مسلمانوں کے انتشار اور کمزوری کی اصل وجہ آنحضرتﷺ کی نافرمانی اور مسیح و مہدی کا انکار ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
مسلمان سے مسلمان کے لڑنے کی یہ صورتحال افغانستان میں بھی ہے پاکستان میں بھی ہے، ہر فرقہ دوسرے فرقے کے بارے میں پُرتشدد فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، مذہب کے نام پر آپس میں ایک دوسرے کو مار رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ
وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(النساء:94)
یعنی جوشخص کسی مومن کو دانستہ قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہو گی اور وہ اس میں دیر تک رہتا چلا جائے گا اور اللہ اس سے ناراض ہو گا اور اس کو اپنی جناب سے دور کر دے گا اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کرے گا۔
تو دیکھیں، اب یہ ایک د وسرے کو مار رہے ہیں۔فتنہ پیدا کرنے والے، بھڑکانے والے ان لیڈروں کے کہنے پر جن میں اکثریت مذہبی لیڈروں کی ہے، یہ سب فتنے اُن میں پیدا ہو رہے ہیں۔ مار دھاڑ ہو رہی ہے، قتل و غارت ہو رہی ہے کہ قتل کرو تو ثواب کمائو اور جنت کے وارث بنو گے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ جہنم میں ڈال رہا ہے اور لعنت بھیج رہا ہے۔
پاکستان میں، بنگلہ دیش میں یا دوسرے ملکوں میں جہاں احمدیوں کو بھی شہید کیا جاتا ہے یہی ہیں جو جنت کا لالچ دے کر، جہنم میں لے جانے والے کام کروائے جاتے ہیں۔ بہرحال مَیں یہ کہہ رہا تھا کہ یہ جو مسلمانوں کی حرکتیں ہیں ان سے مسلمانوں کے دشمن فائدہ اٹھاتے ہیں ا ور مسلمان کی طاقت کم کرتے چلے جا رہے ہیں اور ان مسلمانوں کو عقل نہیں آ رہی۔ بہرحال یہ تو ظاہر و باہر ہے کہ یہ عقل ماری جانا اور یہ پھٹکار اس لئے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو نہیں مانا اور نہ ہی مان رہے ہیں نہ اس طرف آتے ہیں اور آپؐ کے مسیح و مہدی کی تکذیب کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہی ہے اور وہ ہر احمدی کو کرنی چاہئے۔ اس طرف پہلے بھی مَیں نے توجہ دلائی تھی کہ خدا ان کو عقل اور سمجھ دے اور یہ منافقین اور دشمنوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر اسلام کوبدنام کرنے والے اور ایک د وسرے کا گلا کاٹنے والے نہ بنیں۔
بہرحال جو کچھ بھی ہے جب اسلام کے دشمن ان مسلمانوں کو کسی نہ کسی ذریعے سے ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو احمدی بہرحال درد محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے ہیں یا منسوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان بھٹکے ہوئے مسلمانوں میں سے ایک بہت بڑی تعداد کم علمی کی وجہ سے ان لیڈروں اور علماء کی باتوں میں آ کر ایسی نامناسب حرکتیں اور کارروائیاں کر جاتی ہے جس کا اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں سنتے ہوئے ان لوگوں کو، ان نام نہاد علما ءکے چنگل سے چھڑائے اور یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے انجانے میں یا بیوقوفی میں اور اسلام کی محبت کے جوش میں آکر جو اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں وہ نہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو سیدھی راہ بھی دکھائے، کیونکہ ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے دشمن کو اسلام پر گند اچھالنے کا موقعہ ملتا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بھی توہین آمیز حملے کرنے کا موقع ملتا ہے۔
پس ہر احمدی کو آجکل دعائوں کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ عالم اسلام اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے انتہائی خوفناک حالت سے دوچار ہے۔ اگر ہمارے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچا عشق اور محبت ہے تو ہمیں امت کے لئے بھی بہت زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں۔ اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور جو ہم پہلے بھی کررہے ہیں۔
دعا کرنے اور برکات حاصل کرنے کا اصل طریق
لیکن آج مَیں توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ دعائیں ہمیں کس طرح کرنی چاہئیں۔ یہ دعا کرنے کے طریقے اور اسلوب بھی ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی سکھائے ہیں جن سے ہماری بھی اصلاح ہوتی ہے اور دعا کی قبولیت کے نظارے بھی ہم دیکھ سکتے ہیں۔
ایک حدیث میں آتا ہے حضرت عمربن خطابؓ فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے اور جب تک تُو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجے اس میں سے کوئی حصہ بھی (خداتعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے لئے) اوپر نہیں جاتا۔
(ترمذی کتاب الصلوٰۃ باب ما جاء فی فضل الصلوٰۃ علی النبیﷺ )
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں ہمیں واضح فرمایاہے۔ جوآیت مَیں نے ابھی پڑھی ہے کہ
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
(الاحزاب:57)
کہ یقینا ًاللہ اوراس کے فرشتے بھی نبی پر رحمت بھیجتے ہیں اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجو۔
قرآن کریم میں بے شمار احکام ہیں جن کے کرنے کا حکم ہے اور ان پر عمل کرنے کے نتیجے میں کیا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بن جائو گے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے وارث ٹھہرو گے، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بن جائو گے، جہنم سے بچائے جائو گے، جنت میں داخل ہو گے۔ یہاں یہ حکم ہے کہ یہ اتنا بڑا اور عظیم کام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو بھی اس کام پر لگایا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ خود بھی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا ہے۔ اس لئے یہ ایسا عمل ہے جس کو کرکے تم اُس عمل کی پیروی کر رہے ہو یا اس کام کی پیروی کر رہے ہو جو خداتعالیٰ کا فعل ہے۔ تو جب اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حکموں پر عمل کرنے سے اتنے بڑے اجروں سے نوازتا ہے تو اس کام کے کرنے سے جو خود خداتعالیٰ کرتا ہے کس قدر نوازے گا۔ اور یہ یقینا ًخالص ہو کر بھیجا گیا درود اُمّت کی اصلاح کا باعث بھی بنے گا۔ اُمّت کو رسوائی سے بچانے کا باعث بھی بنے گا۔ ہماری اصلاح کا باعث بھی بنے گا۔ اور ہماری دعائوں کی قبولیت کا بھی ذریعہ بنے گا۔ ہمیں دجال کے فتنوں سے بچانے کا ذریعہ بھی بنے گا۔
(باقی آئندہ)