سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ و السلام کی شگفتہ مزاجی اور پاکیزہ حسِّ مزاح

(طلحہ علی۔ مربی سلسلہ فلپائن)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور مطیع کامل، حضرت مسیح موعود ؑکے مزاج مبارک میں بھی شگفتہ مزاجی، بے تکلفی اور پاکیزہ حسِّ مزاح خاص طور پر پائی جاتی تھی

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے:

پس اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تُو ان کے لئے نرم ہو گیا۔ اور اگر تُو تندخو (اور) سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گِرد سے دُور بھاگ جاتے۔

(آل عمران:160)

پس، اللہ تعالیٰ کے انبیاء کے قلوب رحمت الٰہی سے خاص طور پر تلخی اور سختی سے پاک کیے جاتے ہیں، اور اس کی ایک شکل ان کی شگفتہ مزاجی اور بے تکلفی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں احادیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ مسکرانے والے اور خوش مزاج تھے، گھر میں ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہتے، سچے پاکیزہ مزاح کو پسند فرماتے تھے، اچھے لطیفے سنتے اور سناتے تھے۔ آپ کی مجالس میں اصحاب جاہلیت کے زمانے کے اشعار اور دیگر باتیں کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم منع فرمانے کے بجائے سنتے اور تبسم فرماتے تھے۔

(اسوۂ انسان کامل،صفحہ 651تا653)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور مطیع کامل، حضرت مسیح موعود ؑکے مزاج مبارک میں بھی شگفتہ مزاجی، بے تکلفی اور پاکیزہ حسِّ مزاح خاص طور پر پائی جاتی تھی۔

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب ؓحضرت مسیح موعودؑ کی پاکیزہ حسِّ مزاح کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

‘‘بعض اوقات حضور علیہ السلام کسی ہنسی کی بات پر ہنستے تھے اور خوب ہنستے تھے۔یہاں تک میں نے دیکھا ہے کہ ہنسی کی وجہ سے آپ کی آنکھوں میں پانی آ جاتا تھا۔ جسے آپ انگلی یا کپڑے سے پونچھ دیتے تھے۔ مگر آپ کبھی بیہودہ بات یا تمسخر یا استہزاء والی بات پر نہیں ہنستے تھے۔بلکہ اگر ایسی بات کوئی آپ کے سامنے کرتا تو منع کر دیتے تھے۔چنانچہ میں نے ایک دفعہ ایک تمسخر کا نامناسب فقرہ کسی سے کہا۔ آپ پاس ہی چارپائی پر لیٹے تھے۔ ہُوں ہُوں کرکے منع کرتے ہوئے اُٹھ بیٹھے اور فرمایا۔ یہ گناہ کی بات ہے۔’’

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 561، روایت نمبر 588)

حضرت اقدس مسیح موعود ؑکی شگفتہ مجالس

حضرت مسیح موعود ؑکی مجالس وقار اور متانت کا نمونہ ہوتی تھیں، اور صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے مقام اور مرتبہ کا خیال رکھتے ہوئے باادب اور ہمہ تن گوش بیٹھے رہتےتھے۔ مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ مجالس خشک ہوتی تھیں یا ان کی وجہ سے شاملین کوکسی بھی قسم کی مشکل یا بوجھ کا احساس ہوتا تھا۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ حضرت مسیح موعودؑ کی مجالس کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

‘‘حضرت مسیح موعود ؑجب کسی سے ملتے تھے تو مسکراتے ہوئے ملتے تھے اور ساتھ ہی ملنے والے کی ساری کلفتیں دور ہوجاتی تھیں،ہر احمدی یہ محسوس کرتا تھا کہ آپ کی مجلس میں جاکر دل کے سارے غم دُھل جاتے ہیں۔بس آپ کے مسکراتے ہوئے چہرے پر نظر پڑی اور سارے جسم میں مسرت کی ا یک لہرجاری ہوگئی۔آپ کی عادت تھی کہ چھوٹے سے چھوٹے آدمی کی بات بھی توجہ سے سنتے تھے اور بڑی محبت سے جواب دیتے تھے۔ہر آدمی اپنی جگہ سمجھتا تھا کہ حضرت صاحب کو بس مجھی سے زیادہ محبت ہے۔ بعض وقت آداب مجلس رسول سے ناواقف،عامی لوگ دیر دیر تک اپنے لاتعلق قصے سناتے رہتے تھے اور حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ بیٹھے سنتے رہتے اور کبھی کسی سے یہ نہ کہتے تھے کہ اب بس کرو۔نمازوں کے بعد یا بعض اوقات دوسرے موقعوں پر بھی حضور مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور ارد گرد مشتاقین گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے تھے اور پھر مختلف قسم کی باتیں ہوتی رہتی تھیں اورگویا تعلیم و تربیت کا سبق جاری ہوجاتا تھا۔مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگ محسوس کرتے تھے کہ علم ومعرفت کا چشمہ پھوٹ رہا ہے۔جس سے ہر شخص اپنے مقدور کے موافق اپنا برتن بھر لیتا تھا۔مجلس میں کوئی خاص ضابطہ نہ ہوتا تھا بلکہ جہاں کہیں کسی کو جگہ ملتی تھی بیٹھ جاتا تھا اور پھر کسی کو کوئی سوال پوچھنا ہوا تو اس نے پوچھ لیا اور حضرت صاحب نے جواب میں کوئی تقریر فرمادی یا کسی مخالف کا ذکر ہو گیا تواس پر گفتگو ہو گئی یا حضرت نے اپنا کوئی نیا الہام سنایا تو اس کے متعلق کچھ فرما دیا، یا کسی فرد یا جماعت کی تکالیف کا ذکر ہوا تو اسی پر کلام کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ غرض آپ کی مجلس میں ہر قسم کی گفتگو ہو جاتی تھی اور ہر آدمی جو بولنا چاہتا تھا بول لیتا تھا۔جب حضرت گفتگو فرماتے تھے تو سب حاضرین ہمہ تن گوش ہو جاتے تھے۔آپ کی عادت تھی کہ خواہ کوئی پبلک تقریر ہو یا مجلسی گفتگو ہو۔ ابتدا ء میں دھیمی آواز سے بولنا شروع کرتے تھے اور پھر آہستہ آہستہ آواز بلند ہو جاتی تھی حتّٰی کہ دور سے دور بیٹھا ہو ا شخص بھی بخوبی سن سکتا تھا۔اور آپ کی آواز میں ایک خاص قسم کا سوز ہو تا تھا۔’’

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 227تا228، روایت نمبر247)

آپؑ کی مجا لس میں شاملین بلا تکلف ہر قسم کی باتیں کر لیا کرتے تھے۔ میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی بیان کرتے ہیں کہ

‘‘ایک مرتبہ ایک عرب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بیٹھا ہوا افریقہ کے بندروں کے اور افریقن لوگوں کے لغو قصے سنانے لگا۔ حضرت صاحب بیٹھے ہوئے ہنستے رہے۔ آپ نہ تو کبیدہ خاطر ہوئے اور نہ ہی اس کو ان لغو قصوں کے بیان کرنے سے روکا کہ میرا وقت ضائع ہو رہا ہے۔ بلکہ اس کی دلجوئی کے لئے اخیر وقت تک خندہ پیشانی سے سنتے رہے۔’’

(سیرت المہدی جلداوّل صفحہ 727، روایت نمبر790)

اسی طرح صحابہ آپؑ کی خدمت میں اپنے ہر قسم کے اشعار بھی پیش کر لیا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعودؑ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود ہر قسم کے اشعار خوش مزاجی سے سن لیا کرتے تھے۔

میاں محمد عبدالرحمٰن صاحب مسکین فرید آبادی ؓاسی قسم کا ایک ذاتی واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ1901ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک نظم پڑھی جسے سن کر حضورؑ بہت محظوظ ہوئے اور حضور علیہ السلام نے منہ پر رومال رکھ کر بمشکل ہنسی کو روکا۔اسی طرح حضرت مولوی نورالدین صاحب و مولوی عبدالکریم صاحب اور نواب محمد علی خانصاحب بھی بہت ہی ہنسے اور خوش ہوئے۔اسی خوشی میں مجھ کو تین کتابیں بطور انعام عنایت فرمائیں۔اس نظم کے دو اشعار نمونۃً درج ہیں۔

مثیلِ مسیح نے جو دعویٰ پکارا

صلیبِ نصاریٰ کیا پارا پارا

غلامانِ احمد کو آیا فرارا

گروہ پادری بس ہوا ہارا ہارا

(ماخوذ ازسیرت المہدی جلد اوّل صفحہ667تا668، روایت نمبر 731)

حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی ؓحضرت مسیح موعودؑ کی مجلس کا ایک مزاحیہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ

‘‘اوائل میں جب مَیں قادیان جاتا تو اس کمرے میں ٹھہرتا تھا جو مسجد مبارک سے ملحق ہے اور جس میں سے ہو کر حضرت صاحب مسجد میں تشریف لے جاتے تھے۔ایک دفعہ ایک مولوی، جو ذی علم شخص تھا، قادیان آیا۔ بارہ نمبردار اس کے ساتھ تھے۔وہ مناظرہ وغیرہ نہیں کرتا تھا بلکہ صرف حالات کا مشاہدہ کرتا تھا۔ایک مرتبہ رات کو تنہائی میں وہ میرے پاس اس کمرہ میں آیا۔اور کہا کہ ایک بات مجھے بتائیں کہ مرزا صاحب کی عربی تصانیف ایسی ہیں کہ ان جیسی کوئی فصیح بلیغ عبارت نہیں لکھ سکتا۔ ضرور مرزا صاحب کچھ علماء سے مدد لے کر لکھتے ہوںگے۔اور وہ وقت رات کا ہی ہو سکتا ہے تو کیا رات کو کچھ آدمی ایسے آپ کے پاس رہتے ہیں جو اس کام میں مدد دیتے ہوں۔مَیں نے کہا مولوی محمد چراغ اور مولوی معین الدین ضرور آپ کے پاس رات کو رہتے ہیں۔یہ علماء رات کو ضرور امداد کرتے ہیں۔ حضرت صاحب کو میری یہ آواز پہنچ گئی۔اور حضور اندر بہت ہنسے۔ حتی کہ مجھ تک آپ کی ہنسی کی آواز آئی۔اس کے بعد مولوی مذکور اُٹھ کر چلا گیا۔اگلے روز جب مسجد میں بعد عصر حسب معمول حضور بیٹھے تو وہ مولوی بھی موجود تھا۔ حضور میری طرف دیکھ کر خودبخود ہی مسکرائے اور ہنستے ہوئے فرمایا کہ ‘‘اُن علماء کو اِنہیں دکھلا بھی تو دو’’اور پھر ہنسنے لگے۔اس وقت مولوی عبدالکریم صاحب کو بھی رات کا واقعہ حضور نے سنایا اور وہ بھی ہنسنے لگے۔میں نے چراغ اور معین الدین کو بلا کر مولوی صاحب کے سامنے کھڑا کر دیا۔ چراغ ایک بافندہ اَن پڑھ حضرت صاحب کا نوکر تھا۔اور معین الدین صاحب ان پڑھ نابینا تھے۔جو حضرت صاحب کے پَیر دبایا کرتے تھے۔وہ شخص ان دونوں کو دیکھ کر چلا گیا۔اور ایک بڑے تھال میں شیرینی لے کر آیا اور حضور سے عرض کیا کہ مجھے بیعت فرما لیں۔اب کوئی شک و شبہ میرے دل میں نہیں رہا۔اور اس کے بارہ ساتھی بھی اس کے ساتھ ہی بیعت ہو گئے۔ حضرت صاحب نے بیعت اور دعا کے بعد ان مولوی صاحب کو مسکراتے ہوئے فرمایا۔ کہ یہ مٹھائی منشی صاحب کے آگے رکھ دو کیونکہ وہی آپ کی ہدایت کا باعث ہوئے ہیں۔’’

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ720تا721، روایت نمبر777)

اسی طرح حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب ؓایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس سے ان مجالس میں شامل حاضرین پر خدا کے فرستادہ کا رعب، اور خوش مزاجی دونوں کا پتہ لگتا ہے۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ

‘‘ایک دفعہ مسجد مبارک میں بعد نماز ظہر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی شیر علی صاحب کو بلا کر کچھ ارشاد فرمایا۔ یا ان سے کچھ پوچھا مولوی صاحب نے (غالباً حضور کے رعب کی وجہ سے گھبرا کر)جواب میں اس طرح کے الفاظ کہے کہ ‘‘حضور نے یہ عرض کیا تھا۔ تو مَیں نے یہ فرمایا تھا ’’بجائے اس کے کہ اس طرح کہتے کہ حضور نے فرمایا تھا تو مَیں نے عرض کیا تھا۔ اس پر اہلِ مجلس ہنسی کو روک کر مسکرائے۔ مگر حضرت صاحب نے کچھ خیال نہ فرمایا۔’’

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ562، روایت 589)

اصحاب کے ساتھ بے تکلفی اور مزاح

حضرت اقدس مسیح موعودؑخود بھی اپنے اصحاب سے ہلکا پھلکا، سچا، اور پاکیزہ مذاق کر لیا کرتے تھے۔حافظ نور محمد صاحب ؓبیان فرماتے ہیں کہ

‘‘ایک دن آپؑ نے ہم سے پوچھا کہ آج کس طرف سیر کو چلیں ؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت!آج تتلے کی نہر کی طرف چلیں۔ حضور مسکرانے لگے اور فرمایا کہ کسی نے ایک بھوکے سے پوچھاتھا کہ ایک اور ایک کتنے ہوتے ہیں ؟تو اس نے جواب دیا کہ دو روٹیاں۔سو میاں نور محمدؐ کا بھی یہی مطلب ہے کہ اسی راستے سے اپنے گاؤں کی طرف نکل جائیں۔’’

اسی طرح آپ بیان فرماتے ہیں کہ

‘‘ایک دفعہ حافظ نبی بخش صاحب نے ہنس کرعرض کیا کہ یہ (یعنی خاکسار نور محمدؐ) بہت وظیفہ پڑھتے رہتے ہیں۔میں نے عرض کیا کہ حضور میں تو وظیفہ نہیں کرتا صرف قرآن شریف ہی پڑھتا ہوں۔آپ مسکرا کر فرمانے لگے کہ تمہاری تو یہ مثال ہے کہ کسی شخص نے کسی کو کہاکہ یہ شخص بہت عمدہ کھانا کھایا کرتا ہے تو اس نے جواب میں کہا کہ میں تو کوئی اعلیٰ کھانا نہیں کھاتا صرف پلاؤ کھایا کرتا ہوں۔پھر آپ نے فرمایا کہ قرآن شریف سے بڑھ کراور کون سا وظیفہ ہے۔یہی بڑا اعلیٰ وظیفہ ہے۔’’

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 317تا318روایت نمبر 347تا348)

حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ

‘‘ایک دفعہ میں اور چند اورآدمی جن میں غالباً مولوی محمد علی صاحب اورخوا جہ کمال الدین صاحب بھی تھے حضرت صاحب سے ملنے کے لئے اندر آپ کے مکان میں گئے۔اس وقت آپ نے ہم کو خربوزے کھانے کے لئے دیئے۔مولوی صاحب کہتے ہیں کہ جو خربوزہ مجھے آپ نے دیا وہ زیادہ موٹا تھا چنانچہ آپ نے دیتے ہوئے فرمایا اسے کھا کر دیکھیں یہ کیسا ہے؟ پھر خود ہی مسکرا کر فرمایا موٹا آدمی منافق ہوتا ہے۔یہ پھیکا ہی ہوگا۔ مولوی صاحب کہتے ہیں چنانچہ وہ پھیکا نکلا۔مولوی صاحب نے یہ روایت بیان کر کے ہنستے ہوئے کہا کہ اس وقت میں دبلا ہوتا تھا۔’’

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ98تا99، روایت نمبر 120)

[نوٹ: اس روایت کی وضاحت میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے تحریر فرمایا ہےکہ ‘‘اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ ہر موٹا آدمی منافق ہوتا ہے بلکہ حضرت صاحب کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو آرام طلبی کے نتیجہ میں موٹاہو گیا ہو وہ منافق ہوتا ہے۔’’]

آپؑ کے عفو اور بے تکلفی کی ایک مثال بیان کرتے ہوئے حضرت مولوی محمدابراہیم صاحب بقا پوریؓ روایت کرتے ہیں کہ

‘‘ایک دفعہ مسجد مبارک میں حقیقۃ الوحی کے عربی استفتاء کا پروف دیکھتے وقت مولوی محمدؐ احسن صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ فلاں لفظ تو صحیح ہے مگر حضور نے اس پر نشان لگایا ہے۔حضور نے فرمایا کہ میں نے تو کوئی نشان نہیں لگایا۔اور مولوی صاحب کے عرض کرنے پر کہ پھر یہ نشان کس نے لگایا ہے حضرت صاحب نے فرمایا کہ شائد میر مہدی حسین صاحب(کتب خانے کے مہتمم) نے لگایا ہوگا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ میر صاحب کو کیا حق تھا ؟حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایاکہ ان کو بھی ایک حق ہے جسے دخل بے جا کہتے ہیں۔’’

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ430، روایت نمبر 450)

آپؑ صحابیات سے بھی ازراہِ شفقت پاکیزہ مذاق فرما لیا کرتے تھے۔ ماسٹر عبد الرحمٰن صاحب (مہر سنگھ) بی اے کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ

‘‘ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے لڑکا پید اہوا اور فاطمہ اہلیہ مولوی محمد علی صاحب پوچھتی ہیں ‘‘بشریٰ کی اماں ! لڑکے کا نام کیا رکھا ہے! ’’اتنے میں دائیں طرف سے آواز آتی ہے کہ ‘‘نذیر احمد’’۔میرے خاوند نے یہ خواب حضرت اقدس ؑکو سنادیا۔ جب میرے ہاں لڑکا پید اہوا تو ماسٹر صاحب نام پوچھنے گئے تو حضورؑ نے فرمایا کہ‘‘وہی نام رکھو جوخدا نے دکھایا ہے۔’’جب میں چلّہ نہا کر گئی تو حضورؑ کو سلام کیا اور دعا کے لئے عرض کی۔آپ نے فرمایا۔‘‘انشاء اللہ’’ پھر حضورعلیہ السلام ہنس پڑے اور فرمایا۔‘‘ ایک نذیر دنیا میں آنے سے تو دنیا میں آگ برس رہی ہے اور اب ایک اور آگیا ہے۔’’

(سیرت المہدی جلد دوم صفحہ205، روایت نمبر 1326)

اہل و عیال اور ملازمین سے شگفتہ مزاجی

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مصروف الاوقات اشخاص جلد مشتعل ہو جاتے ہیں اور خاص طور پر بچوں سے چھوٹا موٹا مذاق کرنا اپنے وقت اور مقام کے خلاف سمجھتے ہیں۔اسی طرح کئی لوگ غیروں کے سامنے تو اپنی سخت دلی کو چھپا لیتے ہیں مگر گھر کے اندر اپنے اہل و عیّال اور ملازمین پر خوب سختی کرتے ہیں۔ اس کے بر عکس ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، اور آپ کی اتباع میں، حضرت مسیح موعودؑ بچوں اور ملازمین سے خاص طور پر حسن اخلاق اور خوش مزاجی سے پیش آتے۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ

‘‘ایک دفعہ جب میں ابھی بچہ تھا ہماری والدہ صاحبہ یعنی حضرت امّ المومنین نے مجھ سے مزاح کے رنگ میں بعض پنجابی الفاظ بتا بتا کر ان کے اردو مترادف پوچھنے شروع کئے۔اس وقت مَیں یہ سمجھتا تھا کہ شاید حرکت کے لمبا کرنے سے ایک پنجابی لفظ اردو بن جاتا ہے۔اس خود ساختہ اصول کے ماتحت مَیں جب اُوٹ پٹانگ جواب دیتا تھا تو والدہ صاحبہ بہت ہنستی تھیں اور حضرت صاحب بھی پاس کھڑے ہوئے ہنستے جاتے تھے۔اسی طرح حضرت صاحب نے بھی مجھ سے ایک دو پنجابی الفاظ بتا کر ان کی اردو پوچھی اور پھر میرے جواب پر بہت ہنسے۔ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ اس وقت مَیں نے ‘‘کتّا’’ کی اردو ‘‘کُوتا’’ بتایا تھا۔ اور اس پر حضرت صاحب بہت ہنسے تھے۔’’

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ561تا562، روایت نمبر 588)

اسی طرح مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب بیان فرماتی ہیں کہ

‘‘ایک مرتبہ میں آگرہ سے آئی تھی۔میرے ساتھ ایک ملازمہ تھی۔میری لڑکی عزیزہ رضیہ بیگم جو کہ ابھی چار سال کی تھی وہ اس کی کھلاوی تھی۔کچھ باتیں مزاح کی بھی اس کو سکھایا کرتی تھی۔ایک دن حضور علیہ السلام آنگن میں ٹہل رہے تھے۔عزیزہ سلمہا نے چھوٹا سا برقعہ پہنا ہوا تھا۔وہ حضورؑ کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔حضورؑ ٹھہر گئے۔عزیزہ نے رونی صورت بنا کر کہا۔اُوں اُوں مجھے جلدی بلا لینا۔حضورؑ نے فرمایا کہ ‘‘تم کہاں چلی ہو؟’’وہ نوکر کی سکھائی ہوئی کہنے لگی کہ میں سسرال چلی ہوں۔اس پر حضور خوب ہنسے۔فرمایا ‘‘سسرال جاکر کیا کروگی؟’’کہنے لگی۔‘‘حلوہ پوری کھاؤں گی۔’’پھر آنگن میں ایک چکر لگایا پھر آکر حضورؑ کے قدموں سے چمٹ گئی۔حضورؑ نے فرمایا کہ ‘‘سسرال سے آگئی ہو؟’’ تمہاری ساس کیا کرتی تھیں؟’’عزیز ہ سلمہا نے کہا کہ روٹی پکاتی تھی۔تمہارے میاں کیا کرتے تھے ؟ کہا کہ روٹی کھاتے تھے۔پھر پوچھا ‘‘تم کیا کھاکر آئی ہو؟’’کہنے لگی حلوہ پوری۔حضورؑ نے فرمایا ‘‘اس کی ساس اچھی ہے۔بیٹے کو تو روٹی دیتی ہے مگر بہو کو حلوہ پوری۔’’

(سیرت المہدی جلد دوم صفحہ238تا239، روایت نمبر 1409)

بچیوں کی بے تکلفی اور مزاح کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہوئے محترمہ رسول بی بی صاحبہؓ اہلیہ حافظ حامد علی صاحبؓ روایت کرتی ہیں کہ

‘‘ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک عورت سونے کا زیور پہن کر آئی تو جس پلنگ پر حضرت اُم المومنین اور حضورؑ بیٹھے تھے آکر بیٹھ گئی۔ ہم لڑکیاں دیکھ کر ہنسنے لگیں۔ہم نے کہا کہ اگر ہمیں بھی سونے کی بالیاں اور کڑے وغیرہ ملتے تو ہم بھی حضورؑ کے پلنگ پر بیٹھتیں۔ حضرت اُم المومنین نے حضور کو بتا دیا کہ یہ لڑکیاں ایسا کہہ رہی ہیں۔ حضورؑ ہنس پڑے اور فرمایا کہ ‘‘آجاؤ لڑکیو! تم بھی بیٹھ جاؤ۔’’

(سیرت المہدی جلد دوم صفحہ،291روایت نمبر 1524)

مزاح کے رنگ میں تربیت فرمانا

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا طریق ِ تربیت بھی اپنے اندر شگفتہ مزاجی کا ایک خاص رنگ رکھتا تھا، اور آپؑ اکثر حکایات کے رنگ میں تربیت کے اہم امور کو بیان فرمایا کرتے تھے۔ اسی طرح آپؑ کئی بار لطائف کے ذریعہ بھی کوئی مشکل بات سمجھا دیا کرتے تھے اور اس طرح زیر تربیت شخص کو بوجھ کا احساس بھی نہ ہوتا تھا اور بات بھی سمجھ آ جاتی تھی۔

فضل بیگم صاحبہ اہلیہ محترمہ مرزا محمود بیگ صاحبؓ بیان فرماتی ہیں کہ

‘‘میں اکثر قادیان رہاکرتی تھی اور میرے خاوند قصور رہا کرتے تھے۔وہ قصور سے آئے تو کچھ قصور کی جوتیاں اور خربوزے لائے اور حضورؑ کی خدمت میں پیش کئے اور ایک خط بھی بھیجا جس میں لکھا ہوا تھا کہ حضورؑ مجھے کوئی کام نہیں آتا حضورؑ مجھے اپنے کپڑے ہی دھونے کے لئے دے دیا کریں۔میں وہاں پرہی بیٹھی تھی۔ حضورؑ نے فرمایا۔‘‘فضل! مرزا صاحب تمہارے کپڑے دھویا کرتے ہیں ؟’’میں نے کہا کہ حضورؑ وہ تو کبھی گھڑے میں سے پانی بھی ڈال کر نہیں پیتے۔ حضور علیہ السلام ہنس پڑے اور فرمایا۔کہ‘‘ہم سے تو کپڑے دھونے کا کام مانگتے ہیں۔’’

(سیرت المہدی جلد دوم صفحہ227، روایت نمبر 1380)

مزاح کے رنگ میں سمجھانے کی ایک مثال بیان فرماتے ہوئے میاں امام الدین صاحب سیکھوانی بیان فرماتے ہیں کہ

‘‘حضرت مسیح موعودؑ اکثر ذکر فرمایا کرتے تھے کہ بقول ہمارے مخالفین کے جب مسیح آئے گا اور لوگ اس کو ملنے کے لئے اس کے گھر پر جائیں گے تو گھر والے کہیں گے کہ مسیح صاحب باہر جنگل میں سؤر مارنے کے لئے گئے ہوئے ہیں۔پھر وہ لوگ حیران ہوکر کہیں گے کہ یہ کیسا مسیح ہے کہ لوگوں کی ہدایت کے لئے آیا ہے اور باہر سؤروں کا شکا ر کھیلتا پھرتا ہے۔پھر فرماتے تھے کہ ایسے شخص کی آمد سے تو ساہنسیوں اور گنڈیلوں کو خوشی ہوسکتی ہے۔جو اس قسم کا کام کرتے ہیں۔مسلمانوں کو کیسے خوشی ہوسکتی ہے۔یہ الفاظ بیان کر کے آپ ہنستے تھے۔یہاں تک کہ اکثر اوقات آپ کی آنکھوں میں پانی آجا تا تھا۔’’

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ809،روایت نمبر 946)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓطبائع کے فرق اور قبولیت دعا کی شرائط کے ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑکی ایک دلچسپ روایت بیان فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ

‘‘حضرت مسیح موعود ؑفرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ بازار میں چند بنئے بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ کیا کوئی ایک پاؤ تِل کھا سکتا ہے۔ وہ ایک پاؤ تِل کھانا ایک بہت بڑا کام سمجھتے تھے۔ان میں سے ایک نے کہا جو ایک پاؤ تل کھائے اس کو میں پانچ روپے انعام دوں گا۔پاس سے ایک زمیندار گزر رہا تھا اس نے جب سنا کہ پاؤ تل کھانے پر شرط لگ رہی ہے تو اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی۔اس نے خیال کیا کہ بھلا ایک پاؤ تل کھانا کونسی بڑی بات ہے جس پر انعام دیا جائے گا۔ ضرور اس کے ساتھ کوئی اور شرط ہو گی۔ وہ آگے بڑھا اور پوچھا، ‘‘شاہ جی، تِل سلّیاں سمیت کھانے نے کہ بغیر سلّیاں دے۔’’یعنی پھلیوں سمیت تِل کھانے ہیں کہ الگ کئے ہوئے بیج کھانے ہیں۔اس زمیندار کے نزدیک تو پاؤ تِل کھانا کوئی چیز نہ تھی لیکن وہ سب بنئے تھے جو آدھا پھلکا کھانے کے عادی تھے۔ جب اس نے یہ کہا کہ شاہ جی تل پھلیوں سمیت کھانے ہیں تو اس بنئے نے کہا چوہدری صاحب آپ جائیے ہم تو آدمیوں کی باتیں کرتے ہیں۔’’

(تفسیر کبیر، جلد 2، صفحہ406)

ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ

‘‘حضرت مسیح موعود ؑ شیعوں کے عقائد کے ضمن میں ایک غالی شیعہ کی کہانی کبھی کبھی سُنایا کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ ایک شیعہ جب مرنے لگا۔ تو اس نے اپنی اولاد کو جمع کیا اور کہا کہ مَیں تم کو اب مرتے وقت ایک وصیّت کرتا ہوں۔ جس کو اگر یاد رکھو گے تو تمہارا ایمان قائم رہے گا اور یہ نصیحت میری تمام عمرکا اندوختہ ہے۔وہ نصیحت یہ ہے کہ آدمی اس وقت تک سچا شیعہ نہیں ہو سکتا جب تک اُسے تھوڑی سی عداوت حضرت امام حسنؓ سے بھی نہ ہو۔اس پر اس کے عزیز ذرا چونکے تو وہ کہنے لگا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ اپنی خلافت بنواُمیّہ کے سپرد نہ کردیتے اور ان سے صلح نہ کر لیتے تو شیعوں پر یہ مصیبت نہ آتی۔اصل میں ان کا قصور تھا۔ سو دل میں ان سے کچھ عداوت ضرور رکھنی چاہئے۔پھر چپ ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا کہ اب اس سے بڑھ کر نکتہ بتاتا ہوں۔ میرے مرنے کا وقت قریب آگیا ہے مگر یہ سُن رکھو کہ شیعہ سچا وہی ہے جو تھوڑی سی عداوت حضرت علیؓ کے ساتھ بھی رکھے۔ کیونکہ حضرت علیؓ شیرخدا اور رسولِ خدا کے وصی تھے۔ مگر ان کی آنکھوں کے سامنے ابو بکر اور عمر نے خلافت غصب کر لی۔ مگر وہ بولے تک نہیں۔اگر اس وقت وہ ہمت دکھاتے تو منافقوں کا غلبہ اس طرح نہ ہوجاتا۔اس کے بعد وہ پھر خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا۔لو اب اس سے بھی ضروری بات بیان کرتا ہوں۔سچے شیعہ کو ضرور تھوڑی سی عداوت آنحضرتؐ سے بھی رکھنی چاہئے کہ اگر وہ ابوبکر اور عمر کا فیصلہ اپنے سامنے کرجاتے اور علیؓ کی خلافت سب کے سامنے کھول کر بیان کر دیتے اور اپنا جانشین انہیں بنا جاتے تو پھر یہ فساد اور مصیبتیں کیوں آتیں۔ان کا بھی اس میں قصور ہے کہ بات کو کھولا نہیں۔ پھر ذرا اُٹھ کر کہنے لگا کہ اب تو میرے آخری سانس ہیں۔ذرا آگے آ جائو۔دیکھو اگر تم دل سے شیعہ ہو۔ تو جبرائیل سے بھی ضرور تھوڑی سی عداوت رکھنا۔جب خدا نے وحی حضرت علی ؓکی طرف بھیجی تو وہ حضرت علی کی بجائے آنحضرت کی طرف لے آیا اور اس طرح ہمارا تمام کام بگاڑ دیا۔ خواہ بھول گیا یا جان بوجھ کر ایسا کیا مگر اس کا قصور ضرور ہے۔اس کے بعد ذرا چپ رہا۔جب بالکل آخری وقت آگیا۔ تو کہنے لگا ذرا اور نزدیک ہو جائو۔ یہ آخری بات ہے اور بس۔ جب وہ لوگ آگے ہوئے تو کہنے لگا۔ آدمی اس وقت تک کامل شیعہ نہیں ہو سکتا۔ جب تک کچھ تھوڑی سی عداوت خدا سے بھی نہ رکھے۔ کیونکہ سارا فساد اسی سے نکلا ہے۔اگر وہ ان تمام معاملات کو پہلے ہی صفائی سے طے کر دیتا اور جھگڑوں میں نہ الجھاتا تو نہ حضرت علیؓ محروم ہوتے نہ امام حسینؓ شہید ہوتے اور نہ غاصب کامیاب ہوتے۔یہ کہہ کر بیچارے کا دم نکل گیا۔اس قصہ کے بیان کرنے سے حضرت صاحب کا مطلب یہ تھا۔ کہ انسان اگر شیعوں والے عقائد اختیار کرے گا تو اس کا لازمی اور آخری نتیجہ یہ ہے کہ ا ہلِ بیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ تک کو ترک کرنا پڑے گا اور ان سے بدظنی کرنی پڑے گی۔ سو ایسا مذہب بالبداہت باطل ہے۔’’

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ ‘‘حضرت صاحبؑ جب یہ روایت فرماتے تھے تو بہت ہنستے تھے اور جب اس شیعہ کی زبانی عداوت رکھنے کا ذکر فرماتے تھے تو بعض اوقات انگلی کے اشارے سے فرمایا کرتے تھے کہ بس اتنی سی عداوت فلاں سے بھی چاہئے اور اتنی سی فلاں سے۔’’

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ568تا570، روایت نمبر 603)

مندرجہ بالا روایات حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی شگفتہ مزاجی اور پاکیزہ مزاح کی ایک ہلکی سی جھلک ہیں۔ ان روایات سے پتہ لگتا ہے کہ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود، اور اپنے مقام اور ذمہ داریوں کا مکمل احساس ہوتے ہوئے بھی حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی طبیعت میں خشکی اور قبض ہرگز نہ تھا بلکہ آپؑ اپنی شگفتہ مزاجی سے جہاں دوسروں کی کلفتوں کو دور فرماتے تھے، وہیں اپنے پاکیزہ مزاح کے ذریعہ سے تربیت اور تألیف قلوب کا کام بھی فرماتے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے ارد گرد مسکراہٹیں پھیلانے اور غموں کو دُور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button