دجّال کے خدوخال: ایک تاریخی مطالعہ (1548ءتا1813ء) (قسط اوّل)
حضرت اقدس رسول اللہﷺ کو خدا تعالیٰ نے جوامع الکلم عطا فرمائے۔ آپﷺ نے آخری زمانہ میں پیدا ہونے والے عظیم مذہبی فتنہ کو الدجّالکے نام سے موسوم فرمایا۔ دراصل اس نام (الدجّال) سے فتنہ کے سارے خدوخال کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ چنانچہ الدجّالکے معنی لغت لسان العرب میں یہ کیے گئے ہیں :
1.سُمِّيَ دَجَّالًا لِتَمْوِيْهِهِ عَلَى النَّاسِ وَتَلْبِيْسِهِ وَتَزْيِيْنِهِ الْبَاطِلَ
اسے دجال کا نام لوگوں کو دھوکا دینے اور شک میں ڈالنے اور باطل کو خوبصورت کر کے دکھانے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔
2.سُمِّي الدَّجَّال دَجَّالًا لِضَرْبِهِ فِي الأَرْضِ وَقَطْعِهِ أَكْثَرَ نَوَاحِيْهَا
دجال کو دجال کا نام اس کے زمین پر سفر کرنے اور اس کے کناروں تک پہنچنے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔
3.وَرُفْقةً دَجَّالَةً: عَظِيمَةٌ تُغَطِّي الْأَرْضَ بِكَثْرَةِ أَهْلِهَا
اورایک عظیم گروہ جو اپنی کثرت کی وجہ سے زمین کو ڈھانپ لے گا۔
4۔هِيَ الرُّفْقةُ تَحْمِلُ الْمَتَاعَ لِلتِّجَارَةِ
ایسا گروہ جو مال تجارت لیے پھرتا ہے۔
تجارت کا لبادہ اوڑھ کر پادریوں کادھوکے اور لالچ کے ذریعہ باطل مذہب پھیلانے کے لیے ساری دنیا میں پھیل جانا مذہبی دنیا کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ خاکسار اس مضمون میں چند اہم تاریخی واقعات کا ترتیب سے ذکر کرے گا جس سے دجالی فتنہ کی تعیین و تشخیص نہایت آسان ہو جائے گی۔ قارئین یہ دیکھیں گے جوں جوں ہم سولہویں صدی سے 19ویں صدی تک جاتے ہیں مذہبی فتنہ کے خدوخال واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔
سولہویں صدی
20؍جنوری1548ءکوپرتگالی مبلغFransic Xavier پرتگال کے بادشاہ کے نام لکھے گئے اپنے خط میں ہندوستان میں اپنے تبلیغی مشن کی ناکامی پر تجویز دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’I have discovered one only remedy for this evil, the adoption of which, if I mistake not, would increase the number of Christians in these parts…That remedy is, that your Majesty should signify and clearly explain your intention, both by letter to the Viceroy and magistrates now in India…namely, the spreading of our holy faith…that you will call each of them strictly to account; and that you will impute to them every success or failure in this respect and reward or punish them accordingly…wherever there is any opportunity of spreading Christianity, it rests upon the Viceroy or Governor of the Place and upon him alone.‘‘
(Henry Venn, The Missionary Life and Labors of Francis Xavier taken from his own correspondence pg.159to160)
(ترجمہ) میرے پاس اس خرابی کا ایک ایسا حل ہے جس سے ان علاقوں میں عیسائیوں کی تعداد بڑھ جائے گی…نسخہ یہ ہے کہ آنجناب اپنے ماتحت وائسرائے اور حکمرانوں کو اپنی نیت سے صاف الفاظ میں آگاہ کر دیں نیز انہیں یہ باور کروایا جائے کہ ان کو اس حوالہ سے کامیابی اور ناکامی کی صورت میں انعام یا سزا دی جائے گی…جہاں کہیں بھی عیسائیت پھیلانے کا موقع ملے تو اس کی ذمہ داری صرف اور صرف اس علاقہ کے گورنر یا وائسرائے پر ہے۔
یہ تجویز اپنی ذات میں عیسائیت کی مذہبی شکست کا عملی ثبوت ہے جو ان کے ایک نامی مبلغ کے قلم سے نکلی۔ اس بھیانک تجویز کا عملاً کیا نتیجہ نکلا؟ اس کی ایک مثال ہمیں Hidalcaonنامی ایک مسلمان شہزادے کے الفاظ میں ملتی ہے۔ 1570ء میں وہ اپنے فوج کے افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’The Portuguese at first came among us under the notion of merchants, promising to help us to several goods that we wanted. They had built fortresses by which means they had strengthened themselves in India both by sea and Land…their compelling the Indians in all places where they had power to change their religion.‘‘
(Michael Geddes, The History of the Church of Malabar Pg. 26to27)
(ترجمہ) پرتگالی لوگ پہلے پہل ہمارے پاس تاجروں کے روپ میں آئے جو ہمیں روزمرہ سامان ضرورت مہیا کرنے کا وعدہ دیتے تھے۔ پھر انہوں نے یہاں قلعے بنا لیے جن کے ذریعہ سےانہوں نے خود کو ہندوستان میں بَری اور بحری لحاظ سے خاصا مضبوط کر لیا…پھر ہر جگہ جہاں انہیں طاقت حاصل ہوئی ہندوستانیوں کو مذہب بدلنے پر مجبور کرنے لگے۔
انہوں نے اور کون کون سے حربے باطل کی تزئین کے لیے استعمال کیے؟ اس کاذکر ہمیں اس زمانہ کے ایک مسلمان عالم کی تحریرات میں بھی ملتا ہے۔ احمد زین الدین الملیباری (متوفیٰ:1583ء) لکھتے ہیں :
وتَحْرِیضِھِمْ علیٰ قُبُولِ الرَّدۃِ والسُّجُودِ لِصَلِیبِھِم وعَرضِ اْلَامْوَالِ لَھُمْ عَلیٰ ذالِکَ و تَزیِینِ نِسوَانِھِم بِالحُلِیِّ وَالثِّیَابِ النَّفِیسَۃِ لِتَفْتِیْنِ نِسْوَانِ المُسْلِمِیْنِ…وَکَمْ مِنْ مُسْلِمِیْنَ ومُسْلِمَات نَصَّرُوا
(تُحفۃُ المُجاھدین فی اَحوالِ البُرتَغَالِیین صفحہ 262-263)
(ترجمہ) وہ لوگوں کو مرتد ہونے اور اپنی صلیبوں کو سجدہ کرنے کی تحریض دلاتے ہیں اور اس کے بدلے اپنے اموال پیش کرتے ہیں نیز ان کی عورتیں زیوروں اور نفیس کپڑوں میں ملبوس ہو کر مسلمان عورتوں کے لیے فتنہ کا باعث بنتی ہیں …(ان حربوں کے نتیجہ میں ) …کتنے ہی مسلمان مرد اور عورتیں عیسائی ہو گئے۔
1583ء میں Sir Humphrey Gilbert نے امریکہ کے ساحلی علاقوں کاسفر کیا۔ وہاں کے مقامی لوگوں میں عیسائیت کی تبلیغ کی اور ان کے خیال میں عیسائیت کی تبلیغ ہی ان سفروں کا اصل اور بڑا مقصد ہونا چاہیے۔ چنانچہ Edward Haie لکھتے ہیں :
’’And which is more; the seed of Christian religion had been sowed amongst those pagans…Which must be the chief intent of such as shall make any attempt that way.‘‘
(Hakluyt, The Principal Navigations Voyages Traffiques & Discoveries of the English Nation Vol. 8 pg.35)
اسی قسم کی ایک اور مثال ہمیں مشہور مہم جو Richard Hakluytکے حالات میں ملتی ہے۔ 1589ء کے ایک سفر کے حالات ملکہ برطانیہ کو لکھتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہم تاجروں کے ساتھ عمومی تجارت کرنے کے ساتھ ساتھ ان اقوام کے پاس عیسائیت اور انجیل کی سچائی کا بےمثال خزانہ لے کر جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
’’For mine own part , I take it as a pledge of God`s further favour both unto us and them: to them specially, unto whose doors I doubt not in time shall be by us carried the incomparable treasure of the truth of Christianity, and of the Gospel, while we use and exercise common trade with merchants ‘‘
(Hakluyt, The Principal Navigations Voyages Traffiques & Discoveries of the English Nation Vol. 1pg.21)
مندرجہ بالا سطور میں ابھی سولہویں صدی کے تاریخی و مذہبی لٹریچر کا سرسری جائزہ لیا گیا ہے مگر دجال کے خدوخال نمایاں ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مندرجہ بالا چند حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ
1…روحانیت سے عاری یہ دجالی گروہ اپنی مشنری ناکامی کے بعد طاقت اور دھونس کے ذریعہ اپنے مذہب کو پھیلا تے نظر آتے ہیں۔
2…یہ تجارت کے لبادے میں حملہ آور نظر آتے ہیں۔
3…یہ گروہ اپنے اموال اور دیگر سامان زینت کو مذہب پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
4…اس گروہ کو اپنے عزائم میں کامیابی بھی مل رہی ہے اور عوام ان کے فتنہ سے متاثر ہو رہی ہے۔
5…ان کے تمام تجارتی اسفار کا اصل محرک و مقصد عیسائیت کی تبلیغ ہے جس کو قرآن کریم صراحت سے جھوٹ قرار دیتا ہے۔ چنانچہ فرمایا :
إِنْ يَقُوْلُوْنَ إِلَّا كَذِبًا (الکہف:6)
سترھویں صدی
1600ء کے آخری روز ایسٹ انڈیا کمپنی کو ملکہ Elizabeth 1 کی طرف سے ہندوستان میں تجارت کا چارٹر ملتا ہے۔ تجارت کے ساتھ ان کے دیگر عزائم کی جھلک ہمیں تاریخ میں ملتی ہے۔ مثلاً سال 1614ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک ہندوستانی نوجوان کو تربیت کی غرض سے انگلینڈ لے جایا جا تا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:
’’19 August 1614: Captain Best having brought home a young youth, an Indian, who was taught by Mr Copland the Preacher ‘‘
(Court Minutes 19th August 1614 pg.202)
پھر دو سال سے زائد تربیت کے بعد 1616ء کے آخر میں اس بنگالی نوجوان کے عیسائی ہونے کی باقاعدہ تقریب سینٹ ڈینس چرچ میں منعقد ہوتی ہے۔ جس میں ایسٹ انڈیا کمپنی، پریوی کونسل وغیرہ کےاہم اراکین حکومت شامل ہوتے ہیں اور نوجوان کو بادشاہ کی طرف سے پیٹر نام دیا جاتا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:
’’On Sunday , 22nd of December 1616, an unusual crowd surged toward the Church of Saint Dennis, for it had been announced that, by the rite of baptism, a lad a native of Bengala was to be initiated into the Church of Christ.The Privy Council, the Lord Mayor and Alderman,the members of the East India …Petrus Papa or Peter Pope, the name given to in baptism was chosen by King James.
(Edward D. Neill,Memoirs of Rev.Patrick Copland pg.12)
پھر اس بات کا ذکر بھی ملتا ہے کہ پیٹر نامی یہ تربیت یافتہ مبلغ دوبارہ ہندوستان آیا اور عیسائیت کی تبلیغ کی نیز اس کے بعد کئی جوان ہندوستانیوں کو لندن تعلیم و تربیت کے لیے لے جایا جاتا رہا۔ Michael Fisher لکھتے ہیں :
’’Peter later returned to India to evangelize. Reporting in Latin to his spiritual mentors. Many other young Indian men would go to London for their education over the centuries thereafter.‘‘
(Fisher, Counterflows to Colonialism: Indian Travelers and Settlers in Britain 1600 to1857 pg.27)
اسی طرح John Wood نے 1618ء میں کتاب The True Honour of Navigation and Navigators تحریر کی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے وہ تجارتی سفروں کا حقیقی مقصد مقدس کتاب کے آخر میں خلاصۃً یوں تحریر کرتے ہیں :
’’Let us strive by all means to win and draw these Heathen to faith in thy name ‘‘(pg.128)
(ترجمہ) اے خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے تیرے نام پر غیر مذاہب کے لوگوں کو حقیقی دین کی طرف راغب کر سکیں۔
جب عیسائیت کا مقامی مذاہب کے ساتھ واسطہ پڑا تو ایک دوسرے کے عقائد کے ردّ میں تبلیغی لٹریچر کا لکھا جانا قدرتی عمل ہے۔ خاص طور پر جب ایک قوم خاص اسی غرض کے لیے حملہ آور ہوئی ہو۔ اس کی ایک مثال Hugo Grotiusکی ایک کتاب ہے جو 1627ء میں عیسائیت کی حقانیت پر لکھی گئی۔ اس کا ترجمہ The Truth of the Christian Religion in Six Books کے نام سے ہوا۔ وہ اس کتاب میں مسلمانوں کو تبلیغ کرنے کے گُر بتاتے ہوئے لکھتے ہیں :
Jesus was taken up into heaven, by the confession of Mahometﷺ but Mahometﷺ remains in the grave. And now can any one doubt which to follow? (pg.235)
(ترجمہ) (حضرت اقدس) محمد( رسول اللہﷺ )کے اپنے اقرار کے موافق عیسیٰؑ آسمان پر مرفوع ہوئے مگر آپﷺ قبر میں مدفون ہیں۔ اب کیا کسی کو شک ہے کہ کس کی پیروی کی جانی چاہیے؟
اگرچہ یہ بات غلط ہے کہ احادیث میں حضرت عیسیٰؑ کے جسمانی رفع الی السماء کا کوئی ذکر ہے، قابل توجہ امر یہ ہے کہ پادری اس زمانہ میں مسلمانوں کی اس عمومی غلط فہمی کو کیسے پرزور طور پر اپنے تبلیغی مقاصد کے لیے پیش کرتے ہیں۔
سترھویں صدی کے درمیان میں تجارتی کمپنیاں اپنے تبلیغی مقاصد میں زیادہ سنجیدہ ہوتی نظر آتی ہیں۔ اس کی ایک مثال ہمیں 1657ء کے ابتدا میں ملتی ہے۔ تجارتی کمپنی آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی سے مبلغین کی فراہمی کے لیے مدد کی درخواست کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’The East India Company having resolved to endeavor the advance and spreading of the gospel in India…you would be pleased to afford us your assistance herein by recommending unto us for this purpose some such person whom you shall approve and declare to be a fit instrument.‘‘
(Henry Yule, The Diary of William Hedges Vol. 2 pg.cccli)
(ترجمہ) ایسٹ انڈیا کمپنی نےہندوستان میں انجیل و عیسائیت کی تبلیغ کا مصمم ارادہ کیا ہے…(امید ہے کہ )آپ اس مقصدکے لیے مناسب افراد کی فراہمی یقینی بنانے میں خوشی محسوس کریں گے۔
تجارتی کمپنیوں کی تاریخ اس ’’مقدس‘‘ مساعی کی تاریک جہات بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ مثلاً 1666-67ءمیں پرتگالی مورخ Manuel deFaria اپنی کتاب Asia Portuguezaمیں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں خدا تعالیٰ نے یہ تجارتی راستے اپنے نام کی سر بلندی اور تبلیغ کی غرض سے کھولے مگر تاجروں نے اس موقع کو اپنے صندوق سونا چاندی سے بھرنے کے لیے استعمال کیا۔ A Short History of the Church of Malabar (شائع شدہ 1694ء)میں اس تحریر کا ترجمہ یوں درج کیا گیا ہے:
’’God Permitted the Discovery of this Voyage, only for the Propagation of his name and true worship these travelers have, for the most part… committing many injustices to fill their coffers ‘‘(pg. 23)
1677ء میں کمپنی نے100 بائبل اور 200کیٹی کیزم (سوالاً جواباً عقائد) اپنے ماتحتوں کے لیےارسال کیے اور کیٹی کیزم کے زبانی یاد کرنے پر حوصلہ افزائی کی غرض سے 2 روپے دینے کا کہا۔ اس کے ساتھ Ralph Orde کو سکول ماسٹر کے طور پر بھیجا جس کا مقصد غیر مذاہب کے بچوں کو انگریزی زبان مفت لکھنا اور پڑھنا سکھانا تھا اس کے ساتھ ساتھ ان بچوں کو پروٹسٹنٹ مذہب کی تعلیم دینا اور ان کو (انگریزی) آداب اکل وشرب سکھانا بھی اس کی ذمہ داری بتایا گیا۔ چنانچہ لکھا ہے:
’’We now send you a supply of one hundred bibles and two hundred catechisms, which we would have you dispose of there and at our subordinate factories, to such as you think will make the best use of them; and when any shall be able to repeat the catechism by heart, you may give to each of them two rupees for their encouragement…We send one Mr. Ralph Orde to be schoolmaster at our Fort… who is to teach all the children to read English, and to write and cipher, gratis ; and if any of the other nations, as Portuguese, Gentoos, or other, will send their children to school, we require that they be also taught gratis…and he is likewise to instruct them in the principles of the Protestant religion; and he is to diet at our table ‘‘
(Peter Auber,Rise and Progress of the British Power in India Vol. 2 pg. 493)
ہمیں تاریخ کے اوراق میں ایک اور رنگ بھی نظر آتا ہے جس میں مختلف عیسائی فرقے تجارت کے ساتھ ساتھ عیسائیت کی تبلیغ میں بھی ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً آکسفورڈ کے بشپ آرچ بشپ آف کینٹربری کو 21؍جون 1681ء میں لکھے گئے خط میں کہتے ہیں :
’’I enlarged upon the shame that lay upon us, who had so great opportunities by our commerce in the East, that we have attempted nothing toward the conversion of the Natives, when not only the papists, but even the Hollanders had labored herein.‘‘
(W.W Hunter, The India of the Queen and other Essays pg.233)
(ترجمہ) میں ایک قابل شرم پہلو کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہمیں مشرقی ممالک (ہندوستان وغیرہ ) میں تجارت کے جتنے مواقع ملے اس کے مقابل پر مقامی افراد کو عیسائی بنانے کی ہماری کاوش نہ ہونےکے برابر ہے جبکہ رومن کیتھولک فرقہ اور ڈچ نے اس سلسلہ میں کافی کام کیا ہے۔
اس قسم کی ایک مثال ہمیں Sir Humphrey Prideaux کی 1694-95ء کی تحریر میں نظر آتی ہے جس میں وہ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارتی ترقی کی وجہ ان کی تبلیغی سرگرمیوں کوبتاتے ہیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے تجارتی خسارے کی وجہ اس ’’مقدس‘‘ کام میں سستی بتاتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
’’If we will examine into the cause why the blessing of God is so largely given to the one while denied in so great a degree to the other, none appears more obvious than the care which the Dutch take to promote the honour of God, by converting the Infidel Indians to him.‘‘
(The Life of the Reverend Humphrey Prideaux pg.167)
سترھویں صدی کے آخر یعنی 1698ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو جو چارٹر دیا گیا اس میں ان کو پابند کیا گیا کہ وہ ایک ایک پادری ہر فوجی چھاؤنی، فیکٹری میں رکھے اسی طرح ہر بحری جہاز جو 500 ٹن سے اوپر کا سامان لے کر جائے گا ضروری ہو گا ایک پادری ساتھ جائے۔ پادریوں پر لازم ہو گا کہ وہ ہندوستان پہنچ کر ایک سال کے اندر اندر پرتگالی زبان اور مقامی زبان سیکھیں تاکہ بآسانی دیگر مذاہب والوں کو تبلیغ کر سکیں۔ چنانچہ چارٹر کے متعلقہ الفاظ یوں ہیں :
’’shall constantly maintain…one minister in every Garrison and superior factory…and shall also take a chaplain on board every ship, which shall be sent by the same Company to the said East Indies…which shall be of the burden of five hundred tons or upwards…We do further will and appoint that all such ministers as shall be sent to reside in India as aforesaid, shall be obliged to learn within One Year after their arrival, the Portuguese language and shall apply themselves to learn the native language of the country where they shall reside the better to enable them to instruct the Gentoos
(Charters granted to the East India company from 1601 pg.220 to 221)
تاریخ میں دعا کا بھی ذکر ملتا ہے جو تجارتی بحری جہازوں کی روانگی کے وقت کی جاتی تھی۔ 2؍دسمبر 1698ء کی شائع شدہ ایک دعا کے آخری الفاظ یوں ہیں :
’’These Indian nations who we dwell, beholding our good works, may be won over thereby to love our most holy religion, and glorify thee our Father which art in heaven.‘‘
(Richard Cobbe, Bombay Church:A True Account of the Building and Finishing the English Church at Bombay in the East Indies pg.76)
(ترجمہ) یہ ہندوستانی جن میں ہم رہتے ہیں، ہمارے اچھے کاموں کو دیکھ کر ہمارے مقدس مذہب سے متاثر ہو جائیں اور تیری اے باپ خدا جو آسمانوں میں ہے بزرگی بیان کریں۔
مندرجہ بالا چند سطور میں ہم نے سترھویں صدی کے مذہبی و تاریخی لٹریچر کا سرسری جائزہ لیا۔ ہم نے دیکھا کہ
1…ہندوستانی نوجوانوں کو تربیت کی غرض سے انگلستان لے جایا جاتا رہا۔ حکومت کے سرکردہ اراکین خود اس کی نگرانی کرتے ہیں۔
2…مسلمانوں کو تبلیغ کے لیے خاص طور پر حیات مسیحؑ کے حربہ کو استعمال کیا جاتا ہے۔
3…تجارتی کمپنیاں عیسائیت کی تبلیغ کے لیے بڑی یونیورسٹیوں کو تعلیم یافتہ افراد کی فراہمی کی درخواست کرتی ہیں۔
4…تعلیم کی آڑ میں مقامی بچوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں اور ان کو معاشرتی طور پر بھی عیسائی بنانے کی سعی کرتے ہیں۔
5…عیسائیت کی تبلیغ کو تجارت میں کامیابی کی ضمانت سمجھا گیا۔
6…تجارتی جہازوں کی روانگی کے وقت کی جانے والی دعائیں ان کے عزائم پر گواہ ہیں۔
اٹھارھویں صدی
اب ہم اٹھارھویں صدی میں داخل ہوتے ہیں۔ اس صدی کا بڑا حصہ ہندوستان میں عدم استحکام رہا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی آہستہ آہستہ مختلف علاقوں پر قبضہ کرتی چلی گئی۔ اس لحاظ سے عیسائیت کی تبلیغ کے لیے اس کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس صدی کے آخر میں باجود نامساعد حالات کے کمپنی کی اس مذہبی خدمت کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کی گئی اور ایک نہایت دلچسپ بحث کا آغاز ہوا جس نے دجال کے خدوخال کو نہایت روشن کر دیا۔ ذیل کی سطور میں اس کا مختصر سا جائزہ پیش کرتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ ہندوستان میں مختلف ممالک کی سوسائٹیاں اور عیسائی فرقے تبلیغ میں مصروف تھے۔ اس لحاظ سے ان کا ایک گونا مقابلہ بھی تھا مگر وہ ممکنہ حد تک ایک دوسرے کی مدد کرتے اور کام کو سراہتے تھے۔ اس کی ایک مثال ہمیں 1717ءمیں King George 1 کی طرف سے ڈینش مشن کی حوصلہ افزائی کے لیے لکھے گئے خط میں ملتی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
’’Your letters, dated the 20th of January of the present year, were most welcome to us, not only because the work undertaken by you, of converting the heathen to the Christian truth, doth, by the grace of God, prosper; but also because that, in this our kingdom, such a laudable zeal for the promotion of the gospel prevails.‘‘
(Christian Missionary Intellegencer July 1871 pg. 210)
(ترجمہ) آپ نے اپنے خط محررہ 20؍جنوری میں جن مساعی کا ذکر کیا ہے ہم ان کو سراہتے ہیں۔ نہ صرف اس لیے کہ آپ نےدیگر مذاہب کے ماننے والوں کو عیسائی بنانے کا کام شروع کیا اور خدا کے فضل سے آپ اس میں کامیاب ہوئے بلکہ اس لیے بھی کہ ہماری سلطنت میں انجیل کی تبلیغ کا جذبہ ترقی پائے۔
پس ہم دیکھتے ہیں کہ سترھویں صدی کے وسط میں اصولی طور پر تمام بیرونی قوتیں ہندوستان میں عیسائیت پھیلانے میں مستعد نظر آتی ہیں۔ اس کو G.Hutchinson یوں بیان کرتے ہیں :
’’Up to this date we have the king by his letter, the English Government by the Charter, and the Company by their dispatch, all uniting in the support of missionary work in India.‘‘
(Christian Missionary Intellegencer Jan. 1897 pg. 2)
1752ء میں کمپنی نے SPCKکی مشنری کاوشوں کی حوصلہ افزائی کے لیے متعلقہ افسران کو 500 Pagoda تک کی امداد کرنے کا کہا اور ساتھ ہدایت کی کہ ہم گاہے گاہے بچوں کی تعلیم اور پروٹسٹنٹ مذہب کے پھیلانے کے لیے کی گئی ان کی مساعی کے احوال سے اطلاع دیتے رہیں۔ اس سلسلہ میں وہ اگر کسی مزید مدد کے مستحق ہیں تو اس سے بھی آگاہ کریں۔ چنانچہ اس ہدایت کے اصل الفاظ یوں ہیں :
’’as a further encouragement to the said missionaries to exert themselves in propagating the Protestant religion, we do hereby empower you to give them, at such times as you shall think proper, in our name, any sum of money, not exceeding 500 pagodas, to be laid out in such manner, and appropriated to such uses, as you shall approve of; and you are hereby directed to give us, from time to time, an account of the progress made by them in educating children and increasing the Protestant religion, together with your opinion upon their conduct in general, and what further encouragement they deserve.‘‘
(John Clark, The Life and Times of Carey, Marshman and Ward Vol. 1 pg. 39)
ہمیں اس بات کی بھی صراحت ملتی ہے کہ مختلف سوسائٹیوں کے مشنریوں کے علاوہ تعلیمی ادارے بھی خاص عیسائیت کی تبلیغ کے لیے قائم کیے۔ چنانچہ 1771ء میں SPCKنے ایک درخواست کمپنی کو بھیجی جس میں انہوں نے کمپنی کی عملداری میں مشن کے قیام کی اجازت چاہی۔ انہوں نے لکھا کہ جس قسم کی کامیابی ہمیں اپنے جنوبی ہند کے مشن میں ہوئی ہے ہم چاہتے ہیں کہ اس کے ثمرات سے انگریزی عملداری بھی محظوظ ہو جہاں پر مشنری مقیم ہیں اور اسکول مقامی جاہل لوگوں کو عیسائیت کی سچائی سے آشنا کرنے کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔ ان کے الفاظ یہ ہیں :
’’The success with which that mission was blessed soon gave the hint of extending the benefit to the English settlements in those parts where Missionaries have been accordingly established and schools erected for the instruction of the ignorant natives in the truths of Christianity.‘‘
(Frank Penny, The Church in Madras pg.487)
ذیل میں ہم پادری Joseph Whiteکے ایک خطاب سے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں جو انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں 1784ء کے وسط میں کیا۔ اس خطاب میں دجال کے مذہبی فتنہ کے تمام عناصر کا بیان ایک جگہ ملتا ہے:
’’It is ours to propagate the same religion in countries to which our commerce has extended…if we labour both for their spiritual and their temporal welfare there can be no reason to doubt of an ultimate reward…will no longer view us with coldness as strangers or with suspicion as foes…they will share with us in common danger and toil with us for the common interest…and at what period in the history of our empire could this attempt be made with a more favorable prospect of success than at present?‘‘
(Joseph White, Sermons preached before the University of Oxford in the year 1784 pg.255, 265,266)
(ترجمہ) یہ ہماری ذمہ داری ہے جن ممالک میں ہماری تجارت پھیلی ہے ہم اس میں مذہب کو بھی پھیلائیں …اگر ہم عوام کی روحانی اور دنیوی فلاح کےلیےکوشش کریں تو ہمیں حقیقی ثواب حاصل کرنے میں شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں …وہ (عوام) ہم سے اجنبیوں کی سی سرد مہری نہیں برتے گی نہ ہمیں دشمنوں کی مانند مشکوک گردانے گی …ہمارے خطرات یکساں ہوں گے اور ہم مشترکہ مفاد کے لیے کوشش کریں گے۔ …ہماری سلطنت کی تاریخ میں کامیابی کی قوی امید کے ساتھ اس قسم کی کوشش کرنے کا موقع کب ملا ہے؟
Charles Grantجو خود کمپنی کے ڈائریکٹر اور بعد میں چیئرمین بھی رہے1787ء میں بڑے پرزور انداز میں عیسائیت کو حکومت کے استحکام نیزعوام اور حکمرانوں کوملانے والی قوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ اپنے مضمون A Proposal for Establishing a Protestant Mission in Bengal and Behar میں لکھتے ہیں :
’’We and they ought to have some strong common principles; at present they are united to us neither in Interest nor in Sentiment. Those of the States around them are more congenial to them. Religion is that common Principle, the only just and durable one that can be established between us; not the Religion of error, but the Religion of Truth. If they were to converted to that, they would of course be freed from many ties which now connect them with their neighbours.‘‘
(Henry Morris, The Life of Charles Grant pg.112)
(ترجمہ) ہم میں اور ان(عوام) میں کچھ مشترکہ اصول ہونے چاہئیں۔ فی الحال وہ نہ اپنے مفاد میں اور نہ جذبہ کے لحاظ سےہمارے ساتھ جڑے ہیں۔ وہ اردگرد کی ریاستوں سے زیادہ مانوس ہیں۔ مذہب وہ مشترکہ، منصفانہ اور پائیدار اصول ہے جو ہمارے درمیان قائم کیا جا سکتا ہے مگر غلطی خوردہ مذہب نہیں بلکہ سچا مذہب۔ اگر انہیں اس کا پیروکار بنا لیا جائے (یعنی عیسائیت کا) تو پھر وہ بہت سے ایسے تعلقات سے آزاد ہو جائیں گے جن کے ذریعہ وہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
ہمیں اس زمانہ کی تحریرات میں ایک دوسری انتہا بھی ملتی ہے۔ وہ یہ کہ عیسائیت کی تبلیغ اور ترقی محض تجارت کے فروغ سے ہو گی گویا معاشرتی طور پر تہذیب کا غلبہ ماتحتوں کو مذہب قبول کرنے پر مجبور کر دے گا۔ چنانچہ پادری Richard Watson۔1788ءمیں بڑے پرزور الفاظ میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ مشنریوں کے ذریعہ عیسائیت کی تبلیغ کی امید نہیں ہے بلکہ سائنس اور تجارت کے فروغ سے عیسائیت پھیلے گی۔ ان کے نزدیک روس طاقت پکڑنے کے بعد تبت، جاپان اورچین میں تجارت کے ذریعہ عیسائیت کو فروغ دے گا۔ ہندوستان کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ حکومتِ برطانیہ کے ذریعہ عیسائی ہو گا۔ عیسائی بادشاہ اگرچہ صرف اپنی دنیوی سلطنت کے پھیلانے کی فکرمیں رہتے ہیں مگر لاشعوری طور پر وہ یسوع مسیح کی روحانی سلطنت کو ترقی دے رہے ہوتے ہیں۔ ان کے الفاظ یہ ہیں :
’’I do not, indeed expect much success in propagating Christianity by missionaries from any part of Christendom, but I expect much from the extension of science and of commerce. The empire of Russia is emerging from its barbarism, and when it has acquired a stability and strength answering to its extent, it will enlarge its borders; and, casting an ambitious eye on Tibet, Japan, and China, may introduce, with its commerce, Christianity into those countries. India will be Christianized by the government of Great Britain. Thus Christian monarchs, who aim at nothing but an increase of their temporal kingdoms, may become, by the providence of God, unconscious instruments in propagating the spiritual kingdom of his Son‘‘
(Watson, Anecdotes of the Life of Richard Watson, Bishop of Landaff pg198)
مشہور مشنری William Careyتجارت اور عیسائیت کے تعلق کو بائبل کے حوالوں سے ثابت کرتے ہیں چنانچہ وہ یسعیاہ باب60آیت 9سے استنباط کرتے ہوئے 1792ء میں لکھتے ہیں :
’’This seems to imply that in the time of glorious increase of the church, in the latter days, (of which the whole chapter is undoubtedly a prophecy) commerce shall subserve the spread of the gospel.‘‘
(William Carey, an Enquiry into the obligations of Christians to use means for the conversion of the heathens pg.68)
(ترجمہ)یہ آیت آخری زمانہ میں عیسائیت کی عظیم الشان ترقی پر دلالت کرتی ہے (اگرچہ یہ پورا باب اس مضمون کو بیان کر رہا ہے) تجارت انجیل(عیسائیت ) کے پھیلانے میں ممد و مددگار ہو گی۔
سترھویں صدی کی آخری دہائی میں عیسائیت کی تبلیغ کے بارے میں قانونی تگ و دو شروع ہوتی ہے۔ ان اہم قانونی مباحث میں مشنریوں نے کھل کر اپنے مقاصد کو بدلائل ثابت کیا۔ 1793ء میں جوقانونی شق مشنری منظور کروانا چاہتے تھے وہ پادری Wilberforce کے الفا ظ میں یوں تھی:
’’That it is the peculiar and bounden duty of the Legislature, to promote, by all just and prudent means, the interests and happiness of the inhabitants of the British dominions in India; and that for these ends, such measures ought to be adopted, as may gradually tend to their advancement in useful knowledge, and to their religious and moral improvement.‘‘
(Journals of the House of Commons from Dec. 13th 1792 to Dec. 10th 1793 pg.792)
(ترجمہ) مقننہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام جائز اورمناسب وسائل بروئےکار لا کر ہندوستان میں اپنے زیر تسلط علاقوں کے باسیوں کی خواہشات اور خوشی کا خیال رکھے۔ نیز ایسے اقدامات کرے جن سے ان کی مفیدعلمی ترقی ہو نیز ان کی مذہبی اور اخلاقی حالت بہتر ہو۔
نامساعد سیاسی حالات کی وجہ سے پادریوں نے عیسائیت کے فروغ کی عبارت صریحا ً شامل نہیں کی بلکہ بقول پادری Wilberforce:
’’The Proposal must be limited to the diffusion of knowledge generally, leaving it to be inferred that Christianity would be included in the plan.‘‘
(Clark, The Life and Times of Carey, Marshman and Ward Vol. 1 pg. 35)
(ترجمہ) مجوزہ شق میں عمومی طور پر صرف علمی انتشار کا ذکر ہونا چاہیے اگرچہ بعد میں اس سےیہ استنباط کیا جائے گا کہ عیسائیت اس تجویز میں شامل ہے۔
Charles Grant۔1797ء میں ایک دفعہ پھر بڑے پرزور انداز میں عیسائیت کو common bondکے طور پر پیش کرتے ہیں۔
(Grant, Observations on the State of Society among the Asiatic Subjects of Great Britain pg. 204)
خلاصہ یہ کہ اٹھارھویں صدی کے مذہبی تاریخی لٹریچر میں :
1…مختلف فرقے اور حکومتیں مشترکہ مقصد کی خاطر ایک دوسرے کے مشنری کام کو سراہتی ہیں نیز مالی امداد بھی کرتی ہیں۔
2…اسکولوں کے قیام کو عیسائیت کے فروغ کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔
3۔۔۔تجارت اور عیسائیت کے فروغ کو لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے۔
4…عیسائیت کے فروغ کو حکومت کی مضبوطی اور دوام کے لیے ضمانت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
5…معاشی اور معاشرتی غلبہ مشنریوں کی نسبت عیسائیت کے فروغ میں زیادہ ممد ثابت ہو سکتا ہے۔
مشنری عزائم کی ایک جھلک ہمیں 1807ء کے آخر میں ملتی ہے۔ سرامپور مشن سے فارسی اشتہار شائع کیے جاتے ہیں جو ان الفاظ سے شروع ہوتے ہیں کہ ’’ ہم ایک دور ملک سے تمہیں عیسائی بنانے آئے ہیں۔‘‘اس فارسی اشتہار کا انگریزی ترجمہ کمپنی کے افسران کو بھیجا گیا۔ شروع کے الفاظ یوں ہیں :
’’Behold, O Brethren! We are come to convert you from a distant country.‘‘
(Papers relating to East India Affairs pg. 47)
مشنریوں کی کوشش کے بعد آخر کار 1793ء میں پیش کی گئی مجوزہ شق جو The Pious Clause کے نام سے مشہور ہوئی، 1813ء میں کمپنی کے چارٹر میں شامل کی گئی نیزمشن کا مالی بوجھ بھی کمپنی پر ڈالا گیا البتہ اجازت کااختیار کمپنی کے پاس رہا۔ متعلقہ الفاظ یوں ہیں :
’’Sufficient facilities ought to be afforded by law to person desirous of going and remaining in India…and whereas it is expedient to make provision for granting Permission to Persons desirous of going and remaining in India for the above purposes, and also to persons desirous of going to and remaining there for other lawful Purposes; be it therefore enacted.
(A Collection of Charters and Statutes Relating to the East India Company, pg.1139)
ہم نے گذشتہ صفحات میں عیسائی پادریوں کی تین سو سالہ مساعی کا ایک سرسری جائزہ پیش کیا ہے۔ اس کے کیا ثمرات نکلے؟ عیسائیت کی غیر فطری اور باطل تعلیم نے کیسے لوگ پیدا کیے؟ اس کی صرف ایک مثال یہاں درج کی جاتی ہے۔ میسور کے مشنری Abbe J.A. Dubois انیسویں صدی کے آغاز میں لکھی جانے والی اپنی کتاب Letters on the State of Christianity in India میں لکھتے ہیں :
’’The greater, the by far greater number, exhibit nothing but a vain phantom, an empty shade of Christianity. In fact, during a period of twenty five years that I have familiarly conversed with them, lived among them as their religious teacher and spiritual guide, I would hardly dare to affirm that I have anywhere met a sincere and undisguised Christian.‘‘(pg. 63)
(ترجمہ) عیسائیوں کی ایک بہت بڑی تعدا د میں عیسائیت کا واہمہ بھی نہیں۔ 25سالوں سے میں ان کو جانتا ہوں ان میں ان کے مذہبی اور روحانی رہنما کے طور پر رہا ہوں، میرے لیے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ میں نے کسی مخلص اور کھرے عیسائی کو دیکھا ہو۔
پس ثابت ہوا کہ حضرت اقدس محمدرسو ل اللہﷺ نے آخری زمانہ کےعظیم الشان مذہبی فتنہ کے لیے جو لفظ الدجال استعمال فرمایا، اس کا انطباق عیسائی پادریوں کے مذہبی فتنہ پر ہوتا ہے یعنی تجارت کے نعرے کے ساتھ وہ ساری دنیا میں عیسائیت کے جھوٹ کی تبلیغ کے لیے نکلے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لغت میں الدجال کا ایک معنی
هِيَ الرُّفْقة تَحْمِلُ الْمَتَاعَ لِلتِّجَارَةِ
ہےیعنی ایسی کمپنی جو مال تجارت لیے پھرتی ہےبھی ہے۔ مذکورہ بالا حوالہ جات اس بات کا قوی ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ ساری دنیا میں عیسائیت کے مذہبی فتنہ کی داغ بیل اور آبیاری تجارتی کمپنیوں کے ذریعہ ہی عمل میں آئی۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :
’’لغت عرب کے رو سے دجّال اُس گروہ کو کہتے ہیں جو اپنے تئیں امین اور متدیّن ظاہر کرے مگر دراصل نہ امین ہو اور نہ متدیّن ہو بلکہ اس کی ہر ایک بات میں دھوکہ دہی اور فریب دہی ہو۔ سو یہ صفت عیسائیوں کے اس گروہ میں ہے جو پادری کہلاتے ہیں۔ اور وہ گروہ جو طرح طرح کی کلوں اور صنعتوں اور خدائی کاموں کو اپنے ہاتھ میں لینے کی فکر میں لگے ہوئےہیں۔‘‘
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 243-244 حاشیہ)
’’دجّال بہت گزرے ہیں اور شائد آگے بھی ہوں۔ مگر وہ دجّال اکبر جن کا دجل خدا کے نزدیک ایسا مکروہ ہے کہ قریب ہے جو اس سے آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔ یہی گروہ مشت خاک کو خدا بنانے والا ہے…یہ بات کسی پہلو سے درست نہیں ٹھہر سکتی کہ حال کے پادریوں کے سوا کوئی اور بھی دجّال ہے جو ان سے بڑا ہے۔‘‘
(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 46تا47)
(جاری ہے)
٭…٭…٭