تقریباتِ آمین
اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑوں میں بھی اور بچوں میں بھی قرآن مجید کے پڑھنے کا رجحان بڑھا ہے۔
آن لائن کلاسز پر نہ صرف مربّیان سلسلہ بلکہ معلِّمات لجنہ اماءِاللہ بھی قرآن مجید پڑھارہی ہیں۔ قرآن مجید کا پہلا دَور مکمّل ہونے پر چھوٹے بچوں اور بچیوں کو شَوق ہوتا ہے کہ اُن کی آمین بھی ہو۔اس لیے مَیں آمین کی تقریبات کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔
’’آمین ‘‘کا لفظ عموماًکسی دُعا کے بعد کہا جاتا ہے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ اَے خدا! ایسا ہی ہو یا اَے خدا دُعا کو قبول فرما۔ مگر آمین کسی بچّی یا بچّے کی پہلی مرتبہ قرآن مجید مکمل ہونے پر منعقِد ہونے والی تقریب کو بھی کہتے ہیں۔ایسے ہی موقع پر ’’آمین پڑھنا‘‘اگر کہا جائے تو اس سے مراد دعائیہ اَشعار کا پڑھا جانا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار کو مختلف مواقع پر آمین کی تقریبات میں شامل ہونے کی توفیق ملی ہے۔2003ء سے لےکر 2017ء تک جرمنی میں حضرت خلیفةالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کے ساتھ جرمنی میں جتنی بھی آمین کی تقریبات منعقد ہوئیں اُن میں اِس عاجز کو بھی بیٹھنے اَور بچوں کے ساتھ اپنے امام ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شفقت و محبّت کے نظّارے دیکھنے اور آمین کے بعد دُعا میں شریک ہونےکا موقع ملا۔
ایسے خوش نصیب بچوں اور بچیوں کے نام مکرم ایڈیشنل وکیل التبشیر صاحب کی طرف سے الفضل ؔانٹرنیشنل میں حضور انور کے دَورہ کی رپورٹ میں شائع بھی ہوتے رہے۔
آمین کرنے والے بچوں وبچیوں کے ساتھ اُن کے والدین اور دیگر عزیز واَقارِب بھی ایسی تقریبوں میں شامل ہوتے تھے۔ بعض اَوقات تو اُن کی ریکارڈنگ بھی ایم ٹی اے پر دکھائی جاتی رہی۔ویسے اِن تقریبات میں شامل ہونے والے احباب کی نظروں میں آج بھی وہ نظّارے مستحضر ہوںگے۔ مَیں بھی ایسی پُر مسرّت گھڑیوں کو یاد کرکے محظوظ ہوتا ہوں۔ اللہ کرے کہ Covid-19کی عالمی وباکے ختم ہونے اور حالات ٹھیک ہونے کے بعد پھر سے وہ رَونقیں لوٹ آئیں کہ خلیفۂ وقت ہم میں موجود ہوں اور ہمیں اپنی برکات سے نوازیں۔
تاہم آمین سے پہلے بہت اچھی طرح قرآن مجید پڑھانا چاہیے۔ آمین کے شوق میں جلد جلد پڑھا دینا مناسب نہیں۔ حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے آمین کی صورت میں اُن کی دِی ہوئی ہدایات کو ضرور مدِّنظر رکھیں۔
جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا ہے کہ مجھے مختلف مواقع پر آمین کی تقریبات میں شامل ہونے کی توفیق ملی جس میں وہ تقاریب بھی شامل ہیں جن میں حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بھی بنفسِ نفیس رونق افروز ہوئے۔یہ اوائل 1988ءکی بات ہے کہ یہ عاجز لائبیریا ویسٹ افریقہ میں خدمت بجا لارہا تھا۔ مجھے بعض بچوں کو قرآن مجید پڑھانے کی بھی توفیق ملی۔ ضمناً یہ ذکر بھی کردوں کہ وہاں پر جماعت کی ایک بُک شاپ بھی تھی جس میں قرآن مجید کے علاوہ دیگر دینی و علمی کتب بھی ہوتی تھیں۔ قرآن مجید ناظرہ پڑھانے کے لیے قاعدہ یسّرناالقرآن جماعت احمدیہ میں تو معروف ہے ہی۔اُس بک شاپ سے دوسرے مسلمان بھی یہ قاعدہ خرید کر جاتے تھے اور اپنے مدرسوں میں پڑھاتے تھے کیونکہ اس کی مدد سے بلا شبہ صحت کے ساتھ قرآن مجید پڑھنا آجاتا ہے بشرطیکہ ساتھ کسی اُستاد کی خدمات بھی لی گئی ہوں۔اُن دنوں محترم قاری محمد عاشق صاحب کی یسّرناالقرآن کے سبقوں پر مشتمل ویڈیو کیسٹسں کے ذریعہ ایک ماہر اُستاد کی خدمات گھربیٹھے مِل جاتی تھیں۔ آجکل تو مختلف ذرائع سے قاعدہ اور قرآن پڑھنے کی سُہولت مل جاتی ہے۔
بات ہورہی تھی لائبیریا میں کچھ بچوں کو قرآن مجید پڑھانے کی۔عموماً پہلی مرتبہ تدریس مکمل ہونے پر آمین کی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ وہاں پر احباب اس تقریب کو بہت اہمیت دیتے تھے کہ اس کے ذریعہ جہاں دوسرے بچوں اور بچیوں میں قرآن پڑھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے وہاں جس بچّے یا بچّی کی آمین کی تقریب منعقد ہورہی ہے اُس کے متعلق ساری جماعت کو علم ہوجاتا ہے کہ اس نے قرآن مجید پڑھ لیا ہے۔
یہ1987ء کے آخر کی بات ہے کہ ایک بچّے نے قرآن مجید کا پہلا دَور مکمّل کیا مگر اُس کی آمین کی تقریب جلد منعقد نہ کی گئی۔اُس کے والدین بار بار مجھے کہیں کہ جس طرح اِس سے پہلے اُن کی بیٹی کی آمین کی تقریب جماعت میں منعقد ہوئی تھی اسی طرح اُن کے بیٹے کی آمین کی تقریب منعقد کی جائے۔میں عمداً تاخیر کرتا رہا حتیٰ کہ جنوری 1988ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ وہاں دَورہ پر تشریف لائے۔دو تین روز کے مختصر دورہ میں مختلف پروگرام منعقد ہوئے جن کی پہلے سے منظوری ہو چکی تھی۔ایک روز میں نے نماز ظہر کے بعد حضورؒ سے آمین کی تقریب میں شامل ہونے کی درخواست کی تو حضورؒ نے کمال شفقت سے اُسے قبول فرمایا۔چنانچہ اس موقع پر دو بچوں عزیزم فاروق احمد ابن نصیر احمد صاحب مرحوم اور عزیزم سردار مشہود احمد ابن مکرم سردار رفیق احمد صاحب مرحوم سے حضورؒ نے قرآن مجید سنا اور دعا کروائی۔پھر بچوں کے ساتھ اُن کے والدین کوبھی یہ سعادت نصیب ہونے پر بے حد خوش ہوئے اور اُنہیں آمین کی تقریب کی تاخیر کی وجہ معلوم ہوگئی۔ دعا کے بعد حضور ؒنے بچوں کے صحت کے ساتھ قرآن مجید پڑھنے پر خوشی کا اظہار بھی فرمایا۔
1994ء میں جب میں جرمنی آیا اور مجھے برلن مشن میں متعیّن کیا گیا تو اُن دنوں بعض بچّے مشن ہاوٴس میں آکر قرآن مجید پڑھا کرتے تھے۔ مکرم مبارک احمد صاحب ، جو خادم مسجد کے طورپر خدمت بجالارہے تھے، کوبچوں کو باقاعدگی کے ساتھ قرآن مجید پڑھانے کے لیے مقررکیا۔ایک دو مرتبہ مکرم مبارک احمدصاحب کی عدم موجودگی میں خاکسار نے بچوں کو سبق دیا تومیری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ بچّے صحت کے ساتھ قرآن مجید پڑھ رہے ہیں۔اِس پر ایک روز مَیں نے مبارک احمد صاحب سے کہا کہ بچّے بہت اچھا قرآن پڑھتے ہیں آپ نے خود کہاں اور کس سے قرآن مجید پڑھا تھا؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ مَیں نے یہاں ہی سے قرآن مجید پڑھا ہے۔ مَیں حیران ہوا کہ اُن کی عمر اس وقت 40 سال کے لگ بھگ تھی اور ابھی چند سال ہی ہوئے تھے کہ جرمنی میں آئے تھے۔ یہاں انہوں نے کب اور کس سے قرآن مجید پڑھ لیا۔اِس پر اُنہوں نے وضاحت کی کہ قرآن مجید تو مَیں نے بچپن میں ہی پڑھ لیا تھا لیکن جب یہاں آیا اور جماعت نے بچوں کو قرآن مجید پڑھانے کی ڈیوٹی لگائی تو مَیں نے یہ طریق اختیار کیا کہ رات کو قاری صاحب (مکرم قاری محمد عاشق صاحب) کی videotapesسنتا تھا اور دوسرے روز بچوں کو سبق دے دیتا تھا۔اِس طرح مَیں نے درست طور پر یہاں ہی قرآن مجید پڑھا ہے۔اُس سال حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒجلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت کے بعد ہمبرگ بھی دَورہ پر تشریف لائےتو برلن میں مقیم ایک بوسنین بچّے نے قرآن مجید کا پہلا دَور مکمل کیا تھا لہٰذا اُس کی آمین کی تقریب میں شمولیت کے لیے حضورؒکی خدمت میں درخواست کی گئی۔حضورؒ نےاِس درخواست کو قبول فرمایااور بچّے سے قرآن مجید کی آخری تین سورتیں سنیں اور دعاختم قرآن پڑھائی اور دعا کروائی۔
اس کے بعد بھی فرانکفرٹ میں بھی مجھے کئی تقاریبِ آمین میں شامل ہونے کا موقع ملاجو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی میں منعقد ہوئی تھیں۔بعض تقاریب میں بچوں اور بچیوں کی تعداد 25تک بھی پہنچ جاتی تھی۔مسجد نورمیں ایسی تقاریب میں گول دائرہ میں ایک طرف بچیوں کو بٹھا دیا جاتا اور دوسری طرف بچوں کو۔ ایسے مواقع پر مختلف وقتوں میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ معمولی سے فرق کے ساتھ آمین کرواتے تھے۔
ایک دو تین بچوں کی صورت میں ہر ایک سے آخری تین سورتیں سنتے پھر ہر ایک سے دعا ختم قرآن پڑھاتے اور پھر ہاتھ اُٹھا کر دعا کرواتے۔زیادہ تعداد کی صورت میں پہلے صرف بچیوں سے سنتے پھر سب کو اکٹھی دعا ختم قرآن پڑھاتے اور پھر سب بچوں سے آخری تین سورتیں سنتے اورپھر اُن کو دعا ختم قرآن پڑھاتے جس میں حاضرین مجلس بھی شامل ہوجاتے۔
ایک دو مواقع پر ایسے بھی ہوا کہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نےخود آخری تین سورتیں پڑھ دیں اور بچّے ساتھ ساتھ پڑھتے رہے اور پھر دعا کروادی۔پھر بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ آخرپر ہاتھ اٹھاکر دعانہیں کروائی بلکہ دعا ختمِ قرآن پر ہی اکتفاکیا۔
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے آمین کی تقاریب میں شمولیت کا ذکر ہورہا تھا۔آپ کی یہ شدید خواہش تھی کہ اَحباب جماعت معاشرہ میں پھیلی ہوئی بدرسومات کی طرف مائل ہونے کے بجائے خوشیوں کے جائز طریقوں کو اپنائیں۔چنانچہ آپؒ نے آمین کے بارے میں فرمایا:
’’آمین منانے کا کتنا اچھا طریق رائج ہوا ہے۔یہ سنّتِ حسَنہ ہے جو دین میں داخل ہوئی ہے۔اس سنتِ حسَنہ سے فائدہ اُٹھائیں۔بچوں میں قرآن کریم کا شوق ہوگا اور وہ جب سج دھج کر تیّار ہوکر قرآن سُننے آئیں گے پھر آپ دعوت کریں توآپ کے سارے شوق اچھی طرح پورے ہوسکتے ہیں۔اس لئے فضول باتوں کے لئے فضول بہانے نہ بنائیں۔‘‘
(ماہنامہ مصباح جنوری 2003ء)
مضمون کی مناسبت سے یہاں پر جماعت میں آمین کی جو سنّت حسنہ جاری ہوئی ہے اس کے بارے میں بھی کچھ لکھنا چاہتاہوں۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن کریم کے ساتھ بہت بڑا عشق تھا اور آپ اس کی تبلیغ اور اشاعت کے بہت بڑے شائق تھے۔اس لیے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محموداحمدصاحبؓ نے جب ناظرہ قرآن شریف ختم کرلیا تو حضرت اقدسؑ کو بہت مسرّت ہوئی اور آپ نے اس پر ایک نہایت شاندار تقریب منعقد فرمائی اور بطور شکرانہ کے حضرت حافظ رحمةاللہ ناگپوری صاحبؓ جنہوں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو قرآن مجید پڑھایاتھا ڈیڑھ سو روپے کی رقم جو اُس زمانہ میں قیمت کے لحاظ سے ایک بہت بڑی رقم تھی، عطا فرمائی۔اس تقریب میں قادیان کے دوستوں ہی کو مدعو نہیں کیا گیا بلکہ دُور دُور کے تعلق والوں کو بھی دعوت دی گئی۔ گویا باقاعدہ ایک جشن کا اہتمام تھا۔علاوہ اَزیں آپؑ نے ایک دعائیہ آمین بھی لکھی جو ایک جلسہ میں پڑھ کر سنائی گئی۔اس آمین کا مطالعہ نہایت اہمیت رکھتا ہے۔کیونکہ اس سے ایک طرف اُس عظیم باپ کے پُر خلوص جذبات کی تصویر سامنے آجاتی ہے اور دوسری طرف یہ حقیقت بڑی شدّت سے محسوس ہونے لگتی ہے کہ آپ تربیت کے معاملہ میں اصل انحصار اللہ تعالیٰ ہی پر رکھتے تھے اور بھروسہ دعاوٴں پر تھا نہ کہ ظاہری تدابیر پر۔
یہ آمین ’’محمود کی آمین‘‘کے نام سے مشہورہے اور اُردو کی ’’دُرِثمین‘‘میں شامل ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓکی پیدائش 12؍جنوری 1889ءکو ہوئی تھی۔ آپ کی تعلیم کا آغاز 1895ءمیں ہوا اَور سب سے پہلے یہ سعادت حضرت پیر منظوراحمد صاحبؓ کو حاصل ہوئی۔ جون 1897ءمیں آپ نے قرآن کریم ختم کیا اور 7؍جون 1897ءکو مذکورہ آمین کی تقریب منعقد ہوئی۔
دُرّثمین میں ایک اَور آمین کا ذکر بھی ملتا ہے جوکہ ’’بشیراحمد، شریف احمد اور مُبارکہ کی آمین‘‘کے عنوان سے معروف ہے اور 1901ء کی مطبوعہ ہے۔ذیل میں دونوں آمین کے چند اشعار بطور نمونہ پیش ہیں۔
محمود کی آمین
حمد و ثنا اُسی کو جو ذات جاوِدانی
ہمسر نہیں ہے اُس کا کوئی نہ کوئی ثانی
باقی وہی ہمیشہ غیر اُس کے سب ہیں فانی
غیروں سے دِل لگانا جھوٹی ہے سب کہانی
سب غیر ہیں وہی ہے اِک دل کا یارِجانی
دِل میں مرے یہی ہے سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
بشیراحمد، شریف احمد اور مُبارکہ کی آمین
خُدایا اے مِرے پیارے خُدایا
یہ کیسے ہیں تِرے مجھ پر عطایا
کہ تُو نے پھر مجھے یہ دِن دِکھایا
کہ بیٹا دُوسرا بھی پڑھ کے آیا
بشیر احمدؐ جسے تُو نے پڑھایا
شفا دی آنکھ کو بِینا بنایا
شریف احمؐد کو بھی یہ پھل کھِلایا
کہ اُس کو تُونے خود فُرقاں سِکھایا
یہ چھوٹی عُمر پر جب آزمایا
کلامِ حق کو ہے فرفر سنایا
برس میں ساتویں جب پَیر آیا
تو سَر پر تاج قرآں کا سجایا
اُمید ہے کہ نونہال بچّے اور بچیاں قرآن مجید کو پڑھنے کی طرف توجّہ دیں گے۔کیونکہ جب قرآن مجید پڑھتے ہیں تو ایک ایک لفظ پڑھنے پر ثواب ملتا ہے۔قرآن مجید یاد کرتے ہیں تو بھی بہت ثواب ملتا ہے۔
اَب والدین سے بھی کچھ عرض کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمارے لیے قاعدہ یسّرناالقرآن کی صورت میں بچوں کو قرآن پاک سکھانا بہت آسان ہوگیا ہے۔میری ناقص رائے میں بہت کم عمری میں قرآن پاک کے اَسباق کا آغاز نہ کیا جائے۔چار ساڑھے چار سال تک یسّرناالقرآن مکمل کروادیا جائےقاعدہ کے آخری صفحات بار بار سُنے جائیں۔ پھر پانچ چھ سال تک کی عمر کے بچے کو مکمل ناظرہ پڑھادیا جائے۔اِس بارے میں کوئی حتمی اُصول نہیں ہے۔بچّے کی صحت اور اُس کے صاف بولنے اور صحیح پڑھنے لکھنے والے اُستاد کے مہیّا ہونے کا بھی اِس میں دخل ہے۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پاک کو پڑھنے، پڑھانے، سمجھنے، سمجھانے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
٭…٭…٭