مسیح و مہدی کا مقام و مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں
حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر جہاں امت کے عروج اور ترقی کے بارے میں عظیم الشان خبر دی تھی وہاں آخری زمانہ میں اس امت پر آنے والے تنزل و ادبار کی بھی بڑے واضح الفاظ میں پیشگوئیاں فرمائی تھیں۔ چنانچہ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میری امت پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ
لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اِسْمُہ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السَّمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ
(مشکوٰة كتاب العلم فصل الثالث صفحہ38)
یعنی اسلام صرف نام کا رہ جائے گا۔ اور قرآن مجید صرف الفاظ میں رہ جائے گا۔ ان کی مسجدیں بظاہر آباد ہوں گی مگر ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین خلائق ہوں گے۔
اس کے علاوہ آپؐ نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں عابد جاہل ہوں گے قاری لوگ فاسق ہوں گے۔ میاں اپنی بی بی کی اطاعت کرے گا ۔مسجدوں میں شور ہوگا عالم اس لیے علم سیکھیں گے کہ روپیہ کما سکیں، قرآن کو تجارت ٹھہراویں گے۔ لوگ مسجد میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں کریں گے خطباء بہت ہوں گے آمر بالمعروف کم ہوں گے۔ شراب پی جائے گی ۔مردعورتوں کی شکل بنائیں گے۔ عورتیں مردکی ہم شکل بنیں گی۔ بے گناہ قتل ہوں گے۔
( اقتراب و الساعتہ صفحہ38)
ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں امت کے اس ادبار اور تنزل کی بڑی واضح پیشگوئیاں فرمائی تھیں وہاں آپ نے امت کو یہ خوشخبری بھی دی تھی کہ اس تنزل اور ادبار کے بعد پھر میری امت پر بہار کا زمانہ آئے گا اور یہ امت اپنی کھوئی ہوئی ابتدائی شان وشوکت دوبارہ حاصل کرے گی اور آخری زمانہ میں جبکہ مندرجہ بالا پیشگوئیوں کے مطابق حالات وقوع پذیر ہوں گے تو ایک عظیم وجود خدا تعالیٰ کی طرف سے امت میں کھڑا کیا جائے گا جس کو آپ نے مہدی اور مسیح کے نام سے یادفر مایا۔
چنانچہ آپؐ فرماتے ہیں :
کَیْفُ تَھْلِکُ اُمَّۃٌ اَنَا اَوَّلُھَا وَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اٰخِرُھَا
(کنز العمال جلد7صفحہ203حدیث 2144)
کہ میری امت کبھی تباہ و برباد نہیں ہوسکتی جس کے اول میں خدا نے مجھے بھیجا اور جس کی حفاظت اور حمایت کے لیے آخر میں مسیح موعود علیہ السلام آئے گا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے یہ بھی واضح ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کا آنا ایسے زمانہ میں مقدرتھا جو امت محمدیہ کے لیے انتہائی خطرات کا زمانہ تھا۔
عن عبد الرحمان بن جبير بن نفير عن ابيه رضي اللّٰه عنه قال : قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم لَیُدْرِکَنَّ الدَّجَّالُ قَوْمًا مِّثْلَكُمْ اَوْ خَيْرًا مِّنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَلَنْ يُّخْزِىَ اللّٰهُ اُمَّةً اَنَا اَوَّلُهَا وَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ اٰخِرُهَا۔
(مستدرک حاکم کتاب المغازی باب ذكر فضيلة جعفر)
ترجمہ : حضرت عبد الرحمان بن جبیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ لازم ہے کہ دجال تمہارے جیسے یا تم سے بہتر لوگوں کا زمانہ پائے اور الله تعالیٰ اس امت کو ہرگز رسوا نہیں کرےگا جس کے آغاز میں مَیں ہوں اور آخر میں عیسیٰ بن مریم۔
اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ امت محمدیہ میں صرف فرقہ بندی، فتنہ وفساد، دجالوں کذابوں کی آمد اور ان کے ذریعہ تباہی و بربادی کی خبر ہی نہیں دی گئی بلکہ اس امت مرحومہ کو ہلاکت سے بچانے کے لیے عیسیٰ بن مریم جیسے وجود کے نجات دہندہ بن کر تشریف لانے کی بشارت بھی دی گئی ہے۔ یہ حدیث سنی اور شیعہ دونوں مکاتب فکر کی کتب میں کسی قدر لفظی فرق کے ساتھ موجود ہے۔ شیعہ روایات میں یہ اضافہ بھی ہے کہ وہ امت کیسے ہلاک ہوگی جس کے شروع میں مَیں اور علی اور میری اولاد کے گیارہ صاحب فہم و بصیرت افراد اور آخر میں مسیح ہے۔ لیکن درمیانی زمانہ کے لوگ ہلاک ہوں گے میرا ان لوگوں سے اور ان کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ میں امت کو ہلاکت سے بچانے کے لیے عیسیٰ بن مریم کا ذکر کیا ہے پس یہی مسیح موعود علیہ السلام دراصل امام مهدی ہے۔ جیسا کہ دوسری احادیث میں صراحت سے ذکر ہے کہ مسیح موعود ہی مہدی ہوگا۔
مہدی کی تائید و نصرت واجب ہے
عن علی رضی اللّٰه عنه عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال يَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ وَرَاءِ النَّهْرِ يُقَالُ لَهُ الْحَارِثُ بْنُ حَرَّاثٍ عَلَى مُقَدِّمَتِهِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ مَنْصُورٌ يُوَطِّئُ أَوْ يُمَكِّنُ لآلِ مُحَمَّدٍ كَمَا مَکَّنَتْ قُرَيْشٌ لِرَسُولِ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم وَجَبَ عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ نَصْرُهُ أَوْ قَالَ إِجَابَتُهُ
(ابو دائود کتاب المهدی آ خری باب)
ترجمہ : حضرت علیؓ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ماوراءالنہر سے ایک شخص ظاہر ہوگا جو حارث کے نام سے پکارا جائے گا اس کے مقدمته الجیش کے سردار کو “منصور ‘‘کہا جائے گا۔ وہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مضبوطی کا ذریعہ ہوگا۔ جس طرح قریش (میں سے اسلام قبول کرنے والوں ) کے ذریعہ رسولﷺ کو مضبوطی حاصل ہوئی۔ ہر مومن پر اس کی مدد ونصرت اور قبولیت فرض ہے۔
اس حدیث میں ماوراء النہر (یعنی سمرقند و بخارا) کے علاقہ کے ایک شخص کے ظہور کا ذکر ہے۔ جس کا لقب ’’حارث بن حراث ‘‘ہوگا۔ اس میں اس شخص کے ذاتی اور آبائی پیشہ کاشتکاری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ معزز زمیندار خاندان سے ہوگا۔ پھروہی علامت جو قرآن شریف کی آیت استخلاف میں خلفاء کی نشانی کے طور پر بیان ہوئی ہے کہ الله تعالیٰ ان کے ذریعہ دین کو مضبوطی بخشے گا۔ پس اس حدیث میں مسیح کا علاقہ اور کام بیان فرما کر اس کی تائید و نصرت واجب قرار دی گئی ہے۔ یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ آج تک سمرقند کے کسی معزز زمیندار نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ ایک حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ ہی وہ مدعی مسیح و مهدی ہیں جن کے آبا و اجداد کا تعلق سمرقند سے تھا۔ آپ کے آبا وہاں سے شہنشاہ بابر کے زمانہ میں ہجرت کر کے ہندوستان تشریف لائے تھے اور پنجاب میں کئی دیہات بطور جا گیر آپ کے خاندان کو ملے تھے اس لحاظ سے آپ کا خاندان ایک معزز زمیندار خاندان تھا۔ پس یہ آپ کی ذاتی خاندانی علامت تھی جو اس حدیث میں ’’حارث‘‘کے لفظ میں بیان ہوئی۔
عیسیٰ اور مہدی ایک ہی وجود کے دو لقب
عن انس بن مالک رضی اللّٰه عنه أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال : لَا يَزْدَادُ الأَمْرُ اِلَّا شِدَّةً وَلَا الدُّنْيَا اِلَّا إِدْبَارًا وَلَا النَّاسُ اِلَّا شُحًّا وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ اِلَّا عَلَى شِرَارِ النَّاسِ وَلَا الْمَهْدِيُّ اِلَّاعِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ
(ابن ماجه كتاب الفتن باب شدة الزمان)
ترجمہ : حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: معاملات شدت اختیار کرتے جائیں گے۔ دنیا اخلاقی پستی میں بڑھتی چلی جائے گی اور لوگ حرص و بخل میں ترقی کرتے چلے جائیں گے اور صرف برے لوگوں پر ہی قیامت آئے گی اور کوئی مہدی مسیح عیسیٰ بن مریم کے سوا نہیں ہوگا۔
بعض لوگوں کا یہ مسلک ہے کہ عیسیٰ کی روح مہدی میں بروز کر ے گی جس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ عیسیٰ کے سوا کوئی مہدی نہیں۔
مشہور شیعہ مفسر علامه طبرسی نے بھی انہی معنی کی تائید میں لکھا ہے کہ روح عیسیٰ مہدی میں بروز کرے گی جوحدیث لَامَهْدِیْ اِلَّا عِیْسَی کے مطابق ہے۔
امام مہدی کے بارے میں احادیث میں بہت اختلاف ہے اس وجہ سے امام بخاری اور مسلم نے مہدی کے بارے میں کوئی روایت قبول نہیں کی اور جو احادیث لی ہیں ان سے اول تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ مہدی ہی عیسیٰ بن مریم ہیں دوم یہ کہ ابن مریم امام (مہدی) بن کر تشریف لائیں گے گویا امام بخاری اور مسلم کے نزدیک موعود مسیح ہی مہدی ہوں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقام عیسویت کی تشریح میں فرماتے ہیں :
’’مہدی کے کامل مرتبہ پر وہی پہنچتا ہے جو اوّل عیسیٰ بن جائے یعنی جب انسان تبتّل الی الله میں ایسا کمال حاصل کرے جو فقط روح رہ جائے تب وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک روح اللہ ہو جاتا ہے اور آسمان میں اس کا نام عیسیٰ رکھا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ایک روحانی پیدائش اس کو ملتی ہے۔ ‘‘
(نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 368)
موعود امام…امت محمدیہ کا ایک فرد
عن ابي هريرة رضي اللّٰه عنه قال : قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم كَيْفَ أَنْتُمْ إذَاَ نْزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيْكُمْ وَ إِمَامُكُمْ مِنْكُمْ وَفِيْ رِوَايَةٍ فَاَمَّكُمْ مِّنْكُمْ
(بخاری کتاب الانبياء باب نزول عیسی بن مریم و مسلم کتاب الایمان)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ(اے مسلمانو) ! تمہارا کیا حال ہوگا جب ابن مریم تم میں نازل ہوں گے اور وہ تم میں سے تمہارے امام ہوں گے۔
قرآن شریف کی آیت استخلاف میں
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُم…(النور:56)
کے الفاظ میں مسلمانوں میں ان سے پہلی قوم (بنی اسرائیل ) کی طرح خلیفہ قائم کر نے کا عظیم الشان وعدہ فرمایا گیا۔ لفظ مِنْکُمْ میں صراحت کردی گئی کہ وہ خلفاء امت محمدیہ ہی میں سے ہوں گے۔ یہ حدیث بھی دراصل اسی آیت کی تفسیر ہے جس میں بتایا گیا کہ وہ مسلمان کیسے خوش قسمت ہوں گے جن کے دَور میں خلافت کا الٰہی وعدہ پورا ہو گا اور ان کی نازک حالت کے وقت بنی اسرائیل کے حضرت مسیح ابن مریمؑ کا مثیل مسلمانوں میں سے پیدا ہوگا۔ حدیث میں بھی مِنْکُمْکے الفاظ کی موجودگی صاف اشارہ کرتی ہے کہ وہ امام مسلمانوں میں سے ہوگا۔
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا یہ دعویٰ ہے کہ آپ ہی وہ امتی مسیح موعود اور امام مہدی ہیں جس کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں اپنے زمانہ کے اس امام کو پہچاننے کی توفیق ملی۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
ثریا کی بلندی سے ایمان واپس لانے والا مردِفارس
عن ابي هريرة رضي اللّٰه عنه قال كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فَأُنْزِلَتْ عليه سُورَةُ الجُمُعَةِ: {وَآخَرِينَ منهمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بهِمْ} قالَ: قُلتُ: مَن هُمْ يا رَسولَ اللَّهِ؟ فَلَمْ يُرَاجِعْهُ حتَّى سَأَلَ ثَلَاثًا، وفينَا سَلْمَانُ الفَارِسِيُّ، وضَعَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَدَهُ علَى سَلْمَانَ، ثُمَّ قالَ: لو كانَ الإيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا، لَنَالَهُ رِجَالٌ – أوْ رَجُلٌ – مِن هَؤُلَاءِ. حَدَّثَنَا عبدُ اللَّهِ بنُ عبدِ الوَهَّابِ، حَدَّثَنَا عبدُ العَزِيزِ، أخْبَرَنِي ثَوْرٌ، عن أبِي الغَيْثِ، عن أبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: لَنَالَهُ رِجَالٌ مِن هَؤُلَاءِ
(مسلم کتاب الفضائل باب فضل فارس و بخاری کتاب التفسير سورة جمعة )
ترجمہ : حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپؐ پر سورہ ٔجمعہ نازل ہوئی۔ جب آپؐ نے آیت واخرین منھم کی تلاوت فرمائی جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض دوسرے لوگوں میں بھی مبعوث فرمائے گا(جن کو آپ کتاب و حکمت سکھائیں گے اور پاک کریں گے)جن کا زمانہ صحابہ کے بعد ہے۔ اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ اے خدا کے رسولؐ! یہ کون لوگ ہیں۔ آپ نے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ اس سائل نے دو تین مرتبہ یہ بات پوچھی۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہمارے درمیان سلمان فارسی موجود تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سلمان رضی اللہ عنہ پر رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا ستارہ کی بلندی تک بھی چلا گیا تو ان لوگوں یعنی قوم سلمان رضی اللہ عنہ میں سے کچھ لوگ اسے واپس لے آئیں گے اور قائم کریں گے۔
بخاری کی روایت میں ہے کہ ایک مرد یا کچھ لوگ ایمان کو واپس لائیں گے۔
1۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری آمد یا بعثت کا زمانہ اس وقت ہوگا جب ایمان دنیا سے اٹھ جائے گا اور اسلام پر عمل باقی نہ ر ہے گا۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دوسری بعثت ایک ایسے شخص کے رنگ میں ہوگی جو عربی نہیں عجمی ہو گا اور سلمان فارسی کی قوم سے ہی ہوگا وہی سلمان فارسی جن کے بارے میں نبی کریمﷺ نے ایک موقع پر ان کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ سلمان رضی اللہ عنہ ہم میں سے ہے، سلمان اہل بیت میں سے ہے۔
3۔ رسول اللہ کی اس دوسری بعثت کی غرض اور مقصد ایمان کا قیام اور اسلام کا احیائے نو ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکراس حدیث کے مصداق ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے فرمایاکہ براہین احمدیہ میں بار بار اس حدیث کا مصداق وحی الٰہی نے مجھے ٹھہرایا ہے اور بتصریح بیان فرمایا کہ وہ میرے حق میں ہے۔ آپ نے بڑی تحدی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کراس وحی کو خدا کا کلام قرار دیتے ہوئے مفتری پر خدا کی لعنت ڈالی اور انکار کرنےوالے کو مباہلہ کا چیلنج دیا ہے جسے آج تک کسی نے قبول کرنے کی جرأت نہیں کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے از سر نو ایمان قائم کر نےوالے، قرآن ثریا سے واپس لانے کی عظیم الشان خدمت انجام دینے والے رجل فارسی کو ہی مسیح موعودقراردیا ہے اور اس کے حق میں منطقی دلیل دی ہے کہ اگر یہ تسلیم نہ کیا جائے تو ماننا پڑتا ہے کہ رجل فارسی مسیح موعود سے افضل ہے کیونکہ مسیح کا کا م مومن کامل بنانا ہے جو افاضه خیر ہے اور زیادہ بھاری دینی خدمت ہے مزید یہ کہ جسے آسمان کی بلندی سے ایمان لانے کی طاقت ہے وہ زمین کا شر کیوں دورنہیں کر سکتا لہٰذا یہی رجل فارسی ہی مسیح موعود علیہ السلام ہے اور اس کے مصداق وحی الٰہی کے مطابق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہیں۔
سلام مصطفےٰ بنام مہدی ومسیح
عن انس رضی اللّٰه عنه قال : قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مَنْ اَدْرَکَ مِنْكُمْ عِیْسٰی ابْنَ مَرْیَمَ فَلْيَقْرَأْهُ مِنِّي السَّلَامَ
(مستدرک حاکم کتاب الفتن باب ذكر نفخ الصور)
ترجمہ:حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تم میں سے جو عیسیٰ بن مریم کو پائے وہ اسے میرا سلام پہنچائے۔
اس حدیث سے آخری زمانے میں آنےوالے مثیل مسیح کے مقام اور اسے قبول کرنے کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے جسے ان کے آقا ومطاع حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنا محبت بھرا سلام بھجوایا۔ اپنی امت کو گویا یہ پیغام دیا کہ وہ میرا پیارا مسیح اور مہدی ہے اس کی قدر کرنا ہاں ! وہی مہدی جس کی سچائی کے نشان کے طور پر چاند گرہن کے آسمانی گواہوں کا ذکر کرتے ہوئے ’’ہمارے مہدی‘‘کے الفاظ میں آپ نے اس کے ساتھ اپنی محبت اور پیار کا اظہار فرمایا۔ ایک اور موقع پر فرمایا کہ
اَلَا اِنَّهٗ خَلِيْفَتَيْ فِيْ اُمَّتِیْ
یعنی وہ مسیح موعود میری امت میں میرا خلیفہ ہوگا۔ پس تم میں سے جوبھی اسے پائے میرا سلامتی کا پیغام پہنچائے۔
سلامتی کے اس پیغام میں یہ بھی اشارہ تھا کہ ہمیشہ کی طرح دنیا اس مامور زمانہ کی مخالفت کرے گی اورلعنت و ملامت کا سلوک کرے گی مگر اپنے سچے امتیوں سے آپ نے سلامتی کے پیغام کی ہی توقع رکھی اور انہیں اس مسیح موعود کے ماننے اور قبول کرنے کی تاکید کی کیونکہ محض سلامتی کا پیغام پہنچانے میں فضیلت تو ہے مگر یہ موجب نجات نہیں ہوسکتی اسی لیے رسول اللہؐ نے فرمایا۔
فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُ فَبَايِعُوْهُ وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ فَإِنَّهُ خَلِيْفَةُ اللّٰهِ الْمَهْدِيُّ۔
(ابن ماجه كتاب الفتن باب خروج المهدی)
کہ جب تم اس مہدی کو دیکھو تو اس کی بیعت کرنا خواہ گھٹنوں کے بل برف پر چل کر جانا پڑے کیونکہ وہ خدا کا خلیفہ مہدی ہے۔ ابن ماجہ کی ہی دوسری روایت میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امام کی نصرت اور مدد کر نےکاحکم دیا ہے۔ بعض اور روایات میں اس مہدی کے حق میں آسمان سے
خَلِيْفَةُ اللّٰهِ المَهْدِی
کی آواز آنےکا جو ذکر ہے جس سے مرادآسمانی نشانوں کا ظہور اورمہدی کی قبولیت پھیلنا ہے۔ ان احادیث سے ظاہر ہے کہ مسیح ومہدی کوقبول کرنا اور اس کی بیعت کر کے مد دکرنا کتنا ضروری اور لازمی ہے۔
حرف آخر
سینکڑوں اور ہزاروں سال کے غلط راسخ عقیدے کو لاکھوں انسانوں کے دلوں سے دُور کر کے ان کو صحیح عقیدے پر قائم کر دینا تائید الٰہی کے بغیر ہرگز ممکن نہیں اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ مہتم بالشان کارنامہ ہے کہ اگر آپ صرف اسی بنا پر یہ فرماتے کہ مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے اور جس مسیح کے آنے کی خبر دی گئی تھی وہ مسیح میں ہوں تو بھی نہایت صحیح اور برمحل اور حضرت مسیح علیہ السلام کے اس ارشاد کی طرح بالکل بجا اوردرست ہوتا جو آپؑ نے ایلیا نبی کے آسمان سے نازل ہونے کا مطالبہ کرنے والے یہود سے فرمایاتھا کہ ایلیا تو نازل ہو گیا پر تمہیں خبر نہیں ہوئی۔ وہ ایلیا یوحنا ہے۔ مگر حضرت اقدس علیہ السلام کے مسیح موعود ہونے پرتو بفضلہ تعالیٰ اور بھی بکثرت دلائل موجود ہیں اور آپ نے بفضلہ تعالیٰ وہ تمام عظیم الشان کام کسر صلیب اور قتل خنزیر اور مذاہب عالم پر دلائل و براہین کی روسے اظہار غلبہ اسلام باحسن وجوہ انجام دے دیے ہیں جو احادیث نبویہ میں خاص طور پرمسیح موعود و امام مہدی معہود کے کام بتائے گئے ہیں۔
پس ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامل شرح صدر اور پورا اطمینان قلب ہے اور ہم بآواز بلند اعلان کرتے ہیں کہ سیدالاولین والآخرین خاتم النبیین شفیع المذنبین محبوب رب العالمین حضرت احمدمجتبیٰ محمد مصطفیٰﷺ نے اپنی امت میں مسیح موعود و امام مہدی معہود کے ظہور کی جو پیشگوئی فرمائی تھی وہ حضور پرنور کے خاص غلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے وجود با جود میں پوری ہوگئی ہے۔ اوراس پیشگوئی سے لاکھوں درجہ بڑھ کر صفائی کے ساتھ پوری ہوئی جوملاکی نبی نے ایلیا نبی کے آسمان سے نازل ہونے کی نسبت کی تھی۔
تمام مسلمان کہلانے اور آنحضرتﷺ کی محبت اور پیروی کا دم بھرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپ کے معاملے میں وہ روش اختیار نہ کریں جو یہود نے اپنے موعود مسیح کے معاملہ میں اختیار کی تھی بلکہ اس عارفانہ طرز سے فائدہ اٹھائیں جوحضرت مسیح علیہ السلام نے یہود کے جواب میں اختیارفرمائی تھی اوراپنے پیارے نبی کریمﷺ کے اس مبارک ارشاد پرعمل کریں جوحضور نے یہودونصاری کی پیروی سے بچنے کے لیے فرمایاتھا۔ مبارک وہ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے موعود مسیح کو قبول کریں جس کا راستہ مسیح علیہ السلام ایلیا نبی کے آسمان سے نازل ہونے کی حقیقت ظاہر کر کے صاف کر چکے ہیں اور وہ ایسی حقیقت ہے جس کو مسلمان تیرہ سو برس سے بھی زیادہ مدت سے مانتے آئے ہیں اور جس کومانے بغیر حضرت مسیح علیہ السلام سچے نہیں مانے جاسکتے۔
مبارک اور بہت مبارک ہیں وہ لوگ جوحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کریں اور آپ کی جماعت میں شامل ہو کر اکناف عالم میں خدمت اسلام بجالانے کا اہم فریضہ ادا کر کے الله تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں سر خروئی حاصل کریں۔ اور جو آپ کو قبول نہ کریں گے اور انکار پر مصر رہیں گے وہ اپنے خیالی مسیح کو آسمان سے نازل ہوتے ہوئے ہر گز نہیں دیکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو دنیا میں پھیلائے گا اور اسے فوق العادت برکات دے گا اور اسے دنیا کے باقی تمام مذاہب پر غلبہ عطا فرمائے گا۔ ان شاء اللہ العزیز۔
خاکسار اپنے اس مضمون کو سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اس عظیم الشان پیشگوئی پر ختم کرتا ہے جو حضورؑ نے اپنی کتاب تذکرۃ الشہادتین مطبوعہ 1903ء میں درج فرمائی ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین وآسمان بنایاوہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا وے گا اور حجت اور برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشےگا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائےگا۔ خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامرادر کھے گا۔ اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائےگی۔ اگر اب مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا۔ پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھٹھا کیا جاتا ۔جیسا کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے:
یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ (یٰس:31)
پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے۔ مگر ایسا آدمی جوتمام لوگوں کے رو برو آسمان سے اُترے اور فرشتے بھی اس کے ساتھ ہوں اس سے کون ٹھٹھا کر ے گا۔ پس اس دلیل سے بھی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود کا آسمان سے اترنا محض جھوٹا خیال ہے۔ یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا۔ ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسیٰؑ بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسیٰؑ بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گااور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی۔ تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا۔ اور دنیا دوسرے رنگ میں آ گئی مگر مریم کا بیٹا عیسیٰؑ اب تک آسمان سے نہ اتر ا۔ تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے۔ اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نو مید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ مَیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے۔ ‘‘
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 66تا67)
٭…٭…٭