متفرق مضامین

مصلح عالم مسیح محمدی علیہ السلام کی اعجازی برکات (قسط اوّل)

(م۔ ا۔ شہزاد)

اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان اور یقین درحقیقت مذہب کی بنیاد اور روحانیت کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس کے بغیر مذہب کا تصور ہی کالعدم ہوجاتاہے۔ اسلام نے خداتعالیٰ کی ہستی کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس خدا کا دیدار اس دنیا میں ممکن ہے۔ لیکن افسوس کہ جب اس دَور آخرین میں مسلمانوں پر عقائد و اعمال میں کمزوری کا دَور آیا تومجیب الدعوات زندہ خدا پر ان کا ایمان اٹھ گیا۔ اللہ تعالیٰ کی لقااور وحی والہام کے منکر ہوگئے۔ کوئی نہ تھا جو خدا تعالیٰ کے زندہ کلام کی بات کرتا۔ اس انتہائی تاریکی اور مایوسی کے عالم میں قادیان کی گمنام بستی سے یہ نعرۂ تو حید بڑے جلال سے بلند ہوا

وہ خدا اب بھی بناتاہے جسے چاہے کلیم

اب بھی اس سے بولتاہے جس سے وہ کرتا ہے پیار

یہ پر شوکت اعلان حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام کا تھا۔ آپ نے دل شکستہ مسلمانوں کو یہ نوید سنائی کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے جس کی پیاری صفات حسنہ میں سے کوئی صفت بھی مرور زمانہ سے معطل نہیں ہوتی۔ وہ آج بھی سنتاہے جیسے پہلے سنتاتھا۔ وہ آج بھی بولتاہے جیسے پہلے بولتاتھا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا :

’’زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ سے زندہ خداملے۔ زندہ خداوہ ہے جو ہمیں بلاواسطہ ملہَم کرسکے اور کم سے کم یہ کہ ہم بلاواسطہ ملہم کو دیکھ سکیں۔ سو میں تمام دنیا کو خوشخبری دیتاہوں کہ یہ زندہ خدااسلام کا خداہے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ311ایڈیشن لندن 1984ء)

آپ علیہ السلام نے اپنی ذات اور ذاتی تجربہ کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے دنیا کو یہ خوشخبری عطا کی کہ دیکھو خدانے مجھے اس نعمت سے سرفراز فرمایا ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا:

’’آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ زندہ خداکہاں ہے اور کس قوم کے ساتھ ہے۔ وہ اسلام کے ساتھ ہے۔ اسلام اس وقت موسیٰؑ کا طور ہے جہاں خدا بول رہا ہے۔ وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ کلام کرتاتھا اور پھر چپ ہو گیا آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کر رہا ہے۔‘‘

(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ62)

آپ علیہ السلام کا یہ اعلان ایک انقلاب آفرین اعلان تھا جس نے مذہب کی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یہ نقیب اور شاہد ایک مقناطیسی وجود ثابت ہواجس کی طرف سعید فطرت لوگ قافلہ درقافلہ آنے لگے۔ اور اس وجود کے فیضان سے سیراب ہوکر باخدا انسان بن گئے۔ یہ وہ گروہ قدسیاں تھا جو ایک عالم کے لیے خدانمائی کا وسیلہ بن گیا۔ آپ علیہ السلام نے ایسے خدا نما قدوسیوں کا ایک گروہ کثیر دنیا کو عطا فرمایا جن کے زندگی بخش تجربات ہمیشہ نسلِ انسانی کے لیے خدا نمائی کے راستوں کو منور کرتے رہیں گے۔ ان ہزاروں مثالوں میں سے چند ایک بطور نمونہ پیش خدمت ہیں :

مرزا غلام احمد قادیانیؑ کا خدا مجھ سے بھی کلام کرتاہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت مولوی محمد الیاس خان صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ریاست قلات کے قاضی القضاة عبدالعلی اخوندزادہ نے مستونگ کے ایک بڑے مجمع میں علی الاعلان آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا سارے صوبہ سرحد میں آپ کو کوئی روحانی پیر نہیں ملا جو آپ نے پنجاب جا کر ایک پنجابی مرزا غلام احمد قادیانی کی بیعت کر لی ہے؟ حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ نے برجستہ فرمایا: دراصل بات یہ ہے اخوندزادہ صاحب مجھ سے میرا خدا گم ہوگیا تھا میں ہر مذہب میں اس کو ڈھونڈتارہا۔ ہر مذہب مجھے پرانے قصوں کی طرف لے جاتا۔ میں ہر ایک سے پوچھتا کہ وہ خدا اب بھی بولتاہے؟ تو وہ کہتے اب نہیں بولتا۔ میں مسلمانوں کے بہتر فرقوں میں سے ہر ایک کے پاس گیا، تو انہوں نے بھی مجھے یہی جواب دیا کہ حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب خدا نہیں بولتا۔ وحی کا دروازہ مطلق بند ہے۔ تب میں اس نتیجے پر پہنچا کہ خدا حقیقت نہیں ہے بلکہ ایک فلسفہ ہے۔ جو پرانے قصوں پر منحصر ہے، ورنہ اللہ تو وہ ہونا چاہیے، جس کی تمام صفات حسنہ کی کوئی صفت بھی معطل نہ ہو۔ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ پہلے بولتا تھا اور اب اس کی صفت تکلم پر مہر لگ جائے۔ میں عنقریب دہریہ ہونے والا تھا۔ پیچھے سے ایک نرم ہاتھ نے میرے کندھے کو پکڑااور کہا :کیوں محمد الیاس کیا بات ہے۔ کیوں پریشان ہے۔ میں نے کہا کہ خدا کی حقیقت معلوم ہو گئی۔ وہ ایک فلسفہ ہے۔ حقیقت میں نہیں ہے کیونکہ جس سے پوچھتا ہوں وہ یہی کہتاہے کہ خدا پہلے بولتا تھا۔ اب نہیں بولتا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور یہ شخص حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ تھے۔ اور کہا آؤ میں تمہیں بتاتاہوں۔ وہ خدا اب بھی بولتاہے۔ شرط یہ ہے کہ تم میرے ہاتھ پر بیعت کرو کیونکہ میں خدا کی طرف سے مسیح اور مہدی ہوں وہ خدا تم پر بھی نازل ہوجائے گا۔ اگر چاہے تو تم سے بھی کلام کرے گا۔ اب عبدالعلی اخوندزادہ صاحب میں خدا تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا خدا مجھ سے بھی کلام کرتاہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کوئی ہے جو دعویٰ سے کہے کہ خدا اس سے بولتاہے؟ تمام مجمع پر سناٹا چھا گیا اور کچھ دیر خاموشی رہی اور کسی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو مولوی صاحب نے فرمایا :میں ایسے مسلک اور ایسے فرسودہ اسلام کو جو صرف رسوم وبدعات کا اسلام رہ گیا ہے کیا کروں؟ جس میں خدا کلام نہیں کرتا اور کیوں نہ مرزا غلام احمد قادیانیؑ کے اسلام کو قبول کروں جو حقیقی اسلام ہے جس سے خدا ملتاہے اور پیار ومحبت سے کلام سے نوازتاہے۔

(ماخوذ از حیات الیاس، مصنفہ عبدالسلام خان صفحہ 118)

صادق یقین کرو یہ جہاز صحیح سلامت پہنچے گا

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں کہ1917ءمیں جب جنگ عالمگیر اپنے پورے شباب پر تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مجھے حکم دیا کہ تبلیغ اسلام کے لیے انگلستان جاؤ۔ عورتوں نے حضور رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی حضور سمندری سفر خطرے سے خالی نہیں۔ لوگ گیہوں کی طرح پِس رہے ہیں۔ اگر حضرت مفتی صاحب کو ابھی روک لیا جائے تو بہتر ہے۔ اس کے جواب میں حضور رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گیہوں چکی میں پسنے کے لیے ڈالے جاتے ہیں۔ مگر ان میں سے بھی کچھ اوپر رہ جاتے ہیں جو نہیں پستے۔ تو یہ مفتی صاحب بچے ہوئے گیہوں ہیں پسنے والے نہیں۔ جب ہمارا جہاز بحیرہ روم میں داخل ہوا تو جہاز کے کپتان نے جہاز کے تمام مسافروں کو اوپر ڈیک پر بلایا اور ایک تقریر کرتے ہوئے کہا۔ یہ سمندر جس میں ہم داخل ہوئے ہیں جرمن جہازوں سےبھرا پڑا ہے اور معلوم نہیں کہ کب ہمارا جہاز ان کے نشانے سے ڈوب جائے۔ اگر ایسا ہوا تو جہاز کے ڈوبنے سے پہلے ایک سیٹی بجے گی۔ چنانچہ کپتان نے سیٹی بجا کر سنائی۔ پھر کہا کہ جب یہ سیٹی بجے تو یہ کشتیاں جو جہاز کے دونوں طرف لٹک رہی ہیں۔ آپ لوگوں کے لیے ہیں پھر اس نے نام بنام کشتیوں کے نمبر بتائے اور سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ ایسے موقع پر اپنی اپنی کشتیوں میں بیٹھ جائیں۔ پھر یہ کشتیاں جہاں کہیں آپ لوگوں کو لے جائیں آپ کی قسمت۔ ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ کپتان کے اس لیکچر کو سننے کے بعد میں اپنے کمرے میں آیا۔ اور اس خطرے سے بچنے کے لیے اللہ کریم سے گڑگڑا کر دعا کی۔ اسی رات میں نے خواب دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے کمرے میں کھڑا ہوا ہے اور مجھے انگریزی میں کہتا ہے۔ صادق یقین کرو یہ جہاز صحیح سلامت پہنچے گا۔ اس خوشخبری کو پاکر میں نے تمام مسافروں اور کپتان کو اطلاع دی اور ایسا ہی ہوا۔ ہمارا جہاز ساحل انگلستان پر سلامتی سے پہنچ گیا۔ کئی جہاز ہمارے سامنے آگے پیچھے دائیں بائیں ڈوبے اور جہازوں کی لکڑیاں پانی میں تیرتی ہوئی دیکھیں مگر خدا وند تعالیٰ نے ہمارا جہاز سلامت پہنچادیا۔

(ماخوذ از کتاب لطائف صادقؓ صفحہ 130تا131، کتاب حضرت مفتی محمد صادقؓ صفحہ166تا167)

تم اس کمیٹی کے سربراہ ہو

چودھری ظہور احمد باجوہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ افریقہ میں تشریف لائے تو مجھے بھی حضور رحمہ اللہ کی معیت کا شرف حاصل ہوا۔ وہاں سیرالیون میں ایک بزرگ احمدی جن کا نام علی روجرز تھا وہاں کی جماعت کے پریذیڈنٹ تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ احمدی کیسے ہوئے۔ کہنے لگے کہ میں تو خدا کا نشان دیکھ کر احمدی ہوا ہوں۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ جب مولانا نذیر احمد صاحب علی ہمارے گاؤں میں پہلی بار آئے تو اُن کی ایک غیر از جماعت مولوی سے لوگوں کے سامنے احمدیہ عقائد پر گفتگو ہوئی جس کو سن کر مولوی نے فتویٰ دیا کہ آپ کافر ہیں۔ جب وہ اجلاس منتشر ہوا تو شام پڑچکی تھی۔ میں نے دیکھا کہ حضرت مولوی صاحب نے ایک دروازہ کھٹکھٹایا اور پوچھا کہ کیا میں آج رات آپ کے ہاں بسر کر سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں آپ کافر ہیں۔ پھر دوسرے گھر گئے تو وہاں سے بھی ایساہی جواب ملا پھر انہوں نے تیسرا دروازہ کھٹکھٹایا تو انہوں نے بھی رات ٹھہرانے سے انکار کر دیا۔ میں یہ سارا نظارہ دیکھ رہا تھا۔ مجھے ان پر ترس آیا کہ چلو یہ شخص کافر ہی سہی پر انسان تو ہے میں ان کو اپنے گھر ٹھہرا لیتا ہوں۔ چنانچہ اپنے گھر لے جانے کی نیت سے جب ان سے پوچھا تو وہ جنگل کی طرف جارہے تھے۔ میں نے انہیں اپنے گھر ٹھہرنے کے لیے کہا تو انہوں نے کہا کہ نہیں اب میں نے رات جنگل میں ہی بسر کرنی ہے اور دعا میں گزارنی ہے۔ چنانچہ میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ جنگل میں پہنچ کر انہوں نے ایک جگہ سے پتے وغیرہ صاف کر کے اپنی چادر بچھا دی اور اس پر نماز پڑھنی شروع کر دی نماز میں ان کی رقت اور انہماک دیکھ کر میں حیران ہوتا رہا کہ اس شخص کو اتنی سخت کیا تکلیف ہے۔ پھر انہیں سخت درد گردہ شروع ہو گئی۔ میں نے کہا کہ گھر چلتے ہیں شاید کوئی اسپرو وغیرہ مل جائے۔ لیکن انہوں نے کہا میں اسی تکلیف کی حالت میں دعا کروں گا۔ پھر حضرت مولوی صاحب نے مجھے بتایا کہ ابھی خدا نے مجھے کشفاً بتایا ہے کہ جس جگہ تم بیٹھے ہوئے ہو وہاں ایک جماعت کا سکول ہے اس سکول کا انتظام چلانے والی ایک کمیٹی ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ تم اس کمیٹی کے سربراہ ہو۔ یہ بیان کرتے ہوئے علی روجرز صاحب پر رقت طاری ہوگئی اور فرمایا کہ بعد میں ہمارے علاقہ میں احمدیت پھیلی اور عین اسی جگہ پر جہاں حضرت مولوی صاحب نے درد اور شکستہ دلی کے ساتھ رات گزاری تھی آج ہمارا سکول ہے اور اس کی انتظامیہ کمیٹی کا میں صدر ہوں پھر فرمایا کہ ہم تو زندہ خدا کا نشان دیکھ کر احمدی ہوئے ہیں۔

(ماخوذ از کتاب چودھری ظہور احمد باجوہ صفحہ138-139)

مجید کو کہوکہ پرچوں پررول نمبر تولکھ آئے

عبدالمجید صاحب سیال بی اے ایل ایل بی بیان کرتے ہیں کہ 1943ءکا ذکرہے کہ مجھے میٹرک کے امتحان میں شریک ہوناتھا۔ لیکن5-6 سا ل کا طویل عرصہ بےحد مصروف گذرجانے کے باعث میری ہمت جواب دے رہی تھی اور میں عجیب قسم کی ذہنی پریشانی میں مبتلا تھا۔ ان دنوں میری رہائش ’بیت الظفر‘کوٹھی حضرت چودھری محمدظفراللہ خان صاحبؓ میں تھی اورحضرت مولو ی شیر علی صاحبؓ Guest Houseمیں انگریزی ترجمة القرآن کاکام کرتے تھے۔ حضرت مولوی صاحبؓ کے ساتھ قرابت، نیز مہربانی وتلطف کے تعلق خاص کی وجہ سے ان کو میرے تمام حالات کابخوبی علم تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ میں میٹرک کے امتحان میں ضرور شریک ہوں۔ چنانچہ آپ کے ہمت دلانے پر میں نے لیٹ فیس کے ساتھ داخلہ بھیج دیا۔ آپ نے مجھے تاکید فرمائی کہ جب پہلا پرچہ ہوجائے تومجھے بتانا کیساہواہے۔ میں انشاءاللہ دعاکروں گا۔ تم بغیر کسی فکر کے دلجمعی کے ساتھ امتحان دیتے جاؤ۔ جب میں انگلش کاپرچہ دے کرآیا تونہایت مایوسی کے لہجہ میں حضر ت مولوی صاحبؓ سے ذکر کیا کہ صرف دوچار نمبر کاپرچہ کرسکاہوں۔ آپ اس وقت اپنے گھر کے چبوترہ پر تشریف رکھتے تھے۔ میری کارگزاری سن کر مسکرائے اور فرمایا:میں نے تمہارے لیے خاص طورپردعاکی ہے۔ مجھے بتایا گیاہے کہ ’’مجید سے کہو کہ پرچوں پررول نمبر تولکھ آئے باقی ذمہ داری ہم لے لیں گے۔‘‘نیز یہ بھی فرمایا:جب تک نتیجہ نہ نکلے اس بات کاکسی سے ذکر نہ کرنا۔ یہ حقیقت ہے کہ میرے تمام پرچے نہایت ہی خراب ہوئے تھے جن میں سے کسی ایک میں بھی کامیابی کی امید نہیں تھی۔ لیکن میری حیرانی کی کوئی حدنہ رہی جب میٹرک کانتیجہ نکلا تومیں 444نمبر لے کر سیکنڈ ڈویژن میں کامیاب ہوا۔

(ماخوذ از سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ صفحہ253تا254)

ڈھونڈوتوخداکوپالوگے

حضرت ماسٹرعبدالرحمان صاحب جالندھریؓ اپنے زندہ خداکے لطف وکرم کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ1908ءمیں جب میں سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھا تومیرے ساتھ ہندو، مسلمان اور چارپانچ عیسائی بھی ایس۔ اے۔ وی کلاس میں ٹریننگ حاصل کرتے تھے۔ ان عیسائیوں میں ایک پٹھان کالڑکایوسف جمال الدین بی۔ اے ہیڈماسٹر مشن اسکول جالندھر بھی تھا۔ ان عیسائیوں نے مجھے عصرانہ پر مدعوکیا اور کہاکہ آپ نے اچھا کیاکہ سکھوں کامذہب ترک کرکے اسلام اختیار کیا۔ اب ایک قدم اور آگے بڑھاؤاورعیسائی بن جاؤ۔ ٹرینڈ ہوکر آپ کو مسلمانوں سے کیاتنخواہ ملے گی۔ ہم توجاتے ہی تین تین صدروپے تنخواہ پر متعین ہو جائیں گے۔ مسلمانوں سے آپ کو 50۔ 60 یاسوروپے ماہوار ملے گا۔ میں نے کہا کہ میں زندہ خداکاشائق ہوں۔ اگرتم زندہ خداسے میراتعلق پیداکردوتومیں عیسائی ہو جاؤں گا۔ یوسف جمال الدین نے پوچھاکہ زندہ خداسے کیامرادہے۔ میں نے کہا کہ انجیل میں لکھاہے کہ دروازہ کھٹکھٹاؤتوکھولا جائے گا۔ ڈھونڈوتوخداکو پالو گے اور قرآن مجید میں بھی لکھاہے کہ بحالت اضطرار دعاکی جائے تواللہ تعالیٰ جواب د یتا ہے اگریہ نعمت عیسائیت میں دکھادو تومیں عیسائی ہوجاؤں گا۔ طلباء نے کہاکہ وید، انجیل اورقرآن مجیدکے بعدالہام ووحی کا دروازہ بندہے۔ اب الہام نہیں ہوسکتا۔ میرے دریافت کرنے پر انہوں نے کہاکہ اللہ تعالیٰ سنتااوردیکھتاتوہے لیکن بولتا نہیں۔ میں نے کہاجوذات سنتی اور دیکھتی ہے وہ بول بھی سکتی ہے۔ پہلے سوال کے متعلق میں نے کہاکہ ابھی اس مجلس میں مجھے الہام ہوگیاہے کہ پہلے سوال بتادیا جائے گا۔ طلباءنے کہاکہ ہم نے توالہام نہیں سنا، میں نے کہاکہ تمہاراخون خراب ہو گیاہے اسے قادیان میں درست کرالوتوتم کوبھی الہام کی آواز سنائی دے گی۔ دوسرے تیسرے روز رات کو سونے کے لیے سرہانے پر سر رکھنے ہی لگاتھاکہ کشفی حالت میں مجھے ریاضی کاپرچہ دکھایا گیاجسے میں نے پڑھ لیا مگر مجھے صرف پہلا سوال ہی یادرہا۔ جسے میں نے نوٹ کر لیاتین ہفتہ کے بعد ہماراسہ ماہی امتحان ہوااوراس میں ریاضی کاپہلا سوال وہی تھا جو میں نے بتایاتھا۔ یہ دیکھ کر یوسف وغیرہ دریائے حیرت میں ڈوب گئے۔ ایک شخص عبدالحمید(ایم۔ اے)سکنہ کٹرہ بھنگیاں امرتسر دہریہ تھاوہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا قائل ہو گیا۔ اس کی تحریرمیرے پاس موجود ہے۔ ایک شخص ممتاز علی نے کہاکہ یہ اتفاق ہو گیا کہ آپ کوپہلے سوال کا پتہ لگ گیاہے۔ میں نے کہاکہ آپ چالیس گریجویٹ ہیں اور مجھ سے لائق ہیں تین ماہ بعد پھر امتحان ہوگا سارے مل کر میر ی طرح پہلا سوال بتادو۔ وہ کہنے لگاکہ ہم چیلنج نہیں کرسکتے۔ میں نے کہایہی تومعجزہ ہے جسے تم چالیس افراد نوے دن میں نہیں کرسکتے۔ میں نے دوتین دن میں کردکھایا۔ اس پر سب طلباء نے کہا کہ اگر کوئی اورامرِغیب ظاہر ہوجائے تواتفاق والا ہماراعذرلنگ بھی جاتارہے۔ میں نے کہااچھا میں دعاکروں گااللہ تعالیٰ قادر ہے کہ کوئی اورغیب قبل ازوقت بتادے۔ انہیں ایام میں مجھے الہام ہوا:’’بچہ ہے بچہ ہے بچی نہیں ہے۔‘‘یعنی امسال ہمارے گھر اللہ تعالیٰ لڑکا عطا فرمائے گا۔ وہاں مکرم صوفی غلام محمدصاحب (بی۔ اے) مرحوم (بعدہ مبلغ ماریشس) بھی ٹریننگ لے رہے تھے۔ یوسف وغیرہ نے بالائی طور پر ان کے ذریعہ قادیان سے پتہ منگوایاتوان کی اہلیہ صاحبہ کا خط آیاکہ ماسٹرصاحب کے ہاں ابھی دوتین ماہ کی امیدواری ہے۔ جب لڑکا پیداہوگاتواطلاع دوں گی۔ چنانچہ سالانہ امتحان اپریل1909ءکے قریب اطلاع بھیجی چنانچہ یوسف بورڈ پر سے کارڈ لایااور کہاکہ صوفی صاحب کی اہلیہ نے آپ کو دوہری مبارکباد لکھی ہے کہ لڑکابھی پیداہوگیا اور پیشگوئی کا الہام بھی پورا ہوگیا۔ اس پر میں نے جلیبیوں کی دعوت دے کربتایا کہ اگرتم پندرہ سال گرجے یامندر یاٹھاکر دوارے میں پوجاپاٹھ کرتے رہواوروہاں سے کوئی جواب نہ آئے توتم سمجھو کہ تم خداکی عبادت نہیں کررہے بلکہ مصنوعی خداکی خودساختہ تصویر ہے جس کی عبادت کررہے ہو۔ وہ بت ہے بت پرستی چھوڑ دواے مسٹر یوسف! اگرتم پرنسپل کی کوٹھی پر جاؤاور اسے سلام کرواور وہ تمہیں سلام کا جواب نہ دیا کرے توکیاپھر بھی تم اس کی کوٹھی پر سلام کرنے جایاکروگے؟ اس نے کہاہر گزنہیں۔ میں نے کہاکہ اگر تم لوگ زندہ خداکی عبادت کروتووہ ارحم الراحمین ضرورجواب دے گا۔ بعدازاں میں نے یوسف مذکوراورمسٹرچیڑ جی عیسائیوں سے کہاکہ آپ لوگوں نے دوتین امور کے متعلق پیش گوئیاں پوری ہوتی دیکھی ہیں۔ اس لیے حسبِ وعدہ مسلمان ہوجاؤ۔ مگروہ عذر کرتے رہے۔ آخر میں نے کہاکہ کم ازکم ان امور کی تحریری شہادت دے دو۔ انہوں نے عذرکرکے اس سے بھی انکار کردیا۔ اس پر میں نے کہاکہ اگر تم یہ شہادت لکھ دوتوتم دونوں پاس ورنہ فیل ہوجاؤگے یہ امر بھی الہام ہی (کی طرح یقینی)سمجھو۔ اللہ تعالیٰ کا کرناکیا ہواکہ جب نتیجہ نکلا۔ ہم سب کامیاب اور وہ دونوں فیل اس پر بعض غیر احمدی ہم جماعتوں نے شہادتیں تحریر کردیں جو میرے پاس موجود ہیں۔

(ماخوذ از اصحاب احمد جلدہفتم صفحہ73تا75 نیاایڈیشن)

لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَتِ اللّٰہِ

حضرت چودھری امیر محمد خانصاحبؓ فرماتے ہیں :

’’جب مجھے شفاخانہ ہوشیار پور میں علاج کراتے ایک عرصہ گزر گیا اور باوجود تین دفعہ پاؤں کے اپریشن کرنے کے پھر بھی پاؤں اچھا نہ ہوا۔ تو ایک دن مِس صاحبہ نے جو بہت ہی رحم دل اور خلیق تھیں مجھے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو پاؤں کو ٹخنے سے کاٹ دیا جائے تا کہ مرض ٹخنے سے اوپر سرایت نہ کر جائے۔ میں نے گھر والوں سے مشورہ کر کے اجازت دے دی۔ اس پر مس صاحبہ نے بیوی کو جلاب دے کر اس کمرے میں لے گئی۔ جس کمرہ میں پاؤں کاٹنا تھا۔ میں نے ساتھ جانے کےلئے مس صاحبہ سے اجازت چاہی۔ مگر اس نے کہا کہ آپ یہیں رہیں۔ لہٰذا میں وہیں وضو کر کے نفلوں کی نیت باندھ کر دعا میں مصروف ہو گیا۔ اور دل اس خیال کی طرف چلا گیا کہ اے خدا تیری ذات قادر ہے۔ تُو جو چاہے سو کر سکتا ہے۔ پس تو اس وقت پاؤں کو کاٹنے سے بچا لے۔ کیونکہ اگر پاؤں کٹ گیا تو عمر بھر کا عیب لگ جائے گا تیرے آگے کوئی بات انہونی نہیں اور اسی خیال میں سجدہ کے اندر سر رکھ کر دعا میں انتہائے سوزوگداز کے ساتھ مستغرق ہوا کہ عالم محویت میں ہی ندا آئی۔

لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَتِ اللّٰہِ

اور جب اس آواز کے ساتھ ہی میں نے سجدہ سے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ مس صاحبہ میری طرف دوڑی آرہی ہیں اور آتے ہی کہا کہ سول سرجن صاحب فرماتے ہیں کہ اس دفعہ میں خود زخم کو صاف کرتا ہوں اور پاؤں نہیں کاٹتا اس لئے کہ پاؤں کو ہر دفعہ کاٹا جا سکتا ہے مگر کاٹا ہوا پاؤں ملنا محال ہے۔ میں خدا کی اس قدرت نمائی اور ذرہ نوازی کے سو جان (سے) قربان جاؤں کہ جس نے کرم خاکی پر ایسے نازک وقت میں لَا تَقْنَطُوْاکی بشارت سے معجز نمائی فرمائی۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 121-122 روایات حضرت امیر خان صاحبؓ )

آندھی یکدم بند ہوگئی

حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ خاکسار راقم حضرت اقدس کی زیارت اور صحبت چند روز کے بعد قادیان مقدس سے واپس اپنے وطن کو آرہا تھا اور جا مکے کا مشہور پتن( جو وزیر آباد کے قریب ہے) جہاں کشتیوں کی آمدورفت بکثرت رہتی ہے وزیر آباد سے میں بھی جامکے کے پتن پر پہنچا۔ اس وقت عصر کاآخری وقت تھا۔ یعنی شاید ایک گھنٹہ یا کچھ کم و بیش وقت سورج غروب ہونے میں باقی تھا۔ جب پتن پر پہنچا تو ایک بہت بڑی برات بھی وہاں پہنچی۔ برات واپس آرہی تھی اور ڈولی میں بیاہ والی لڑکی بھی ساتھ تھی اور کبوتریاں اور کچھ مویشی بھی تھے اور برات کے سواروں اور پیادوں کے علاوہ میرے جیسے کچھ مسافر افراد بھی تھے جو دریائے چناب سے پار جانے والے تھے۔ برات والوں نے ملاحوں سے کہا کہ آپ کشتی کو تیار کریں جو بہت بڑی ہو کیونکہ کشتی پر سوار ہونے والے کثیر التعداد افراد ہیں۔ ملاحوں نے کہا۔ ساون بھادوں کا موسم ہے، دریا زوروں پر ہے اور پھر وقت بھی تھوڑا باقی ہے اورسورج غروب ہونے کے قریب ہے مطلع بھی کچھ گرد آلود معلوم ہوتا ہے۔ ڈر ہے کہ کہیں آندھی کی صورت نہ بن جائے۔ اور ایسے حالات میں ہمیں گورنمنٹ کی طرف سے بھی ہدایت ہے کہ ہم احتیاط سے کام لیں۔ باوجود ملاحوں کے ان عذرات کے برات والوں کے حیلے جو نرم گرم الفاظ کے علاوہ منت سماجت کا نمونہ بھی اپنے اندر رکھتے تھے ان سے آخر ملاحوں کو کشتی تیار کرنی پڑی اور کشتی پر برات اور دوسرے لوگ سوار ہوگئے۔ خاکسار بھی سوار ہوگیا۔ کشتی بہت بڑی تھی۔ جب سب لوگ سوار ہوگئے تو ملاحوں نے کشتی کو چلانا شروع کیا۔ جب کشتی دریا کے نصف کے قریب پہنچی تو سورج بھی بہت ہی تھوڑا رہ گیا یعنی بالکل قریب الغروب تھا کہ آندھی چلنی شروع ہوگئی اور آناً فاناً تیز ہوگئی۔ کشتی ہچکولے کھانے لگی اور کچھ پانی بھی اس میں داخل ہونے لگا۔ اس وقت ملاحوں کو ان حالات سے بڑی تکلیف محسوس ہوئی اور باحساس تکلیف انہوں نے برات والوں کے متعلق تلخ سے تلخ ترکلمات بھی استعمال کیے اور نہایت غضب آلود اور حسرتناک الفاظ سے سب کشتی والوں کو سنا دیا کہ یہ آندھی جو اب سخت تیز ہو چکی ہے یہ نہایت ہی مہلک منظر اور مہیب نظارہ دکھلانے والی ہے۔ جس کے مقابل اب ہم بے بس ہیں۔ اور اس بے بسی کے عالم میں اب ہم سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ اب ہر ایک کشتی والا خدا کی تقدیر کے حوالے ہے۔ چاہے تو خداتعالیٰ کشتی والوں کو غرق کرکے ہلاک کرے چاہے تو کوئی صورت بچاؤ کی پیدا کر ے لیکن ہم ملاح اس موقع پر کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ ملاحوں کا یہ کہنا تھا کہ کشتی والوں کی چیخیں بلند ہونے لگیں اور رونے اور چیخنے چلانے کی صدائیں بلند ہو کر ہوا کی مہیب آواز سے مل کراور بھی وحشت اور دہشت کے اثرات دکھلا رہی تھیں اور وہ شور اور چلاہٹ کا سماں اس قدر دردناک اور حشر بپا کرنے والا تھا کہ اس وقت ہر طرف رونا ہی رونا اور چیخیں ہی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ اور ابتدامیں تو ملاحوں نے خواجہ خضر کا نام بھی لیا اور پیر بخاری اور پیر جیلانی کو بھی امداد کے لیے یاد کیا اور باربار ان کے نام کا ذکر کیا۔ لیکن جب بالکل بے بسی کا عالم پیدا ہوگیا اور سب نے محسوس کر لیا کہ ہیبت اور دہشت کے بھیانک نظاروں کے ساتھ موت کشتی والوں کے سر پر منڈلارہی ہے اس وقت ہرطرف سے تو ہی تو ہے، تو ہی تو ہے۔ لااِلٰہ الااللّٰہ، لااِلٰہ الا اللّٰہ۔ تیرے سوا کوئی نہیں جو اس وقت بچا سکے۔ تیرے بغیر کوئی نہیں جو اس کشتی کو کنارے لگا سکے تو ہی تو ہے ہاں تو ہی تو ہے، کے الفاظ منہ پر جاری تھے۔ اور شرک آلود اسباب کی جگہ فطرت کے اندر سے خالص توحید کی آواز آرہی تھی۔ اس وقت میرے پاس حضرت اقدس سیدنا المسیح الموعود علیہ الصلوٰة والسلام کی کتب تھیں جو میں قادیان مقدس سے اپنے ساتھ لایا تھا۔ اس قیامت خیز منظر اور شور محشر کے مہیب نظارہ کے وقت میں نے بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور حضرت اقدس علیہ السلام کی کتب مقدسہ کو ہاتھ میں لے کردعا کی کہ اے مولا کریم اگر ہم سب اس قابل ہی ہیں کہ غرق ہونے کے ساتھ ہلاک کردیے جائیں اور اس وقت اگر کسی کا عجز بھی باعث نجات نہیں ہوسکتا تو آپ اپنے پیارے اور مقدس مسیح کے منہ کی برکت کے طفیل اور آپ کی ان کتب مقدسہ کے طفیل جو حضور اقدس نے لوگوں کی ہدایت اور نجات ہی کے لیے لکھ کر شائع فرمائی ہیں اس آندھی کو جلد از جلد ٹھہرا دے۔ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور اس سے بہتر اور بڑھ کر کون جانتا ہے کہ ابھی میں نے ایک یا دو مرتبہ ہی ان دعائیہ کلمات کو دہرایا ہوگا کہ آناً فاناً آندھی فوراً تھم گئی۔ اور گو اس مہلک اور مہیب منظر کے تبدیل ہونے میں دوسرے لوگوں کی آہ وزاری اوررو رو کر دعا کرنے کا بھی اثر اور دخل ہو لیکن میری دعا سے پہلے اس آندھی کی تیزی میں کچھ بھی فرق ظاہر نہ ہوا۔ مگر جب میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور حضرت اقدس کی کتب مقدسہ کو ہاتھ میں لے کر اور انہیں پیش کرتے ہوئے دعا کرنی شروع کی تو ادھر ہاتھ اٹھائے اور دعا شروع کی تو ادھر آندھی جو قوت کے ساتھ تیزی دکھاتے ہوئے موت کو دعوت دے رہی تھی فوراً بند کردی گئی مجھے اس وقت یوں محسوس ہوا کہ آندھی کا تیزی کے ساتھ چلتے ہوئے یکدم اور فوراً بند ہوجانا محض حضرت مسیح پاک علیہ الصلوٰة والسلام کی روحانی برکات اور اعجازی نجات کا نشان ہے جو اس وقت ظاہر ہوا جب آندھی یکدم بند ہوگئی۔ اس کے بعدہم سب نے شکر ادا کیا اور کشتی محض خداتعالیٰ کے فضل اور رحم سے سلامتی کے ساتھ کنارے آلگی۔

(ماخوذ از الفرقان ربوہ مئی 1960ءصفحہ15-16)

٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button