مسیح کے نزول کی سچی حقیقت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل تھا۔ یہ ہم کلامی دعویٰ کی حد نہیں تھی بلکہ ثبوت کے طور پر آپ علیہ السلام نے اپنے الہامات بکثرت شائع کیے اور یہ اشاعت محدود نہیں تھی بلکہ کتب، اشتہارات، رسائل، اخبارات اور خطوط کے ذریعہ کی۔ اس لیے وہ الہامات اپنوں تک بھی پہنچے اور غیر وں تک بھی، ماننے والوں کو بھی علم ہوا اور مخالفین نے بھی آگاہی حاصل کی۔ اس دعویٰ ملہم من اللہ کی وجہ سے آپ علیہ السلام کی امت محمدیہ میں غیر معمولی اہمیت ہے۔ کوئی ملہم من اللہ جب یہ اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام کرتا ہے، اس پر اپنے الہامات نازل کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے مقربین اورپاکیزہ لوگوں میں شامل کر تا ہے۔ اس دعویٰ میں ہی اس کی پاکیزگی کا اعلان ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے الہام پانے کے دعویدار کے الہامات کی یہی صورتیں ہوسکتی ہیں : اول یہ کہ وہ الہامات سچے ہیں اورواقعی اللہ تعالیٰ اس مدعی سے ہم کلام ہوتا ہے ۔دوم یہ کہ وہ الہامات جھوٹے ہیں اور دعویدار نے عمداً وہ الہامات گھڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیے ہیں ۔ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ پر افتراء کرنے والا کہیں گے ۔سوم یہ کہ اسے کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے غلطی لگ رہی ہے۔ایسےبیمار اور غلطی خوردہ کے الہامات کی کیفیات اس کا خطا پر ہونا ظاہر کردیتے ہیں ۔
لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والے مفتری کے متعلق قرآن کریم نے اصول بیان فرمایا دیا ہے کہ
وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَى۔ (طٰهٰ:62)
اور ىقىناً وہ نامراد ہو جاتا ہے جو افترا کرتا ہے۔
پھر فرمایا :
أَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرَاهُ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَيَّ إِجْرَامِي وَأَنَا بَرِيْءٌ مِّمَّا تُجْرِمُوْنَ۔ (هود:36)
کىا وہ کہتے ہىں کہ اس نے اُسے افترا کرلىا ہے تُو کہہ دے کہ اگر مىں نے ىہ افترا کىا ہوتا تو مجھ پر ہى مىرے جرم کا وبال پڑتا اور مىں اس سے بَرى ہوں جو تم جرم کىا کرتے ہو۔
پھر فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ (يونس:70)
ىقىناً وہ لوگ جو اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہىں کامىاب نہىں ہوں گے۔
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ۔ (هود:22)
ىہى وہ لوگ ہىں جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے مىں ڈالا اور جو بھى وہ جھوٹ گھڑا کرتے تھے وہ اُن کے ہاتھ سے جاتا رہا۔
مزید فرمایا:
وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ قَالَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ وَ لَمۡ یُوۡحَ اِلَیۡہِ شَیۡءٌ وَّ مَنۡ قَالَ سَاُنۡزِلُ مِثۡلَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُؕ وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذِ الظّٰلِمُوۡنَ فِیۡ غَمَرٰتِ الۡمَوۡتِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوۡۤا اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ اَخۡرِجُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اَلۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡہُوۡنِ بِمَا کُنۡتُمۡ تَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ غَیۡرَ الۡحَقِّ وَ کُنۡتُمۡ عَنۡ اٰیٰتِہٖ تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ۔ (الانعام:94)
اور اس سے زىادہ ظالم کون ہے جس نے اللہ پر جھوٹ گھڑا ىا کہا کہ مىرى طرف وحى کى گئى ہے جبکہ اس کى طرف کچھ بھى وحى نہىں کىا گىا اور جو ىہ کہے کہ مىں وىسا ہى کلام اتاروں گا جىسا اللہ نے اتارا ہے اور کاش تو دىکھ سکتا جب ظالم موت کى ىورشوں کے نرغے مىں ہوں گے اور فرشتے ان کى طرف اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے (کہ) اپنى جانوں کو باہر نکالو آج کے دن تم سخت ذلّت کا عذاب دىئے جاؤ گے ان باتوں کے سبب جو تم اللہ پر ناحق کہا کرتے تھے اور اس کے نشانات سے تکبر سے پىش آتے تھے۔
گویا اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والا ہمیشہ نامراد رہتا ہے اور کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ وہ دنیا وآخرت میں گھاٹا کھانے والا ہوتا ہے۔ اس کے لیے سخت ذلت والا عذاب مقدر ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی پکڑ کرتا ہے اور اس کا جھوٹ سب پر عیاں کر دیتا ہے۔ جو باتیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے وہ اسے پورا نہیں کرتا۔ مفتری جوبات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے اللہ تعالیٰ پابند نہیں کہ اسی طرح کرے۔ نعوذباللہ کیا کوئی اللہ تعالیٰ کو مجبور کر سکتا ہے۔
افترا کی پہچان اس طرح بھی ہوتی ہے کہ اس میں وہ شان وشوکت نہیں ہوتی جس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار ہو۔ اس میں ان کامیابیوں کا بیان نہیں ہوتا جو اللہ تعالیٰ کی خاص تائید ونصرت سے حاصل ہوتی ہیں۔ ان فضلوں اور احسانوں کا ذکر نہیں ہوتا جن کا حصول اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔
اسی مضمون کا دوسرا رخ یہ ہے کہ سچے ملہم من اللہ کے بکثرت الہامات میں شان وشوکت اوراللہ تعالیٰ کے فضلوں واحسانوں کا ذکر ہوتا ہے، ان نعمتوں کا بیان ہوتا ہے جن کا حصول اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت کے بغیر ممکن نہیں۔ ایسے غیبی امور پر مبنی الہامات پوری شان کے ساتھ پورا ہوکر سچے ملہم من اللہ کی سچائی ظاہر وباہر کر دیتے ہیں۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہونے والے بے شمار الہامات اس بات کا ثبوت ہیں۔ مثال کے طور پر انہیں الہامات میں سے کچھ آپ علیہ السلام کی اولاد کے متعلق تھے جنہیں آپ علیہ السلام نے اسی زمانے میں بکثرت شائع کیا۔ انسان اپنی طرف سے اپنی نسل کے حوالے سے جو مرضی بات بیان کر سکتا ہے لیکن جب وہ یہ کہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ذریعہ اطلاع دی ہے تو یہ ایک نشان بن جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1886ء میں ایک اشتہار کے ذریعہ یہ الہام شائع کیا :
’’پھر خدائے کریم جلشانہ نے مجھے بشارت دیکر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرےگا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائےگا تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر یک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لا ولد رہ کر ختم ہوجائے گی۔ ‘‘
(ضمیمہ اخبار ریاض ہند امرتسر مطبوعہ یکم مارچ 1886ء بحوالہ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 647تا648)
اب اس الہام کے الفاظ پر غور کریں کیسے ان سے اللہ تعالیٰ کی شان وشوکت اور قدرت کا اظہار ہو رہا ہے۔ ’’تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی ‘‘۔ انسان کو اپنی اگلی سانس کا علم نہیں لیکن یہاں نسل کے بکثرت ملکوں میں پھیلنے کی بات ہو رہی ہے اوراسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیاجا رہا ہے۔
اب ایک صورت تو یہ تھی کہ یہ ایک افترا ہے۔ افترا ہونے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ اصول کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل بکثرت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ نسل انسانی کی بقا کا انحصار تو ہے ہی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل واحسان پر پھر کیسے ممکن ہے اللہ تعالیٰ مفتری کو کامیابی دے۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عنایات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل بکثرت ہوئی اور ملکوں میں پھیل گئی۔ موجودہ زمانے میں اس الہام کا پورا ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ الہام کے اگلے حصہ میں دوسری شان کا اظہار ہےفرمایا:’’اور ہر یک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لا ولد رہ کر ختم ہوجائے گی‘‘ پھر واقعی جدی بھائیوں کی ہر شاخ کٹ گئی اور ان کی نسل ختم ہوگی۔ اللہ اللہ کیسا عظیم الشان نشان ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملہم من اللہ ہونے کا بین ثبوت ہے۔ کس قدر اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بیان کردہ اصول کے مطابق مفتری کو کبھی کامیاب نہیں کرتا لیکن 135؍سال بعد اس الہام کے لفظ لفظ کو پورا ہوتا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں تو ہمارا ایمان اور ہماری عقل ودانش ہمیں مجبور کرتی ہے کہ تسلیم کریں اور ایمان لائیں کہ وہ الہام یقیناً اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعویٰ ملہم من اللہ میں سچے ہیں۔
اب یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کلام کرتا تھا۔ ان الہامات پر آپ علیہ السلام سے بڑھ کر کس کو یقین اور ایمان ہوگا۔ اس لیے ہی آپ علیہ السلام نے ان الہامات میں بیان امور کو پورے زور وشور سے بیان کیا۔ انہیں الہامات میں آپ علیہ السلام کو عیسیٰ کے نام سے مخاطب کیا گیا۔
’’وَجَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ ‘‘
(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3صفحہ 464)
یعنی تجھے ہم نے مسیح ابن مریم بنایا
پھر فرمایا:
’’اِنَّاجَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ لِاُتِمّ حُجتِیْ علیٰ قَومٍ مُتَنَصِّرِیْنَ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ 373)
یعنی ہم نے تجھے مسیح ابن مریم بنایا ہے تاکہ نصرانیت کو اختیار کرنے والے لوگوں پر میں اپنی حجت پوری کروں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا کہ
’’ یَا عِیْسیٰ سَاُرِیْکَ اٰیَاتِی الکُبْرٰی ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 382)
یعنی اے عیسیٰ ! میں تجھے عنقریب بڑے بڑے نشان دکھاؤں گا۔
پھر فرمایا کہ
’’اِنّی جَاعِلُکَ عِیْسی ابْنَ مَرْیَمَ وَکَانَ اللّٰہ عَلیٰ کُل شَیْ ءٍ مُقْتَدَرًا ‘‘
(آئینہ کمالا ت اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 426)
یعنی اور کہا کہ میں تجھے عیسیٰ ابن مریم بناتا ہوں اور اللہ ہر ایک بات پر قادرہے۔
آپ علیہ السلام کو الہام میں مسیح اور عیسیٰ کے نام سے پکارا گیا۔ پھر آپ علیہ السلام کو واضح رنگ میں مثیل مسیح اور موعود مسیح قرار دیا گیا۔ فرمایا:
’’مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہوچکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے
وَکَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا اَنتَ مَعِیَ عَلی الحَقِّ المُبِیْنِ، اَنتَ مُصِیْب وَمُعِین لِلحَقِّ ‘‘
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 402)
یعنی اور اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ تو میرے ساتھ ہے اور تو روشن حق پر قائم ہے۔ تو راہِ صواب پر ہے اور حق کا مدد گار ہے۔
انہیں الہامات کی بنیاد پر آپ علیہ السلام نےمثیل مسیح اور مسیح موعود(یعنی ایسا مسیح جس کا وعدہ دیا گیا ) ہونے کا دعویٰ فرمایا۔ آپ علیہ السلام کے اس دعویٰ کی اشاعت پر مخالفت کا شور برپا ہوگیا۔ آپ علیہ السلام نے اس کا جواب اس طرح دیا کہ
’’اور یاد رکھنا چاہیئے کہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ملہم من اللہ اور مجدد من اللہ کے دعویٰ سے کچھ بڑا نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جس کو یہ رتبہ حاصل ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کا ہم کلام ہو اس کا نام منجانب اللہ خواہ مثیل مسیح ہو اور خواہ مثیل موسیٰ ہو۔ یہ تمام نام اس کے حق میں جائز ہیں۔ مثیل ہونے میں کوئی اصلی فضیلت نہیں اصلی اور حقیقی فضیلت ملہم من اللہ اور کلیم اللہ ہونے میں ہے۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ 341)
اصل اور حقیقی فضیلت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ علیہ السلام سے کلام کرتا تھا۔ جب آپ علیہ السلام کا دعویٰ ملہم من اللہ سچ ثابت ہوگیا تو نازل شدہ الہام میں جو بھی نام رکھا گیا، جس طرح بھی مخاطب کیا گیا اس پر کوئی بحث نہیں بنتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’پھر جس شخص کو مکالمہ الٰہیہ کی فضیلت حاصل ہوگئی اور کسی خدمت دین کیلئے مامور من اللہ ہوگیا تو اللہ جلّ شانہٗ وقت کے مناسب حال اس کا کوئی نام رکھ سکتا ہے۔ یہ نام رکھنا تو کوئی بڑی بات نہیں۔ اسلام میں موسیٰ، عیسیٰ، داؤد، سلیمان، یعقوب وغیرہ بہت سے نام نبیوں کے نام پر لوگ رکھ لیتے ہیں اس تفاول کی نیت سے کہ ان کے اخلاق انہیں حاصل ہو جائیں پھر اگر خدا تعالیٰ کسی کو اپنے مکالمہ کا شرف دیکر کسی موجودہ مصلحت کے موافق اس کا کوئی نام بھی رکھ دے تو اس میں کیا استبعاد ہے؟‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 341)
جیسے ہم کسی بچے کا نام اس نیت سے نیک تفاؤل کے طور پرکسی نبی کے نام پر رکھ لیتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں جس طرح وہ انبیاء اللہ تعالیٰ کے پیارے تھے اسی طرح یہ بچہ بھی نیک اور اللہ تعالیٰ کو پیارا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے مجدد کا نام عیسیٰ رکھا ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟ ہاں یہ سوچنے والی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کا کوئی نام رکھتا ہے تو اس میں کیا مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے کیونکہ ہمارا نام رکھنا تو آئندہ کے لیے نیک امید پر ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ جب کسی کو کوئی نام دیتا ہے تو اس میں کوئی مصلحت اور حکمت ہوگی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی حکمت اور مصلحت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’اور اس زمانہ کے مجدد کا نام مسیح موعود رکھنا اس مصلحت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ اس مجدد کا عظیم الشان کام عیسائیت کا غلبہ توڑنا اور ان کے حملوں کو دفع کرنا اور ان کے فلسفہ کو جو مخالف قرآن ہے دلائل قویہ کے ساتھ توڑنا اور ان پر اسلام کی حجت پوری کرنا ہے کیونکہ سب سے بڑی آفت اس زمانہ میں اسلام کیلئے جو بغیر تائید الٰہی دور نہیں ہو سکتی عیسائیوں کے فلسفیانہ حملے اور مذہبی نکتہ چینیاں ہیں جن کے دور کرنے کیلئے ضرور تھا کہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے کوئی آوےاور جیسا کہ میرے پر کشفاًکھولا گیا ہے۔ حضرت مسیح کی روح ان افتراؤں کی وجہ سے جو ان پر اس زمانہ میں کئے گئے اپنے مثالی نزول کیلئے شدت جوش میں تھی اور خدا تعالیٰ سے درخواست کرتی تھی کہ اس وقت مثالی طور پر اس کا نزول ہو۔ سو خدائے تعالیٰ نے اس کے جوش کے موافق اس کی مثال کو دنیا میں بھیجا تا وہ وعدہ پورا ہو جو پہلے سے کیا گیا تھا۔ ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 341)
پھر مزید فرمایا کہ
’’میرے پر کشفاًیہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ زہرناک ہوا جو عیسائی قوم سے دنیا میں پھیل گئی حضرت عیسیٰ کو اس کی خبر دی گئی تب ان کی روح روحانی نزول کے لئے حرکت میں آئی اور اس نے جوش میں آکر اور اپنی امت کو ہلاک [سہو کتابت معلوم ہوتا ہے ’’ہلاکت‘‘ہوناچاہیے(ناشر)]کا مفسدہ پر داز پا کر زمین پر اپنا قائم مقام اور شبیہہ چاہا جو اس کا ایسا ہم طبع ہو کہ گویا وہی ہو۔ سو اس کو خدائے تعالیٰ نے وعدہ کے موافق ایک شبیہ عطا کی اور اس میں مسیح کی ہمت اور سیرت اورروحانیت نازل ہوئی اور اس میں اور مسیح میں بشدّت اتصال کیا گیا گویا وہ ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے بنائے گئے اور مسیح کی توجہات نے اُس کے دل کو اپنا قرار گاہ بنایا اور اُس میں ہو کر اپنا تقاضا پورا کرنا چاہا۔ پس ان معنوں سے اس کا وجود مسیح کا وجود ٹھہرا اور مسیح کے پُرجوش ارادات اس میں نازل ہوئے جن کا نزول الہامی استعارات میں مسیح کا نزول قرار دیا گیا یاد رہے کہ یہ ایک عرفانی بھید ہے کہ بعض گذشتہ کاملوں کا ان بعض پر جو زمین پر زندہ موجود ہوں عکس توجہ پڑ کر اور اتحاد خیالات ہو کر ایسا تعلق ہوجاتا ہے کہ وہ ان کے ظہور کو اپنا ظہور سمجھ لیتے ہیں اور ان کے ارادات جیسے آسمان پر ان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ویسا ہی باذنہ ٖتعالیٰ اس کے دل میں جو زمین پر ہے پیدا ہوجاتے ہیں اور ایسی روح جس کی حقیقت کو اس آدمی سے جو زمین پر ہے متحد کیا جاتا ہے ایک ایسا ملکہ رکھتی ہےکہ جب چاہے پورے طور پر اپنے ارادات اس میں ڈالتی رہے اور ان ارادات کو خدا تعالیٰ اُس دل سے اِس دل میں رکھ دیتا ہے غرض یہ سنت اللہ ہے کہ کبھی گذشتہ انبیاء و اولیاء اس طور سے نزول فرماتے ہیں اور ایلیا نبی نے یحیٰی نبی میں ہو کر اسی طور سے نزول کیا تھا سو مسیح کے نزول کی سچی حقیقت یہی ہے جو اس عاجز پر ظاہر کی گئی اور اگر اب بھی کوئی باز نہ آوے تو میں مباہلہ کے لئے طیار ہوں ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 254تا256)
سچے ملہم من اللہ ہونے کی وجہ سےآپ علیہ السلام پر کشفاً منکشف ہونے والے مسیح کے نزول کی حقیقت بھی سچی ہے۔ اور یہ اس کی مضمون کی سچائی پر بہت بڑی اور پختہ دلیل ہے۔ کوئی اور شخص بیان کرتا تو اس میں شبہ ہوسکتا تھا لیکن آپ علیہ السلام پر نازل ہونے والے بکثرت سچے الہامات اس بات کے گواہ اور ثبوت ہیں کہ یہ نزول مسیح کی سچی حقیقت پر مبنی کشف بھی یقیناًسچا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو اپنے زمانے میں کھلا چیلنج دیا تھا کہ اگر کسی کو شبہ ہے اور وہ اس مسیح کے نزول کی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا تو مباہلہ کر لے۔ اللہ تعالیٰ سے فیصلہ کروا لے لیکن کوئی اس حوالے سے فیصلہ کروانے کے لیے سامنے نہیں آیا بلکہ مخالفت برائے مخالفت کا رویہ ہی اختیار کیے رکھا۔
مسیح کے نزول کی سچی حقیقت کے لیے یہی دلیل کافی تھی لیکن اس کشف میں بیان کردہ امور کی سچائی پر چار چاند لگ جاتے ہیں جب انہیں بیان کردہ امور کے حوالے سے مذہبی تعلیمات میں اور بھی دلائل مل جاتے ہیں۔ مثلاً اگر نزول مسیح کی حقیقت سمجھنے میں دقت کا سامنا ہے تو قرآن کریم اس حوالے سے رہ نمائی فرماتا ہے کہ
فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ۔ (الانبياء:8)
’’تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو۔ ‘‘
(تفہیم القرآن جلد سوم از ابو االاعلیٰ مودودی ادارہ ترجمان القرآن لاہور )
جب اہل کتاب کے پاس جاتے ہیں تو وہاں بھی ایک پرانے نبی کے دوبارہ نزول کا عقیدہ ملتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہاں پرانے نبی کے دوبارہ نزول کے عقیدہ کو کس طرح لیا گیا اور اس پر کیا بحث ہوئی اورکس طرح اس مسئلہ کو حل کیا گیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہی سامنے ایک پرانے نبی کے نزول کا مسئلہ رکھا گیا۔ یہودی علماء نے پرانے نبی کے نزول کے عقیدہ کوبنیاد بنا کرحضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا۔ پرانے نبی کے نزول کا عقیدہ کیا تھا، یہود نے کس طرح اسے اعتراض کے رنگ میں پیش کیا اور حضرت عیسی علیہ السلام نے اس کا کیا جواب دیا؟آئیں دیکھتے ہیں :
پرانے عہد نامے میں ایلیاہ نبی کے متعلق لکھا ہے
’’اور ایلیاہ بگولے میں آسمان پر چلا گیا ‘‘
(سلاطین 2 باب 2آیت 11)
پھر ذکر ہے کہ
’’دیکھو خدا وند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں ایلیاؔہ نبی کو تمہارے پاس بھیجو ں گا اور وہ باپ کا دل بیٹے کی طرف اور بیٹے کا باپ کی طرف مائل کرےگا۔ ‘‘
(ملاکی باب 4آیت 5تا6)
اب بنی اسرائیل میں اپنی مذہبی کتاب کی روشنی میں یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ ایلیاہ نبی آسمان پر گیا ہوا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے قبل اسی ایلیاہ نے واپس آنا ہے۔ اس حوالے سے جب یہودی علماء نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایلیاہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب میں یوحنا بپتسمہ دینے والے کا ذکر کرکے کہا کہ
’’سب نبیوں اور توریت نے یوحنا تک نبوت کی اور چاہو تو مانو۔ ایلیاہ جو آنے والا تھا یہی ہے۔ جس کے سننے کے کان ہوں وہ سن لے ‘‘
(متی باب 11آیت 13تا15)
پھر لکھا کہ
’’شاگردوں نے اس سے پوچھا کہ پھر فقیہ کیوں کہتے ہیں کہ ایلیاہ کا پہلے آنا ضرورہے اس نے جواب میں کہا ایلیاہ البتہ آئےگا اور سب کچھ بحال کر ےگا۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیاہ تو آچکا اور انہوں نے اسے نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کےساتھ کیا۔ اسی طرح ابن آدم بھی ان کے ہاتھ سے دکھ اٹھائےگا۔ تب شاگرد سمجھ گئے کہ اس نے ان سے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی بابت کہا ہے۔ ‘‘
(متی باب17آیت 10تا13)
شاگردسمجھ گئے کہ پرانے نبی ایلیاہ کے دوبار ہ نزول کی حقیقت یہی ہے کہ نیا نبی یوحنا اس پرانے نبی ایلیا کے نام پر آئے گا لیکن یہودی علماء نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نزول ایلیا کی اس وضاحت اور حقیقت کو قبول نہ کیا اور آپ علیہ السلام کا انکار کر دیا اور آج تک اس انکار پر قائم ہیں۔ انہوں نے کسی پرانے نبی کے دوبارہ نزول کی اس حقیقت کو تسلیم نہ کرکے ایک سچے نبی کا انکار کر دیا۔
یہود کی طرح مسلمانوں میں بھی ایک پرانے نبی کے نزول کا عقیدہ پایا جاتا ہے جس کا اصالتاً ذکر احادیث میں ہے یعنی نزول مسیح کا عقیدہ۔ عام مسلمان نزول مسیح کی یہی حقیقت سمجھتے ہیں کہ بنی اسرائیلی نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ جسم سمیت آسمان پر موجود ہیں اور وہی زندہ جسم سمیت آسمان سے نازل ہوں گے۔ جو غلطی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بالمقابل یہودی علماء نے کی اور آپ علیہ السلام کی سچائی کا انکار کر دیا وہی غلطی دہرا کر موجودہ زمانے کے نام نہاد علماء حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا انکار کر رہے ہیں۔ اور کسی نبی کے دوبارہ نزول کی حقیقت کو نہ سمجھتے ہوئے مخالفت کیے جارہے ہیں۔ یہودی علماء کے پاس حقیقت سمجھنے کے لیے اتنے دلائل نہیں تھے جتنے دلائل موجودہ زمانے کے مسلمان علماء کے پاس موجود ہیں۔ مثلاً
(1)موجودہ زمانے کے علماء کے پاس مثال موجود ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ کسی پرانے نبی کے دوبارہ نزول کی حقیقت کیا ہوتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود اس حقیقت کو بیان کیا تھا لیکن یہودی علماء نے اسے قبول نہیں کیاتھا بالکل اسی طرح موجودہ زمانے کے نام نہاد علماء بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بیان کردہ اس حقیقت کو قبول نہیں کر رہے۔ جس عذر کی بنیاد پر یہودی علماء نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا اسی عذر کی بنا پر موجودہ زمانے کے نام نہاد علماء مثیل مسیح کا انکار کر رہے ہیں۔
(2)یہودی علماء کے پاس ایلیا نبی کی وفات کے دلائل موجود نہیں تھے بلکہ ان کی کتاب میں واضح طور پر ایلیا کے آسمان پر جانے اورپھر واپس آنے کا ذکر موجود تھا لیکن یہاں تو قرآن کریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا واضح رنگ میں اعلان کر رہا ہے۔ بے شمار دلائل سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے۔ اس طرح ان کے زندہ جسم سمیت آسمان پر جانے کی کلیۃ ًنفی ہوتی ہے۔ جب وہ زندہ جسم سمیت آسمان پر گئے ہی نہیں تو واپس کیسے آئیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پختہ اور مضبوط دلائل سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا اعلان کر دیا۔ اس سے ان کےزندہ جسم سمیت آسمان پر جانے اور پھر واپس آنے کے عقیدے کی تردید ہوگئی۔ آپ علیہ السلام نے پیشگوئی کے رنگ میں فرمایا کہ
’’ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی کہ عیسیٰ کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اوربدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے ‘‘
(تذکرة الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ67)
ابھی صرف ایک صدی ہی گزری ہے اورہم دیکھتے ہیں کہ کئی غیر احمدی نامی علماء علی الاعلان میڈیا پر وفات مسیحؑ کے وہی دلائل بیان کرتے نظر آتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفات مسیحؑ کے اثبات کے لیے اپنی کتب میں بیان فرمائے۔ اسی طرح احمدیت مخالف علماء حیات ووفات مسیحؑ جیسے بنیادی اختلافی مسئلہ کو چھوڑ کر دیگر امور پر ہی بات کرتے نظر آتے ہیں اور باوجود اصرار کے اس پر گفتگو نہیں کرتے۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ ان کے پاس حیات مسیحؑ کے دلائل نہیں اور ہمارے وفات مسیحؑ کے دلائل کا جواب نہیں ہے۔ جب حیات ہی ثابت نہیں تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم سمیت نزول کیسا؟یہودی علماء کی نسبت اس زمانے کے علماء زیادہ قصور وار ٹھہریں گے کیونکہ ان کے سامنے تو ہر چیز کھول کر بیان کر دی گئی ہے۔
ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کے طور پریہ کہا جاتا ہے کہ احادیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے ’’نزول‘‘کا لفظ آیا اور اس سے مراد آسمان سے نازل ہونا ہی ہے۔ اس ایک لفظ سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جسم سمیت آسمان پر چڑھاتے اور پھر آسمان سے نازل کرتے ہیں حالانکہ لفظ ’’نزول ‘‘ایسا نہیں جو صرف جسمانی نزول کے لیے آتا ہے اور نہ احادیث میں نزول مسیحؑ کے ساتھ آسمان کا لفظ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’آسمان سے اترنا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ سچ مچ خاکی وجود آسمان سے اترے بلکہ صحیح حدیثوں میں تو آسمان کا لفظ بھی نہیں ہے۔ اور یوں تو نزول کا لفظ عام ہے۔ جو شخص ایک جگہ سے چل کر دوسری جگہ ٹھہرتا ہے اس کو بھی یہی کہتے ہیں کہ اس جگہ اترا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ لشکر اترا ہے یا ڈیرا اترا ہے کیا اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ لشکر یا وہ ڈیرا آسمان سے اتراہے۔ ماسوائے اس کے خدائے تعالیٰ نے توقرآن شریف میں صاف فرما دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی آسمان سے ہی اترے ہیں۔ بلکہ ایک جگہ فرمایا ہے کہ لوہا بھی ہم نے آسمان سے اتارا ہے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ یہ آسمان سے اترنا اس صورت اور رنگ کا نہیں ہے جس صورت پر لوگ خیال کر رہے ہیں۔ ‘‘
(زالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ132-133)
قرآن کریم میں آنحضرتﷺ کا ذکر نزول کے لفظ کےساتھ:
قَدۡ اَنۡزَلَ اللّٰہُ اِلَیۡکُمۡ ذِکۡرًا۔ رَّسُوۡلًا یَّتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ(الطلاق:11تا12)
’’بے شک اللہ نے اتاری ہے تم پر نصیحت رسول ہے جو پڑھ کرسناتا ہے تم کو اللہ کی آیتیں ‘‘
اس آیت میں ’’ ذکر ‘‘سے مراد ’’یعنی قرآن یا ذکر بمعنی ذاکر ہوتو خود رسولﷺ مراد ہوں گے ‘‘
(تفسیر عثمانی زیر آیت ھذا۔ جلد سوم صفحہ 719، ترجمہ :شیخ الہند مولانا محمود الحسن، تفسیر : علامہ شبیر احمد عثمانی دارالاشاعت کراچی)
اسی طرح قرآن کریم میں لوہے کے لیے نزول کا لفظ اس آیت میں آیا ہے:
وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ۔ (الحديد:26)
اور ہم نے لوہا اُتارا جس میں سخت لڑائی کا سامان اور انسانوں کے لئے بہت سے فوائد ہیں
لباس کے لیے نزول لفظ اس آیت میں ہے:
یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمۡ لِبَاسًا یُّوَارِیۡ سَوۡاٰتِکُمۡ وَ رِیۡشًا… (الاعراف:27)
اے بنى آدم! ىقىناً ہم نے تم پر لباس اُتارا ہے جو تمہارى کمزورىوں کو ڈھانپتا ہے اور زىنت کے طور پر ہے۔ …
قرآن کریم کے مطابق نزول لفظ سے کسی کا اصلی جسم کے ساتھ آسمان سے نازل ہونا مراد نہیں ہے نہ رسول کریمﷺ آسمان سے نازل ہوئے اور نہ کسی نے لوہے کو آسمان سے نازل ہوتے دیکھا اور نہ لباس کو۔
ویسے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کا جو مفہوم علماء لیتے ہیں اس مفہوم کے لیے نزول کا استعمال ہی نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’حضرت مسیحؑ کی آمد کے واسطے جو لفظ آیا ہے وہ نزول ہے اور رجُوع نہیں ہے۔ اوّل تو واپس آنے والے کی نسبت جو لفظ آتا ہے وہ رجُوع ہے اور رجُوع کا لفظ حضرت عیسٰیؑ کی نسبت کہیں نہیں بولا گیا۔ دوم نزول کے معنے آسمان سے آنے کے نہیں ہیں۔ نزیل مسافر کو کہتے ہیں۔ ‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ5)
یہ علماء احادیث میں آنے والے لفظ’’نزول‘‘سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ جسم سمیت آسمان سے نازل ہونا مانتے ہیں۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جسم سمیت نازل ہونا ہے تو پھر کس مقام پر ہونا ہے؟ جسم سمیت نزول کی صورت میں ایک ہی مقام ہونا چاہیے لیکن احادیث میں ’’مقام نزول‘‘کے حوالے سے اختلاف ہے۔ چنانچہ جماعت احمدیہ کےایک شدید مخالف کی کتاب’’ علامات قیامت اور نزول مسیح‘‘ میں لکھا ہے:
’’علامہ علی قاری رحمۃ اللہ نے حافظ ابن کثیرؒ کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ ایک روایت میں ’’دمشق کے مشرقی جانب‘‘ کی بجائے ’’بیت المقدس‘‘ کا لفظ ہے اور ایک روایت میں ’’اردن‘‘ اور ایک روایت میں مسلمانون کی لشکر گاہ کا ذکر ہے کہ وہاں نازل ہوں گے۔ ‘‘
(علامات قیامت اور نزول مسیح از سید انور شاہ کشمیر ی، ترجمہ وتشریح مفتی محمد رفیع عثمانی صفحہ 51 حاشیہ مکتبہ دارالعلوم کراچی )
سوچنے والی بات ہےکہ اگر نازل ہونے والا جسم ایک ہے تو وہ مختلف مقامات پر کیسے نازل ہوگا۔ اس پرتو بحث ہوتی ہے کہ یہ مقام ہو گا وہ مقام ہو گا لیکن لفظ ’’نزول‘‘پر اصرار ہوتا ہے کہ اس کے صرف ایک ہی معنی ہیں یعنی جسم سمیت آسمان سے نازل ہونا حالانکہ نزول لفظ کے یہ معنی قرآن وحدیث کے خلاف ہیں۔
ان علماء کے لیے یہ سب مسائل اس لیے پیدا ہوئے کہ انہوں نے مسیح کے نزول کی سچی حقیقت کو نہیں سمجھا۔ اگر مسیح کےنزول کی وہ سچی حقیقت مان لیں جسے سچے ملہم من اللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشفاً منکشف ہونے پر بیان فرما ئی تو سب سچائیاں ان پر آشکار ہوجاتیں۔
اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اس امر پر و غور وفکر کرنے اور اصل حقیقت تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم جنہوں نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو مانا ہے اپنے عہد بیعت کا حق ادا کرنے والا بنائے۔ آمین۔
٭…٭…٭