حضرت مسیح مو عود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بعثت، بیعت اولیٰ کا تاریخی پس منظر اور شرائط بیعت
12؍جنوری 1889ء کو حضرت مصلح مو عودؓ پیدا ہوئے۔ اسی روز حضرت مسیح مو عودؑ نے دس شرائط بیعت تجویز فرمائیں جو جماعت میں داخلہ کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں
انبیاء کی بعثت ایسے وقت میں ہوا کرتی ہے جب کفر و ضلالت اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ اور زمانہ با لطبع مصلح کا متقاضی ہوتا ہے۔ مصلح ربانی کی بعثت رحمت باراں بن کر روحانی خشکی کو تری میں بدلنے کا باعث بنتی ہے۔ اور ہر طرف سر سبزی و شادابی کا پُر کیف منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانیؑ کی بعثت ایسے وقت میں ہوئی جب زمانہ آپ کا متقاضی اور منتظر تھا۔ اسلام دشمن کے نرغے میں گھرا ہوا تھا۔ عیسائیت کی یلغار کی تاب نہ لا کر نہ صرف سادہ لوح مسلمان عیسائیت کے دجل و فریب کا شکار ہو رہے تھے بلکہ مو لوی اور وہ بھی شاہی مولوی کا لقب پانے والے پادری بن رہے تھے۔ اندرونی طور پر بھی اسلام کئی آفات اور مصائب کا شکار تھا۔ طرح طرح کے غلط اور فاسد عقائد اسلامی عقائد میں راہ پا گئے تھے۔ اور بنیادی اور حقیقی عقائد اسلامی سے کوسوں دور جا پڑے تھے۔ بقول شاعر:
یارب یہ کیسے مسلماں ہیں جو دین کی عظمت بھول گئے
کلمہ تو زبانی یاد رہا کلمہ کی حقیقت بھول گئے
اس کس مپرسی کی حالت میں رحمت خدا وندی نے جوش مارا اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ کو اسلام کی ڈولتی ہوئی کشتی کو ساحل عا فیت سے ہمکنار کرنے کے لیے منتخب کیا۔ نسل فارس کے اس بطل جلیل کے سامنے صلیب کی چمکار ماند پڑ گئی۔ اور خانہ کعبہ پر صلیبی جھنڈا گاڑنے کے عزائم خاک میں مل گئے۔ اور سارے ہندوستان کو عیسا ئیت کی جھولی میں ڈالنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا آپؑ خود فرماتے ہیں :
‘‘میں درحقیقت وہی مسیح موعود ہوں جس کو آنحضرتﷺ نے اپنا ایک باز و قرار دیا ہے اورجس کو سلام بھیجا ہےاور جس کا نام حَکم اور عدل اور امام اورخلیفۃاللّٰہ رکھا ہے…’’
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 328)
نیز فرمایا:
‘‘ وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جوکدورت واقعہ ہوگئی ہے اُس کو دُور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں۔ اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں اُن کو ظاہر کردوں۔ اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دُعا کے ذریعہ سے نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے نہ محض مقال سے ان کی کیفیت بیان کروں اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اَب نابود ہوچکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں۔ اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہوگا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے۔ ’’
(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 180)
حضرت مسیح موعودؑ کی اسلام کے تئیں بے پناہ محبت اور اعلائے کلمہ اسلام کی سر بلندی کے لیے آپ کی شب وروز کی مساعی کو دیکھتے ہوئے اہل ایمان کچھ یوں پکاراٹھے:
ہم مریضوں کی ہے تم ہی پہ نگاہ
تم مسیحا بنو خدا کے لیے
لیکن آپؑ کی طبیعت میں القاب و خطاب کی چا ہت نہیں تھی اور طبعاً خلوت نشینی کو پسند کرتے تھے۔ بیعت لینے کے بارے میں جب آپ سے استفسار کیا جاتا تو آپ یہی جواب دیتے کہ لَستُ بِمَا مُوْرٍ کہ میں مامور نہیں ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو کنج عزلت سے نکالا اور رفعت اور شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔
آپؑ نے 23؍مارچ 1889کو ایک ایسی جماعت کی بنیاد رکھی جو آج 132؍ سال بعد بھی خلافت حقہ اسلامیہ کی قیادت میں ترقیات کی نئی سے نئی منازل طے کر رہی ہےاور دنیا کے سامنے حقیقی اسلامی تعلیم کی علم بردار کے طور پر اپنا عظیم الشان کردار ادا کر رہی ہے۔
1888ء وہ سال ہے جب حضرت مسیح موعودؑ کو بیعت لینے کا حکم ہوا۔ ایک طرف 4؍فروری 1888ءکو بشیر اول کی وفات کے نتیجہ میں مخالفین نے پیشگوئی پسر مو عود کے تناظر میں ہنسی ٹھٹھا کیا اور طوفان بد تمیزی برپا کر دیا تو دوسری طرف حضرت اقدسؑ نے اس وقت اعلان بیعت کے لیے موزوں ترین وقت سمجھا تاکہ جو لوگ سلسلہ میں آئیں وہ پاک طینت اورطیب صفات ہوں۔ چنانچہ آپ نے یکم دسمبر 1888ء کو ایک اشتہار مطبوعہ ریاض ہند پریس امرتسر کے ذریعہ سے بیعت لینے کا اعلان عام ان الفاظ میں فرمایا:
‘‘میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصو صاً پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمانی پا کیزگی اور محبت مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کا ہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنے کے لئے مجھ سے بیعت کریں۔ پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر طاقت پاتے ہیں۔ انہیں لازم ہیں کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غمخوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کےلئے کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ میری دعا اور میری توجہ میں ان کے لئے برکت دے گا۔ بشرطیکہ وہ ربانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل وجان طیار ہوں گے۔ یہ ربانی حکم ہے جو آج میں نے پہنچا دیا ہے۔ اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے:
اِذَاعَزَمتَ فَتَوَ کَل عَلیٰ اللّٰہِ وَاصْنَعِ الفُلْکَ بِا عْیُنِنَا وَوَحْیِنَا۔ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُاللّٰہَ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ’’
(اشتہار یکم دسمبر 1888ء مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 188)
12؍جنوری 1889ء کو حضرت مصلح مو عودؓ پیدا ہوئے۔ اسی روز حضرت مسیح مو عودؑ نے دس شرائط بیعت تجویز فرمائیں جو جماعت میں داخلہ کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں، اس اشتہار کے بعد حضرت اقدسؑ قادیان سے لدھیانہ تشریف لے گئے اور حضرت صوفی احمد جان صاحب کے مکان واقع محلہ جدید میں فروکش ہوئے۔ یہاں سے آپؑ نے 4؍مارچ 1889ء کو ایک اشتہار میں بیعت کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:
‘‘یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طا ئفہ متقین یعنی تقویٰ شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو اور وہ بہ برکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک ومقدس خدمات میں جلد کام آسکیں اور ایک کاہل اور بخیل وبے مصرف مسلمان نہ ہوں اور نہ ان نا لائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ و نا اتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہےاور اس کے خو بصورت چہرہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگا دیا ہے اور نہ ایسے غافل درویشوں اور گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ بھی خبر نہیں اور اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے کچھ بھی غرض نہیں اور بنی نوع کی بھلائی کے لئےکچھ جوش نہیں بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں۔ یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کو شش اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں۔ اور محبت الٰہی اور ہمدردی بند گان ِخدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آئے…خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الٰہی اور توبہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلادے۔ سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہو گا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا۔ اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گااور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا۔ وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشین گوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے، اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا۔ وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کو نشو ونما دے گا یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کی چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے۔ اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہر یں گے۔ وہ اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہر یک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی۔ اُس رب جلیل نے یہی چاہا ہے۔ وہ قادر ہے جو چا ہتا ہے کرتا ہے۔ ہر یک طاقت اور قدرت اسی کو ہے۔ ’’
(مجموعہ اشتہار ات جلد اول صفحہ 196تا 198)
اسی اشتہار میں آپ نے ہدایت فرمائی کہ بیعت کرنے والے اصحاب 20؍مارچ کے بعد لدھیانہ پہنچ جائیں۔
حضرت منشی عبد اللہ صاحب سنوریؓ کی روایت کے مطابق 20؍رجب 1306ھ مطابق 23؍مارچ 1889ءکو حضرت صوفی احمد جان صاحب کے مکان واقعہ محلہ جدید میں بیعت کا آغاز ہوا۔ وہیں بیعت کے تاریخی ریکارڈ کے لیے ایک رجسٹر تیار ہوا۔ جس کی پیشانی پر لکھا گیا۔ ‘‘بیعت تو بہ برائے حصول تقویٰ و طہارت۔ ’’
حضرت اقدسؑ بیعت لینے کے لیے مکان کی ایک کچی کو ٹھڑی میں (جو کہ بعد میں دار البیعت کے مقدس نام سے موسوم ہوئی) بیٹھ گئے اور دروازے پر حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ کو مقررفرمایا اور انہیں ہدایت دی کہ جسے میں کہتا جائوں اسے کمرے میں بلاتے جائو۔ چنا نچہ آپ نے سب سے پہلے حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحبؓ کو بلوایا۔ حضرت اقدس نے آپؓ کا ہاتھ کلائی پر زور کے ساتھ پکڑا اور بڑی لمبی بیعت لی۔ اس طرح پہلے دن چالیس احباب نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔
مردوں کی بیعت کے بعد حضورؑ گھر تشریف لائے تو بعض عورتوں نے بھی بیعت کی۔ سب سے پہلے حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحبؓ کی اہلیہ اور حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کی بیٹی صغریٰ بیگم صاحبہؓ نے بیعت کی۔ حضرت اماں جان ابتدا سے ہی حضرت اقدسؑ کے تمام دعاوی پر ایمان رکھتی تھیں اور شروع سے ہی اپنے آپ کو بیعت میں سمجھتی تھیں اس لیے آپ نے الگ سے بیعت کی ضرورت نہیں سمجھی۔ بیعت اولیٰ کے بعد سب احباب کو کھانا کھلایا گیا اور حضور نے بھی کھانا نوش فرمایا۔ جس کے بعد نماز ہوئی۔
دس شرائط بیعت
اب خاکسار اپنےمضمون کے آخری حصے کی طرف آتے ہوئے دس شرائط بیعت بیان کرتا ہے۔ بیعت کو ان عشرہ کاملہ سے اس لیے مقید کیا گیا ہے تا نیک طینت اور پاکباز لوگ ہی اس جماعت کا حصہ بنیں۔ کیو نکہ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کا بنیادی مقصد ایک پاک جماعت کا قیام تھا جو کہ صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والی ہو۔ تبھی آپؑ نے اپنے منظوم کلام میں فرمایا کہ
مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
دس شرائط بیعت کچھ اس طرح ہیں :
اوّل۔ بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہےگا۔
دوم۔ یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہےگا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔
سوم۔ یہ کہ بلاناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا۔ اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریمﷺ پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے خداتعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا۔
چہارم۔ یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔
پنجم۔ یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عُسر اور یُسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضا ہو گا اور ہر ایک ذِلّت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا۔
ششم۔ یہ کہ اتباعِ رسم اور متابعت ہَوَاوہوس سے باز آجائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سر پر قبول کرے گا اورقَالَ اللّٰہ اور قَالَ الرَّسُوْل کو اپنے ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا۔
ہفتم۔ یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلّی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اورحلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا۔
ہشتم۔ یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردئ اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیزسے زیادہ تر عزیز سمجھے گا۔
نہم۔ یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض لِلّٰہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔
دہم۔ یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض لِلّٰہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقداخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیردنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔
(اشتہار تکمیل تبلیغ 12؍ جنوری 1889ءمجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ189تا190)
حضرت اقدسؑ نے بیعت لیتے وقت مبائعین کو نصائح سے نوازا اور اس کے بعد بھی بیعت کرنے والوں کو نصائح فرماتے رہے۔ چند ایک نصائح وقت کی رعایت سے پیش خدمت ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں :
‘‘اس جماعت میں داخل ہو کر اول زندگی میں تغیر کرنا چاہئے کہ خدا پر ایمان سچا ہو اور وہ ہر مصیبت میں کام آئے۔ پھر اس کے احکام کو نظر خفت سے نہ دیکھا جائے بلکہ ایک ایک حکم کی تعظیم کی جائے اور عملاً اس تعظیم کا ثبوت دیا جائے۔’’
‘‘ دیکھو تم لوگوں نے جو بیعت کی ہے اور اس وقت اقرارکیا ہے اس کا زبان سے کہہ دینا آ سان ہے لیکن نبھانا مشکل ہے کیو نکہ شیطان اسی کو شش میں لگا رہتا ہے کہ انسان کو دین سے لا پر واکر دے۔ دنیا اور اس کے فوائد کو تو آسان دکھاتا ہے اور دین کو بہت دور۔ اس طرح دل سخت ہو جاتا ہے اور پچھلاحال پہلے سے بد تر ہو جاتا ہےاگر خدا کو راضی کرنا ہے تو اس گناہ سے بچنے کے اقرار کو نبھانے کے لئے ہمت اور کوشش سے تیار رہو۔ ’’
‘‘فتنہ کی کوئی بات نہ کرو۔ شر نہ پھیلائو۔ گالی پر صبر کرو۔ کسی کا مقابلہ نہ کروجو مقابلہ کرےاس سے بھی سلوک اور نیکی کے ساتھ پیش آئو۔ شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلائوسچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا راضی ہو جائے اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کر کے یہ شخص وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ مقدمات میں سچی گواہی دو۔ اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ پورے دل، پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جائے۔ ’’(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد1صفحہ 343)
آخر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک روح پرور اقتباس سے اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں۔
حضور فرماتے ہیں :
‘‘پس آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ نے امام وقت کو مانا اوراس کی بیعت میں شامل ہوئے۔ اب خالصتاً للہ آپ نے اس کی ہی اطاعت کرنی ہے، اس کے تمام حکموں کو بجا لاناہے ورنہ پھرخدا تعالیٰ کی اطاعت سے باہرنکلنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کواطاعت کے ا علیٰ معیار پرقائم فرمائے اوریہ ا علیٰ معیارکس طرح قائم کئے جائیں۔ یہ معیار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرکے ہی حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ ’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ستمبر2003ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍نومبر2003ءصفحہ7)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت مسیح مو عودؑ کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والا بنائے۔ آمین۔
٭…٭…٭