کیفیتِ نزولِ وحی صاحبِ تجربہ کے قلم سے
تُو مجھ سے ایسا ہے جیسی مری توحید
تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں
’’خداوند تعالیٰ اس پاک الہام کو اُنہیں ایمانداروں کو عطا کرتا ہے کہ جو سچے دل سے قرآن شریف کو خدا کا کلام جانتے ہیں اور صدق اور اخلاص سے اس پر عمل کرتے ہیں اور حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو خدا کا سچا اور کامل پیغمبر اور سب پیغمبروں سے افضل اور اعلیٰ اور بہتر اور خاتم الرسل اور اپنا ہادی اور رہبر سمجھتے ہیں۔‘‘
ارشاد ربّانی ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ۔ نَحۡنُ اَوۡلِیٰٓؤُکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ …
(حم السجدۃ:31تا32)
ترجمہ‘‘ وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے اور باطل خداؤں سے الگ ہوگئے پھر استقامت اختیار کی یعنی طرح طرح کی آزمائشوں اور بلا کے وقت ثابت قدم رہے۔ اُن پر فرشتے اُترتے ہیں کہ تم مت ڈرو اور مت غمگین ہو اور خوش ہو اورخوشی میں بھر جاؤ کہ تم اس خوشی کے وارث ہوگئے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے۔ ہم اس دنیوی زندگی میں اور آخرت میں تمہارے دوست ہیں۔’’
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 419)
اللہ تعالیٰ کا پیغام لےکر فرشتے اُترتے ہیں
حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میںفرماتے ہیں :
‘‘یعنی جو لوگ خدا پر ایمان لاکر پوری پوری استقامت اختیار کرتے ہیں ۔اُن پر خدائے تعالیٰ کے فرشتے اُترتے ہیں۔ اور یہ الہام ان کو کرتے ہیں کہ تم کچھ خوف اور غم نہ کرو تمہارے لئے وہ بہشت ہے جس کے بارے میں تمہیں وعدہ دیا گیا ہے۔ سو اس آیت میں بھی صاف لفظوں میں فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نیک بندے غم اور خوف کے وقت خدا سے الہام پاتے ہیں اور فرشتے اُتر کر اُن کی تسلی کرتے ہیں اور پھر ایک اور آیت میں فرمایا ہے
لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الاٰخِرَۃِ(یونس :5)
یعنی خدا کے دوستوں کو الہام اور خدا کے مکالمہ کے ذریعہ سے اس دنیا میں خوشخبری ملتی ہے اور آئندہ زندگی میں بھی ملے گی۔’’
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 437)
سلسلہ ٔوحی و الہام اطاعتِ محمد مصطفیٰﷺ سے مشروط ہے
‘‘خدا تعالیٰ اُمت محمدیہ میں کہ جو سچے دین پر ثابت اور قائم ہیں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا کرتا ہے کہ جو خدا کی طرف سے ملہم ہوکر ایسے امورِ غیبیہ بتلاتے ہیں جن کا بتلانا بجز خدائے واحد لاشریک کے کسی کے اختیار میں نہیں اور خداوند تعالیٰ اس پاک الہام کو اُنہیں ایمانداروں کو عطا کرتا ہے کہ جو سچے دل سے قرآن شریف کو خدا کا کلام جانتے ہیں اور صدق اور اخلاص سے اس پر عمل کرتے ہیں اور حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو خدا کا سچا اور کامل پیغمبر اور سب پیغمبروں سے افضل اور اعلیٰ اور بہتر اور خاتم الرسل اور اپنا ہادی اور رہبر سمجھتے ہیں۔’’
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 238)
فیض وحی آنحضرتﷺ کی پیروی کے وسیلے سے
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :
‘‘وہ خاتم الانبیاء بنے۔مگران معنوں سے نہیں کہ آئندہ اُس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحبِ خاتم ہے بجز اُس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا۔ اور اس کی اُمت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہوگا اور بجز اُس کے کوئی نبی صاحبِ خاتم نہیں ایک وہی ہے جس کی مُہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے اُمتی ہونا لازمی ہے اور اُس کی ہمت اور ہمدردی نے اُمت کو ناقص حالت پر چھوڑنا نہیں چاہا اور اُن پر وحی کا دروازہ جو حصولِ معرفت کی اصل جڑھ ہے بند رہنا گوارا نہیں کیا۔ ہاں اپنی ختم رسالت کا نشان قائم رکھنے کے لئے یہ چاہا کہ فیض وحی آپؐ کی پیروی کے وسیلہ سے ملے اور جو شخص اُمتی نہ ہو اُس پر وحی الٰہی کا دروازہ بند ہو ۔سو خدا نے ان معنوں سے آپؐ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا۔’’
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ 29تا30)
وحی و الہام تابعینِ خیر الرسلؐ کا مقدر ہے
‘‘الہام ایک واقعی اوریقینی صداقت ہے جس کا مقدس اور پاک چشمہ دینِ اسلام ہے۔ اور خدا جو قدیم سے صادقوں کا رفیق ہے۔ دوسروں پر یہ نورانی دروازہ ہرگز نہیں کھولتا اور اپنی خاص نعمت غیر کو ہرگز نہیں دیتا اور کیونکردےکیا ممکن ہے کہ جو شخص اپنے گھر کے تمام دروازے بند کرکے اور آنکھوں پر پردہ ڈال کے بیٹھا ہوا ہے۔وہ ایسا ہی روشنی کو پاوے جیسا کہ وہ شخص جس کے سب دروازے کھلے ہیں اور جس کی آنکھوں پر کوئی پردہ نہیں۔ کیا اعمیٰاور بصیر کبھی مساوی ہوسکتے ہیں۔ کیا ظلمت نور کا مقابلہ کرسکتی ہے ۔کیا ممکن ہے کہ مجذوم جس کا تمام بدن جذام خوردہ ہے اور جس کے اعضاء متعفن ہوکر گرتے جاتے ہیں۔وہ اپنی بدنی حالت میں اس جماعت سے برابری کرسکےجس کو خدا نے کامل تندرستی اور خوبصورتی عطا فرمائی ہے۔ ہم ہر وقت طالب صادق کو اس بات کاثبوت دینے کے لئے موجود ہیں کہ وہ روحانی اور حقیقی اور سچی برکتیں کہ جو تابعینِ حضرتِ خیر الرسلؐ میں پائی جاتی ہیں کسی دوسرے فرقہ میں ہرگز موجود نہیں۔’’
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 288تا289حاشیہ درحاشیہ نمبر1)
نزولِ وحی کے وقت آسمانوں پر لرزہ
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ابن جریر اور ابن کثیر سے ایک حدیث تحریر کی ہے جس کا ترجمہ ہے:
‘‘نواس بن سمعان سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس وقت خدا تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے کہ کوئی امر وحی اپنی طرف سے نازل کرے تو بطور وحی متکلم ہوتا ہے یعنی ایسا کلام کرتا ہے جو ابھی اجمال پر مشتمل ہوتا ہے اور ایک چادر پوشیدگی کی اُس پر ہوتی ہے تب اُس محبوب المفہوم کلام سے ایک لرزہ آسمانوں پر پڑ جاتا ہے جس سے وہ ہولناک کلام تمام آسمانوں میں پھر جاتا ہے اور کوئی نہیں سمجھتا کہ اس کے کیا معنی ہیں اور خوفِ الٰہی سے ہر یک فرشتہ کانپنے لگتا ہے کہ خدا جانے کیا ہونے والا ہے اور اُس ہولناک آواز کو سُن کر ہریک فرشتہ پر غشی طاری ہوجاتی ہے اور وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں پھر سب سے پہلے جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام سجدہ سے سر اُٹھاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس وحی کی تمام تفصیلات اُس کو سمجھا دیتا ہے اور اپنی مراد اور منشاء سے مطلع کردیتا ہے تب جبرائیل اُس وحی کو لے کر تمام فرشتوں کے پاس جاتا ہے جو مختلف آسمانوں میں ہیں اور ہریک فرشتہ اُس سے پوچھتا ہے کہ یہ آواز ہولناک کیسی تھی اور اس سے کیا مراد تھی تب جبرائیل اُن کو یہ جواب دیتا ہے کہ یہ ایک امر حق ہے اور خدا تعالیٰ بلند اور نہایت بزرگ ہے یعنی یہ وحی اُن حقائق میں سے ہے جن کا ظاہر کرنا اُس العلی الکبیر نے قرین مصلحت سمجھا تب وہ سب اُس کے ہمکلام ہو جاتے ہیں۔ پھر جبرائیل اُس وحی کو اس جگہ پہنچا دیتا ہے جس جگہ پہنچانے کیلئے اُسکا حکم تھا خواہ آسمان یا زمین۔’’
(آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 107تا109)
سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے
‘‘میں نے محض خدا کے فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی۔ اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید و مولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے راہوں کی پیروی نہ کرتا۔ سو میں نے جو کچھ پایا۔ اُس پیروی سے پایا…سب نعمتیں آنحضرتﷺ کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے۔
قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ
(اٰل عمران: 32)
یعنی اُن کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے’’
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 64-65)
‘‘اللہ تعالیٰ نے اپنا کسی کے ساتھ پیار کرنا اس بات سے مشروط کیا ہے کہ ایسا شخص آنحضرتﷺ کی پیروی کرے چنانچہ میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتا ہے۔ اس طرح پر کہ خود اُس کے دل میں محبت الٰہی کی ایک سوزش پیدا کردیتا ہے… پھر جیسا جیسا اُن پر زمانہ گزرتا ہے وہ اندرونی آگ عشق اور محبت الٰہی کی بڑھتی جاتی ہے اور ساتھ ہی محبت رسول کی آگ ترقی پکڑتی ہے۔ اور ان تمام امور میں خدا اُن کا متولی اور متکفل ہوتا ہے۔ اور جب وہ محبت اور عشق کی آگ انتہا تک پہنچ جاتی ہے تب وہ نہایت بےقراری اور دردمندی سے چاہتے ہیں کہ خدا کا جلال زمین پر ظاہر ہو اور اسی میں اُن کی لذت اور یہی اُن کا آخری مقصد ہوتا ہے تب اُن کے لئے زمین پر خداتعالیٰ کے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کسی کے لئے اپنے عظیم الشان نشان ظاہر نہیں کرتا اور کسی کو آئندہ زمانے کی عظیم الشان خبریں نہیں دیتا مگر اُنہیں کو جو اس کے عشق اور محبت میں محو ہوتے ہیں اور اُس کی توحید اور جلال کے ظاہر ہونے کے ایسے خواہاں ہوتے ہیں جیسا کہ وہ خود ہوتا ہے۔ یہ بات اُنہیں سے مخصوص ہے کہ حضرت الوہیت کے خاص اسرار اُن پر ظاہر ہوتے ہیں اور غیب کی باتیں کمال صفائی سے ان پر منکشف کی جاتی ہیں اور یہ خاص عزت دوسرے کو نہیں دی جاتی۔’’
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 67تا68)
مکالمہ ٔالٰہی سے مشرف ہونے کا مقام
‘‘… جب انسان کی روح نفسانی آلائشوں سے پاک ہوکر اور اسلام کی واقعی حقیقت سے کامل رنگ پکڑ کر خدائےتعالیٰ کی بے نیاز جناب میں رضا اور تسلیم کے ساتھ پوری پوری وفاداری کو لے کر اپنا سر رکھ دیتی ہے اور ایک سچی قربانی کے بعد جو فدائے نفس و مال وعزت و دیگر لوازم محبوبہ ٔنفس سے مراد ہے محبت اور عشقِ مولیٰ کے لئے کھڑی ہو جاتی ہے اور تمام حُجبِ نفسانی جو اُس میں اور اُس کے ربّ میں دوری ڈال رہے تھے معدوم اور زائل ہو جاتے ہیں اور ایک انقلابِ عظیم اور سخت تبدیلی اس انسان کی صفات اور اس کی اخلاقی حالت اور اس کی زندگی کے تمام جذبات میں پیدا ہوکر ایک نئی پیدائش اور نئی زندگی ظہور میں آجاتی ہے اور اس کی نظر شہود میں وجودغیر بکلّی معدوم ہو جاتا ہے۔ تب ایسا انسان اس لائق ہوجاتا ہے کہ مکالمۂ الٰہی سے بکثرت مشرف ہو اور مکالمہ ٔ الٰہی کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ محدود اور مشتبہ معرفت سے انسان ترقی کرکے اس درجہ شہود پر پہنچتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کو اس نے دیکھ لیا ہے۔ سو یہ وہ مقام ہے جس پر تمام مقامات معرفت و خدا شناسی کے ختم ہوجاتے ہیں اور یہی وہ آخری نقطہ کمالات بشریہ کا ہے جس سے بڑھ کر عرفان کے پیاسوں کے لئے اس دنیا میں ہرگز میسر نہیں آسکتا اور نبیوں اور محدثوں کے لئے اس کے حصول کا اکثر طور پر قدرتی طریق یہ ہے کہ جب خدائےتعالیٰ چاہتا ہے کہ کسی پر اُن میں سے اپنا کلام نازل کرے تو روحانی طور پر بغیر توسط جسمانی اسباب کے اس پر ربودگی اور بے ہوشی طاری کی جاتی ہے۔ تب وہ شخص اپنے وجود سے بکلّی گم ہوکر بلا اختیار جنابِ الٰہی کی ایک خاص کشش سے گہرے غوطہ میں چلا جاتا ہے اور ہوش آنے کے وقت ساتھ اپنے ایک کلام لذیذ لے آتا ہے وہی وحی الٰہی ہے۔’’
(ازالہ ٔاوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 599)
‘‘وحی ایک الٰہی آواز ہے جو معرفت اور اطمینان سے رنگین کرنے کےلئے منجانب اللہ پیرایہ مکالمہ و مخاطبہ میں ظہور پذیر ہوتی ہے اور اس سے بڑھ کر اُس کی کیفیت بیان کرنا غیرممکن ہے کہ وہ صرف الٰہی تحریک اور ربانی نفخ سے بغیر کسی قسم کے فکر اور تدبر اور خوض اور غور اور اپنے نفس کے دخل کے خدائے تعالیٰ کی طرف سے ایک قدرتی ندا ہے جو لذیذ اور پُربرکت الفاظ میں محسوس ہوتی ہے اور اپنے اندر ایک ربانی تجلی اور الٰہی صولت رکھتی ہے۔’’
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 232)
دل علوم مخفیہ کا سرچشمہ
‘‘میں 35 برس سے اس بات کا مشاہدہ کررہا ہوں کہ خدا کا الہام جو معارفِ روحانیہ اور علوم غیبیہ کا ذخیرہ ہے دل پر ہی نازل ہوتا ہے بسا اوقات ایک ایسی آواز سے دل کا سرچشمۂ علوم ہونا کھل جاتا ہے کہ وہ آواز دل پر اس طور سے بشدّت پڑتی ہے کہ جیسے ایک ڈول زور کے ساتھ ایک ایسے کنوئیں میں پھینکا جاتا ہے جو پانی سے بھرا ہوا ہے تب وہ دل کا پانی جوش مار کر ایک غنچہ کی شکل میںسربستہ اوپر کو آتا ہے اور دماغ کے قریب ہوکر پھول کی طرح کھل جاتا ہے اور اس میں سے ایک کلام پیدا ہوتا ہے وہی خدا کا کلام ہے۔ پس ان تجارب صحیحہ روحانیہ سے ثابت ہے کہ دماغ کو علوم اور معارف سے کچھ تعلق نہیں۔ ہاں اگردماغ صحیح واقعہ ہو اور اس میں کوئی آفت نہ ہو تو وہ دل کے علوم مخفیہ سے مستفیض ہوتا ہے۔ اور دماغ چونکہ منبتِ اعصاب ہے اس لئے وہ ایسی کل کی طرح ہے جو پانی کو کنوئیں سے کھینچ سکتی ہے اور دل وہ کنواں ہے جو علوم مخفیہ کا سرچشمہ ہے یہ وہ راز ہے جو اہل حق نے مکاشفات صحیحہ کے ذریعہ سے معلوم کیا ہےجس میں مَیںخود صاحب تجربہ ہوں۔’’
(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 283)
تھا برس چالیس کا میں اس مسافر خانہ میں
جبکہ میں نے وحیٔ ربانی سے پایا افتخار
اب ذرا سوچو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے
اس قدر امرِ نہاں پر کس بشر کو اقتدار
(درّثمین)
الہام کی پانچ صورتیں
‘‘جب خداوند تعالیٰ کوئی امرِ غیبی اپنے بندہ پر ظاہر کرناچاہتا ہے تو کبھی نرمی سے اور کبھی سختی سے بعض کلمات زبان پر کچھ تھوڑی غنودگی کی حالت میں جاری کردیتا ہے۔ اور جو کلمات سختی اور گرانی سے جاری ہوتے ہیں وہ ایسی پر شدت اور عنیف صورت میں زبان پروارد ہوتے ہیں جیسے گڑھے یعنی اولے بیکبارگی ایک سخت زمین پر گرتے ہیں یا جیسے تیز اور پُر زور رفتار میں گھوڑے کا سم زمین پر پڑتا ہے۔ اس الہام میں ایک عجیب سرعت اور شدّت اور ہیبت ہوتی ہے جس سے تمام بدن متاثر ہو جاتا ہے اور زبان ایسی تیزی اور بارعب آواز میں خودبخود دوڑتی جاتی ہے کہ گویا وہ اپنی زبان ہی نہیں اور ساتھ اس کے جو ایک تھوڑی سی غنودگی اورربودگی ہوتی ہے وہ الہام کے تمام ہونے کے بعد فی الفور دُور ہو جاتی ہے اور جب تک کلمات الہام تمام نہ ہوں تب تک انسان ایک میت کی طرح بے حس و حرکت پڑا ہوتا ہے۔’’
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 248حاشیہ درحاشیہ نمبر1)
‘‘صورت دوم الہام کی جس کا میں باعتبار کثرت عجائبات کے کامل الہام نام رکھتا ہوں۔یہ ہے کہ جب خدا ئے تعالیٰ بندہ کو کسی امر غیبی پر بعد دعا اس بندہ کے یاخود بخود مطلع کرنا چاہتا ہے تو یکدفعہ ایک بے ہوشی اور ربودگی اس پر طاری کر دیتا ہےجس سے وہ بالکل اپنی ہستی سے کھویا جاتا ہے اور ایسا اس بے خودی اور ربودگی اور بے ہوشی میں ڈوبتا ہے جیسے کوئی پانی میں غوطہ مارتا ہے۔ اور نیچے پانی کے چلا جاتا ہے ۔غرض جب بندہ اس حالت ربودگی سے کہ جو غوطہ سے بہت ہی مشابہ ہے باہر آتا ہے تواپنے اندرمیںکچھ ایسامشاہدہ کرتا ہے جیسے ایک گونج پڑی ہوئی ہوتی ہے۔ اور جب وہ گونج کچھ فروہوتی ہے تو ناگہاں اُس کو اپنے اندر سے ایک موزوں اور لطیف اور لذیذ کلام محسوس ہوجاتا ہے۔ اور یہ غوطہ ربودگی کا ایک نہایت عجیب امر ہے جس کے عجائبات بیان کرنے کے لئے الفاظ کفایت نہیں کرتے۔ یہی حالت ہے جس سے ایک دریا معرفت کا انسان پر کھل جاتا ہے۔ کیو نکہ جب بار بار دعا کرنے کے وقت خداوند تعالیٰ اس حالتِ غوطہ اورربودگی کو اپنے بندہ پر وارد کرکے اس کی ہر یک دعا کا اس کو ایک لطیف اور لذیذ کلام میں جواب دیتا ہے۔ اور ہریک استفسار کی حالت میں وہ حقائق اس پر کھولتا ہے جن کا کھلناانسان کی طاقت سے باہر ہے۔ تو یہ امر اس کے لئے موجب مزید معرفت اور باعثِ عرفانِ کامل ہو جاتا ہے۔ بندہ کا دعا کرنا اور خدا کا اپنی الوہیت کی تجلی سے ہریک دعا کا جواب دینا یہ ایک ایسا امر ہے کہ گویا اسی عالم میں بندہ اپنے خدا کو دیکھ لیتا ہے’’۔
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ260تا262حاشیہ درحاشیہ نمبر1)
‘‘صورت سوم الہام کی یہ ہے کہ نرم اور آہستہ طورپر انسان کے قلب پر القا ہوتا ہے۔ یعنی ایک مرتبہ دل میں کوئی کلمہ گزر جاتا ہے۔ جس میں وہ عجائبات بہ تمام و کمال نہیں ہوتے کہ جو دوسری صورت میں بیان کئے گئے ہیں۔ بلکہ اس میں ربودگی اور غنودگی بھی شرط نہیں۔ بسا اوقات عین بیداری میں ہو جاتا ہے اور اس میں ایسا محسوس ہوتا ہے۔کہ گویا غیب سے کسی نے وہ کلمہ دل میں پھونک دیا ہے یا پھینک دیا ہے۔ انسان کسی قدر بیداری میں ایک استغراق اور محویت کی حالت میں ہوتا ہے۔ اور کبھی بالکل بیدار ہوتا ہے کہ یک دفعہ دیکھتا ہے کہ ایک نووارد کلام اُس کے سینہ میں داخل ہے یا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ معاً وہ کلام دل میں داخل ہوتے ہی اپنی پر زور روشنی ظاہر کر دیتا ہے۔ اور انسان متنبہ ہو جاتا ہے کہ خدا کی طرف سے یہ القا ہے۔ اور صاحب ذوق کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تنفسی ہوا اندر جاتی ہے اور تمام دل وغیرہ اعضاءکو راحت پہنچاتی ہے ویسا ہی وہ الہام دل کو تسلی اور سکینت اور آرام بخشتا ہے…
صورت چہارم الہام کی یہ ہے کہ رؤیا صادقہ میں کوئی امر خدائے تعالیٰ کی طرف سے منکشف ہو جاتا ہے یا کبھی کوئی فرشتہ انسان کی شکل میں متشکل ہو کر کوئی غیبی بات بتلاتا ہے یا کوئی تحریر کاغذ پر یا پتھر وغیرہ پر مشہود ہو جاتی ہے جس سے کچھ اسرار غیبیہ ظاہر ہوتے ہیں۔’’
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 273تا274حاشیہ درحاشیہ نمبر1)
‘‘صورت پنجم الہام کی وہ ہے جس کا انسان کے قلب سے کچھ تعلق نہیں بلکہ ایک خارج سی آواز آتی ہے اور یہ آواز ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے ایک پردہ کے پیچھے سے کوئی آدمی بولتا ہے۔ مگر یہ آواز نہایت لذیذ اور شگفتہ اور کسی قدر سرعت کے ساتھ ہوتی ہے اور دل کو اس سے ایک لذّت پہنچتی ہے۔ انسان کسی قدر استغراق میں ہوتا ہے کہ یکدفعہ یہ آواز آجاتی ہے اور آواز سنکر وہ حیران رہ جاتا ہے کہ کہاں سے یہ آواز آئی اور کس نے مجھ سے کلام کی۔ اور حیرت زدہ کی طرح آگے پیچھے دیکھتا ہے پھر سمجھ جاتا ہے کہ کسی فرشتہ نے یہ آواز دی۔’’
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 287حاشیہ درحاشیہ نمبر1)
زبان پر الٰہی تصرف
‘‘الہام کے وقت میں قادر مطلق اپنے اُس تصرف بحث سے کام کرتا ہے جس میں اسباب اندرونی یا بیرونی کی کچھ آمیزش نہیں ہوتی۔ اُس وقت زبان خدا کے ہاتھ میں ایک آلہ ہوتا ہے جس طرح اور جس طرف چاہتا ہے اُس آلہ کو یعنی زبان کو پھیرتا ہے اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ الفاظ زور کے ساتھ اور ایک جلدی سے نکلتے آتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جیسے کوئی لطف اور ناز سے قدم رکھتا ہے اور ایک قدم پر ٹھہر کر پھر دوسرا قدم اُٹھاتا ہے اور چلنے میں اپنی خوش وضع دکھلاتا ہے اور ان دونوں اندازوں کے اختیار کرنے میں حکمت یہ ہے کہ تاربّانی الہام کو نفسانی اور شیطانی خیالات سے امتیاز کلی حاصل رہے۔’’
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 570تا571)
بلیغ فصیح، لذیذ فقرے
‘‘الہام کے بارے میں ہمارا تجربہ ہے کہ تھوڑی سی غنودگی ہوکر اور بعض اوقات بغیر غنودگی کے خدا کا کلام ٹکڑہ ٹکڑہ ہوکر زبان پر جاری ہوتا ہے جب ایک ٹکڑہ ختم ہوچکتا ہے تو حالت غنودگی جاتی رہتی ہے۔ پھر ملہم کے کسی سوال سے یا خود بخود خدا تعالیٰ کی طرف سے دوسرا ٹکڑہ الہام ہوتا ہے اور وہ بھی اسی طرح کہ تھوڑی غنودگی وارد ہوکر زبان پر جاری ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بسا اوقات ایک ہی وقت میں تسبیح کے دانوں کی طرح نہایت بلیغ فصیح لذیذ فقرے غنودگی کی حالت میں زبان پر جاری ہوتے جاتے ہیں اور ہر ایک فقرہ کے بعد غنودگی دُور ہو جاتی ہے اور وہ فقرے یا تو قرآن شریف کی بعض آیات ہوتی ہیں یا اُن کے مشابہ ہوتے ہیں اور اکثر علومِ غیبیہ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان میں ایک شوکت ہوتی ہے اور دل پر اثر کرتے ہیں اور ایک لذت محسوس ہوتی ہے۔ اس وقت دل نور میں غرق ہوتا ہے گویا خدا اُس میں نازل ہے اور دراصل اس کو الہام نہیں کہنا چاہئے بلکہ یہ خدا کا کلام ہے۔’’
(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ314حاشیہ)
‘‘جو کچھ ہمارے تجربہ میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ اول دل پر اس کی سخت ضرب محسوس ہوتی ہے اور اس ضرب کے ساتھ ایک گونج پیدا ہوتی ہے اور پھر پھول کی طرح وہ شگفتہ ہو جاتا ہے۔ اور اس سے پاک اور لذیذ کلام نکلتا ہے اور وہ کلام اکثر امور غیبیہ پرمشتمل ہوتا ہے اور اپنے اندر ایک شوکت اور طاقت اور تاثیر رکھتا ہے اور ایک آہنی میخ کی طرح دل میں دھنس جاتا ہے اور خدا کی خوشبو اس سے آتی ہے۔’’
(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ315 حاشیہ)
‘‘…جب باری تعالیٰ کا ارادہ اس طرف متوجہ ہوتا ہے کہ اپنا کلام اپنے کسی ملہم کے دل تک پہنچا وے تو اس کی اس متکلمانہ حرکت سے معاً جبریلی نور میں القا کے لئے ایک روشنی کی موج یا ہوا کی موج یا ملہم کی تحریک لسان کے لئے ایک حرارت کی موج پیدا ہو جاتی ہے اور اس تموج یا اُس حرارت سے بلاتوقف وہ کلام ملہم کی آنکھوں کے سامنے لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے یا کانوں تک اس کی آواز پہنچتی ہے یا زبان پر وہ الہامی الفاظ جاری ہوتے ہیں۔’’
(توضیح مرام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 93)
طاقت، برکت اور کشش
‘‘…یہی سنت اور قانون قدرت ہے کہ خدا کا کلام مع الفاظ دل پر نازل ہوتا ہے اور زبان پر جاری ہوتا ہے۔ وہ صرف مفہوم نہیں ہوتا بلکہ اُس کے ساتھ لفظ بھی ہوتے ہیں اور جیسا کہ خدا کا فعل بے نظیر ہے ایسا ہی وہ خدا کا کلام بھی بےمثل ہوتا ہے اس طرح پر کہ نہایت درجہ کی بلاغت فصاحت کے ساتھ امور غیبیہ سے بھرا ہوتا ہے۔ اور اس کے اندر ایک طاقت اور برکت اور کشش ہوتی ہے جو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اور ایک نور ہوتا ہے جو تاریکی کو دُور کرتا ہے اور پیروی کرنے والے کو اس نور سے منور کرتا ہے اور اُس کو خدا سے نزدیک کر دیتا ہے…’’
(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 93)
سوال جواب کا سلسلہ
‘‘جب ایک صادق انسان جس کا درحقیقت خدا تعالیٰ سے محبت اور وفا کا تعلق ہے اپنے اس جوش تعلق میں اپنے رب کریم سے کسی حاجت کے متعلق کوئی سوال کرتا ہے تو ایسا ہوتا ہے کہ وہ ابھی اسی دعا میں مشغول ہوتاہے کہ ناگاہ ایک غنودگی اس پر طاری ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی آنکھ کھل جاتی ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اس سوال کاجواب اس غنودگی کے پردہ میں نہایت فصیح بلیغ الفاظ میں اس کو مل جاتا ہے وہ الفاظ اپنے اندر ایک شوکت اورلذت رکھتے ہیں اور ان میں الوہیت کی طاقت اورقوت چمکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور میخ آہنی کی طرح دل کے اندر دھنس جاتے ہیں اور وہ الہامات اکثر غیب پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک سوال کے بعد وہ صادق بندہ اسی پہلے سوال کے متعلق کچھ اورعرض کرنا چاہتا ہے یا کوئی نیا سوال کرتا ہے تو پھر غنودگی اس پر طاری ہو جاتی ہے اور ایک سیکنڈ تک یا اس سے بھی کمتر حالت میں وہ غنودگی کھل جاتی ہے اور اس میں سے پھر ایک پاک کلام نکلتا ہے جیسے ایک میوہ کے غلاف میں سے اس کا مغز نکلتا ہے جو نہایت لذیذ اور پرشوکت ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ خدا جو نہایت کریم اور رحیم اور اخلاق میں سب سے بڑھا ہوا ہے ہر ایک سوال کا جواب دیتا ہے اور جواب دینے میں نفرت اور بیزاری ظاہر نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ اگر ساٹھ۶۰ یا ستر۷۰ یا سو ۱۰۰دفعہ سوال کیا جائے تو اس کا جواب اسی صورت اور اسی پیرایہ میں دیتا ہے یعنی ہر ایک سوال کے وقت ایک خفیف سی غنودگی وارد حال ہو جاتی ہے اور کبھی ایک بھاری غنودگی اور ربودگی طاری حال ہو جاتی ہے کہ گویا انسان ایک غشی کی حالت میں پڑ گیا ہے اور اکثر عظیم الشان امور میں اس قسم کی وحی ہوتی ہے اور یہ وحی کی تمام قسموں میں سے برتر و اعلیٰ ہے۔ پس ایسے حالات میں جو سوال اور دعا کے وقت لحظہ لحظہ پر غنودگی طاری ہوتی ہے اور اس غنودگی کے پردہ میں وحی الٰہی نازل ہوتی ہے یہ طرز غنودگی اسباب مادیہ سے برتر ہے اور جو کچھ طبعی والوں نے خواب کے متعلق قانون قدرت سمجھ رکھا ہے اس کو پاش پاش کرتی ہے ایسا ہی صدہا روحانی امور ہیں جو ظاہری فلسفہ والوں کے خیالات کو نہایت ذلیل ثابت کرتے ہیں بسا اوقات انسان کشفی رنگ میں کئی ہزار کوس کی دور چیزوں کو ایسے طور سے دیکھ لیتا ہے کہ گویا وہ اس کی آنکھ کے سامنے ہیں اور بسا اوقات ان روحوں سے جو فوت ہوچکے ہیں عین بیداری میں ملاقات کرتا ہے۔ …’’
(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ111تا112)
تیرا ہے جو ہے میرا
‘‘مجھے اس اللہ جل شانہ ٔکی قسم ہے کہ یہ بات واقعی صحیح ہے کہ وحی آسمان سے دل پر ایسی گرتی ہے جیسے کہ آفتاب کی شعاع دیوار پر۔ میں ہر روز دیکھتا ہوں کہ جب مکالمۂ الٰہیہ کا وقت آتا ہے تو اوّل یک دفعہ مجھ پر ایک ربودگی طاری ہوتی ہے تب میں ایک تبدیل یافتہ چیز کی مانند ہو جاتا ہوں اور میری حس اور میرا ادراک اور ہوش گوبگفتن باقی ہوتا ہے۔ مگر اس وقت میں پاتا ہوں کہ گویا ایک وجود شدید الطاقت نے میرے تمام وجود کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے اور اُس وقت احساس کرتا ہوں کہ میری ہستی کی تمام رگیں اُس کے ہاتھ میں ہیں اور جو کچھ میرا ہے اب وہ میرا نہیں بلکہ اُس کا ہے جب یہ حالت ہو جاتی ہے تو اُس وقت سب سے پہلے خدا تعالیٰ دل کے اُن خیالات کو میری نظر کے سامنے پیش کرتا ہے جن پر اپنے کلام کی شعاع ڈالنا اس کو منظور ہوتا ہے تب ایک عجیب کیفیت سے وہ خیالات یکے بعد دیگرے نظر کے سامنے آتے ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک خیال مثلاً زید کی نسبت دل میں آیا کہ وہ فلاں مرض سے صحت یاب ہوگا یا نہ ہوگا تو جھٹ اُس پر ایک ٹکڑا کلام الٰہی کا ایک شعاع کی طرح گرتا ہے اور بسا اوقات اُس کے گرنے کے ساتھ تمام بدن ہل جاتا ہے۔ پھر وہ مقدمہ طے ہوکر دوسرا خیال سامنے آتا ہے۔ ادھر وہ خیال نظر کے سامنے کھڑا ہوا اور ادھر ساتھ ہی ایک ٹکڑا الہام کا اُس پر گرا جیسا کہ ایک تیر انداز ہریک شکار کے نکلنے پر تیر مارتا جاتا ہے اور عین اُس وقت میں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ خیالات کا ہمارے ملکۂ فطرت سے پیدا ہوتا ہے اور کلام جو اُس پر گرتا ہے وہ اوپر سے نازل ہوتا ہے۔’’
(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 22حاشیہ)
ملائکہ کو دیکھتا ہوں
‘‘میں نے دیکھا ہے کہ وحی کے وقت جو برنگِ وحی ولایت میرے پر نازل ہوتی ہے۔ ایک خارجی اور شدید الاثر تصرف کا احساس ہوتا ہے۔ اور بعض دفعہ یہ تصرف ایسا قوی ہوتا ہے کہ مجھ کو اپنے انوار میں ایسا دبا لیتا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں اُس کی طرف ایسا کھینچا گیا ہوں کہ میری کوئی قوت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس تصرف میں کھلا اور روشن کلام سنتا ہوں۔ بعض وقت ملائکہ کو دیکھتا ہوں (صرف اتنا ہی نہیں کہ ملائک بعض وقت نظر آتے ہیں بلکہ بسا اوقات ملائک کلام میں اپنا واسطہ ہوناظاہر کر دیتے ہیں -نوٹ از حاشیہ) اور سچائی میں جو اثر اور ہیبت ہوتی ہے مشاہدہ کرتا ہوں اور وہ کلام بسا اوقات غیب کی باتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور ایسا تصرف اور اخذ خارجی ہوتا ہے جس سے خدا تعالیٰ کا ثبوت ملتا ہے۔’’
(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 26)
الہام سے خدا کا دیدار
‘‘اسلام سے ہمارے نفسانی جذبات کو موت آتی ہے اور پھر دعا سے ہم ازسرِ نو زندہ ہوتے ہیں۔ اس دوسری زندگی کیلئے الہام الٰہی ہونا ضروری ہے اسی مرتبہ پر پہنچنے کا نام لقائے الٰہی ہے یعنی خدا کا دیدار اور خدا کا درشن ہے۔ اس درجہ پر پہنچ کر انسان کو خدا سے وہ اتصال ہوتا ہے کہ گویا وہ اس کو آنکھ سے دیکھتا ہے اور اس کو قوت دی جاتی ہے اور اس کے تمام حواس اورتمام اندرونی قوتیں روشن کی جاتی ہیں اور پاک زندگی کی کشش بڑے زور سے شروع ہو جاتی ہے۔ اسی درجہ پر آکر خدا انسان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اور زبان ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ بولتا ہے اور ہاتھ ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ حملہ کرتا ہے اور کان ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ سنتا ہے اور پیر ہو جاتا ہے جس کے ساتھ وہ چلتا ہے۔’’
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ 394تا395)
کہتا ہے یہ تو بندۂ عالی جناب ہے
مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے
(درثمین)
‘‘خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہاکہ…
خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کےساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ میں تجھے اُٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلاؤں گا پر تیرا نام صفحہ ٔزمین سے کبھی نہیں اُٹھے گا اور ایسا ہوگا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں۔ وہ خودناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس و اموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت بخشوں گا اوروہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تابروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا اور وہ علی حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسے انبیاء بنی اسرائیل (یعنی ظلی طور پر اُن سے مشابہت رکھتا ہے) تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید۔ تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں۔ اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا۔ یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔’’
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ 647تا648)
ہے غضب کہتے ہیں اب وحیٔ خدا مفقود ہے
اب قیامت تک ہے اس امت کا قصوں پر مدار
یہ عقیدہ برخلافِ گفتۂ دادار ہے
پر اتارے کون برسوں کا گلے سے اپنے ہار
وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم
اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار
گوہر وحیٔ خدا کیوں توڑتا ہے ہوش کر
اک یہی دیں کے لئے ہے جائے عِز و افتخار
یہ وہ گل ہے جس کا ثانی باغ میں کوئی نہیں
یہ وہ خوشبو ہے کہ قرباں اس پہ ہو مشکِ تتار
یہ وہ ہے مفتاح جس سے آسماں کے در کھلیں
یہ وہ آئینہ ہے جس سے دیکھ لیں روئے نگار
بس یہی ہتھیار ہے جس سے ہماری فتح ہے
بس یہی اِک قصر ہے جو عافیت کا ہے حصار
ہے خدادانی کا آلہ بھی یہی اسلام میں
محض قصوں سے نہ ہو کوئی بشر طوفاں سے پار
ہے یہی وحیٔ خدا عرفانِ مولیٰ کا نشاں
جس کو یہ کامل ملے اُس کو ملے وہ دوستدار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزئن جلد21صفحہ137)
٭…٭…٭