چیست دیں خودرافناانگاشتن!
چیست دیں خودرافناانگاشتن!
(دین کیا ہے ؛ اپنے تئیں فنا سمجھنا)
منظوم فارسی کلام حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ
تُو بہ عقلِ خویش در کِبرِ شدید
تُو اپنی عقل پر نازاں ہو کر سخت متکبر ہو گیا ہے
مافدائے آنکہ او عقل آفرید
اور ہم اس پر فدا ہیں جس نے خود عقل کو پیدا کیا ہے
در قیاسات تہی جانت اسیر
تیری جان خالی خولی قیاسوں میں گرفتار ہے
جان ما قربانِ علمِ آں بصیر
مگر ہماری جان اس بینا خدا کے علم پر قربان ہے
نیک دل بانیکواں دارد سرے
نیک دل انسان نیکوں سے تعلق رکھتا ہے
بر گہر تُف مے زند بد گوہرے
اور بد گوہر آدمی موتی پر تھوکتا ہے
ہست بر اسرار اسرار دگر!
بھیدوں پر بھید ہیں ( یعنی اسرار کی انتہا نہیں)
تا کجا تا زد خرِ فکر و نظر
عقل و فکر کا گدھا کہاں تک دوڑے گا
ایں چراغِ مردہ از زورِ ہوا
حرص کی شدت سے یہ ٹمٹماتا ہوا چراغ
چوں رہ باریک بنماید ترا
کس طرح تجھے باریک راہ دکھا سکتا ہے
وحی یزدانی زِرہ آگہ کند
خدا کی وحی تجھے راستہ سے آگاہ کرتی ہے
تا بمنزل نور را ہمرہ کند
اور منزل پر پہنچنے تک نور کو تیرے ساتھ کر دیتی ہے
مافتادہ بے ہنر در جسم و جاں
ہمارے جسم اور جان میں کوئی ہنر نہیں ہے
حُمق باشد دم زنی باآں یگاں
اس لا شریک کے مقابلہ پر کھڑا ہونا حماقت ہے
چیست دیں ، خود را فنا انگاشتن
دین کیا ہے ؛اپنے تئیں فنا سمجھنا
و از سرِ ہستی قدم برداشتن
اور اپنی ہستی سے بالکل الگ ہو جا نا