نکاح اور شادی کا مقصد
نسلِ انسانی بڑھانے کا ذریعہ
8؍جولائی 2012ء کو حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت الاسلام کینیڈا میں دو نکاحوں کا اعلان فرمایا۔اس موقع پر خطبہ نکاح میں حضور انور نے فرمایا:
’’اس وقت میں چند نکاحوں کے اعلان کروں گا۔دنیا میں آجکل انسانی نفسیات کے بارہ میں بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن جس انسانی نفسیات کو جس طرح آنحضرتﷺ نے جانا، بڑے بڑے ماہرین اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے اور اسی نفسیات کومدنظر رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے موقع پہ جن چند آیات کا انتخاب فرمایا ان میں تقویٰ پر خاص طور پر بہت زور دیا، رشتہ داروں، رحمی رشتہ داروں کے تعلقات پر بہت زور دیااور پھر اس بات پر بھی کہ یہ دیکھو کہ تم نے کل کے لئے آگے کیا بھیجا؟پس یہ چیزیں اگر نئے قائم ہونے والے رشتوں میں اور ان نئے قائم ہونے والے رشتوں کے رشتہ داروں میں، جو دونوں طرف کے قریبی رشتہ دار ہیں، ماں، باپ، بہن، بھائی ان میں پیدا ہوجائیں تو کبھی وہ مسائل نہ اٹھیں جو عموماً رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کا باعث بنتے ہیں جو رشتوں کے ٹوٹنے کا باعث بنتے ہیں، جو دونوں خاندانوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں اور پھر بعض دفعہ اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ جب مقدمات میں ملوث ہو جاتے ہیں تو پھر میرے تک معاملات پہنچتے ہیں اور پھر شدید تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ پس ہمیشہ رشتے قائم کرتے ہوئے، یہ رشتے قائم کرنے والوں کو، لڑکا لڑکی کو یہ دیکھنا چاہئے کہ صرف دنیاوی مقاصد کے لئے یہ رشتے قائم نہ ہوں۔ صرف اپنی تسکین اور خواہشات پوری کرنے کے لئے رشتے قائم نہ ہوں۔ صرف لڑکی کے جہیز کو دیکھنے کے لئے اور لڑکی کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لئے رشتے قائم نہ ہوں۔ نہ لڑکی والے اس بنا پر رشتہ قائم کریں کہ لڑکا بہت کمانے والا ہے، پیسے والا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا نے رشتہ قائم کرنے کے لئے مختلف معیار رکھے ہوئے ہیں تو تم جس معیار کو دیکھو، وہ یہ ہے کہ دینی حالت کیا ہے۔ پس جب دینی حالت دیکھی جائے گی تو لڑکا بھی اور لڑکی بھی اپنے دینی معیار بلند کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر لڑکے کو یہ کہا دینی معیار دیکھو لڑکی کا، حسن دیکھنے کی بجائے، دولت دیکھنے کی بجائے تو جہاں لڑکیوں میں یہ شوق اور روح پیدا ہوگی کہ ہم اپنے دینی معیار کو بلند کریں، علاوہ دوسری دنیوی نعمتوں کے جو اللہ تعالیٰ نے دی ہیں، تو خود لڑکے کو بھی پھر اپنا دینی معیار بلند کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی۔ کیونکہ دینی معیار صرف یکطرفہ نہیں ہوسکتا۔ یہ نہیں کہ لڑکا تو خود بیہودگیوں میں ملوث ہو اور مختلف قسم کی آوارہ گردیوں میں ملوث ہو، دنیاداری میں ملوث ہو اور یہ خواہش رکھے کہ اس کی بیوی جو آنے والی ہے اس کا دینی معیار بلند ہو۔ تو ظاہر ہے کہ جب یہ خواہش ہوگی کہ دینی معیار بلند ہو میری دلہن کا تو خود بھی وہ اس طرف توجہ دے گا۔ اسی لئے نکاح کے خطبہ کے موقعہ پر تقویٰ کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔پس یہ قائم ہونے والے رشتے اگر ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھیں گے کہ تقویٰ پہ قائم رہنا ہے، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنا ہے، ایک دوسرے کے رحمی رشتہ داروں کا خیال رکھنا ہے۔ لڑکی نے لڑکے والوں کا خیال رکھنا ہے اپنے سسرال کا اور لڑکے نے اپنے سسرال کا خیال رکھنا ہے تو کبھی وہ مسائل پیدا نہ ہوں جو رشتوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ اہم ہے کہ ہمیشہ اعتماد قائم ہونا چاہئےاور اعتماد اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب سچائی پر بنیاد ہو۔ قول سدید کا مطلب یہ ہے کہ ایسی سچائی جس میں بالکل کسی قسم کا ایچ پیچ نہ ہو، سیدھی اور کھری اور صاف بات ہو۔یہ نہیں کہ پتہ لگتا ہے کہ شادی کے بعد، لڑکی کو یا لڑکے کو کہ انٹرنیٹ(Internet) پہ ای میلوں (Emails)کے ذریعہ بعض ایسے رابطے ہیں جن کی وجہ سے پھر بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔پس پہلے دن سے جب رشتے قائم ہوں، سچائی پر بنیاد رکھ کر، اپنا سب کچھ واضح طور پر بتا دینا چاہئے اور پھر رشتے قائم کرنے چاہئیں تاکہ بعد میں کسی قسم کی بے اعتمادی پیدا نہ ہو۔
پھر سب سے بڑی بات یہ کہ اس دنیا کو سب کچھ نہ سمجھو بلکہ یہ دیکھو کہ اس دنیا میں چند سال کی زندگی گزارنے کے بعد، نوجوانی کی عمر گزارنے کے بعد بڑھاپے میں ویسے بھی دنیا کی طرف خواہش کم ہوجاتی ہے، یہ نوجوانی کے بھی چند سال ہیں جن میں زیادہ سے زیادہ دنیا کی خواہشات کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بڑھاپے اور نوجوانی کی عمر گزارنے کے بعد بھی 70سال 80سال جو زندہ رہے گا، تو جو اخروی زندگی ہے جو آخری زندگی ہے اور ہمیشہ کی زندگی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا خیال رکھو۔پس اگر یہ چیزیں ہمارے اندر پیدا ہو جائیں، ہمارے رشتوں میں پیدا ہو جائیں تو کبھی بے اعتمادی نہ ہو، کبھی رشتے نہ ٹوٹیں، کبھی لڑائیاں نہ ہوں، ایک دوسرے کے جذبات کا، احساسات کا خیال رکھنے والے ہوں۔پس یہ قائم ہونے والے رشتے ہمیشہ ان باتوں کا خیال رکھیں اور جماعت میں خاص طور پر اس کا خیال رکھنا چاہئے۔
ایک وقت تھا کہ جب ہم کہا کرتے تھے کہ اس یورپین معاشرہ میں، مغربی معاشرہ میں رشتے بہت ٹوٹتے ہیں اور اس کی وجہ یہی بے اعتمادی ہوتی ہے، لڑکا اور لڑکی میں، میاں اور بیوی میں ایک عمر کے بعد، چند سال گزارنے کے بعد بےاعتمادیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور رشتے ٹوٹتے ہیں ۔‘‘
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل21؍ستمبر2012ء)
(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 24تا28)