سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عشقِ قرآن (قسط اوّل)

(ظہیر احمد طاہر ابن نذیر احمد خادم۔جرمنی)

وہ لوگ جنہیں ابتدا سے ہی دستِ قدرت تھام لیتا ہے۔ اُن کی سوچوں، اُن کے ارادوں اور اُن کی امیدوں کامرکز ومحور اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہوجاتی ہے۔ اُن کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، بولنا اور خاموش رہنا اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اُس کی رضا کے تابع ہوجاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کا دستِ قدرت اُن کے ہاتھ اور اُن کے مختلف اعضا بن کر اُن کی مدد کو آتا ہے اور اُس کی تائید ونصرت ہمیشہ اُن کے شامل حال رہتی ہے۔ ایسے میں وہ اُن کی زبان اور قلم سے حقائق ومعارف کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ جاری کردیتاہے جوزندگی بخش تاثیرات سے پُر اور خارق عادت رنگ لیے ہوئے ہوتا ہے۔

جو ہمارا تھا وہ دلبر کا سارا ہوگیا

آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہوگیا

اللہ تعالیٰ کے کام بہت پرحکمت اور نرالے ہیں۔ جن کی کنہ کو ایک عام آدمی نہیں پہنچ سکتا۔ ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر ہے اور جب وہ مقررہ وقت آپہنچتا ہے تو پھروہ کام کُنْ سے فَیَکُوْن کے دائرے میں داخل ہوکر اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کے مطابق اپنی تکمیل کے مراحل طے کرنے لگتا ہے۔ جب آسمان پر کسی تبدیلی کا فیصلہ ہوجائے تو زمینی حالات خود بخود سازگارہونا شروع جاتے ہیں۔ تب صاحبِ بصیرت ہوائوں کے رُخ کو دیکھ کر موسم کی تبدیلی کا اندازہ لگالیتے ہیں:

ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نگاہ

تم مسیحا بنو خدا کے لیے

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد اُسی آسمانی نظام کا حصہ ہے جو اس سے پہلے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے ذریعہ دنیا میں جاری ہوچکا ہے۔ یہ نظام امن وآشتی، صلح و خیر، محبت و اخوت اور بھلائی و خیرخواہی کا پیغام ہے جونفرتوں کو مٹانے اور محبتوں کوپھیلانے والاپیغام ہے۔ اس نظام کامقصد مخلوق خدا کو اُن ابدی سچائیوں کی طرف دعوت دینا ہے جو گمراہی کی تاریکیوں سے نکال کر اللہ کے نور کی طرف لے جاتی ہیں۔ ہادی کامل حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ نے چودہ سوسال پہلے خبر دی تھی کہ

لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُرَیَّا، لَنَالَہٗ رِجَالٌ، اَوْ رَجُلُ مِنْ ھٰؤُلَاءِ

(صحیح البخاری کتاب التفسیر، زیر آیت وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْبِھِم)

اگر ایمان ثریا(ستارے) کے پاس بھی ہوگا تو ان (یعنی اہل فارس) میں سے ایک شخص یا ایک سے زیادہ اشخاص اس کو پالیں گے۔

یعنی اللہ تعالیٰ آخری زمانے میں ابنائے فارس میں سے ایک ایسا شخص برپا کرے گا جو ایمان کو ثریا سے واپس لاکر اسے دوبارہ دنیا میں قائم کرے گا اور قرآن کی اصل تعلیم کو دنیا میں پھیلائے گا۔ نظرِ بینا رکھنے والے جانتے ہیں کہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزول کے وقت مسلمانوں کے دلوں سے قرآن کریم کے ایک زندہ اور زندگی بخش کتاب ہونے کا احساس ختم ہوچکا تھا۔ وہ اس بابرکت کلام کو چھوڑ کر ایک مردہ قوم کی طرح ہوگئے تھے اور اُن میں روحانیت نام کی کوئی چیزباقی نہ رہی تھی۔ ان انتہائی نازک حالات میں اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آیا اور اُس نے حضور علیہ السلام کو خلعت آسمانی پہنا کر قرآنی علوم کو دنیا میں پھیلانے کے لیے بھیجا۔ چنانچہ آپؑ نے تحریروتقریر اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ قرآن کریم کی عظمت وشان کوایسے مؤثراور پرحکمت اندازمیں بیان فرمایا کہ پیاسی روحیں جوق در جوق آپ کے گرد اکٹھا ہونا شروع ہوگئیں۔ حضور علیہ السلام نے اپنی جملہ تصانیف میں قرآن کریم کی بلند شان اور اس کے اعلیٰ مقام کو بڑی کثرت اور والہانہ انداز میں بیان فرمایا ہے کہ جسے پڑھ کر فطرتِ سلیم رکھنے والا انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ قرآن کریم سے آپ کی عقیدت ومحبت اور بے پناہ عشق کے نظارے آپ کی عملی زندگی کے علاوہ آپ کے اردو، عربی اور فارسی کلام میں جابجا نظر آتے ہیں۔ آپ نے جس طرح عشق وجذب میں ڈوبے الفاظ میں قرآن کریم کے محاسن، اس کی خوبیوں اور اَن گنت اوصاف کا تذکرہ فرمایا ہے اُنہیں پڑھ کرانسان کا دل بے اختیار پکار اُٹھتا ہے:

جمال و حسن قرآں نور جانِ ہر مسلماں ہے

قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے

نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا

بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلامِ پاک رحماں ہے

(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ198تا200)

اللہ کا کلام

قرآ ن شریف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق ومحبت کی سب سےبڑی وجہ اس کا کلام اللہ ہونا ہے۔ آپ قرآن شریف کو بے حد عزیز رکھتے تھے اور اس کا پڑھنا پڑھانا اور اس کی تعلیم کو پھیلانا آپ کی زندگی کا اوّلین مقصد تھا۔ حضور علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں ہمہ وقت یہ جذبہ اورخواہش موجزن رہتی کہ جلد سے جلد دنیا کلام پاک کی خوبیوں سے آگاہ ہو اوروہ کلام پاک کی خوبیوں اور محاسن سے اطلاع پاکر اس زندگی بخش آسمانی پانی سے اپنی پیاس بجھاویں اور جاودانی زندگی سے ہمکنار ہوجاویں۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’خدا نے اپنی کتاب میں بہت جگہ اشارہ فرمایا ہے کہ میں اپنے ڈھونڈنے والوں کے دل نشانوں سے منور کروں گا۔ یہاں تک کہ وہ خدا کو دیکھیں گے اور میں اپنی عظمت انہیں دکھلائوں گا یہاں تک کہ سب عظمتیں ان کی نگاہ میں ہیچ ہوجائیں گی … ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا ہم نے اس خدا کی آواز سنی اور اس کے پُر زور بازو کے نشان دیکھے جس نے قرآن کو بھیجا۔ سو ہم یقین لائے کہ وہی سچا خدا اور تمام جہانوں کا مالک ہے۔ ہمارا دل اس یقین سے ایسا پُر ہے جیسا کہ سمندر کی زمین پانی سے۔ سو ہم بصیرت کی راہ سے اس دین اور اس روشنی کی طرف ہر ایک کو بلاتے ہیں ہم نے اس نور حقیقی کو پایا جس کے ساتھ سب ظلماتی پردے اٹھ جاتے ہیں اور غیراللہ سے در حقیقت دل ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 65)

دنیا میں عشق تیرا باقی ہے سب اندھیرا

معشوق ہے تو میرا عشقِ صفا یہی ہے

اس عشق میں مصائب سَو سَو ہیں ہر قدم میں

پر کیا کروں کہ اس نے مجھ کو دیا یہی ہے

(قادیان کے آریہ اور ہم صفحہ 48)

قرآن کریم کی عظمت و شان

حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم رہتی دنیا تک نوع انسان کے لیے چراغ راہ اور دائمی نمونہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے تعلیم قرآن کو ہاتھ میں لیا اور دنیا کے تمام مذاہبِ سابقہ کو یہ چیلنج دیا کہ وہ قرآن کریم کے مقابل پر اپنی الہامی کتابیں پیش کرکے اُن کے اوصاف اور خوبیاں دنیا کو دکھلائیں تالوگ جان سکیں کہ کس کتاب کے ساتھ الٰہی تائیدات شامل ہیں۔ آپ کے بار بار چیلنج کرنے کے باوجود کسی بھی مذہب کے ماننے والے کو آپ کے مقابلہ میں آنے کی جرأت نہ ہوئی۔ حضور علیہ السلام نے80؍سے زائد تصانیف میں قرآن کریم کے حقائق و معارف کا جو بیش قیمت خزانہ پیش فرمایا ہے وہ براہین قطعیہ اور دلائل عقلیہ و نقلیہ سے پُر اور قرآن شریف کا بے مثل و بے نظیر ہونا ثابت کرتاہے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’زندہ مذہب وہی ہوتا ہے جس پر ہمیشہ کے لئے زندہ خدا کا ہاتھ ہو سو وہ اسلام ہے۔ قرآن میں دو نہریں اب تک موجود ہیں ایک دلائل عقلیہ کی نہر دوسری آسمانی نشانوں کی نہر۔‘‘

(کتا ب البریّہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 92تا93)

خدا تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ نے قرآن کریم کی صورت میں ایک ایسا کلام نازل فرمایا ہے جو خوبی و رعنائی میں سب سے بڑھ کر اور ہر لحاظ سے مکمل شریعت ہے جس کے پڑھنے سے دلوں کی تاریکی دُور ہوتی ہے اور دل نور ایمان سے منور ہوجاتے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا ہم نے اس خدا کی آواز سنی اور اس کے پُر زور بازو کے نشان دیکھے جس نے قرآن کو بھیجا۔ سو ہم یقین لائے کہ وہی سچاخدا اور تمام جہانوں کا مالک ہے۔ ہمارا دل اس یقین سے ایسا پُر ہے جیسا کہ سمندر کی زمین پانی سے۔ سو ہم بصیرت کی راہ سے اس دین اور اس روشنی کی طرف ہر ایک کو بلاتے ہیں ہم نے اس نور حقیقی کو پایا جس کے ساتھ سب ظلماتی پردے اُٹھ جاتے ہیں اور غیراللہ سے درحقیقت دل ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ یہی ایک راہ ہے جس سے انسان نفسانی جذبات اور ظلمات سے ایسا باہر آجاتا ہے جیسا کہ سانپ اپنی کینچلی سے۔‘‘

(کتاب البریّہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 65)

جو لوگ آسمانی آقا کی محبت میں کھوئے جاتے ہیں اُن کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس ہوجاتی ہے اور اُن کی نظریں اُسی کے آستانے کی طرف مرکوز رہتی ہیں اور وہ ایک لمحہ کے لیے بھی اُس سے جدا ہونا اپنی موت خیال کرتے ہیں۔ پس حضور علیہ السلام نے جب عشق کی آنکھ سے اپنے محبوب کے کلام کو دیکھا تو آپؑ اُس کے والا و شیدا ہوگئے تب قرآن کریم ہی آپ کی زندگی کا مرکز ومحور بن گیا۔ حضور علیہ السلام اسی جوش عشق کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں

قرآں کے گرِد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے

(قادیان کے آریہ اور ہم، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 457)

لعل یمن بھی دیکھے دُرِّ عدن بھی دیکھے

سب جوہروں کو دیکھا دل میں جچا یہی ہے

(قادیان کے آریہ اور ہم، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 458)

آپؑ نے دنیا کے سامنے یہ اعلان فرمایا:

نورِ فرقاں ہے جو سب نوروں سے اَجلٰی نکلا

پاک وہ جس سے یہ اَنوار کا دریا نکلا

یا الٰہی! تیرا فرقاں ہے کہ اک عالَم ہے

جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا

(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 305 حاشیہ در حاشیہ نمبر 2)

تلاوت قرآن کے ذریعہ عشق

حضور علیہ السلام کوبچپن سے ہی قرآن کریم کے ساتھ والہانہ عشق ومحبت تھا کیونکہ آپ کی سعید فطرت نے یہ جان لیا تھا کہ قرآن کریم علم ومعرفت کا خزانہ اور خدا تعالیٰ سے ملانے والی کتاب ہے۔ حضور علیہ السلام کے بچپن کے حالات سے واقف کار بیان کرتے ہیں کہ

’’مرزا صاحب مطالعہ میں ہی مصروف رہتے…مرزا صاحب کی مرغوب خاطر اگر کوئی چیز تھی تو وہ مسجد اور قرآن شریف، مسجد میں ہی عموماً ٹہلتے رہتے اور ٹہلنے کا اس قدر شوق تھا اور محو ہوکر اتنا ٹہلتے کہ جس زمین پر ٹہلتے وہ دب دب کر باقی زمین سے متمیّز ہوجاتی۔‘‘(حیات احمد جلد اوّل حصہ اوّل صفحہ 81)

آپؑ اوائل عمری میں ہی دیگر مذاہب کی تعلیمات اور ان کی الہامی کتابوں کا بنظر غائر مطالعہ کرنے کے بعد بالآخر اس نتیجہ پر پہنچے کہ فی زمانہ قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو حق تعالیٰ کا کلام اور اُس کاقرب عطا کرسکتی ہے۔

یا الٰہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالَم ہے

جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا

سب جہاں چھان چکے ساری دکانیں دیکھیں

مئے عرفان کا یہی ایک ہی شیشہ نکلا

(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1حاشیہ در حاشیہ صفحہ 305)

حضور علیہ السلام جن دنوں بسلسلہ ملازمت سیالکوٹ میں مقیم تھے۔ آپ دفتری اوقات کے بعد اپنی رہائش گاہ پر گوشہ نشین ہوجاتے اور اپنا زیادہ وقت عبادت الٰہی میں گزارتے۔ آپ کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے اورکلام پاک کو سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کےحضوردردو الحاح سے دعائیں کرتے۔ اس سلسلہ میں حضرت بابو برکت علی صاحب رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نہایت قابل ذکر ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ

’’…میں نے حکیم حسام الدین صاحب سیالکوٹی سے دریافت کیا کہ آپ باوجود اتنے مغلوب الغضب ہونے کے جبکہ آپ کی یہ حالت ہے کہ آپ کسی کی بات بھی نہیں سن سکتے تو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کیسے مان لیا۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے بات تو معقول کی ہے۔ میں تو کبھی بھی نہ مانتا اگر میں ان کے چال چلن سے پوری طرح واقف نہ ہوتا جبکہ حضرت مرزا صاحب سیالکوٹ میں ملازم تھے اور اس وقت آپ عالم شباب میں تھے تو میں نے اُس وقت آپ کو دیکھا کہ آپ سوائے کچہری کے اوقات کے ہر وقت عبادت میں رہتے تھے اور کوئی ایک آیت قرآن مجید کی سامنے لٹکا لیتے تھے۔ میں اکثرآپ کے پا س جایا کرتا تھا۔ جب آتا تو کوئی نہ کوئی آیت سامنے لکھ کر لٹکائی ہوتی تھی۔ آخر میں نے ایک دن دریافت کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ میں مختلف اوقات میں مختلف آیات لٹکی ہوئی دیکھتا ہوں۔ ایک وقت میں ایک آیت ہے اور دوسرے وقت میں اس کی جگہ دوسری یہ کیا تماشا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ تجھے اس سے کیا…آخر میں نے بہت اصرار کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ اسلام اور آنحضرتﷺ پر دس ہزار اعتراض ہوا ہے۔ تو میں نے کہا کہ کیا ہوا آپ کو اس سے کیا غرض ؟اگر دشمنانِ اسلام نے اعتراض کیے ہیں تو وہ مولوی جانیں آپ کو اس سے کیا غرض؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں تو برداشت نہیں کرسکتا۔ تو میں نے کہا پھر آپ کیا کرتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں وہ آیات جن پر مخالفین نے اعتراضات کئے ہیں اُن میں سے ایک ایک آیت کے لئے دعا کرتا رہتاہوں۔ جب تک اس کا جواب نہیں ملتا تب تک اسے نہیں چھوڑتا۔ جب اس کا جواب مل جاتا ہے تو دوسری آیت لٹکا دیتا ہوں۔ پس جتنا عرصہ وہ سیالکوٹ میں رہے ہیں اسی طرح کرتے رہے۔ پھر جب آپ سیالکوٹ سے چلے گئے اور دعویٰ کیا تو اس وقت میں نے آپ کو مان لیا اس لئے کہ آپ کی جوانی کی زندگی بالکل پاک تھی اور قرآن مجید خدا سے سیکھا تھا۔‘‘

(الحکم 28؍جولائی 1938ء صفحہ 3کالم 2,1، بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 21؍مارچ 2003ء صفحہ9تا10)

ابتدائے زمانہ سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلوت اور جلوت قرآن کریم کی محبت سے معمور تھی جس کی گواہی غیروں نے بھی دی ہے۔ شمس العلماء جناب مولانا سید میر حسن مرحوم حضور علیہ السلام کے قیام سیالکوٹ کے بارے میں گواہی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ

’’حضرت مرزا صاحب …کچہری سے جب تشریف لاتے تھے تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے۔ بیٹھ کر، کھڑے ہوکر، ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے اور زار زار رویا کرتے تھے۔ ایسی خشوع وخضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔‘‘

(حیات طیبہ مرتبہ شیخ عبدالقادرصاحب صفحہ 25۔ مطبوعہ 1960ء )

یا اللہ! تُو ہی سمجھائے گا تو میں سمجھ سکتا ہوں

قرآن شریف اللہ تعالیٰ کا بزرگ کلام ہے اِس کو سمجھنا اور اُس کے معارف سے اطلاع پانا انسان کے اپنے بس کی بات نہیں بلکہ جس علیم و خبیر ہستی کا یہ کلام ہے وہی سمجھائے تو انسان اس کو سمجھ سکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کلام الٰہی کو سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور رجوع ہوتے، اُسی سے مددو استمداد کے طالب ہوتے اور دردو الحاح سے دعائیں کیاکرتے تھے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ

’’حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ہمیشہ سے عادت تھی کہ جب وہ اپنے کمرے یا حجرے میں بیٹھتے تو دروازہ بند کرلیا کرتے تھے۔ یہی طرز عمل آپ کاسیالکوٹ میں تھا لوگوں سے ملتے نہیں تھے۔ جب کچہری سے فارغ ہوکر آتے تو دروازہ بند کرکے اپنے شغل اور ذکر الٰہی میں مصروف ہوجاتے۔ عام طور پر انسان کی عادت متجسس واقع ہوئی ہے۔ بعض لوگوں کو یہ ٹوہ لگی کہ یہ دروازہ بند کرکے کیا کرتے رہتے ہیں۔ ایک دن اُن ٹوہ لگانے والوں کو حضرت مسیح موعودؑ کی اس مخفی کارروائی کا سراغ مل گیا۔ اور وہ یہ تھا کہ آپ مصلّی پر بیٹھے ہوئے قرآن مجید ہاتھ میں لیے دعا کررہے ہیں کہ ’’یا اللہ تیراکلام ہے۔ مجھے تو تُو ہی سمجھائے گاتو میں سمجھ سکتا ہوں۔‘‘اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ قرآن فہمی کے لیے دعائوں اور توجہ الی اللہ کو ہی اپنا راہ نما بناتے تھے کیونکہ آپ کا عقیدہ تھا کہ؎

مشکلِ قرآن نہ از ابنائے دنیا حل شود

ذوق آن مے داند آن مستے کہ نوشد آن شراب

آپ کی خلوت وجلوت قرآن مجید کی محبت و غیرت سے معمور ہوتی تھی۔ اور اب وقت آگیا تھا کہ آپ تائید اسلام کے لیے پبلک میں آئیں۔ اور قرآن مجید کے حقائق اور معارف کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔‘‘

(حیاتِ احمد جلد اوّل حصہ دوم صفحہ 175)

اوپر بیان کیے گئے فارسی شعر کا مطلب یہ ہے کہ

قرآن کے رموز دنیا دار نہیں سمجھ سکتے۔اس مزے کا ذوق وہی جانتا ہے جس نے یہ شربت پیا ہے۔

ایک مرتبہ ایک دوست نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تصوف کی کونسی کتاب پڑھا کرتے تھے۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا:

’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کسی تصوف کی کتاب کی کیا ضرورت تھی۔ آپ تو خود مجسّم تصوّف تھے۔ تصوّف کی کتاب قرآن تھی جوآپ دن رات پڑھا کرتے تھے۔ اُس کی ایک ایک آیت تصوف کے مضامین سے بھری ہوئی ہے۔‘‘(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان 26؍جولائی 1944ء صفحہ 2)

مشکل آیات اور معارف و حقائق

اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کو ایسا دل عطا کیا تھا جو فطری طورپر خدمت دین کے جذبہ سے سرشار تھا۔ آپ اوائل عمری سے ہی تعلیم اسلام اور معارف قرآن کوپھیلانے کے لیے ہر وقت مستعد اور تیار رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی سوچوں کا مرکزو محور اللہ تعالیٰ کا پاک کلام قرآن مجید تھا کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ قرآن کریم کو سمجھے بغیر دین کی خدمت ایک ناممکن اور بے سود امر ہے۔ حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحب رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ حضور علیہ السلام نے قرآن کریم کے مشکل مقامات کے متعلق بتایا کہ بظاہر مشکل مقامات کے نیچے معارف اور حقائق کے خزانے چھپے ہوتے ہیں۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ

’’ایک دفعہ حضرت صاحبؑ نے بیان فرمایا کہ قرآن شریف کی جو آیات بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہیں اور ان پر بہت اعتراض ہوتے ہیں۔ دراصل ان کے نیچے بڑے بڑے معارف اور حقائق کے خزانے ہوتے ہیں اور پھر مثال دے کر فرمایا کہ ان کی ایسی ہی صورت ہے جیسے خزانہ کی ہوتی ہے۔ جس پر سنگین پہرہ ہوتا ہے اور جو بڑے مضبوط کمرے میں رکھا جاتا ہے۔ جس کی دیواریں بہت موٹی ہوتی ہیں اور دروازے بھی بڑے موٹے اور لوہے سے ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں اور بڑے بڑے موٹے اور مضبوط قفل اس پر لگے ہوتے ہیں اور اس کے اندر بھی مضبوط آہنی صندوق ہوتے ہیں۔ جن پر خزانہ رکھا جاتا ہے اور پھروہ صندوق بھی خزانہ کے اندر اندھیری کوٹھڑیوں اور تہ خانوں میں رکھے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہرشخص وہاں تک نہیں پہنچ سکتااور نہ اس سے آگاہ ہوسکتا ہے۔ بمقابلہ نشست گاہ ہونے کے جو کھلے کمرے ہوتے اور دروازوں پر بھی عموماً شیشے لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے باہر والا شخص بھی اندر نظر ڈال سکتا ہے اور جو اندر آنا چاہے بآسانی آسکتا ہے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 165روایت نمبر 166)

تدبر فی القرآن

حضور علیہ السلام سیالکوٹ کی ملازمت چھوڑنے کے بعد جب واپس قادیان تشریف لائے تو مختلف امور میں والد محترم کی مدد کرنے کے علاوہ اپنے وقت کا زیادہ تر حصہ قرآن شریف پر غوروتدبر اور دینی کاموں میں گزارا کرتے۔ حضور علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ

’’جب میں حضرت والد صاحب مرحوم کی خدمت میں پھر حاضر ہوا تو بدستور اُن ہی زمینداری کے کاموں میں مصروف ہوگیا مگر اکثر حصہ وقت کا قرآنِ شریف کے تدبر اور تفسیروں اور حدیثوں کے دیکھنے میں صرف ہوتا تھا اور بسا اوقات حضرت والد صاحب کو وہ کتابیں سنایا بھی کرتا تھا۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 187حاشیہ)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی جوانی کے مشاغل کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ

’’اس وقت کے مشاغل بجز عبادت وذکرالٰہی اور تلاوتِ قرآن مجید اور کچھ نہ تھے۔ آپ کو یہ عادت تھی کہ عموماً ٹہلتے رہتے اور پڑھتے رہتے۔ دوسرے لوگ جو حقائق سے ناواقف تھے۔ وہ اکثر آپ کے اس شغل پر ہنسی کرتے۔ قرآن مجید کی تلاوت اُس پر تدبّر اور تفکر کی بہت عادت تھی۔ خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک قرآنِ مجید تھا۔ اس کو پڑھتے اور اس پر نشان کرتے رہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ شاید دس ہزار مرتبہ اس کو پڑھا ہو! اس قدرتلاوت قرآنِ مجید کا شوق اور جوش ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی اس مجید کتاب سے کس قدر محبت اور تعلق تھا۔ اور آپ کو کلامِ الٰہی سے کیسی مناسبت اور دلچسپی تھی۔ اسی تلاوت اور پُر غور مطالعہ نے آپ کے اندر قرآن مجید کی صداقت اور عظمت کے اظہار کے لیے ایک جوش پیدا کردیاتھا۔ اور خدا تعالیٰ نے علوم قرآنی کا ایک بحرناپیدا کنار آپ کو بنادیاتھا۔ جو علم کلام آپ کو دیا گیا اس کی نظیر پہلوں میں نہیں ملتی …غرض ایک تو قرآن مجید کے ساتھ غایت درجہ کی محبت تھی۔ اور اس کی عظمت اور صداقت کے اظہار کے لیے ایک رَو بجلی کی طرح آپ کے اندر دوڑ رہی تھی۔ جس کا ظہور بہت جلد ہوگیا۔‘‘

(حیاتِ احمد جلد اوّل صفحہ 172تا173)

مذکورہ بالاروایت میں حضرت صاحبزاہ مرزا سلطان احمد صاحب کا بیان خاص توجہ کے قابل ہے۔ حضور علیہ السلام کی عادت مبارکہ اس طرح واقع ہوئی ہے کہ آپ قرآن کریم کو جلدی جلد ی پڑھنے کی بجائے نہایت توجہ، انہماک اور تدبر وتفکرسے پڑھتے تھے۔ آپ قرآن کریم کے مضامین کو سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیا کرتے تھے۔ اس لیے اس بیان سے یہی سمجھا جاسکتاہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے جب بھی اپنے والد بزرگوار کودیکھا آپ کو کلام الٰہی میں محو پایا۔اسی بنا پر آپ نے یہ اندازہ لگایا کہ آپؑ نے شاید دس ہزار مرتبہ قرآن کریم کا دَور مکمل کیا ہوگا۔

جس کا نوکر ہونا تھا ہوچکا

حضور علیہ السلام کے والد شفقت پدری کے ہاتھوں مجبور ہوکر آپؑ کے بارے میں فکر مند رہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ آپ کو کوئی اچھی ملازمت مل جائے تاکہ زندگی بہتر طور پر گزر سکے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی فطرت میں نیکی، تقویٰ اور خدمت دین کا ایسا جوہر ودیعت کردیا تھا جو ہر پل آپ کی توجہ اس اہم فریضہ کی طرف مبذول رکھتا تھا۔ آپؑ دنیاوی فکروں اور اُس کے رنج وغم میں مبتلا ہونے کی بجائے اسلام، بانی اسلامﷺ اور قرآن کریم کی عظمت وشان بلند کرنے کی فکرمیں لگے رہتے۔

جھنڈا سنگھ نامی ایک شخص کاہلواں متصل قادیان کا رہنے والا بیان کرتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم نے اس کو کہا کہ حضرت مسیح موعود کو بلا لاؤ۔ جب وہ بلا کر لایا تو بڑے مرزا صاحب نے فرمایا: غلام احمد تم میرے ساتھ چلو کہ میں تمہیں کسی معزز عہدہ پر ملازم کرا دوں۔ غلام قادر تو نوکر ہوگیا ہے۔ تجھے بھی کسی جگہ کرا دوں۔ حضرت مسیح موعود نے جواب دیا کہ میں نےتو جس کا نوکر ہونا تھا ہوچکا۔ مرزا صاحب قبلہ مرحوم یہ جواب سن کر بولے کہ اچھا نوکر ہوگئے ؟ پھر جواب میں کہا کہ جس کا نوکر ہونا تھا ہوچکا۔ اس پر انہوں نے آپ کو رخصت کر دیااور آپ جاکر اپنے شغل میں مصروف ہوگئے۔

(حیاتِ احمد جلد اوّل حصہ دوم صفحہ 172)

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اکثر اوقات مرزا اسماعیل بیگ کو بلا کرآپؑ کے بارے میں پوچھتے اور فرماتے :

’’سُنا تیرا مرزا کیا کرتا ہے میں کہتا تھا کہ قرآن دیکھتے ہیں۔ اس پر وہ کہتے کہ کبھی سانس بھی لیتا ہے۔ پھر یہ پوچھتے کہ رات کو سوتا بھی ہے ؟ میں جواب دیتا کہ ہاں سوتے بھی ہیں۔ اور اُٹھ کر نماز بھی پڑھتے ہیں۔ اس پر مرزا صاحب کہتے کہ اس نے سارے تعلقات چھوڑ دیئے ہیں میں اَوروں سے کام لیتا ہوں۔‘‘

(حیات احمد جلد اوّل نمبر سوم صفحہ 91۔ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ65)

غیروں کے قرآن کریم پر اعتراضات

کلام پاک پر انگشت نمائی اور زبان طعن دراز کرنا روزِ اوّل سے دشمنانِ اسلام کا وطیرہ رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابتدائی زمانہ میں ہی اسلام اور بانی اسلام پر لگائے جانے والے الزامات کو اپنے درد مند دل پر محسوس کرتے ہوئے دیگر مذاہب کی تعلیمات کا بغور مطالعہ شروع کردیا تھا۔ آپؑ دعاؤں کے علاوہ قرآن مجید کا کثرت سے مطالعہ کرتے اور بڑی توجہ اور انہماک کے ساتھ قرآن کریم کے مضامین پر غوروتدبر فرمایا کرتے تاکہ حقائق و معارف کے ان خزانوں پر اطلاع پاسکیں۔ آپ کی ابتدائی زندگی کے بارے میں پٹیالہ کے ایک غیر احمدی تحصیلدار منشی عبد الواحد صاحب کی گواہی ہے کہ

چودہ پندرہ سال کی عمر میں سارا دن قرآن شریف پڑھتے تھے اور حاشیہ پر نوٹ لکھتے رہتے تھے اور مرزا غلام مرتضیٰ صاحب فرماتے کہ یہ کسی سے غرض نہیں رکھتا سارا دن مسجد میں رہتا ہے اور قرآن شریف پڑھتا رہتا ہے۔

(ریویو آف ریلیجنز اردو قادیان جنوری 1942ء صفحہ 9 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ64)

ایک ہندو پنڈت جناب دیوی رام 1875۔1876ء میں آپؑ کی مصروفیات کے متعلق بتاتے ہیں کہ

آپ ہندومذہب اور عیسائی مذہب کی کتب اور اخبارات کا مطالعہ فرماتے رہتے تھے۔ اور آپ کے اردگرد کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا۔ انہیں دنیا کی اشیاء میں سے مذہب کے ساتھ محبت تھی۔ مرزا صاحب مسجد یا حجرہ میں رہتے تھے۔ آپ کے والد صاحب آپ کو کہتے تھے کہ غلام احمد تم کوپتہ نہیں کہ سورج کب چڑھتا ہے اور کب غروب ہوتا ہے اور بیٹھے ہوئے وقت کا پتہ نہیں۔ جب میں دیکھتا ہوں چاروں طرف کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔

(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 178تا 182بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 65)

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔ میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہئے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے۔‘‘

( کتاب البریّہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 181حاشیہ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں شانِ اسلام اور عظمتِ قرآن کے لیے جوانتہادرجہ غیرت اوردلی جوش موجزن تھا اُس کے ہوتے ہوئے آپ کیونکر یہ برداشت کر سکتے تھے کہ کوئی انسان کلام پاک پر زبانِ طعن دراز کرے اور آپ اُس کا جواب نہ دیں۔ چنانچہ آپ نے ساری زندگی کمال جرأت اوربغیر خوف لَوْمَۃَ لَائِم دشمنان اسلام کی طرف سے قرآن شریف پر کیے گئے تمام اعتراضات کا ایک ایک کرکے نہ صرف جواب دیا بلکہ مسکت دلائل اوراعجاز نما براہین سے غیروں کے منہ بندکردیے۔ اور اُن کے سامنے قرآن شریف کو عجائبات روحانیہ کا ایک حسین مرقع ثابت کردکھایا۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’قرآن شریف تو بجائے خود ایک عظیم الشان معجزہ ہے اور نہ صرف معجزانہ بلاغت و فصاحت رکھتا ہے بلکہ معجزات اور پیشگوئیوں سے بھرا ہوا ہے اور جن قوی دلائل سے وہ خدا تعالیٰ کے وجود کا ثبوت دیتا ہے وہ ثبوت نہ توریت کی رُو سے مل سکتا ہے نہ انجیل کی رُو سے حاصل ہوسکتا ہے۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 271)

نیز فرمایا :

’’قرآن کریم صرف اپنی بلاغت وفصاحت ہی کے رُو سے بینظیر نہیں بلکہ اپنی ان تمام خوبیوں کی رُو سے بینظیر ہے جن خوبیوں کا جامع وہ خود اپنے تئیں قرار دیتا ہے اور یہی صحیح بات بھی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ صادر ہے اُس کی صرف ایک خوبی ہی بیمثل نہیں ہونی چاہئے بلکہ ہر یک خوبی بیمثل ہوگی … خدا تعالیٰ کی پاک اور سچی کلام کو شناخت کرنے کی یہ ایک ضروری نشانی ہے کہ وہ اپنی جمیع صفات میں بے مثل ہو۔‘‘

(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد 7صفحہ 60)

پس یہ اُسی والہانہ عشق اورمحبت کا نتیجہ ہے کہ عاشقِ قرآن کادل، غیروں کے کلام اللہ پر بے جا حملوں اور توہین آمیز باتوں سے سخت غمگین ہوجاتا ہے اور وہ اُنہیں اللہ تعالیٰ کی شان کبریائی کا واسطہ دیتے ہوئے اس مقدس کلام کی بے جامخالفت سے روکنے کی کوشش کرتا ہے:

بنا سکتا نہیں اِک پائوں کیڑے کا بشر ہرگز

تو پھر کیونکر بنانا نورِ حق کا اُس پہ آساں ہے

ارے لوگو کرو کچھ پاس شانِ کبریائی کا

زباں کو تھام لو اب بھی اگر کچھ بُوئے ایماں ہے

(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 202)

قرآن کریم کی تحدّی نظیر پر قلمی مباحثہ

پنڈت شو نرائن اگنی ہوتری جو براہم سماج کے منسٹر اور کرتا دھرتا تھے انہوں نے جنوری 1883ء میں اپنے اخبار’’دھرم جیون‘‘ میں ایک آرٹیکل لکھا اور یہ دعویٰ کر دیا کہ دانشمند انسان ایسی تالیف کر سکتا ہے جو کمالات میں مثل قرآن شریف کے یا اس سے بڑھ کر ہو۔ حضور علیہ السلام نے فوراً براہین احمدیہ میں اس کا جواب لکھا اور آپ نے سورت فاتحہ اور گلاب کے پھول کی مماثلت پر ایک بصیرت افروز بحث فرمائی۔ اسی سال حضور علیہ السلام کا پنڈت شونرائن اگنی ہوتری کے ساتھ قرآن مجید کی تحدّی نظیر پر ایک مباحثہ قلمی شروع ہوگیا۔ اس تمام صورت حال کو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ کے قلم سے ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ آپؓ تحریر فرماتے ہیں کہ

’’اس سال کے شروع ہی میں حضرت اقدسؑ کو پھر پنڈت شونرائن اگنی ہوتری سے خطاب کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ براہین کی پہلی تین جلدوں خصوصاً تیسری جلد کی اشاعت پر براہم سماج میں ایک زلزلہ آیا۔ براہمو اور دوسرے منکرین وحی والہام جو اعتراض کرتے تھے آپ نے براہین میں ان کا تفصیل اور بسط کے ساتھ معقول ردّ کیا۔ پنڈت شونرائن اگنی ہوتری جو براہم سماج کے منسٹر اور کرتا دھرتا تھے اس کے جواب کے لیے آمادہ ہوئے اگرچہ اس سے پیشتر بھی ان سے مسئلہ الہام پر ایک خط وکتابت ہوچکی تھی …مگر اب انہوں نے اپنے اخبار ’’دھرم جیون‘‘میں آغاز بحث کیا اور جنوری 1883ء کے دھرم جیون میں قرآن مجید کی تحدّی بے نظیری پر ایک آرٹیکل لکھا اور یہ دعویٰ کر دیا کہ دانشمند انسان ایسی تالیف کرسکتا ہے جو کمالات میں مثل قرآن شریف کے یا اس سے بڑھ کر ہو۔ آپ نے پنڈت جی کے اس سوال کا جواب فوراً براہین احمدیہ کے حاشیہ نمبر 11میں صفحہ 329پر لکھا۔ اور اسی سلسلہ میں آپ نے سورۃ فاتحہ اور گلاب کے پھول کی مماثلت پر ایک بصیرت افروز بحث کی … اس طرح پر اس سال کا آغاز ستیانند اگنی ہوتری جی کے ساتھ قرآن مجید کی تحدّی نظیر پر ایک مباحثہ قلمی شروع ہوگیا۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت کی اس تحریر کی اشاعت کے بعد اگنی ہوتری جی قرآن شریف پر کسی قسم کا حملہ کرنے سے پیچھے ہٹ گئے اور خاموش ہوگئے۔

پنڈت شونرائن اگنی ہوتری کے اس اعتراض نے معارف و حقائق قرآنی کے ایک چشمہ کے جاری کردینے کی تحریک کی اور خدا تعالیٰ نے وہ معارف آپ کو دیئے کہ آپ سے پیشتر کسی نے اس خصوص میں نہ لکھے تھے۔ اس ضمن میں آریوں اور عیسائیوں کے اعتراضات قرآنِ مجید کے متعلق بھی آپ نے ردّ کئے اور ان کی تعلیمات کا قرآنی تعلیم سے مقابلہ کرکے قرآن مجید کی عظمت اور فضیلت کا اظہار فرمایا۔ اس طرح پر یہ سال برہموؤ ں، آریوں، عیسائیوں پر مشترکہ فتح کے ساتھ شروع ہوا۔‘‘

(حیاتِ احمد جلددوم حصہ اوّل صفحہ 123تا124)

کتاب اعجاز المسیح اور تفسیر سورت فاتحہ

اللہ تعالیٰ جو حضور علیہ السلام کے دل کا راز دان تھا اُسی نے آپ کوخدمت اسلام اور خدمت قرآن کے لیے چن لیا تھا۔ پس آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت سے خدمت اسلام کی ایسی توفیق پائی جس کی مثال چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ آپ نے ایسا عدیم المثال لٹریچر تیارکیا جو قرآنی علوم ومعارف کا بیش بہا خزانہ اور معرفت الٰہی عطا کرنے والا سیدھا رستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً بتایا کہ

اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ۔ یَااَحْمَدُ فَاضَتِ الرَّحْمَۃُ عَلٰی شَفَتَیْکَ

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 617حاشیہ در حاشیہ)

’’یعنی خدا نے تجھے اے احمد قرآن سکھلایا اور تیرے لبوں پر رحمت جاری کی گئی۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 230)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس الہام کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اس الہام کی تفہیم مجھے اِس طرح ہوئی کہ کرامت اور نشان کے طور پر قرآن اور زبان قرآن کی نسبت دو طرح کی نعمتیں مجھ کو عطا کی گئی ہیں۔ (۱) ایک یہ کہ معارف عالیہ فرقان حمید بطور خارق عادت مجھ کو سکھلائے گئے جن میں دُوسرا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ (۲)دوسرے یہ کہ زبانِ قرآن یعنی عربی میں وہ بلاغت اور فصاحت مجھے دی گئی کہ اگر تمام علماء مخالفین باہم اتفاق کرکے بھی اس میں میرا مقابلہ کرنا چاہیں تو ناکام اور نامراد رہیں گے اور وہ دیکھ لیں گے کہ جو حلاوت اور بلاغت اور فصاحت لسان عربی مع التزام حقائق ومعارف ونکات میری کلام میں ہے وہ ان کو اور ان کے دوستوں اور ان کے استادوں اور ان کے بزرگوں کو ہرگز حاصل نہیں۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 230)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اکتسابی علم سے واقف کار جانتے ہیں کہ آپ نے سوائے چند درسی کتب کے کسی طرح کی دینی یا دنیاوی تعلیم حاصل نہ کی تھی۔ آپ خود بھی بیان فرمایا کرتے تھے کہ آپ بجز معمولی شد بد کے عربی نہ جانتے تھے مگر اس کے باوجود آپ ساری دنیا کے بظاہر نامی گرامی لوگوں کو یہ چیلنج دے رہے تھے کہ عربی زبان میں جو فصاحت وبلاغت مجھے عطا کی گئی ہے وہ دیگر علماء و فضلا ء میں سے کسی کو حاصل نہیں۔ اس الہام کے بعد حضور علیہ السلام نے قرآن شریف کے بعض مقامات اور بعض سورتوں کی عربی زبان میں نہایت بلیغ و فصیح تفسیریں لکھیں اور مخالفین کو مقابلہ کے لیے بلایا۔ اس سلسلہ میں آپ نے بڑے بڑے انعام مقرر کیے لیکن کسی شخص کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ آپ کے مقابلہ میں آسکے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر کوئی مولوی اس ملک کے تمام مولویوں میں سے معارف قرآنی میں مجھ سے مقابلہ کرنا چاہے اور کسی سورۃ کی ایک تفسیر میں لکھوں اور ایک کوئی اور مخالف لکھے تو وہ نہایت ذلیل ہوگا اور مقابلہ نہیں کرسکے گا۔‘‘

(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 292تا293)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button