آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد ذوالنّورین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
حضرت عثمانؓ کے دور میں مسجدِ نبوی کی مزید توسیع بھی ہوئی تھی
چار مرحومین مبشر احمد رند صاحب ابن احمد بخش صاحب معلّم وقفِ جدید، مکرم منیر احمد فرخ صاحب سابق امیر جماعت اسلام آباد (پاکستان)، بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد لطیف صاحب سابق امیر ضلع راولپنڈی اور مکرم کونوک اومُربیکوف صاحب آف قرغیزستان کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍ مارچ 2021ء بمطابق 19؍امان1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 91؍ مارچ 1202ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم حارث رفیق ڈوگر صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت عثمانؓ کا ذکر چل رہاتھا،حضرت مصلح موعودؓ آپؓ کی شہادت کےبعد کےحالات مختصراً لکھتےہوئے فرماتے ہیں کہ اب مدینہ ان ہی لوگوں کے قبضے میں رہ گیا اور انہوں نے بڑی حیرت انگیز حرکتیں کیں۔تین دن تک آپؓ کی نعش کو دفن نہ ہونے دیا آخر صحابہ کی ایک جماعت نے ہمت کرکے رات کےوقت آپؓ کو دفن کیا۔
حضرت عثمانؓ کےمتعلق آنحضرتﷺ نے پیش گوئیاں بھی فرمائی تھیں، ان کا ذکر یوں ملتاہےکہ آنحضرتﷺ ایک باغ میں داخل ہوئے اور ابوموسیٰ اشعریؓ کو دروازے پر پہرہ دینےکا حکم فرمایا۔درایں اثنا حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ یکےبعد دیگرے وہاں پہنچے تو آنحضرتﷺنے انہیں اندر داخل ہونے کی اجازت کےساتھ جنت کی بشارت عطافرمائی۔ پھر حضرت عثمانؓ حاضر ہوئےتو آپؐ نے کچھ دیرتوقف کےبعد انہیں جنت کی بشارت اوراندر آنے کی اجازت عنایت کرنےکےساتھ فرمایا کہ انہیں ایک بڑی مصیبت پہنچے گی۔
اسی طرح ایک مرتبہ حضورﷺ خلفائے ثلاثہ کے ہم راہ احد پہاڑ پر چڑھے تو پہاڑ ہلنے لگا۔ حضورﷺ نےفرمایا اے احد! ٹھہرجا کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ پھر ایک دفعہ فتنے کا ذکرکرتے ہوئے آپؐ نے عثمانؓ کی طرف اشارہ کیااورفرمایا کہ یہ شخص اس فتنے میں بحالتِ مظلومیت مارا جائے گا۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کےوقت آپؓ کے تین کروڑپانچ لاکھ درہم اور ڈیڑھ لاکھ دینار خزانچی کےپاس پڑے تھے،وہ سب لُوٹ لیے گئے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ خزانچی مقررکیےجانے سے یہی ظاہرہوتاہے کہ وہ قومی خزانہ تھا۔حضرت عثمانؓ نے دو لاکھ دینار کے صدقات بھی چھوڑے۔
حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کےمتعلق فرمایا کہ عثمانؓ ہم سب سے بڑھ کر صلہ رحمی کرنے والےایسے شخص تھے جو ملائے اعلیٰ میں بھی ‘ذوالنورین’ کہلاتا تھا۔حضرت عائشہؓ نے فرمایاکہ مفسدوں نے عثمان کو قتل کردیا حالانکہ وہ ان سب سے زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والے تھے۔روایات میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے اپنے دامادوں کے لیے یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو آگ میں داخل نہ کرے جو حضورﷺ کا داماد ہویا جس کے آپؐ داماد ہوں۔
حضرت عثمانؓ کےحلیےکی نسبت ذکرملتا ہے کہ آپؓ میانہ قد،گندمی رنگت ،نرم جلد والے خوب صورت چہرے کے مالک تھے۔عثمانؓ کی داڑھی گھنی اور لمبی تھی۔ آپؓ دو زرد چادریں اوڑھ کرعصاکا سہارالیےجمعے کےلیے تشریف لاتے ۔
آنحضرتﷺنے جب روم کے بادشاہ کو خط لکھنے کا ارادہ فرمایا تواس خط پر مہر لگانےکےلیےچاندی کی انگوٹھی بنوائی۔ اس انگوٹھی پر ‘محمد رسول اللہ’ کے الفاظ کندہ تھے۔حضورﷺ کےبعد یہ انگوٹھی حضرت ابوبکرؓ اور پھر حضرت عمرؓ کےپاس رہی۔ جب حضرت عثمانؓ کا دَور آیا تو یہ انگوٹھی اریس نامی کنویں میں گِر گئی۔ تین روز تک اسے تلاش کیا جاتا رہا،کنویں کا سارا پانی بھی باہر نکالا گیا لیکن وہ انگوٹھی نہ مل سکی۔
حضرت عثمانؓ عشرہ مبشرہ میں بھی شامل تھے۔اسی طرح حضورﷺنے فرمایا کہ ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور جنت میں میرا رفیق عثمان ہوگا۔ ایک مرتبہ حضورﷺ اکابر مہاجرصحابہ کےساتھ تھے کہ آپؐ نے فرمایا ہر شخص اپنے ہم کفو کے ساتھ کھڑا ہوجائے،پھر آپؐ حضرت عثمانؓ کے ساتھ کھڑے ہوگئے،ان سے معانقہ کیا اور فرمایا کہ تم دنیا میں بھی میرے دوست ہو اور آخرت میں بھی۔
فتنہ پردازوں نے ایک دفعہ حضرت ابنِ عمر سے حضرت عثمانؓ کے جنگِ بدر سے پیچھے رہنے،جنگِ احد سے فرار اور بیعتِ رضوان میں شامل نہ ہونے کی بابت اعتراض کیا تو انہوں نےفرمایاکہ بدر سے عثمانؓ کے غائب رہنے کی وجہ یہ تھی کہ رسول کریمﷺکی بیٹی جو عثمانؓ کی بیوی تھیں وہ بیمار تھیں اور رسول اللہﷺ نے آپؓ کو ان کے پاس رہنے کی ہدایت فرمائی تھی۔ احد کے دن جو ان کا بھاگ جانا تھا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو معاف کردیا تھا۔ جہاں تک بیعتِ رضوان سے آپؓ کی غیرحاضری کا تعلق ہے تو یاد رکھو ! اگر وادی مکّہ میں حضرت عثمانؓ سے بڑھ کر کوئی اور شخص معزز ہوتاتو رسول اللہﷺ آپؓ کی جگہ اس کو کفار کی طرف سفیر بنا کر بھیجتے۔ بیعتِ رضوان کے وقت رسول اللہﷺ نے اپنے بائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔
حضرت عثمانؓ کے دور میں مسجدِ نبوی کی مزید توسیع بھی ہوئی تھی۔ آپؓ نے بعض صحابہ کے تحفظات کے باوجود ماہ ربیع الاول 29 ہجری میں اس کام کی ابتدا کروائی اور صرف دس ماہ کے عرصے میں مسجدِ نبوی تعمیرِنَوکےبعدتیار ہوگئی۔اس دوران حضرت عثمانؓ بنفسِ نفیس اس کام کی نگرانی فرماتے رہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کو تو مَیں حضرت سلیمان سے تشبیہ دیتا ہوں۔ ان کو بھی عمارات کا بڑا شوق تھا۔ یہ ضروری نہیں کہ مسجد مرصع اور پکّی عمارت ہو، آنحضرتﷺ کی مسجد چند کھجوروں کی شاخوں کی تھی پھر حضرت عثمانؓ نے اس لیے کہ ان کو عمارت کا شوق تھا اپنے زمانے میں اسے پختہ بنوایا تھا۔ مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ سلیمان اور عثمان کا قافیہ خوب ملتا ہے شاید اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا۔
مسجد الحرام کی توسیع کے لیے 26 ہجری میں حضرت عثمانؓ نے حرم کےنشانات کی ازسرِنَو تجدید کی اور مسجدِ نبوی کی توسیع فرمائی۔ پہلا اسلامی بحری بیڑا بھی حضرت عثمانؓ کے زمانے میں 28 ہجری میں بنایا گیا۔ امیرمعاویہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے حضرت عثمانؓ کے دَورِ خلافت میں بحری جنگ کی۔ آنحضرتﷺ سے اخلاق میں سب سے زیادہ مشابہت حضرت عثمانؓ کی تھی۔ آنحضورﷺ نے اپنی صاحبزادی اور عثمانؓ کی اہلیہ سے فرمایا کہ عثمان سے بہترین سلوک سے پیش آؤ کیونکہ وہ میرے صحابہ میں سے اخلاق کے لحاظ سے سب سےزیادہ میرے مشابہ ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ نبی کریمﷺ کے صحابہ میں سے بات کو مکمل اور خوب صورت رنگ میں بیان کرنے میں عثمانؓ سے بہتر کوئی نہیں تھا۔
حضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ حضرت عثمانؓ کا یہ ذکر ابھی یہاں ختم کرتا ہوں۔ آج بھی کچھ جنازے پڑھانے ہیں ان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
پہلا جنازہ مبشر احمد رند صاحب ابن احمد بخش صاحب معلّم وقفِ جدید کا ہے جو10؍مارچ کو بقضائے الٰہی وفات پاگئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحوم کو مختلف وقتوں اور مختلف جگہوں پر بطورمعلم اور انسپکٹر کام کرنے کا موقع ملا۔ انتہائی محنتی،دعاگو، تہجد کے پابند،بہترین داعی الیٰ اللہ،اچھے مقرر اور بہت ملنسار،مہمان نواز،خوش مزاج اور عاجز انسان تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ مرحوم کے چھوٹے بیٹے عزیزم شازل احمد جامعہ احمدیہ ربوہ میں درجہ ثالثہ کے طالبِ عِلم ہیں۔
اگلا ذکر مکرم منیر احمد فرخ صاحب سابق امیر جماعت اسلام آباد (پاکستان) کا ہے۔ یہ طویل علالت کے بعد 9 مارچ کو کینیڈا میں 84 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔آپ 9/1 حصّے کےموصی تھے۔ فرخ صاحب الیکٹریکل انجنیئر تھے اور 1997ء میں پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن لمیٹڈ سے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ مرحوم کو قائدضلع خدام الاحمدیہ، راولپنڈی کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ اسلام آباد منتقلی کے بعد پہلے نائب امیر اوّل اور پھر 1999ءمیں امیر جماعت اسلام آباد اور امیر ضلع مقرر ہوئے۔ مرکزی فنانس کمیٹی کے رکن،ڈائریکٹر فضلِ عمر فاؤنڈیشن اور آئی اےاےاےای کے ایگزیکٹو ممبر تھے۔1980ءسےجلسہ سالانہ کے موقع پر ترجمے کی سہولت کے لیےآپ نےبڑی محنت سے کام کیا۔1984ءمیں ہجرت کے بعد سے جلسہ سالانہ پر ترجمے کے انتظام کا کام آپ کے سپرد ہوتا تھا۔ بڑی محنت سے کام کیا کرتے تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ،دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔
اگلا جنازہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد لطیف صاحب سابق امیر ضلع راولپنڈی کا ہے۔ مرحوم 28؍ فروری کو 77سال کی عمر میں وفات پاگئے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔2000ءمیں ریٹائرمنٹ کے بعد مرحوم نے سارا وقت جماعتی خدمات بجالانے میں صَرف کیا۔ سیکرٹری امورِعامہ اور نائب امیر ضلع راولپنڈی بھی رہے۔ 2019ء سے تاوفات بطور امیر ضلع راولپنڈی خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ بڑے ہم درد،غریبوں کا خیال رکھنے والے تھے۔ مرحوم کو کینسر تھا اور اپنا علاج کروارہے تھے مگر اس کے باوجود جب بھی مرکز سے بلایا جاتا تو بیماری کی پرواہ کیے بغیرفوراً چلے جاتے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔
اگلا جنازہ مکرم کونوک اومُربیکوف صاحب آف قرغیزستان کا ہے جو22؍فروری کو 67سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم قرغیزستان کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے اور آپ نے 2000ءمیں احمدیت قبول کی تھی۔بہت مخلص،وفاشعار، جماعتی پروگراموں اور چندوں میں حصّہ لینے والے، تہجد گزار،خلافت کے فدائی ،اعلیٰ اخلاق کے مالک، صابر اور بردبار انسان تھے۔ قرغیزستان میں جماعت کی مذہبی سرگرمیوں پر پابندی سے قبل جماعتی کُتب اور ترجمہ قرآن لوگوں کو باقاعدہ تقسیم کرتے۔ روسی زبان میں قرآن کریم کے ترجمے پر اغلاط کی نشاندہی کا کام بڑی سرعت سے انجام دیا۔ نفلی روزے کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے سوموار اور جمعرات دونوں دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ مرحوم نے اپنے پیچھے اہلیہ اور سات سال کا بیٹا یادگار چھوڑے ہیں۔ پہلی اہلیہ سے مرحوم کی طلاق ہوگئی تھی جن سے جوان بچے ہیں لیکن شاید وہ احمدی نہیں ہیں۔
حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔