پریوں کے دیس بابوسر ٹاپ اور جھیل سیف الملوک کا تفریحی دورہ (قسط اوّل)
ہمارے پیار ے ملک پاکستان کو خدا تعالیٰ نے ہر نعمت سے نوازاہے۔ قدرت نے اسے قدرتی حسن سے مالا مال کیا ہے۔ فطرت کے اس حُسن میں سمندر، پہاڑ،ریگستان اور سبزہ زار ہمارے ارض پاکستان میں موجود ہیں۔ ان خوبصورت مقامات میں شمال کے علاقہ جات بھی شامل ہیں جواپنے بے پناہ قدرتی حُسن کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے جنت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
چند سال قبل ہمارے چند دوستوں نے ایک تفریحی دورہ کا پروگرام بنایا جس کےروح رواں مصور صاحب تھے۔ لیکن عین وقت پر کسی وجہ سے ہم نہ جاسکے۔ 2017ء میں پھر موصوف نے اس عزم کا اعادہ کیا اوربڑی سرگرمی سے تفریحی دورہ کا پروگرام بنانا شروع کیا۔ چنانچہ دوستوں سے مشورہ کیا گیا کہ کس علاقے میں جائیں۔ ابھی یہ صلاح مشورہ جاری تھا کہ ایک اور دوست ثاقب صاحب نے کارکنان کو وادی کاغان جانے کا مشورہ دیا جو بخوشی قبول کیا گیااور اس تفریحی سفرکے جملہ انتظامات کے لیے تیاریاں شروع کردی گئیں۔
چنانچہ پاکستان کے ان حسین علاقوں کا نظارہ کرنے کے لیے یوم آزادی کے موقع پر ہونے والی چھٹیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روانگی کا پروگرام بنایا گیا۔ سفر کی ہرلحاظ سے کامیابی کے لیے حضور انور کی خدمت میںدعائیہ فیکس اور صدقہ بھی دیا گیا۔ روانگی سے ایک دن قبل تمام انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لیےہم نے ایک میٹنگ کی جس میں مکر م ثاقب صاحب کو گروپ لیڈر منتخب کیا گیا۔ چونکہ ہم نے 14؍اگست کو روانگی اور 16؍اگست واپسی کا پروگرام ترتیب دیا تھا اس لیے وقت کی کمی کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا کہ روانگی کا وقت رات ڈیڑھ بجے رکھاجائے چنانچہ ڈرائیور کو ہدایت کی گئی کہ وہ جاکر آرام کریں اور ٹھیک ڈیڑھ بجے رات گاڑی لے کر آجائیں۔ باقی دوستوں کو بھی وقت پر آنے کی تاکید کی گئی۔ ستار صاحب اور مصورصاحب سلنڈر اور دیگر ضروری سامان لینے کے لیے بازار چلے گئے۔ اس کے علاوہ کھانے اور دیگر سامان بہم پہنچانے کی ذمہ داری بھی ان دونوں کے سپرد کی گئی جو انہوں نے احسن رنگ میں پوری کی۔ مذکورہ بالا میٹنگ میں ہی دیگر “زادِراہ”خریدنے کے لیے طاہر سندھوصاحب کی ڈیوٹی لگائی گئی جو انہوں نے کمال ذمہ داری سے نبھائی۔
13؍ اگست 2017ء بروز اتوار کی رات جبکہ ہر طرف جشن آزادی کی تیاریاں عروج پر تھیں، ہر طرف مختلف عمارتوں پر چراغاں سے ربوہ جگمگارہاتھا۔ کچھ دیر بعد قدرت بھی ہم پر مہربان ہوگئی۔ اچانک بادلوں کی گھنگھور گھٹائیں آئیں اور تیز بارش شروع ہوگئی۔ ہرطرف موسم خوشگوار ہوگیا۔ ادھر ہمارے دوست ناران کے سفر کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ سفر کی خوشی میں بعض کو نیند بھی نہیں آئی۔ بعض کا خیال تھا کہ اگر سوگئے تو پھر ایک بجے اُٹھنا پڑے گا۔ خاکسار نے اپنا بیگ تیار کرکے سونے کی ناکام کوشش کی۔ مگر نیند کوسوں دور تھی۔ نظریں بار بارگھڑی کی طرف اُٹھ رہی تھیں۔ رات ساڑھے بارہ بجے ستار صاحب نے شاملین قافلہ کو فون کرنے شروع کردیے کہ احباب تیاری مکمل کرلیں کیونکہ ہماری روانگی میں صرف ایک گھنٹہ باقی ہے۔ خاکسار تو پہلے ہی تیار بیٹھا تھا۔ چنانچہ رات ایک بجے جبکہ رات کا سناٹا طاری تھا میں نے اپنا بیگ سائیکل پر رکھا اور روانگی کے مقام کی طرف جہاں ڈرائیور صاحب نے گاڑی لے کر آنا تھا، چل پڑا۔ آج خاکسا ربڑاخوش تھا کہ آج میں سب سے پہلے پہنچنے کا ریکارڈقائم کروں گا لیکن اس وقت ساری خوشی کافور ہوگئی جب دیکھا کہ طاہر سندھو صاحب تو پہلے سے پہنچ چکے ہیں۔ بہرحال اب ہم باقی دوستوں کا انتظار کرنے لگے۔ ستار صاحب کو فون کیا تو انہوں نے بتا یاکہ انہوں نے اور ثاقب صاحب نے اکٹھے ہی آنا ہے وہ صرف گاڑی کا انتظار کررہے ہیں۔ تھوڑی دیر تک مصور صاحب اور بشارت صاحب بھی آگئے۔ ڈیڑھ بج چکے تھے لیکن ابھی تک سارے دوست اکٹھے نہیں ہوئے تھے۔ مصور صاحب اور طاہر صاحب سلنڈر اور دیگر سامان لے کر آرہے تھے کہ اتنے میں گاڑی بھی آگئی اور تمام دوست اکٹھے ہوگئے۔
ٹھیک دو بجے ہماری روانگی عمل میں آئی۔ راستے میں ایک جگہ سے پینے کا پانی کین میں بھر لیا گیا تاکہ سفر میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ جیسے ہی ہماری گاڑی ربوہ کی حدود سے باہر نکلی اچانک موسلادھار بارش پھر سے شروع ہوگئی۔ اس طرح اس تفریحی سفر کا آغاز تیز بارش کے ساتھ ہوا۔ اس موقع پر ہمارے دوست بشارت صاحب نے ایک حیرت انگیز انکشاف کیا کہ خدا کی قدرت دیکھیں کہ ہمارے ربوہ سے باہر نکلنے کی دیر ہے کہ ربوہ میں باران رحمت برسنا شروع ہوگئی ہے۔ اس پر ایک فلک شگاف قہقہہ پڑا کیونکہ سفر کا آغاز نہایت خوشگوارطریقے سے ہوا تھا۔ ہمارے اس سفر میںدرج ذیل دوست شامل تھے:
ثاقب احمد صاحب (امیر قافلہ)، ستارصاحب، عطاء المصورصاحب، بشارت صاحب، طاہر ملک صاحب، ناصر صاحب، طاہر سندھو صاحب، جمیل صاحب، مصلح الدین صاحب اور خاکسا ر۔
چونکہ سفر کافی لمبا تھا۔ ٹائم پاس کرنے کے لیے بعض دوستوں نے اپنی اپنی مصروفیت اختیار کر لی اور کچھ دوست دیکھتے ہی دیکھتے نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ مصور صاحب اور ان کے بھائی جمیل صاحب سروں پر ٹوپیاں پہنے ہوئے اپنی سیٹوں پر بڑی خاموشی سے براجمان تھے۔ بشارت صاحب نے انہیں اس طرح بیٹھے دیکھا تو انہیں مخاطب کرتے ہوئے ازراہ تفنن کہنے لگے کہ آپ دونوں بھائی تو اس طرح بیٹھے ہیں جیسے آپ کا ویزالگ گیا ہے اور آپ یوکے جارہے ہیں۔ انہی خوش گپیوں او ر ہنسی مذاق میں سفر جاری رہا۔ چند گھنٹے بعد نماز فجر کا ٹائم ہوگیا۔ ہم سب نے محتر م قائد صاحب کی اقتدا میں نماز باجماعت اد اکی۔ نماز فجر کے بعد صبح کی روشنی ہوئی تو ہم ایبٹ آباد کی حدود میں داخل ہورہے تھے۔ آج یوم آزادی کا مبارک دن تھا۔ ہر طرف پاکستانی پرچموں کی بہار تھی اور لوگ یوم آزادی کی خوشیاں منارہے تھے۔ ہمارے ڈرائیور مطلوب صاحب نے بھی اس مناسبت سے ملی نغمے لگادیے جو ابھی تک کانوں میں گونج رہے ہیں۔
ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم
یہ پرچموں میں عظیم پرچم
انہی خوشگوار لمحات میں سفر کرتے ہوئے ہم مانسہرہ پہنچ گئے۔ صبح کے چھ بج چکے تھے یہ شہر خیبر پختونخواہ کا ایک ضلع ہے جو حضرت سید احمد شہید کی جنگ بالاکوٹ کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ سبزہ زاروں،جھیلوں اور چراگاہوں کی سرزمین ہے جو انتظامی طور پر 1976ء میں ہزارہ سے علیحدہ ہوئی۔ اب ناشتے کی طلب ہورہی تھی۔ قائد صاحب نے ایک جگہ ہوٹل دیکھ کر گاڑی رُکوائی اور طاہر سندھو صاحب کو بھیجا کہ وہ جاکر پتہ کریں کہ ناشتے کے نرخ کیا ہیں یعنی اگر مناسب ہوں تو یہاں ناشتہ کرلیں۔ سندھوصاحب حکم کی تعمیل میں فوراً گاڑی سے اُترے اور ہوٹل والے کے پاس جاکر مذاکرات شروع کردیے۔ تھوڑی دیر بعد واپس آگئے اور بتایا کہ ریٹس زیادہ ہیں چنانچہ ہم آگے چل پڑے۔ تھوڑی دور ایک اَور ہوٹل نظر آیا تو طاہر صاحب نے گاڑ ی سے اُتر کر ہوٹل کے مالک سے جو ایک پٹھان تھا بات چیت شروع کردی۔ ہم گاڑی میں بیٹھے مذاکرات کی کامیابی کا انتظار کررہے تھے کہ اچانک انہوں نے ہمیں اشارہ کیا کہ آجائیں۔ چنانچہ ہم ناشتے کے لیے گاڑی سے اُتر کر ہوٹل میں آگئے۔ درمیانہ سا ہوٹل تھا۔ ناشتے میں پراٹھے کے ساتھ آملیٹ اوردال تھی۔ دال اتنی مزیدار تھی کہ ایک دوست نے بے اختیار ہوٹل کے مالک سے جاکر دریافت کیا کہ کیا gravy ملے گی۔ اس نے بڑی خوشدلی سے جواب دیا جی ضرور ملے گی۔ یاد رہے کہ ہمارے ماحول میں ہوٹل وغیرہ پر پلیٹ میں موجود سالن ختم ہونے کے بعد جو تھوڑا سا سالن زائد مہیا کیا جاتا ہے اسے gravyکہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
پریوں کے دیس بابوسر ٹاپ اور جھیل سیف الملوک کا تفریحی دورہ (قسط دوم۔ آخری)
ناشتے کے بعد محترم قائد صاحب نے ایک دوست کی ڈیوٹی لگائی کہ ناران میں کسی اچھے ہوٹل کاپتہ کریں۔ طاہرملک صاحب کے پاس چونکہ ہائکنگ کا کام ہے ان کا را بطہ مختلف گروپس سے رہتا ہے اس لیے انہوں نے کمروں کے حصو ل کے لیے ناران کے ایک دوست سے رابطہ کیا جن کا ناران میں اپنا ہوٹل ہے اور وہ گائیڈ بھی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ناران پہنچنے پر ان سے رابطہ کرلیں۔
ناشتے سے فارغ ہوکر ہم آگے چل پڑ ے۔ ایبٹ آباد کے بعد ناران کی حدود شروع ہوگئی تھیں۔ یہ وادی مانسہرہ کے شمال کی جانب 120کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جس کو ہم وادی ناران کے نام سے جانتے ہیں۔ وادی ناران کی خوبصورتی سے استفادے کا اعزاز ہمیں دشوار گزار پہاڑوں کو تراشتے راستوں اور اس ہائی وے کی بدولت حاصل ہوا جو دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ ناران سے گزرتاہوا پاک چین دوستی کی عظیم مثال شاہراہ قراقرم سے جاملتا ہے۔ اونچے پہاڑوں، دلکش نظاروں اور خوبصورت آبشاروں کی گود میں بہتاہوا دریائے کنہار اس حسین وادی کی سیر میں قدم قدم پر ہماراہم سفر رہا جو مختلف راستوں سے بہتا ہو اکبھی نظر سے اوجھل ہو جاتا اور کبھی پھر ہمارے سا تھ آملتا تھا۔ اسی دوران ایک مناسب پوائنٹ پر ہم نے گاڑی روکی اور چائے پینے کا پروگرام بنایا۔ دوپہر کے دو بجنے والے تھے۔ اور سورج سر پر تھا۔ بلند وبالا پہاڑوں کے درمیان بہتا ہوا دریائے کنہار نہایت خوبصورت منظر پیش کررہا تھا۔ اس وقت ملک کے دیگر حصوں میں شدید گرمی کاراج تھا لیکن دس بارہ گھنٹے کی ڈرائیو پر منظرہی بدلا ہوا تھا۔ موسم سرد ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت خوشگوار تھا۔ ہم پتھر کی سلوں پر بیٹھ کر بہتے ہوئے دریا کے ٹھنڈے پانی سے اپنے ہاتھ پاؤں دھونے لگے۔ تصویر کشی کا شوق بھی پورا کیا گیا۔ ملک ناصر صاحب نے چائے بنانا شروع کردی۔ چائے کے بعد ہم سب نے وضو کیا اور گاڑی میں بیٹھ کر نماز ظہر وعصر باجماعت ادا کیں۔ تھوڑی دور آگے ایک جگہ لکڑی کا پُل نظر آیا۔ اس جگہ زندہ ٹراؤٹ فش بھی فروخت کی جارہی تھی۔ ہم نے پُل پر کھڑے ہوکر تصویریں بنوائیں۔ ہمارے ایک ساتھی اتنی دلچسپی اور لگن سے سیلفیاں بنارہے تھے کہ ایک مقامی باشندہ ان کے اس شوق کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ پھر وہ ہمارے پاس آیا اور بے ساختہ بولا کہ یار یہ لڑکا تو جنونی لگتا ہے۔
وادی کاغان
اس وادی میں دنیا کی خوبصورت ترین درجنوں جھیلیں ہیں جن میں جھیل سیف الملوک، لو لو سر اور آنسو جھیل وغیرہ شامل ہیں۔ مانسہر ہ سے ناران کے سفر کے دوران کیوائی،شوگران اور وادی کاغان جیسی خوبصورت جگہیں دیکھنے کو ملیں گی لیکن وادی ناران کی خوبصورتی کے جو نظار ے دیکھنے کو ملتے ہیں وہ شاید کیمرے کی آنکھ سے ہم کبھی محسوس نہ کرسکیں۔ سہ پہر چار بجے ہم ناران کی حدود میں داخل ہورہے تھے۔ خیموں کا ایک بہت بڑا شہر یہاں آباد تھا۔ طاہر صاحب نے اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا تو انہوں نے ایک ہوٹل کا نام لیتے ہوئے کہا وہاں متعلقہ آدمی سے رابطہ کرلیں۔ اب ہم اس ہوٹل کی تلاش کرنے لگے۔ اسی تلاش میں کافی دیر لگ گئی۔ آخر کا رایک جگہ ہمیں اس ہوٹل کا بورڈ نظر آیاتو ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ قائد صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ اندر جا کر کمروں کا جائزہ لیتے ہیں اس کے علاوہ انہوں نے ستار صاحب اور بشارت صاحب کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ شہر میں جاکر اپنے طورپر کسی ہوٹل کا پتہ کریں تاکہ جہاں مناسب ہو وہاں فائنل بات کرلی جائے۔ قائد صاحب کے ساتھ خاکسار اور طاہر ملک صاحب نے ہوٹل کے متعلقہ آدمی کے ساتھ جاکر کمروں کاجائزہ لیا لیکن ہماری تسلی نہ ہوئی۔ اسی اثنا میں بشارت صاحب نے اطلاع دی کہ ایک اور گیسٹ ہاؤس میں مناسب ریٹ کے ساتھ رہائش کا انتظام ہے۔ ہم نے جاکر جائزہ لیا تو یہ ہوٹل مین بازار کے قریب ہی ایک گلی میں واقع تھا۔ ایک سائیڈ پربرآمدے کے ساتھ دو بڑے کمرے تھے جن میں تین تین بیڈ لگے تھے۔ دوراتوں کے قیام کا کرایہ پانچ ہزار روپے نہایت ہی مناسب ہوتا تھا ۔ ہم نےاللہ کا شکر ادا کیا اورکمروں کے ساتھ ہی گاڑی پارک کرکے سامان اندر رکھا۔ ناران شہرمیں مناسب ہوٹل کا ملنا کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہاں کے مشہور ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں مون ہوٹل شامل ہے جہاں مہنگے رہائشی ہوٹلوں کے ساتھ ساتھ نہایت مناسب کرائے پر ملنے والے ہٹس روم آسانی سے دستیاب ہیں جن میں ایک مشہور نام الجنت گیسٹ ہاؤس ہے۔
ہوٹل میں کمرے کی بکنگ کرواتے وقت ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ جب ستارصاحب اور بشارت صاحب گیسٹ ہاؤس والوں سےbargainingکررہے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ فی کمرہ پانچ ہزار میں بات طے ہوجائے لیکن ہوٹل والے اس پر راضی نہ ہورہے تھے۔ ریٹ کم کروانے کی بھر پور کوشش میں بحث وتکرار جاری تھی کہ اتنے میں ایک اور دوست بھی وہاں پہنچ گئے۔ انہوں نےجب دیکھا کہ معاملہ طے نہیں ہورہا تو اپنی طرف سے انوکھا مشورہ دیتے ہوئے بولے کہ
’’چلو یار پانچ نہیں تو ساڑھے پانچ ہزار کرلو‘‘
ہوٹل والے حیرانی سے دیکھ رہے تھے کہ یہ کیاکہہ رہے ہیں۔ بہرحال پانچ ہزار میں بات فائنل ہوگئی۔
بہرحال ہم سب تازہ دم ہوئے اور رات کے کھا نے کی تیاری شروع کردی۔ طاہر ملک صاحب بازار جاکر چکن کے ساتھ نان روٹیاں لے آئے۔ ہمیں کھانے کے لیے ہوٹل جانے کی ضرورت اس لیے نہیں پڑی کہ ہمارے پاس کوکنگ کے ایک ماہر مصور صاحب موجود تھے جنہوں نےتھوڑی ہی دیر میں نہایت لذیذ کھانا تیا ر کرلیا۔ شام کو بارش شروع ہوگئی جس سے موسم سرد ہوگیا۔ ہم نے نماز مغرب وعشا ء باجماعت ادا کیں اور پھر کھانا کھایا گیا۔ کھانے کے بعد ناصر ملک صاحب نے مزیدار سی چائے بناکر پیش کی۔ جس سے سفر کی ساری تھکاوٹ دور ہوگئی۔ اس موقع پر بشارت صاحب نے احباب کے سامنے ایک رفیق سفر کے بعض’’کارہائے نمایاں‘‘ بیان کیے جن سے احباب بہت ’’متاثر‘‘ہوئے۔ یہ دلچسپ محفل رات گئے تک جاری رہی۔ اس دن ہمیں ایک دوست کی ایک خوبی کا انکشاف ہوا کہ ان میں خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواہے۔ اسی ہوٹل میں پنجاب کے ایک شہر سے آئے ہوئے بعض نوجوان ٹھہر ے ہوئے تھے۔ جن سے ان کاتعارف ہوا اور یہ تعارف دوستی میں بد ل گیا۔ موصوف نے اپنے نئے دوستوں کی خدمت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ کبھی ان کے لیے سالن لے کر جارہے ہیں اور کبھی روٹیاں، کبھی انہیں بازار سے دوائی لاکر دے رہے ہیں۔ رات جب زیادہ ہوگئی تو قائد صاحب نے اعلان کیاکہ سب دوست اب سو جائیں تاکہ وقت پر نماز فجر پر اُٹھ سکیں اور پھر بابوسرٹاپ کی طرف روانگی ہوسکے۔
بابوسرٹا پ کی طرف روانگی
دوسرے دن ہم صبح ساڑھے چار بجے بیدا رہوگئے۔ کل شام سے جو بارش شروع تھی اور رات بھر وقفے وقفے سے جاری رہی صبح تک تھم چکی تھی۔ ہم نے جلدی سے اُٹھ کر نماز فجر کے لیے تیار ی کی۔ اتنی دیر میں دوسرے کمر ے سے بھی باقی دوست اُٹھ کر آگئے۔ نماز کے بعد محترم قائد صاحب نے ہدایت کی کہ دوست کچھ دیر آرام کرلیں اس کے بعد چھ بجے ہم ناشتہ کریں گے اور سات بجے بابوسرٹاپ کے لیے روانگی ہوگی۔ ناشتے کے لیے ملک طاہر صاحب کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ بازار سے نان اور انڈے لے آئیں۔ ناشتہ میں ہمارے شیف دوست نے آملیٹ بنایا جو بہت مزیدار تھا۔ اس کے بعد ملک صاحب نے چائے بناکرپلائی۔ چائے کے بعد ہم نے بابو سر ٹاپ جانے کی تیار ی شروع کردی۔ پینے کا پانی اور چائے کاسامان بھی گاڑی میں رکھا تاکہ بابو سر ٹاپ پر جاکر چائے بنائی جاسکے۔ سات بجے ہماراقافلہ روانگی کے لیے تیار تھا۔ کچھ دیر بعد گاڑی ہمارے ناران شہر کے خوبصورت راستوں سے ہوتی ہوئی بابوسر ٹاپ کے لیے روانہ ہوگئی۔ ناران سے بابوسرٹاپ کا راستہ تین گھنٹوں پر محیط ہے۔ راستے میں پہاڑوں کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت آبشار بہ رہی تھی۔ ہم قدرت کے اس حسین نظارہ کو اپنے کیمروں میں محفوظ کرنے کے لیے گاڑی سے اُتر کر باہر آگئے۔ سب سے پہلے سندھو صاحب باہر نکلے اور آبشار کے بالکل قریب جاکر پہاڑکے دامن میں کھڑے ہوگئے اور سیلفی بنانے لگ گئے۔ ان کی نازک طبیعت کے پیش نظر ہمیں خدشہ تھا کہ راستے میں ان کی طبیعت نہ خراب ہوجائے۔ اس لیے ہم نے پہلے ہی“حفاظتی اقدامات ”کرلیے تھے۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ راستے میں دوتین دفعہ ان کی طبیعت خرا ب ہوئی لیکن پھر نئے عزم وہمت سے سفر کا آغاز کرتے۔ محتر م قائد صاحب نے ان کو اس سلسلے میں ہدایا ت بھی دیں لیکن انہوں نے زیادہ توجہ سیلفیاں بنانے کی طرف مبذول رکھی۔ جیسے ہی گاڑی رکتی موصوف فوراًطبیعت خراب ہونے کے باوجود گاڑی سے باہر لپکتے اور کھٹا کھٹ سیلفیاں بنانے لگ جاتے۔ دوستوں نے کئی دفعہ توجہ دلائی کہ اپنی صحت کا بھی خیال رکھیں لیکن ان کی توجہ سیلفی بنانے کی طرف زیادہ تھی کہ کہیں کوئی حسین منظر ان کے کیمرے کی میموری میں محفوظ ہونے سے رہ نہ جائے۔
بابوسرٹاپ کے راستے میں مختلف مقامات پر رُک کر ہم قدرت کے حسین نظاروں کا مشاہدہ کرتے رہے۔ ایک جگہ ایسی آئی جہاں پہاڑ پر برف جمی ہوئی تھی یہاں تک کہ سفید برف کی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ اورلوگ سیڑ ھی پر کھڑے ہوکر تصاویر بنوارہے تھے۔ اس کے علاوہ مقامی لوگوں نے برف سے کئی چیزوں کے ماڈل بنارکھے تھے۔ یہاں بھی سیلفیاں بنانے کا عمل جاری تھا۔ خوبصورت پہاڑوں اور حسین وادیوں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ ہم آہستہ آہستہ بلندی کی طرف جارہےتھے۔ آخر کار ہم قدرت کے اس عظیم شاہکارکے پاس پہنچ گئے جہاں برف اور بادلوں کا راج ہے۔ جی ہاں اس وقت ہم بابوسر ٹاپ پر موجود تھے جس کو پریوں کادیس بھی کہاجاتاہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جو ان گنت حسین وادیوں،جھرنوں اور گلیشئرز کی آماجگاہ ہے۔ اس کی رنگینیوں کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح پاکستان آتے ہیں۔ سیاحتی اعتبارسے دلفریب ہونے کے علاوہ یہ پر فضا مقام جغرافیائی اور تاریخی اعتبار سے بھی مخصوص اہمیت کاحامل ایک اہم درّہ ہے۔ بڑھتی ہوئی گرمی کے ستائے ہوئے ہزاروں ملکی اور غیر ملکی سیاح یہاں کے دلکش قدرتی مناظر،خوشگوار موسم،ہرے بھرے اور بل کھاتے سرسبز پہاڑوں،برفیلے اور یخ بستہ جھرنوں کی فطری جھلک سے لطف اندوز ہونے کے لیے جوق در جوق یہاں آتے ہیں۔ یہاں پر جولائی کے مہینے میں پہاڑوں پر برف باری ایک ایسا منظر پیش کرتی ہے جس سے یوں لگتا ہے کہ انسان پریوں کے دیس میں آنکلا ہے۔ جیسے ہی ہم گاڑی سے اُترے،شدید سرد ہوا کے جھونکے ہم سے ٹکرانے لگے۔ برفیلی ہواؤں سے ہمارے ہاتھ کپکپارہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کسی برفانی علاقے میں آگئے ہیں۔ یہاں پر ایک جگہ سنگ مرمر کا کتبہ نصب ہے جس پر لکھا ہے کہ بابوسر ٹاپ سطح زمین سے 13,700فٹ بلند ہے۔ اس کے علاوہ یہاں سے ناران گلگت اور دیگر علاقوں کا فاصلہ بھی لکھا ہوا تھا۔ یہاں بھی تصویر بازی کا شوق پورا کیا گیا۔ اس کے بعد کچھ دوست ٹریک پر آگے کی طرف نکل گئے۔ بابوسرٹاپ میں آنے والے سیاح اپنے مزاج کے مطابق چٹخارے دار اور چٹ پٹے کھانوں،پکوڑوں،گرماگرم چائے اور ٹھنڈے مشروبات کے ذریعے اپنے ذائقہ کو دوبالاکرتے ہیں ہم چند دوست محترم قائد صاحب کے ساتھ ایک چائے والے کے پاس چلے گئے۔ ہم یہ سُن کر ورطۂ حیرت میں ڈوبتے ڈوبتے رہ گئے کہ چائے کا ایک کپ 60روپے کا ملے گا۔ بہرحال 40روپے فی کپ طے ہوا۔ ابھی ہم چائے پی رہے تھے کہ باقی دوست بھی تشریف لے آئے۔ اس پر ہم نے سوچا کہ کیوں نہ بابوسرٹاپ پر چائے بنانے کا مشن پورا کیا جائے۔ چنانچہ ملک صاحب نے حسب سابق اپنی ڈیوٹی نبھاتے ہوئے چائے بنانے کے لیے گاڑی سے سلنڈر اور دیگر سامان نکالا۔ یہاں بعض دفعہ ماچس یا لائٹر سے آگ جلانا مشکل ہوجاتاہے بہر حال کوشش کرکے آگ جلائی گئی اور چائے تیار ہوگئی۔ اچانک ہمیں سندھو صاحب کا خیال آیا جو کافی دیر سے نظر نہیں آئے تھے۔ ان کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ چند منٹ اسی پریشانی میں گزرے کہ اچانک سامنے سے گرم چادر اوڑھے کوئی ذی روح چیزآتی دکھائی دی۔ جب قریب آئی تو پتہ چلاکہ سندھو صاحب ہیں۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ بخیر وعافیت آگئے ہیں۔ انہوں نے اُلٹا ہم پر رعب ڈالنا شروع کردیا کہ میں تو آپ کو ڈھونڈ رہا تھا۔ اسی اثنا میں چند پختون دوست نظر آئے جو اپنی گاڑیوں پر بابوسرٹاپ پہنچے تھے۔ وہ لوگ ایک کھلی جگہ پر گاڑیا ں روک کر باہر آئے۔ بابو سرٹاپ کے سحر انگیز ماحول نے انہیں اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے اپنی گاڑ ی کے ڈیک پر پشتو گیت لگا یا اورسب مل کر اس کی تھاپ پرخوشی سے جھومتے ہوئے مخصوص پختون رقص کرنے لگے۔ رقص کرتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ تالیاں بھی بجارہے تھے۔ پہلے ہم نے سنا تھا کہ یہاں برفیلے اور سبزہ زار پہاڑوں سے سیلفیاں بنانے اور خوب ہلہ گلہ کرنے کے ساتھ ساتھ گنگنانے،جھومنے اور ناچنے کی محفلیں بابوسر ٹاپ میں دیکھنے کو عام ملتی ہیں آج ہم نے اس کا عملی مشاہدہ بھی کرلیا۔ چند منٹ یہ رقص جاری رہااور لوگ ان کی تصویریں بناتے رہے۔ اتنی دیر میں ہماری چائے تیار ہوچکی تھی۔ ہم نے سوچا کیوں نہ گاڑی کے اندر بیٹھ کر چائے پی جائے۔ گاڑی میں بیٹھ کر چائے پینے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ کچھ دوست چائے پی کر پھر گھو منے چلے گئے۔
موجود ہ دور میں بابوسر ٹاپ ۔ناران روڈ کی تعمیر نے بھی بابوسر ٹاپ اور ملحقہ وادیوں کی اہمیت اور فطری خوبصورتی کو دوبالاکرنے کے حوالے سے سونے پر سہاگے کاکام کیاہے۔ تاہم بہت بڑی تعدادمیں آمدورفت اورسیاحوں کے عدم ذمہ دارانہ رویے اور متعلقہ اداروں کی عدم توجہی کے سبب بابوسر ٹاپ اور دیگر مقامات پر کچرے کے ڈھیر لگ چکے ہیں جو فضائی اور زمینی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔ مقامی انتظامیہ اور محکمہ سیاحت کو چاہیے کہ وہ اس پُر فضامقام کی خوبصورتی اور سیاحتی کشش کوبرقرار رکھنے کے لیے صفائی کا مستقل انتظام کروائے اور آگہی پیدا کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرے تاکہ بابوسر ٹاپ کی قدرتی خوبصورتی کو بحال رکھا جاسکے اور سیاحت کے فروغ سے پاکستان کے لیے زرمبادلہ کمایاجاسکے۔
لولو سر جھیل
یہاں چند گھنٹے گزارنے کے بعد ہم واپس ناران کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستے میں چند اَور مقامات پر بھی قدرت کے حسین نظاروں کا مشاہدہ کیا۔ یہاں ہم نے لولوسر جھیل کا بھی نظارہ کیا۔ یہ وہ سحر انگیز جھیل ہے جو سطح سمندر سے 11,190فٹ کی بلندی پر ناران سے 48کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ جھیل اطراف سے جنگل میں گھری ہوئی ہے۔ اس کے قریب واقع جڑی بوٹیوں کے جنگلات ملکی شہر ت کے حامل ہیں۔ اس کے ارد گرد سبزے سے ڈھکے ہوئے پہاڑ اس کے حسن کو دوبالا کررہے تھے۔ اس جھیل کے بارے میں کہاجاتاہے کہ یہ جھیل دریائے کنہار کا منبع ہے۔
سلسلہ کوہ ہمالیہ کی یہ خوبصورت وادی بے شمار گلیشئرز اور بلند ترین پہاڑوں کی سرزمین ہے جن میں سے ایک سفید بادلوں میں گھری اور برف کی چادر اوڑھے ملکہ پربت ہمیں بلندیوں کے سفر میں خوش آمدید کہہ رہی تھی۔ ہر سال ملکی اور غیرملکی سیاح وادی ناران کا رُخ کرتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے دماغ پر نقش ہوجانے والے دلکش نظاروں کو اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭