sidereus Nuncius) میں تجرباتی بنیاد پر’’کوپرنیکس‘‘کی تائید کی اور(اپنی دور بین جس کا وہ موجدتھا) سے چاند کے مشاہدات کیے۔
1638میں ایک انگریز پادری ’’فرانسیس گاڈون‘‘ (1633-1562) کی بعد از وفات لندن سے شائع ہونے والی ایک کتاب ’’چاند کی سیر‘‘(The Man in the Moon) میں ایک قصہ تحریر ہے جسے پڑھنے سے یوں معلوم ہوتا ہے گویا موجودہ زمانے کا سائنس دان اپنے تجربات قلمبند کر رہا ہو کہ زمینی کشش سے نکل گئے۔ وہاں نہ ہوا ہے، نہ بارش، نہ بادل۔ شاید ہمارے خلانوردوں نے پڑھ لی ہو۔
ایک فرانسیسی سائنس دان ’’بلیسی پاسکل‘‘( Blaise Pascal , 1662-.1623) جو مکینیکل کیلکو لیٹر کا موجد ہے، نے تجربات کے بعد بتایا کہ جوں جوں اوپر فضا میں جائیں تو ہوا لطیف تر ہوتی جاتی ہے۔
1638ءمیں جان ولکنز(1614تا1672)John Wilkinsنے اپنی کتاب ’’چاند میں ایک نئی دنیا کی دریافت‘‘(The Discovery of a World in the Moon) میں بتایا کہ چاند بھی زمین کی طرح ایک کرّہ ہے۔ جس میں آبادی کے امکان ہیں۔ جانے کے لیے اڑنے والی مشینی گاڑی ہے جس میں چندلوگ بیٹھ سکتے ہیں۔ دور تک کا سفر کم وقت میں کر لیتی ہے۔ اس کا ایک جملہ تو الہامی لگتا ہے۔ ’’آج یہ باتیں پراگندہ دماغ کی اختراع معلوم ہوتی ہیں لیکن ہماری آئندہ نسلیں ان کو عملاًپورا ہوتا دیکھیں گی۔ ‘‘
1865ءمیں فرانس کے ایک ادیب ’’ایکلی ایراڈ‘‘ (Achille Eyraud) نے اپنے ناول ’’زھرہ کا سفر‘‘ (Voyage of Vanus)میں ایک ایسی سواری کا ذکر کیا جو ’’نیوٹن‘‘(Newton, 1643-.1727) کے قوانینِ حرکت کے عین مطابق ردِّ عمل کے اصول پر کام کرتی ہے کہ سواری میں موجود پانی بھاپ کی صورت میں زور سے باہر خارج کیا جاتا ہے اور اس کے ردِ عمل میں سواری زھرہ کی سمت اوپر چڑھ جاتی ہے۔ دیکھیے راکٹ چلانے کے بنیادی اصول کو بڑی صفائی سے بیان کیااور ایسے وقت کیا جبکہ اس کی اشد ضرورت تھی۔
کشش ثقل سے فرار
بیسویں صدی اپنے ساتھ عظیم الشان انقلاب لے کر آئی۔ خواب و خیال کی کچھ باتیں عملی اشکال میں ڈھلتے نظر آئیں، تاہم کئی دشواریاں پھر بھی منہ کھولے کھڑی رہیں۔ لمبے فاصلے، خلا میں کھانے پینےکا بندوبست، نہ موزوں سواری، نہ مناسب لباس۔ اور سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ کششِ ثقل (نیوٹن کا کلیہ تجازب) سے کس طرح نکلا جائے جو قدرت میں اتنا اہم ہےکہ اگر یہ نہ ہو تو کائنات کا نظام درہم برہم ہو جائے۔ اس قوت کو توڑ کر نکلنے کے لیے بہت زیادہ قوت درکار ہے۔ اور رفتاریعنی Escape Velocityکی تیزی ہی وہ چیز ہے جس کے زور سے اس کششِ ثقل سے باہر نکلا جا سکتا ہے۔ اور اس عمل کے لیے، 25000 میل فی گھنٹہ (سات میل فی سیکنڈ) کی ضرورت ہے۔ اور پھر واپس آنے کے لیے، 5400 میل فی گھنٹہ۔
خلا میں سفر کےلیے ضروری شرائط
آج سے300سال قبل نیوٹن (1643.- 1727) نے خلائی سفر کے امکانات اور اس کی شرائط کی وضاحت کر دی تھی جن کے مطابق کسی چیزکو ایک مقررہ مدار میں قائم کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں راکٹ کے ذریعہ دھکا لگانے کے اصول بیان کیے۔ نیوٹن کے تینوں کلیات کو بروئے کار لاتے ہوئےسائنسی ماہرین نے مصنوعی سیاروں کو مدار میں پہنچانے اور قائم رکھنے کے لیےراکٹوں کا استعمال شروع کیا۔
راکٹ کا نظر یا تی بابا
وہ روسی سائنس دان جس نے نیوٹن کے کلیات کو خوب سمجھا اور اس کی تراکیب کے لیے 1903ءمیں اپنا فارمولا (Equation) ایک جریدہ میں بھی چھپوا دیا، وہ تھا: ’’کانسٹنٹائن ایدو آردوچ زی اول کاوسکی‘‘(1857-1935)Konstantin Eduardovich Tsiolkovsky۔ چونکہ اس نے محض نظریہ پیش کیا اور تجربہ نہ کر سکا اس لیے اُس کو ’’ راکٹ کا نظریاتی بابا ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دنیائے سائنس و تحقیق میں اس کا نام زندہ جاوید رہے گا۔
راکٹ کا استعمال
یوں تو پہلی صدی سے ہی چینیوں نے اپنے تہواروں میں رنگ پھینکنے یا آتشبازی کرنے کے لیے راکٹ کا استعمال شروع کیا۔ پھر1232ء میں چینیوں نے ہی منگول کو بھگانے، مارنے، دھمکانے کے لیے بھی اچھا استعمال کیا۔
فضا میں یا خلا میں اوپر دور کسی چیز کو پہنچانے کے لیے کافی قوت درکار ہوتی ہے اس لیے راکٹ کا استعمال بہت ضروری ہے۔ گولے دور تک پھینکنے کے لیے (جنگی ہتھیار کے طور پر) ہندوستان کی ریاست میسور کے والی ’’حیدر علی‘‘(1722.- 1782) نے اسی طرح کے راکٹ استعمال کیے۔ توپ خانہ کے عملہ میں 1200سپاہی مامور تھے۔ پھر ان کے بیٹے ’’فتح علی ٹیپو سلطان‘‘نے بھی راکٹوں سے پانچ سیر وزنی گولے (بم) اڑھائی میل دور دشمنوں پر برسائے۔ انگلش سائنس دان چونک پڑے۔ پھر’’کرنل ولیم کانگریو‘‘(Col. Wm. Congreve) نے کامیاب تجربات کیے اور یہ لہر سارے یورپ میں چھا گئی۔ اور راکٹ ادارے قائم ہوئے۔ پھر انیسویں صدی میں اس میں سمت بدلنے اور زیادہ دور پھینکنے کے آلات نصب کیے گئے۔
بیسویں صدی کے ابتدائی بیس سال راکٹوں پر زیادہ کام نہ ہوا۔ البتہ خلا کی وسعتوں میں پہنچنے کے لیےسنجید گی سے غور و فکر اور تحقیق و جستجو جاری رہی کہ راکٹ کو خلا میں دور اونچا دوسرے کرّوں تک پہنچانے کے لیے کونسا ایندھن استعمال کیا جائے۔
راکٹ میں مائع ایندھن کا استعمال
1898ءمیں وہی روسی سائنس دان’’کانسٹنٹائن ایدو اول کاوسکی‘‘(جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے) دوبارہ دنیا میں پہلا شخص تھا جس نے حسابی اندازوں سے ثابت کیا کہ محض مائع ایندھن کے ذریعہ ہی راکٹ موٹرکی کارکردگی بڑھائی جا سکتی ہے۔ اور جہاز کو خلا میں پہنچایا جا سکتا ہے۔ وہ تجربات تو نہ کر سکا لیکن اگر اس کے اصولوں کو پہلے عملی جامہ پہنایا جاتا تو روس کا ’’ سپتنک‘‘بہت پہلے خلا میں جا سکتا تھا۔
رابرٹ ھجنگز گا ڈ ر ڈ۔ امریکی راکٹ سازی کا با وا آدم
(Robert Hutchings Goddard. 1882-.1945)
گاڈرڈ کو یقین تھا کہ مائع ایندھن ہی خلا کی تسخیر میں کامیابی کا گُر ہے، اس لیے 1914ء میں ہی اس نے اپنے کئی نمونوں کو پیٹینٹ (Patent) کروا لیا۔ جس کے ایک حصّہ میں مائع کا احتراق ہو(جلائی جائے) اور دوسرے سوراخ سے گیس خارج ہو۔ یعنی ملٹی سٹیج۔
جب امریکہ پہلی جنگِ عظیم میں کود پڑا تو ’’سمتھ سونین ادارہ‘‘(Smithsonian Institution) کے کہنے پر حکومت نےاس کو ایک خطیر رقم دی اور وہ دو قسم کے ہتھیار بنانے میں لگ گیا۔ (1)جو توپ کے گولے کی طرح اُڑےاور دور مار کرے۔ (2) ایسا میزائل جو دشمن کی فوج/ٹینکوں پر حملہ کر سکے اور ہلکے پھلکے سٹینڈ سے ادھر اُدھر کیا جاسکے۔ نومبر 1918ءمیں ’’ایبرڈین۔ میری لینڈ‘‘کے 72500؍ایکڑ کے تجرباتی میدان میں فوجی افسران کے سامنے ٹینک توڑنے کا مظاہرہ کیا۔
راکٹ سے چا ند ماری
مئی 1919ء میں گاڈرڈ نے اپنے تجربات کی روشنی میں یقین ظاہر کیا کہ خشک ایندھن سےراکٹ خلا میں 400میل تک جا سکتا ہے جبکہ اس کا وزن دس ٹن سے زیادہ نہ ہو۔ نیویارک ٹائمز نے صفحہ اول پرجلی حروف میں خبر لگا دی کہ ’’چاند تک پہنچنے کا امکا ن‘‘۔ پھر کیا تھا، دوسرے نمائندے خبر لے اُڑے۔ انگلستان اور یورپ میں چرچا ہوا۔ لندن کے رسالہ ’’گرافک‘‘میں اس کے خلاف مضمون کا جواب ’’سائنٹفک امریکہ‘‘نے کافی شافی طریق پر دیا۔ مگر پھر بعد میں گا ڈرڈ کو ترمیم کرنی پڑی کہ مائع ایندھن جسے’’ لاکس‘‘ کہتے ہیں ( Lox or Liquid Oxygen ) نئے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ پھر تجربہ کے بعدبتایا کہ ’’گیسولین‘‘یعنی پٹرول بہتر ہے۔ اور 16؍مارچ 1926ءکو امریکہ کی ریاست میساچیوسٹ کے شہر آبرن میں راکٹ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے بعد سے 1941ءتک 34؍راکٹ بھیجے گئے جن کی رفتار 550؍میل فی گھنٹہ ہو چکی تھی۔
مصنوعی سیّاروں (Satellites) کی دوڑ
راکٹ کے بغیر ان مصنوعی سیاروں کو خلا میں پہنچا نا ناممکن تھا۔ پہلے پہل یہ پروگرام 1950ءمیں ہی شروع ہوگیا تھا۔ 1955ءتک امریکہ اور روس نے مشترکہ سیارے چھوڑنا تھے مگر 4؍اکتوبر1957ءکو روس نے اپنا پہلا ’’سپتنک ون‘‘(Sputnik-1)چھوڑ کرگویا راہیں جدا کرلیں۔ امریکہ میں گوڈرڈ ہی کچھ کرتا رہا جبکہ جرمنی/آسٹریا/ماسکو/ فرانس میں راکٹ سوسائٹیاں قائم ہو گئیں تاہم بین الاقوامی معاشی انحطاط کی وجہ سے تجربات کا سلسلہ التوا میں پڑ گیا۔ یہ سیّارے کچھ حکومتی، کمرشل، ملٹری، سول اور کچھ سائنسی مقاصد کے لیےمستعمل ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق 1959ء سے اب تک 8378؍سیارےچھوڑے گئے (40؍ممالک کے) جن میں سے اب تک4994؍کام کر رہے ہیں۔ اور اندازاً 2877؍بیکار دھات کے ٹکڑے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ عموماً سیارے 100میل سے لے کر 1240میل کی بلندی پر اپنے مدار پر گر دش کر رہے ہیں۔ پاکستان کے اس وقت چھ (6) سیّارے مدار میں گھوم رہے ہیں۔
انٹر پلینیٹری سوسائٹی (Interplanetary Society)
مارچ 1930ءمیں نیو یارک میں قائم ہوئی۔ 14؍مئی 1933ء کواپنا پہلا مائعاتی راکٹ چھوڑا جو 250فٹ بلندی تک گیا۔ اس سال انگلستان میں بھی سوسا ئٹیاں قا ئم ہو گئیں۔ پھر1937ءتک ایسا وقت بھی آیا جب 70؍کے قریب مختلف ’’گائڈڈ میزائلوں ‘‘(Guided Missiles)پربیک وقت تحقیقات جاری رہیں۔
V-2 راکٹ
گاڈرڈ کے تجربات سے فائدہ اُٹھا تے ہوئے نازی جرمنی نے حکومتی سطح پر 1932ءسے ہی اس کام میں اپنے سائنس دانوں کی اعانت کی۔ جنہوں نے اٹھارہ سال بعد ایک زبردست انجن (جو راکٹ انجن سے موسوم ہوا) لگا کر اپنا ’’وی ٹو‘‘ تیار کیا جو زیادہ بم اُٹھا سکتا تھا اور دور تک جا سکتا تھا۔ یہی راکٹ (جن کی لمبائی 46 فٹ، قطر 5 فٹ، اور وزن 13 ٹن تھا) 8؍ستمبر 1944ءکولندن کے گردونواح میں تقریباً 1400کی تعداد میں گرائے، 500نشانے پرلگے۔ بہت سے نہ پھٹے جن کو انگلستان اور امریکہ نے نکال کرمعائنہ کیا اور کارآمد طریق پر استعمال کیا۔ کہا گیا کہ یہ اس جنگ کا سب سے زیادہ خوفناک اور مہلک ہتھیار تھا۔ امریکن ایئر فورس بااجازت سرکار ’’سمتھ سونین‘‘کے لیے یکم مئی 1949ءکو ایک یہاں لے آئی جو سپیس میوزیم، واشنگٹن میں رکھا ہے۔
بعض سائنس دان کہتے ہیں کہ جرمنی کا ’’وی ٹو‘‘راکٹ انجن انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ایجاد ہے۔ جس کی وجہ سے خلا کا سفر ممکن ہوا۔
اعصابی جنگ…خیالی سفر سے خلائی سفر
جنگِ عظیم دوم کے بعد سےہی امریکہ اور روس میں ایک اعصابی جنگ چل نکلی۔ (1947-1991ء) اور ہر میدان میں مسابقت کی دوڑ شروع ہوگئی، خاص کر اسلحہ اور خلا (سپیس) میں برتری مطمح نظر رہی۔ روس نے 4؍اکتوبر1957ءکودنیا کا پہلا مصنوعی سیّارہ ’’سپتنک ون‘‘ کامیابی سے چھو ڑا جو زمین کے مدار میں 21؍دن تک گھومتا رہا اور سگنلز بھیجتا رہا۔ سائنس کی اس عظیم کامیابی پر امریکی صدر آئزن ہاور (Dwight D. Eisenhower) نے بھی جو 1953ءسے1961ءتک صدر رہے) مبارکباد کا پیغام تو بھیج دیا۔ مگر کان کھڑے ہوگئے کہ روس آگے نہ نکل جائے اور خلا میں اپنی اجارہ داری نہ قائم کر لے۔ اور ساتھ یہ فکر بھی دامنگیر کہ کہیں امریکہ کے مخصوص راکٹ: Polaris , Titon, Atlas متاثر نہ ہوں۔ ابھی دنیا حیران ہی تھی کہ روس نے دو اور سیّا رے ( سپتنک دو اور تین) چھوڑ ےتو امریکہ نے اس کو سنجیدگی سے لیا۔ پھر کچھ عوام کے دباؤ اور کچھ طعن و تشنیع کے تحت صدر آئزن ہاور نے مشاورت سے نیشنل ایڈ وائزری کمیٹی ہوابازی (NACA) کے بھی تمام اختیارات 29؍جولائی 1958ءسے نا سا (NASA) کو سونپ دیے۔ گاڈرد کی خدمات کی وجہ سے 1959ءمیں سپیس سینٹر کا نام ’’ گاڈرڈ سپیس سینٹر‘‘رکھ دیا گیا۔
NASA کی مساعی
صدر کینیڈی نے 25؍مئی1961ء کو کا نگریس کی جائنٹ میٹنگ میں بلند و بالا اعلان کیا کہ ’’ہم نےاس دہائی کے اختتام تک انسان کو چاند پر بھیجنا اور واپس لانا ہے۔ ‘‘ پھر 12؍ستمبر 1962ء کو رائس یو نیور سٹی، ہوسٹن میں بھی تقریر کرتے ہوئے ایک فقرہ بڑی تحدّی سے تین بار دہرایا کہ’’ہم نے چاند پر جانے کا قصد کر لیا ہے۔ ‘‘اُس وقت گوامریکہ کاایک پروگرام ’’مرکری‘‘شروع تھا جہاں، 5؍مئی1961ءمیں’’ایلن شیپرڈ‘‘ ( Alan Shepard) کو صرف 15؍منٹ کا خلائی سفر کا تجربہ تھا۔ اس کے برعکس کوئی ڈھائی ماہ قبل 12؍اپریل1961ء کو روس ’’یوری گا گارن‘‘(Gagarin Yuri)کو مدار میں پہنچا چکا تھا۔ مگر انسان کو 238,855میل دور بھیجنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا اور محدود وقت کا شکنجہ بھی جان کو آتا دکھائی دیا۔
کانگریس سے خطاب کے 10دن بعد ہی صدر کینیڈی نے روس کے سربراہ’’نکیتا خروشیف‘‘(Nikita Khurshchev)سےViennaآسٹریاکی میٹنگ (3اور4؍جون 1961ء)میں پہلی اور آخری دفعہ ملاقات کے دوران ’’چاند کی مہم‘‘ کو ’’باہمی مہم‘‘کے طور پر چلانے کی پیشکش کی۔ مگر وہ راضی نہ ہوئے۔ صدر کینیڈی نے ایک مرتبہ پھرUNOکی جنرل اسمبلی (20؍ستمبر1963ء) میں اس ضمن میں شراکت داری کا عندیہ دیا۔ مگراس مرتبہ بھی ’’خروشیف‘‘نے عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔ کینیڈی کےان اقدامات سے ظاہر و باہر ہوتا ہے کی وہ ’’ باہمی تنا ؤ ‘‘کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔
10؍جون 1962ء کوصدر کینیڈی جب ہوسٹن میں Saturn Vکے لانچ پیڈ دیکھنے گئے وہاں ایک سوال کے جواب میں کہا ’’امسال ہم نے سپیس کے لیے وہ بجٹ پیش کیا ہے جو پچھلے آٹھ سالوں کے کل بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ ‘‘
ناسا نے اپنے 5 بلین ڈالر بجٹ سے کمر کسی۔ مہم جوئی کو تیز تر کرنے کے لیےمرکری پروگرام کے علاوہ ایک پروگرام ’’جمینی‘‘(Gemini) مرتب کیا جس کا دورانیہ 1962-1966ءتھا۔ اس کے چار مقاصد تھے۔ خلابازوں کو دو ہفتہ تک بے وزنی کی حالت میں تربیت، سپیس کرافٹ کو مدار میں معلق رکھنا، جو چاند اور زمین کے درمیان اجتماعی بیس Baseکا کام دے۔ چاند پر اُترنے اور واپس آنے کے تمام مسائل کا حل، لمبا عرصہ خلا میں ٹھہرنے کے اثرات وغیرہ۔ اس پروجیکٹ کے تحت 19مرتبہ راکٹ بھیجے۔ 2بغیر خلا باز۔ 7 خاص بلندی تک۔ اور 10میں دو دو خلاباز سوارکرکے۔ سینکڑوں تجربات خلائی سفرکے لیے رہ نما بنے۔
اخراجات پر تنقید
یوں تو شروع سے ہی بے محابا اخراجات سے متعلق آوازیں اُٹھیں مگر صدا بہ صحرا ثابت ہوئیں۔ مثلاً:
٭…جنوری 1962ء نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریہ میں ایک سوال اُچھال دیا کہ’’چاند کے مختصر دورہ پر جتنا خرچ اُٹھے گا اتنی رقم سے امریکہ میں ہارورڈ یونیورسٹی کے معیار کی 70۔ 120یونیورسٹیاں بنائی جا سکتی ہیں۔ اور پھر بھی کچھ رقم بچ رہے گی۔ چاند پر اُترنا…یا…ہر اسٹیٹ میں ہارورڈ یونیورسٹی ؟
٭…نومبر1962ءنیویارک ٹائمز نے چبھتے ہوئے انداز میں پھر سوال اُٹھایا کہ ہمارے ملک میں مزید اسکولوں، ہسپتالوں اور گھروں کی ضرورت ہے…سوویت سے مقابلہ کے ساتھ ہمارا مطمح نظریہ بھی رہے کہ ہم نے دنیا کو بہتر کرنا ہے۔
جی ہاں ! یہی نیویارک ٹائمز ہے جس نے سات سال بعد چاند سے متعلق محض ایک ہی دن میں 18صفحات مختص کر دیے۔
٭…10؍جنوری 1963ء’’جریدہ سائنس‘‘کے ایڈیٹر ’’فلپ ایبل سن‘‘(Phillip Ableson) جو خود ایک سائنس دان رہے ہیں اور ایٹم بم بنانے میں بھی ان کا حصّہ ہے لکھتے ہیں کہ ’’اس (اپالو) پروگرام کی وجہ سے کینسر اور دماغی امراض کے دفع و علاج میں تاخیر ہو جائے گی…اس میں جلدی کیا ہے…چاند عرصہ سے ہے اور عرصہ تک رہے گا۔ ‘‘
٭…12؍جون 1963ءصدر آئزن ہاور نے واشنگٹن میں ایک ریپبلکن کانگرس میٹنگ میں کینیڈی کے اخرجات سے متعلق سوال پر کہہ دیا کہ ’’جو40 بلین چاند کی دوڑ میں محض قومی شہرت کے لیے لگا دے وہ پگلا ہے ‘‘یہ خبر درجن بھر اخبارات کی شہ سرخی بنی۔ Ike says ’Nuts‘ to Moon Race”
٭…13؍ستمبر1963ء۔ “Saturday Evening Post”نےاپنے ایک مضمون’’ہم خلا میں پیسہ ضائع کر رہے ہیں ‘‘ اور لکھا کہ ’’چاند کی دوڑ ایک انعامی کرتب ہے یا مسخرے کا دنگل۔ ‘‘
چاند پہ اُ ڑان
ساٹھ کی ہنگامہ خیز دَہائی، اُدھر ویتنام جنگ کی دُہائی۔ ناسا کے منہ پھاڑے اخراجات اور پھر روزانہ پچاس ہلاکتوں کی اذیت ناک اطلاعات۔ ایک طرف شہر شہر بلوے اور قتل و غارت گری۔ اُدھر چاند پر جانے کی پڑی۔ متعدد بار عوامی سروے کے بعد بھی چاند پر قدم رنجہ کرنے کی حمایت 40 فیصد سے نہ بڑھ سکی۔ ناسا نے اپنے ’’مرکری‘‘اور ’’جمینی‘‘سپیس پروگراموں کو کینیڈی کے معیّن کردہ قومی اہداف کے پیش نظر 1961ء سے جاری پروگراموں کو نئے نام ’’ اپا لو‘‘سے معنون کیا۔ یہ نام رکھنے والے سپیس مشن کے ڈائریکٹر ’’ایبی سلور سٹین‘‘(Abe Silverstein) خود تھے۔ (اپالو یونانیوں کی اساطیر میں علاوہ اور طاقتوں کے روشنی کا دیوتا بھی سمجھا جاتا ہے )۔
خدا خود می شود ناصر اگر ہمت شود پیدا
ناسا کی ساری انتظامیہ خَم ٹھونک کر چاند پر کمندیں ڈالنے میدا نِ عمل میں آگئی۔ بتایا جاتا ہے اس مہم جوئی میں 34,000سائنس دان، انجینئرز، ٹیکنیکل افراد اور دیگر ماہرین فن کے علاوہ 375,000دوسرے انڈسٹریز اور یونیورسٹی کے کونٹریکٹرز نے شبانہ روز کام کیا۔ اورستائش گروں نے تھپکیاں دیں۔ یہ افرادی قوت ایٹم بم بنانے سے تین گنا زیادہ تھی۔ اور اخراجات کی بھی یہی نسبت رہی۔ (دروغ بر گردنِ راوی)۔ پہلے سال ایک ملین خرچ، پھر آنے والے پانچ سالوں میں ناسا ہر تین گھنٹے میں ایک ملین ڈالر خرچ کرتا رہا۔ جبکہ 24 گھنٹہ کام ہوتا تھا۔ CBS. Com کی خبر کے مطابق ناسا نے (1973-1960ء) 28 بلین ڈالر خرچ کیے۔
اپا لو پروگرام
یوں تو ناسا نے اس پروگرام کے تحت بہت سے خلائی جہاز (Spacecraft) خلا میں روانہ کیے جن کا مقصد مختلف آلات کو ٹیسٹ کرنا اور ڈیٹا جمع کرنا تھا۔ کل 11مشنز میں جو (1969 – 1972ء) کے دوران بھیجے گئے اُن میں سے 6 مشن انسان کو چاند پر اتارنے میں کامیاب ہوئے۔ اور کل12 خلانوردوں نے چاند پر خِرام کیا۔ یہاں چاند پہ پہلے قدمِ مقدور کا ذکر ہے۔
اپا لو 11
مشن پر بھیجنے سے بہت پہلے ہی خلا نوردوں کو اچھی تربیت دی گئی اور چاند پراُترنے کی سطح کی تحقیق اور جگہ متعین کرنے کے لیے جو سائنس دانوں کی ٹیم منتخب ہوئی ان دونوں میں ایک مصری مسلمان سائنس دان ’’ڈاکٹرفاروق البازی‘‘ (Farouk El Baz) کا بھی بہت اہم کردار شامل رہا۔
یہ اپالو پروگرام کا پانچواں مشن تھا۔ لیکن اس لحاظ سے پہلا بنا کہ سب سے پہلے چاند پر قدم رنجہ کرنے والا انسانی مشن ثابت ہوا۔ تین خلانورد : ( کمانڈرنیل آرم سٹرونگ/ لیونر موڈیول (بنام ایگل۔ LM) کے پائلٹ بز ایلڈرن / مائیکل کالنز۔ پائلٹ کمانڈ موڈیول، جس کا نام کولمبیا تھا) کو 16؍ جولائی 1969ء، کینیڈی سپیس سینٹر سے سیٹرن راکٹ پانچ ‘ (Saturn V) کے ذریعہ چاند کی طرف بھیجا گیا۔
Spacecraft (یعنی خلائی جہاز)
اس کے تین حصّے ہیں :
1۔ Command Module(آلات کا حصّہ۔ ’’کولمبیا ‘‘۔ جس میں تین افرا د بیٹھ سکتے ہیں، چھوٹی کار کی طرح آلات والی)
2۔ Service Module (گیس پانی , آکسیجن، اوردیگر تمام ضروریات کی چیزیں وغیرہ)
3۔ Lunar Module۔ (LM )یا (ایگل۔ چاند پر اترنے کی گاڑی)۔ یہ محیرالعقول صلاحیتوں کی حامل۔ ایک مربع فٹ میں 16 ہزار پرزے، 50 سوئچ اور کمپیوٹر /مائکروچپس کے ولولہ ا نگیزبرقی نظام پر مشتمل عجیب و غریب اڑنے والی مشین ہے جو صرف خلا میں وہاں اُڑتی ہے جہاں کششِ ثقل نہ ہو۔ اس کو بنانے میں 10 سال، اور خرچہ 1.6 بلین ڈالر۔ جو .Grumman Corpنے تیار کی۔ یہ دو افراد کو چاند کے مدار سے چاند کی سطح پرلانے اور پھرلے جانے والی گاڑی ہے۔ اس میں دو دھکا لگانے والے انجن یا راکٹ ہوتے ہیں۔
Saturn V
یہ تین حصّوں کا راکٹ ہے خلائی جہاز اس پر لاد کر بھیجا جاتا ہے۔ جس کی لمبائی 36 منزلہ عمارت کے برابر ہے۔ (یعنی 138 فٹ تقریباً ) پہلا حصہ اُوپر ایک خاص بلندی تک لے جاتا ہے اور پھر دوسرا حصہ خود بخود متحرک ہو کردوسرے مدار سے آگے لے جاتا ہے۔ پھر چاند پراُترنے کے لیے چاند گاڑی استعمال کی جاتی ہے۔
یہ خلائی جہاز 240,000 میل کا سفر تین دن (76گھنٹے)میں طے کرتا ہوا 19؍جولائی کو چاند کے مدار میں داخل ہوا اور 12 چکرلگائے۔ پھر اپالو سپیس کرا فٹ کےدو علیحدہ علیحدہ سپیس کرافٹ بن گئے۔
ایک ایگل (چاند گاڑی، جس میں آرم سٹرونگ اور الڈرن تھے) اور دوسرا کولمبیا (کمانڈ موڈیول، جس کو کولنز چلارہے تھے ) چاند گاڑی کوچاند کی درمیانی سطح جس کو( Sea of Tranquality) یعنی’’ بحرِ ساکِت‘‘ کہا جاتا ہے اپنے ہدف سے دور ا ُتری۔ اور نا سا کو مطلع کیا۔ ایگل یعنی چاند گاڑی کے ساتھ وڈیو کیمرہ لگا تھا جس سے تمام حرکات کی تفاصیل ناسا کومل رہی تھیں۔ نیل آرم سٹرونگ نے چاند پر پہلا انسانی قدم رکھا اور یہ کہتے ہوئے امر ہو گیا :
’’وہ اِک چھوٹا انسانی قدم- انسانیت کی بڑی جَست ہے‘‘
پھر جلدی جلدی ہاتھوں سے کچھ خاک و پتھر سمیٹے اور لباس کے مخصوص حصّہ میں ڈال لیے مبادا جلد واپس جانا پڑے۔ اس کے کوئی 20 منٹ بعد ایلڈرن بھی آگئے۔ اور اُترتے ہی کہا ’’خوبصورت نظّا رہ پُر شکوہ سنّا ٹا‘‘۔ چاند پر جست و خیز کا یہ وہ نظارہ تھا جس کو روئے زمین پر لکھوکھہا انسانوں نے اپنے کالے دانے دارچھوٹےسے T.V پر دیکھا۔ یہ وہ اِک لمحہ تھا جسے دیکھنے کے لیےنسلیں گزر گئیں۔ صدیاں بیت گئیں۔ اوریہ بھی جو آنکھ جھپکتے گزر گیا لیکن ایک ابدی صداقت ثُمّ یُجزٰہُ الجَزَآءَالْاَوفٰی پھر اُسے اس کی بھر پور جزا دی جائے گی ( النجم:42) کی جھلک عالمِ کون و مکان میں کوند گئی۔
آرم سٹرونگ اور ایلڈرن تو خراماں خراماں کوئی ڈھائی تین گھنٹہ تک ایک کلومیٹرگھوم آئے، مگر ’’کولنز‘‘ بیچارہ’’کولمبیا‘‘ میں بیٹھاچاند کے مدار میں ہی گھومتا رہا، تیس چکر لگائےلیکن چاند اور زمین سےرابطہ رکھااورمختلف زاویوں کی بیسیوں تصاویر اور وڈیو مشن کنٹول کو بھیجتا رہا تاوقتیکہ اگلے دن یعنی کل 21گھنٹے 36 منٹ بعداُ ن چاند کے دونوں مسافروں کو اُٹھاکر واپس لانا تھا۔
پہلے قدم کے بعد اقدام
٭…دونوں نے وہا ں ایک 5X3 فٹ لمبا امریکی جھنڈا ایلومینیم کے دو ڈنڈوں سےنصب کیا۔ صدر نکسن نے فون پران سے مختصر بات چیت کی اور پُر جوش مبارکبا د پیش کی۔
٭…کوئی 22.- 23 چمچہ نمونے کے طور پر(پتھر، کنکر، اور بھوری خاک) اکٹھی کی جس کا وزن 22کلو گرام تھا۔
٭…چند انسانوں کی تصاویر اور 73ممالک کا خیر سگالی پیغام، کانگریس او ر ناسا کے لیڈروں کے نام، ایک1.5 انچ کی سلیکون ڈسک میں بطور یادگار چھوڑ آئے۔
٭…ایک تمغہ پلیٹ ان خلانوردوں کی یاد میں چھوڑی جو خلا کی مہم جوئی میں ہلاک ہوئے۔ اس عزت میں دنیا کےسب سے پہلے روس کےخلا باز’’گاگارن‘‘کو بھی شامل کیا۔
٭…آرم سٹرونگ اپنے ساتھ ایک لکڑی کا ٹکڑا اُس جہاز سے لے گئے جو ’’رائٹ برادرز‘‘نے سب سے پہلے (1903ء) میں اُڑایا تھا وہاں نیک شگون سمجھتے ہوئے چھوڑ آئے۔ اور چند آلات مثلاً سپکٹرومیٹر (Spectrometer)، سینسرز، تھرما میٹرز اور زلزلہ کی شدت ماپنے کے لیے سزموگراف (Seismograph) وغیرہ۔
٭…ایک اسٹین لیس سٹیل کی باریک چادر ( 8 7.5x) انچ کی جس پر یہ تحریر کندہ تھی : ’’یہاں چاند پر کُرۂ ارض کے انسانوں نے اپنا پہلا قدم رکھا۔ ہم امنِ انسانیت کے لیے آئے ہیں 1969ء۔ نیچے اِ ن تینوں اور صدر نکسن کےنام اور دستخط بھی ہیں۔ ‘‘یہ چاند گاڑی کی ایک ٹانگ کے گِرد پیوست کردی گئی ہے۔
٭…واپسی سے ایک گھنٹہ پہلے آرمسٹرونگ نے چاند کی سرمئی خاک میں اپنے بوٹ کا ایک گہرا نشان چھوڑا اور اس سے قدرے فاصلہ پر ایک چوکھٹا جس پر سو سے زیادہ آئینے لگے تھے اور ان کا رخ زمین کی طرف تھا رکھا۔ یہ زبردست لیزر اب تک فعال ہے اور تجربات جاری ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی بیٹی کا ایک بریسلٹ اس کی یاد میں وہا ں رکھ دیا جو چند برس قبل کینسرسے جان بحق ہو چکی تھی۔
با نیلِ مرام واپسی
نیل آرم سٹرونگ او ر ا یلڈرن نے واپسی کے لیےچاند گاڑی ایگل میں نصب (Ascent Stage)والے راکٹ(انجن) کو سٹارٹ کیا اور چاند کے مدار پر طے شدہ مقام پر کولنز اپنا کمانڈ موڈیول (کولمبیا) بھی لے آئے۔
نیل آرم سٹرونگ او ر ا یلڈرن دونوں جلدی سے اس میں سوار ہوئے۔ کولنز نے واپسی کا راکٹ چلایا اور 24؍جولائی 1969ء کو اپا لو 11زمین کے کرّۂ فضائی میں 25,200میل فی گھنٹہ کی رفتار سے داخل ہوا اور بحر الکاہل میں اترا، چند میل دور USS Hornet بحری جہاز نے آکر ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ پھرربڑ کی کشتی کے عملہ نے خیرمقدم کیا اور Iodineآیوڈین سے غسل کروایا۔ ایک علیحدہ جگہ پر اگست 10؍تک رکھا۔ پھر شاباشیوں، تھپکیوں، ملاقاتوں اور دعوتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ عزت و تکریم کے ٹوکرے برسائے گئے۔ امریکن پوسٹل ڈیپارٹمنٹ نے دس سینٹ کی یادگاری ٹکٹیں جاری کیں۔
صدی کے آخری سال 1999ء میں تاریخ دانوں سے پوچھا گیا کہ بیسویں صدی کے اہم ترین کارنامے کون کون سے ہیں ؟ تو امریکہ کے ایک جانے پہچانے تاریخ دان مسٹر آرتھر شلیسینگر (Arthur Schlesinger Jr. ) نے پہلے دس کا نام لیتے ہوئے ’’ڈی این اے‘‘، ’’پینسلین‘‘، ’’کمپیوٹر‘‘، ’’مائکرو چپ‘‘پھر کہاکہ آج سے 500 سال بعد تک اگر امریکہ قائم و دائم رہا تو لوگوں کے ذہنوں سے سب کچھ محو ہو جائے گا۔ مگر یہ نقش ضرور اُبھرے گا کہ اُس صدی میں خلا کی مہم جوئی شروع ہوئی۔ اور ’’اپالو 11‘‘سے چاند پر انسان کے پہلے قدم کو انہوں نے بیسویں صدی کا اہم ترین کارنامہ قرار دیا۔
اس وقت امریکہ 15؍بین الا قوامی کارپوریشنز کی شمولیت کے ساتھ سپیس اسٹیشن پر کام کر رہا ہے جس میں دنیا کے 18ممالک کے خلانورد شامل ہیں۔ ابھی مارچ 2019ء میں نائب صدر مائک پینس (Mike Pence) جنہوںنے از سرنو قائم کردہ ادارے ’’نیشنل سپیس کونسل‘‘کے سربراہ مقرر ہونے کے بعداعلان کیاتھا کہ ٹرمپ انتظامیہ2024ءتک دوبارہ چاند پر اپنا مشن بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نئے منتخب صدر بائڈن کی انتظامیہ بھی اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی اقدامات کرتی ہے؟ اور تو اور مریخ پر بھی پہنچنے کے لیے دل مچل رہے ہیں اور خلانورد پَر تول رہے ہیں۔
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں
٭…٭…٭