متفرق شعراء

غزل

علاجِ دل ہے یہ، جو دل فگار کرتا ہوں

میں اُس کے دل کو بھی اب بے قرار کرتا ہوں

وہ باغبان ہے کامل کہ جس سے پا کے فن

میں ریگزاروں کو اب سبزہ زار کرتا ہوں

جو اُس سے مہر و محبت کو جرم کہتے ہو

تو یہ گناہ میں اب بار بار کرتا ہوں

محبتوں کے سفر میں رقابتیں کیسی

جلیسِ یار سے بھی میں تو پیار کرتا ہوں

نہ جانے کیوں تُو لُٹا، کون راہزن تیرا

تُو غور کر، میں تو اکثر بچار کرتا ہوں

مجھے ہے فخر، تعلق پہ پیرِ کنعاں سے

کہ حاسدوں پہ بھی میں اعتبار کرتا ہوں

لبوں پہ جن کے تبسّم دلوں میں کینہ ہو

کبھی نہ اُن کو میں اپنا شمار کرتا ہوں

بتا رہی ہے سحَر دَم یہ آسماں کی ضَو

چڑھا ہے دن، میں تجھے ہوشیار کرتا ہوں

صنم نما ہے یہ زنجیرِ دست و پا میری

لپٹ کے اِس سے میں بوس و کنار کرتا ہوں

نہیں ہے فرق ذرا جینے اور مرنے میں

میں بود اور حدِ نابود پار کرتا ہوں

یہ زعمِ قربتِ فرماں روا، عبَث بے سود

تُو اِس پہ کر، میں خدا پر مدار کرتا ہوں

جو لکھ رہا ہوں، دلوں تک اُسے رسائی دے

میں تجھ سے عرض یہ پروردگار کرتا ہوں

(م م محمود)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button