خدا تعالیٰ فرماتا ہے جو میری کتاب پر چلنے والا ہو وہ ظلمت سے نور کی طرف آوے گا
یہ بات سمجھنے والی ہے کہ ہر ایک مسلمان کیوں مسلمان کہلاتا ہے؟ مسلمان وہی ہے جو کہتا ہے کہ اسلام برحق ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہیں۔ قرآن کتابِ آسمانی ہے۔ اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں ان سے باہر نہ جائوں گا۔ نہ عقیدہ میں، نہ عبادت میں، نہ عملدرآمد میں۔ میری ہر ایک بات اور عمل اس کے اندر ہی ہوگا۔
گدی نشینوں کی حالت
اب اس کے مقابل پر آپ انصاف سے دیکھیں کہ آج کل گدی والے اس ہدایت کے موافق کیا کچھ کرتے ہیں۔ اگر وہ خدا کی کتاب پر عمل نہیں کرتے توقیامت کو اس کا جواب کیا ہوگا کہ تم نے میری کتاب پر عمل نہ کیا۔ اس وقت طوافِ قبر، کنجریوں کے جلسے اور مختلف طریقے ذکر جن میں سے ایک ارّہ کا ذکر بھی ہے، ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارا سوال ہے کہ کیا خدا بھول گیا تھا کہ اس نے یہ تمام باتیں کتاب میں نہ لکھ دیں نہ رسول کو بتائیں۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت جانتا ہے اسے ماننا پڑے گا کہ اللہ اور اس کے رسول کے فرمودہ کے باہر نہ جانا چاہیے۔
اسلام اور بدعت کیا ہیں
کتا ب اللہ کے برخلاف جو کچھ ہو رہاہے وہ سب بدعت ہے اور سب بدعت فی النّار ہے۔ اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجُز اس قانون کے جو مقرر ہے اِدھر اُدھر بالکل نہ جاوے۔ کسی کا کیا حق ہے کہ باربار ایک شریعت بناوے۔
بعض پیر زادے چوڑیاں پہنتے ہیں۔ مہندی لگاتے ہیں۔ لال کپڑے ہمیشہ رکھتے ہیں۔ سَدا سہاگن ان کا نام ہوتا ہے۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو مرد تھے۔ اس کو مرد سے عورت بننے کی کیا ضرورت پڑی؟
ہمارا رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کتاب قرآن کے سوا اور طریق سُنّت کے سوا نہیں۔ کس شے نے ان کو جرأت دی ہے کہ اپنی طرف سے وہ ایسی باتیں گھڑ لیں۔ بجائے قرآن کے کا فیاں پڑھتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا دل قرآن سے کھٹا ہوا ہوا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے جو میری کتاب پر چلنے والا ہو وہ ظلمت سے نور کی طرف آوے گا اور کتاب پر اگر نہیں چلتا تو شیطان اس کے ساتھ ہوگا۔
بندگانِ خدا کی علامت
مگر جو خدا کے بندے ہوتے ہیں ان میں خوشبو اور برکت ہوتی ہے۔ فر یب اور مکر سے ان کو کوئی غرض نہیں ہوتی۔ جیسے آفتاب اسے چمکتا ہوا نظر آتا ہے ایسے ہی دور سے اس کی چمک دکھائی دیتی ہے اور دنیا میں اصل چمک انہی کی ہے۔ یہ آفتاب اور قمر وغیرہ تو صرف نمونہ ہیں۔ ان کی چمک دائمی نہیں ہے کیونکہ یہ غروب ہو جاتے ہیں لیکن وہ غروب نہیں ہوتے۔ جس کو خدا اور رسول کی محبت کا شوق ہے اور ان کے خلاف کو پسند نہیں کرتا اور عفونت اور بد بو کو محسوس کرنے کا اس میں مادہ ہو وہ فوراً سمجھ جائے گا کہ یہ طریق اسلام سے بہت بعید ہے۔ مثلِ یہود کے خدا نے ان کو چھوڑ دیا ہے۔ بلعم کی طرح اب مکروفریب کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں رہا۔ صفائی والا انسان جلد دیکھ لیتا ہے کہ یہ جسم اس حقیقی رُوح سے خالی ہے۔
سجادہ نشینوں کے پَیرو
انسان توجہ کرے تو اسے پتہ لگتا ہے کہ جو لوگ صُمٌّ بُكْمٌ ہو کر سجادہ نشینوں کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہیں اور عرسوں وغیرہ میں شریک ہو جاتے ہیں ان کو یہ خیال نہیں آتا کہ وہ کونسی روشنی ہے جو خانہ کعبہ سے شروع ہوئی تھی اور تمام دنیا میں پھیلی تھی اور انہوں نے اس میں سے کس قدر حصہ لیا ہے۔ ان کو ہرگز وہ نور نہیں ملتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے لائے اور اس سے کُل دنیا کو فتح کیا۔ آج اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیداہوں تو ان لوگوں کو جو اُمت کا دعویٰ کرتے ہیں کبھی شناخت بھی نہ کرسکیں۔ کونسا طریقہ آپ کا ان لوگوں نے رکھا ہے۔
شریعت کیا ہے؟
شریعت تو اسی بات کا نام ہے کہ جو کچھ آنحضرتؐ نے دیا ہے اسے لے لے۔ اور جس بات سے منع کیا ہے اس سے ہٹے۔ اب اس وقت قبروں کا طواف کرتے ہیں ان کو مسجد بنایا ہوا ہے۔ عر س وغیرہ ایسے جلسے نہ منہاجِ نبوت ہے نہ طریق سُنّت ہے۔ اگر منع کرو تو غیظ وغضب میں آتے ہیں اور دشمن بن جاتے ہیں۔ چونکہ یہ آخری زمانہ ہے ایسا ہی ہونا چاہیے تھا لیکن اسی زمانہ کے فسادوں کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اس زمانہ میں اکیلا رہنا اور اکیلا مرجانا یا درختوں سے پنجہ مار کر مر جانا ایسی صحبتوں سے اچھا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سب چیزیں پوری ہو رہی ہیں انسان دوسرے کے سمجھائے کچھ نہیں سمجھتا۔ دل میں کسی بات کا بٹھا دینا یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ خدا جب کسی سے نیکی کرتا ہے تو اسے کچھ عطا کرتا ہے۔ اس کے دل میں فراست پیداہو جاتی ہے اور دل ہی معیار ہوتا ہے مگر محجوب دل کام نہیں آتا۔ یہ کام ہمیشہ پاک دل سے نکلتا ہے۔
مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى (بنی اسرائیل:73)
ان باتوں کے لئے دعا کرنی چاہیے۔
(ملفوظات جلد 5صفحہ 162۔165۔ایڈیشن 1984ء)