الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت سیّدہ امّاں جانؓ کا اپنی خادمات کے ساتھ حُسنِ سلوک
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 8؍مارچ 2013ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت امّاں جانؓ کے اپنی خادمات کے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے حضرت امام بی بی صاحبہؓ کی ایک روایت بیان کی گئی ہے جسے حضرت محمود احمد عرفانی صاحبؓ نے اپنی کتاب (سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صا حبہؓ )میں درج کیا ہے۔
حضرت عرفانیؓ لکھتے ہیں کہ میاں محمد اکبر صاحب ٹھیکیدار بٹالہ نے قادیان میں وفات پائی تو اُن کی وفات کے بعد اُن کی بیوہ مائی امام بی بی صاحبہؓ حضرت اماں جان ؓکی خدمت میں رہ گئیں۔ اکثر ساتھ سفر و حضر میں رہنے کا موقع بھی ملا۔ وہ حضرت اماں جانؓ کے بارے میں بیان کرتی ہیں کہ
’’حضرت اماں جان کا سلوک اپنی خادمات سے ہمیشہ ایسا رہتا ہے جیسے ایک مہربان ماں کا اپنی اولاد سے۔ ان کے دکھ سکھ میں شریک رہتی ہیں اور کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ کبھی ان کو حقیر نہیں سمجھا ۔ اپنے عزیزوں کا سا سلوک کرتی ہیں۔
خدا تعالیٰ کا خوف آپ کو ہر وقت رہتا ہے۔ کثرت سے عورتیں آپ کی ملاقات اور زیارت کو آتی رہتی ہیں۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آ پ نے کبھی گھبراہٹ کا اظہار کیا ہو یا چہرے پر شکن آیا ہو بلکہ ہر ایک سے نہایت محبت اور پیار سے باتیں کرتی ہیں اور کبھی اپنی زبان سے نہیں کہتیں کہ چلی جاؤ۔ہر ایک مہمان کی مہمان نوازی کرتی ہیں۔ گرمی کا موسم ہو تو شربت وغیرہ سے تواضع کرتی ہیں اور کھانا کھلاتی ہیں اور یہ کام خادمات پر نہیں چھوڑتیں بلکہ خود اپنے ہاتھ سے کرتی ہیں۔
اب تو آپ کی صحت اچھی نہیں رہتی ہے۔ تاہم اب تک آپ کا ایسا ہی عمل جاری ہے۔ بیماری کی حالت میں آپ خاموش رہتی ہیں۔ کوئی چڑ چڑا پن وغیرہ جو بیماری کی حالت میں عام طور پر پیدا ہو جاتا ہے بالکل نہیں۔ صبر اور سکون کے ساتھ خاموش رہتی ہیں۔ روزے کی حالت میں بھی آپ کا یہی معمول ہے کہ خاموش رہتی ہیں گویا آ پ روزہ کی تکمیل میں خاموشی بھی ضروری سمجھتی ہیں، خاموشی میں ذکر الٰہی کرتی رہتی ہیں، تنہائی اور خلوت کو پسند کرتی ہیں۔
نوکروں سے جو سلوک آپ کرتی ہیں وہ مَیں نے کسی گھر میں نہیں دیکھا۔ مَیں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی کو ڈانٹ ڈپٹ کی ہو یا حقارت سے اس کا نام لیا ہو۔ مَیں نے اتنے لمبے عرصے میں کبھی کسی نوکر پر ناراض ہوتے نہیں دیکھا، کسی سے کچھ نقصان ہو جائے تو ہمیشہ درگزر فرمایا۔ مَیں نے کسی کو جھڑکی دیتے بھی نہیں دیکھا، ہمیشہ غریبوں اور مسکینوں کی پرورش کی۔ جن کا کوئی سہارا اور آسر ا دنیا میں نہ تھا آ پ کے ہاں ان کو آسرا مل جاتا تھا۔ صدقہ خیرات دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں بلکہ مَیں نے دیکھا ہے کہ یہ سلسلہ تو جاری رہتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا اور آپ خود بھی اس کو مخفی رکھتی ہیں۔ میں نے بعض ایسی غریب لڑکیاں دیکھی ہیںجن کو کوئی پاس نہ بیٹھنے دے مگر حضرت اماں جان نے ان کے کپڑوں کی بدبو وغیرہ کا خیال نہ کر کے خود ان کے سروں کو صاف کیا۔
حضرت اماں جان ہر اس چیز کو پسند کرتی ہیں جو حضرت مسیح موعوؑد کو پسند تھی، پھلوں میں آم ، کیلا وغیرہ پسند کرتی ہیں۔ مٹھائیوں میں برفی اور مرغ کے سالن کو بھی پسند فرماتی ہیں۔ حضرت اماں جان کا معمول ہے کہ جو عورتیں آپ کے پاس آتی ہیں ان کو مناسب موقع نصائح بھی فرمایا کرتی ہیں اور اصل طریق تربیت کا آپ نے اپنا عمل اور نمونہ رکھا ہے تاہم عام طور پر یہ فرمایا کرتی ہیں : جس کام کے لیے آئی ہو وہ بات کرو اور کوئی اَور بات نہ کرو۔
ہم نے کبھی حضرت اماں جان کو نہیں دیکھا کہ کسی بات پر بھی حضرت صاحب سے ناراض ہوئی ہوں۔ حضرت صاحب کا ادب کرتیں اور آپؑ کو خوش رکھتیں۔ ابتدا میں حضرت صاحب صرف تین روپے جیب خرچ دیا کرتے، آپ نے کبھی نہیں کہا کہ یہ کم ہیں۔ شکرگزاری سے لے لیتیں اور عورتوں کو ہمیشہ نصیحت فرمایا کرتیں کہ اپنے خاوند کو تنگ نہ کیا کرو۔‘‘
حضرت امام بی بی صا حبہؓ نے دو حج کیے تھے۔ ایک اپنا اور دوسرا حضرت ا ماں جانؓ کی طرف سے۔
تقسیم ملک کے بعد پہلے رتن باغ لاہور آئیںپھر چنیوٹ آکر آباد ہوئیں لیکن خلافت اور خاندان حضرت اقدسؑ سے محبت اور دیرینہ خدمات کی و جہ سے ربوہ میں سکونت اختیار کی۔ حضرت اماں جانؓ بھی آپ کی دیرینہ خدمات کی و جہ سے آپؓ سے محبت رکھتی تھیں اس تعلق کی بِنا پر آپؓ کے بیٹے حضرت محمد اسماعیل صاحب کی شادی پر حضرت اماں جانؓ ازراہ شفقت گھر بھی تشریف لائیں۔ یکم جون 1950ء کو دفتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے سنگ بنیاد کے لیے حضرت اماں جانؓ نے اپنے دست مبارک سے اینٹ نصب فرمائی، پھر صحابیات سے باری باری اینٹیں رکھوائی گئیں، اس تقریب میں حضرت امام بی بی صاحبؓہ بھی شامل تھیں۔
حضرت امام بی بی صا حبہؓ نے 29 مارچ 1957ء کو 95 سال کی عمر میں ربوہ میں وفات پائی۔ یہ جمعۃ المبارک کا دن تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا ’’کچھ جنازے ہیں جومیں نماز جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا ایک جنازہ تو حضرت مسیح موعوؑد کی ایک پرانی صحابیہ امام بی بی صاحبہ اہلیہ محمد اکبر صاحب ٹھیکیدار آف بٹالہ کا باہر پڑا ہے۔‘‘
آپؓ کی تدفین بوجہ موصیہ ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ صحابہ میں ہوئی۔
………٭………٭………٭………
محترم چودھری محمد احمد صاحب شہید کا خاندان
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍مارچ 2013ء میں مکرمہ ڈاکٹر ط۔نوید صاحبہ نے 28 مئی 2010ءکو سانحہ لاہور میں نذرانۂ جان پیش کرنے والے اپنے والد مکرم چودھری محمد احمد صاحب کے خاندانی پس منظرکو اختصار سے بیان کیا ہے۔
مکرم چودھری محمد احمد صاحب پیدائشی احمدی تھے۔ آپ کے دادا حضرت چودھری فضل داد صاحبؓ ابن قطب دین کاتعلق اولکھ زمیندار گھرانہ سے تھا۔وہ اندازاً 1873ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباواجداد سیالکوٹ سے ضلع فیصل آبادکے ایک گاؤں میں آکر آباد ہوئے تھے۔ حضرت فضل داد صاحبؓ نے 1895-96ء میں قادیان جا کر حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل کیا۔ آپؓ نے اپنی بیعت کا واقعہ یوں بیان فرمایا ہے کہ مَیں تحقیق حق کے لیے1895ء یا 1896ء میں قادیان گیا اور وہاں مجھ پر حق کھل گیا تو مَیں نے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک روپیہ نذرانہ پیش کیا (کیونکہ میں نے آپ کو حضرت مسیح موعودؑ خیال کیا)۔ مولوی صاحبؓ نے حاضرین کو فرمایاکہ مجھے اس روپیہ کی بڑی ضرورت تھی اور خدا نے اچھے موقع پر دیا ہے۔مولوی صاحب چونکہ طبیب تھے اور انہوں نے خیال کیا کہ یہ شخص مریض ہے اور مجھ سے دریافت کیا کہ تمہیں کیا بیماری ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں بیمار نہیں ہوں صرف بیعت کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ مولوی صاحب نے روپیہ مجھے واپس دے دیا اور فرمایا کہ بیعت لینے والا اَور ہے، مَیں نہیں ہوں۔پھر مَیں نے ایک شخص کوکہا کہ میری بیعت کروا دو۔ اس نے کہا کہ جس وقت حضرت صاحب سیر سے واپس تشریف لاکر مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے راستے گھر کو تشریف لے جاویں اس وقت بیعت کے لیے عرض کرنا۔چنانچہ ایک روز جب حضورؑ سیر سے واپس تشریف لاکرگھر کو جانے لگےتو مَیں مسجد مبارک میں گھر کے اندر جانے والے دروازے کے پاس کھڑا ہوگیا۔جب حضوؑر تشریف لائے تو مصافحہ کیا، نذرانہ دیا اور بیعت کرنے کے لیے عرض کیا۔حضوؑر نے ایک شخص کو فرمایا کہ بعد نماز مغرب ان کو بیعت کروا دینا۔چنانچہ بعد نماز مغرب حضرت اقدسؑ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دس شرائط بیعت دہرا کر مجھ سے بیعت لے لی۔
جب مَیں قادیان سے واپس گاؤں آیا تو ایک سیّد مسمی دولت شاہ نے مجھے کہا کہ تم جس شخص کی بیعت کر کے آئے ہو، وہ نہ شفاعت کے قائل ہیں اور نہ ہی نبیوں کے معجزات کے قائل ہیں۔چنا نچہ قادیان حضوؑر کی خدمت میں خط لکھا گیا تو وہاں سے مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے ہاتھ کا اس مضمون کا لکھا ہوا خط پہنچا کہ ’’جو شفاعت کا قائل نہیں وہ بھی کافر، جو انبیاء کے معجزات کا قائل نہیں وہ بھی کافر۔ حقیقی مُردے زندہ نہیں ہوسکتے۔ باقی دشمنوں کی زبان کو کون روکے؟‘‘
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں حضوؑر سے ملنے کے لیے قادیان گیا۔مسجد مبارک میں فجر کی نماز مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے پڑھائی۔ ایک صف میں 5آدمی کھڑے ہوتے تھے۔نماز کے بعد حضوؑر مسجد میں ٹھہر گئے اور فرمایا: ’’اللہ رحم کرے بارشیںبہت ہوگئی ہیں۔ سردی زیادہ پڑے گی اور طاعون بھی زیادہ پھیلے گی۔‘‘ان دنوں طاعون کی پیشگوئی شائع ہوکر قادیان سے باہر طاعون پھیلی ہوئی تھی۔
آپؓ موصی تھے اور مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔1938ء میں آ پؓ نے اپنی زمین بھی صدر انجمن احمدیہ کے نام ھبہ کردی تھی۔ 3؍اپریل 1950ء کوآپؓ کی وفات ہوئی اور تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔ آپؓ بہت کامیاب داعی الی اللہ تھے۔گاؤں کے قریباً 40آدمی آپ کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوئے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ برکت بی بی صا حبہ بھی مخلص احمدی تھیں اور بہشتی مقبرہ قادیان میں آسودہ خاک ہیں۔
مکرم چودھری محمد احمد صاحب شہید کے والد مکرم نور احمد صاحب 1898ء میں پیدا ہوئے تھے اور پیدائشی احمدی تھے۔ آپ نے 21مارچ1921ء کو وصیت کی۔9ستمبر1951ء کو آپ کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔ آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ابتدائی زمانہ کے فارغ التحصیل نوجوانوں میں سے تھے۔ احمدیت کی تعلیم میں رنگین تھے۔ امرتسر میں میڈیکل تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ کو علاقہ ملکانہ میں شدھی کی تحریک کا قلع قمع کرنے والے مجاہدین میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس کام کو نہایت تندہی اور جانفشانی سے سرانجام دیا۔ اس تحریک کے ختم ہونے پر آپ کو اپنے وطن ضلع لائل پور میں ہی میڈیکل لائن میں خدمت کرنے کا موقع مل گیا۔ ان دنوں حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب لائل پور میں ہی سول سرجن تھے۔ ان کی سرپرستی اور ہدایات سے مستفیض ہوتے رہے۔ آپ عموماً دیہاتی ڈسپنسریوں میں ہی خدمت کرتے رہے اور دیہاتی لوگ آپ کے ہمیشہ گرویدہ رہے۔ آپ ایک خاموش مگر مخلص کارکن تھے۔ طبیعت میں ملاحت اور قدرے ظرافت بھی تھی۔ آپ کے وجود کے طفیل آپ کے خاندانی جھگڑے بہت حد تک دبے رہے اور اپنی صلح جُو طبیعت کی وجہ سے ہمیشہ عزت کی نظر سے دیکھے جاتے۔ آپ کی وفات پر جنازہ کے ساتھ گاؤں کے ہر خاندان کا ایک ایک فرد ربوہ تک آیا جن میں سے اکثرغیر احمدی تھے۔
فروری 1947ء میں آپ پر فالج کا حملہ ہوا تھا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔کسی دماغی اور محنت طلب کام کے گو ناقابل تھے مگر پاکستان میں ڈاکٹروں کی کمی کے باعث آپ ملازمت سے الگ نہ ہوسکے اور کمزوریٔ صحت کے باوجود خدمت خلق میں مصروف رہے۔ بوقتِ وفات بھی قومی رضا کاروں کے ایک گروپ کا طبی معائنہ کررہے تھے کہ ایک بار پھر فالج کا حملہ ہوا اور آپ بے ہوش ہو کر گرپڑے۔ بعدازاں اسی حالت میں وفات پائی۔
مرحوم نے بیوہ کے علاوہ 3لڑکے اور 4لڑکیاں یادگار چھوڑے ہیں۔آپ کی اہلیہ محترمہ سردار بی بی صا حبہ بھی نہایت مخلص احمدی خاتون تھیں اور چہور سانگلہ ہل سے تعلق رکھتی تھیں۔وہ 13؍دسمبر1924ءکونظام وصیت میں شامل ہوئیں۔ 16؍فروری 1961ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئیں۔ وہ اپنی جماعت کی فعال رکن تھیں۔
………٭………٭………٭………