مکرم خالد محمود الحسن بھٹی صاحب مرحوم
حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ میں جب کسی مرحوم کا ذکرِ خیر فرماتے ہیں تو خاکسار کے دل میں جہاں ان کےلیے حضور کی اقتدا میں دعا نکلتی ہے وہیں دل کی گہرائیوں سے یہ آواز آتی ہے کہ ایں سعادت بزورِ بازو نیست۔ اس کاسبب جاننے کےلیے احمدی مسلمان ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ ایک احمدی مسلمان کا ہی دل یہ جان سکتاہے کہ زندگی میں خلیفۃ المسیح کی زبان مبارک سے نام لیا جانا کیا معنے رکھتا ہےاورحضور کی نظر شفقت کا پڑ جانا کیسی کیسی سعادتوں کا پیش خیمہ ہوا کرتا ہے۔ حضور کی زبان مبارک سے ’’اچھا اللہ تعالیٰ فضل فرمائے‘‘ کے الفاظ سن لینے کے بعد احمدی کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی برسات کا ایسا یقین ہو جایا کرتا ہے کہ وہ ذات کے پرنالوں کی صفائی کرنے لگ جاتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ آخر خلافتِ احمدیہ کو قبولیت خدا تعالیٰ کے دربارِ اقدس سے ہی تو عطا فرمودہ ہے جس کے نظارےخدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہم روز دیکھتے چلے آتے ہیں، الحمدللہ۔ بے شک
اسی کا کام ہے اس دکھ بھرے زمانے میں
محبتوں سے ہمیں* مالا مال کر رکھنا
(* اصل شعر میں ’’مجھے ‘‘ہے لیکن ذکر جماعت کا ہو رہا ہے تو عاجز نے تصرف کی جسارت کرتے ہوئے ہمیں درج کیا ہے)
اسی طرح ایک قابل رشک بات کسی کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح کی زبان مبارک سےمرحوم کا ذکر خیر بھی ہے اور مجھے یہ کہنے دیجیے کہ اس کے تصوّر کی لذت کو محسوس کرنے کےلیے بھی ایک احمدی کا دل درکارہے۔ خاکسار جب شہدا٫ یا دیگر بزرگ مرحومین کا ذکر سنتا ہے تو اکثر ان کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ سنتے سنتے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی کہ کیا ہی خوب ہوتا اگر خاکسار بھی ان بزرگ ہستیوں سے ملاقات کا شرف رکھتا۔
گذشتہ دنوں مکرم خالد محمود الحسن بھٹی صاحب کی وفات ہوئی، انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی زبان مبارک سے آپ کا ذکر خیر سنتے ہوئے اب کی بار باقی سب جذبات تو وہی تھے جن کا تذکرہ خاکسار نے ابھی کیا ہے لیکن ایک فرق یہ تھا کہ عاجز کوہوش سنبھالنے سے لےکر اپنی شادی اور پاکستان سے جرمنی چلے آنے تک مسلسل کم و بیش 25سال تک مکرم بھٹی صاحب کی ہمسائیگی کا شرف حاصل رہا۔ خاکسار یہ بات بلا خوف ِتردید عرض کر سکتا ہے کہ اہل خانہ کے علاوہ کسی شخص کے اخلاق کا قریب سے مشاہدہ اس کے ہمسایہ اور رفیقِ کار کر پاتے ہیں ۔ مکرم بھٹی صاحب مرحوم کے ساتھ برادری اور رشتہ داری کا تعلق بھی تھا لیکن خاکسار جن اخلاق کا تذکرہ یہاں کرنا چا ہتا ہے ان کے لیے ہمسائیگی کا تعلق زیادہ مضبوط بنیاد مہیا کرتا ہے۔
نماز باجماعت سے محبت
جیسا کہ خاکسار نے عرض کیا کہ مکرم بھٹی صاحب مرحوم کی ہمسائیگی کا شرف حاصل رہا۔ میں ابھی بچہ تھا اور آپ شادی شدہ، بچوں والے تھے۔ لیکن آپ کے ذکرکے ساتھ جو یاد میرے بچپن سے ذہن پر نقش ہو چکی ہے وہ آپ کی باجماعت نماز کی عادت ہے۔ مصروف الاوقات ہونے کے باوجود ربوہ کی سرد کہرآلود ٹھٹھرتی سحر ہو یا گرمیوں کی چلچلاتی لوبھری دوپہر، بھٹی صاحب مرحوم کے گیٹ کھلنے کی مخصوص آواز اور آپ کا نظریں جھکائے آہستگی اور وقار کے ساتھ مسجد کی طرف نکل پڑنا مجھے ہمیشہ نماز باجماعت کی اہمیت کا احساس دلانے کا باعث بنتا تھا اور ان شا٫اللہ بنتا رہے گا۔
مکرم بھٹی صاحب مرحوم کی طبیعت میں حیا بہت تھی اور دکھاوا بالکل نہ تھا۔ مسجد میں پہلی صف میں بیٹھتے لیکن بالکل ایک طرف ہٹ کر، کونے میں ۔ سنتیں بالعموم گھر سے ادا کرکے جایا کرتے۔ کبھی سامنے ہو ہو کر نمایاں ہوتے نہیں دیکھا بلکہ چھپنے اور پیچھے رہنے کی طرف طبیعت کا قدرتی میلان تھا۔
غض ِبصر کی عادت اور حفظِ مراتب کا خیال
بھٹی صاحب مرحوم کو پیدل چلتا دیکھنے کا اتفاق روزانہ نماز کےلیے جاتے اور آتے ہوئے ہو جایا کرتا تھا۔ غضِ بصر کی عادت بہت تھی اور نظریں جھکا کر چلا کرتے تھے لیکن اپنے ماحول سے خوب باخبر۔ میرے والد صاحب مرحوم کی بینائی زندگی کے آخری چند برسوں میں بالکل ختم ہو گئی تھی۔ ایک شام میں والد صاحب کےساتھ ٹہلنے نکلا اور ان کا ہاتھ تھام کر پیدل چلا جا تا تھا کہ سامنے سے سڑک کی دوسری طرف بھٹی صاحب مرحوم چلے آ رہے تھے۔ ظاہر ہے والد صاحب ان کو نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن مکرم بھٹی صاحب عادت کے خلاف سڑک کے دوسرے کنارے سے ہماری طرف کوآ گئے اوروالد صاحب کو خود سلام کیا، حال احوال دریافت کیا اور پھر اسی طرح خاموشی اور وقار سے آگے بڑھ گئے۔ اس واقعہ کا خاکسار کے ذہن پر گہرا نقش ہے۔ میری عمر اس وقت 20 برس ہو گی لیکن بھٹی صاحب مرحوم نے پسند نہ کیا کہ میرے والد صاحب جو اپنی معذوری کے سبب ان کو دیکھ نہ سکتے تھے، ان کے پاس سے یونہی بے دھیانی میں گزر جائیں ۔ بلکہ جیسے بینائی ہوتی تو کسی عمر میں بڑے یا جاننے والے کو آگے بڑھ کر اور تردد کر کے بھی سلام کیا جاتا ہے انہوں نے میرے والد مرحوم کی معذوری میں بھی یہ خیال رکھا اور اس اعلیٰ خلق کا اظہار فرمایا۔ فجزاہ اللّٰہ احسن الحزا٫۔
حقوق ہمسائیگی
مکرم بھٹی صاحب مرحوم اپنی طبیعت کے فطرتی رجحان کی وجہ سے بہت کھل کر جذبات کا اظہار نہ کرتے تھے یا محلہ میں کسی کے ساتھ کھڑے خوش گپیوں میں مصروف ہوتےتو کبھی نہیں دیکھا لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا کے مصداق کسی کی کوئی جائز ضرورت ہو تو اس کو پورا کرنے کےلیے بھی بخوشی تیار رہتے۔
ایک مرتبہ چھت پر رکھنے والی ٹینکی لگوائی تو ان کا پرانا ڈرم جو چھت پر پانی والی ٹینکی کے طور پر بہت عمدہ کام دیتا تھا زائد ہو گیا۔ مجھے ایسے ہی کسی ڈرم کی تلاش تھی۔ ایک طرف متروک دھرا پایا تو ایک دن اَدب سے گزارش کی اگر اب یہ استعمال میں نہیں آتا تو خاکسار قیمتاً خریدنا چاہتا ہے۔ ڈرم بھجوا دیا اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی کہ قیمت نہیں چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اب آپ کو اس حسنِ سلوک کی جزاالگ سے دے، آمین۔
مصروف الاوقات ہونے کے باوجود ہمسایوں کی خوشیوں میں شریک ہوتے، کسی کا جھگڑا ہوتا تو صلح کروانے کےلیے بھی وقت نکال لیتے، محلہ میں خاص طور پر ہمسائے میں اگر کسی کی وفات ہو جاتی تو صرف جنازے میں شامل نہ ہوتے بلکہ قبرستان تک جاتے، تدفین کے بعد دعا تک رکتے اور پھر واپس تشریف لاتے۔ ایک اور بات جو ہمسائیگی کے تعلق میں بہت اہم ہے وہ خیر پہنچانے کے علاوہ شر نہ پہنچانے کا اعلیٰ خلق بھی ہے۔ مکرم بھٹی صاحب کے گھر سے 25 سال کی لمبی رفاقت بشکل ہمسائیگی میں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کسی بچے کا گیند بھی ہمارے گھر آیا ہو حالانکہ کھیلنے کودنے کی عمر کے 3 بچے تھے، نہ کبھی آواز سنی کہ کسی بچے کو ڈانٹا ہو۔ دیوار چونکہ سانجھی تھی، اپنے بہت بچپن میں اس دیوار پر چڑھ جایا کرتا تھا اور مکرم بھٹی صاحب کی وفات کے بعد یہ اقرار تقریباً 39 برس کی عمر میں شرمساری کے ساتھ اور کچھ پُر نَم آنکھوں سے کرنا پڑتا ہے کہ چند امرود میں نے بغیر اجازت کے توڑے ہوں گے۔ قا بل ذکر بات اس میں یہ ہے کہ وہ بہت چوکنا اور باخبر انسان تھے، مجھے نہیں لگتا کہ بچے کی یہ شرارت ان کی نظروں سے اوجھل رہی ہو البتہ مجھے یہ ضرور لگتا ہے کہ ان کی شفقت اور درگزر سے اس بچے نے حصہ پایا ہو گا۔
اللہ تعالیٰ محترم خالد محمود الحسن بھٹی صاحب کو اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ عطا فرمائے، میری عاجزانہ معلومات کے مطابق وہ ہماری نسل اور کلسیاں بھٹیاں کے پہلے واقف زندگی تھے۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہزاروں خدّامانِ خلافت قیامت تک دنیائے احمدیت میں طلوع فرماتا چلا جائے، آمین۔
٭…٭…٭