لوگوں کی بداعتقادیوں اور بدعملیوں نے خدا کے عذاب کو بھڑکا دیا ہے
آنے والے سخت ایام
یہ باتیں جو مَیں کہہ رہا ہوں مَیں نہیں جانتا کہ تم میں سے کتنے آدمی ہیں جوسچے دل سے ان باتوں کو مانتے ہیں۔ مگر مَیں پھر بھی وہی کہتاہوں کہ یہ دن جو آنے والے ہیں تویہ نہایت سخت ہیں۔ لوگوں کی بداعتقادیوں اور بدعملیوں نے خدا کے عذاب کو بھڑکا دیاہے۔ تمام نبیوں نے اس زمانہ کی نسبت پہلے ہی سے خبر دے رکھی ہے کہ ا س وقت ایک مری پڑے گی اور کثرت سے اموات ہوں گی۔
اور پھر حدیثوں میں لکھاہے کہ جہاں تک خدا کے مسیح کی نظر پہنچ سکے گی کافر تباہ اور ہلاک ہو تے جائیں گے۔ یہ بھی بالکل سچی بات ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس پر اس کی نظر پڑے گی وہی تباہ ہوتاجائے گا بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ جو اس کی نظر میں نشانہ بنیں گے وہ تباہ اور ہلاک ہوتے جائیں گے۔ لیکن اب تو تمام دنیا نشانہ بن رہی ہے۔ خدا تعالیٰ تو فرماتاہے
وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57)۔
یعنی تمام جنّ اور انسان صرف اسی واسطے پیدا کئے گئے تھے کہ وہ خدا تعالیٰ کی معرفت میں ترقی کرتے اور اللہ اورا س کے رسول کے حکموں پرچلتے۔
دنیوی مشاغل میں انہماک
مگر اب تم خود سوچ لو کہ کتنے لوگ ہیں جو دینداری سے زندگی بسر کر رہے اور دین کو دنیا پر مقدم کررہے ہیں۔ تم خود کسی بڑے شہر مثلاً کلکتہ، دہلی، پشاور اور لاہور، ا مرتسر وغیرہ کے چوک میں کھڑے ہو کردیکھ لو۔ ہزاروں لاکھوں لوگ اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِ دھر دوڑتے پھرتے ہیں مگر اُن کی یہ سب دوڑ دھوپ محض دنیا کے لئے ہوتی ہے۔ آپ کو بہت تھوڑے ایسے ملیں گے جو دین کے کام میں ایسی سرگرمی سے مشغول ہوں۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کی خاطر بڑے بڑے مصائب کا مقابلہ کرتے ہیں مگر دین میں نہایت بودے پائے جاتے ہیں۔ ایک ذرا سے ابتلا ء پر جھوٹ جیسی نجاست کو کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور اپنی نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے کن کن حیلوں سے کام لیتے ہیں کہ گویا خدا ہی نہیں۔
انسان جتنی ٹکّریں اپنی بیوی کو خوش کرنے اور اس کی ضروریات او رخواہشات کو پورا کرنے کے لئے مارتاہے اگر خدا کی راہ میں اتنی کوشش کرے توکیاوہ خوش نہ ہوگا؟ ہوگا اور ضرور ہوگا۔ مگر کوئی کوشش کرکے بھی دیکھے۔ اگر ایک کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تو محض ایک بچہ کی خاطر وہ کیسی کیسی سختیاں جھیلتا ہے اور کس طرح کے وسائل اور تدابیر سے اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے اور کہاں کا کہاں خوار ہوتا پھرتاہے گویا خدا اس کے نزدیک ہے ہی نہیں۔
غرض یاد رکھنا چاہئے کہ انسان جب اپنی زندگی کی اصل غرض سے غافل ہوجاتا ہے تو پھر وہ اس قسم کے دھندوں اور بکھیڑوں میں سرگردان اور مارا مارا پھرتاہے۔ انسا ن کوچاہئے کہ جتنی جلدی اُس سے ہوسکے خدا سے اپنا تعلق قائم کرے۔ جب تک اس کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا تب تک کچھ بھی نہیں۔ ایک حدیث میں آیاہے کہ اگر انسان آہستہ آہستہ خدا کی طرف جاتاہے تو خداجلدی سے اس کی طرف آتاہے اوراگرانسان جلدی سے اس کی راہ میں ترقی کرتاہے توخدا دوڑ کر اس کی طرف آتاہے۔ لیکن اگر بندہ خدا سے لاپروا بن جائے اور غفلت اور سُستی سے کا م لے پھراس کا نتیجہ بھی ویسا ہی ہوتاہے۔
ذوالقرنین سے مراد مسیح موعودؑ ہے
ایک دفعہ سورۂ کہف جس میں ذوالقرنین کا بھی ذکر ہے[بدر میں ہے: ’’میں نے ایک مرتبہ ذوالقرنین کا حال قرآن مجید میں دیکھا تھا۔ تدبر سے معلوم ہوا کہ جو کچھ اس میں ہے وہ در اصل اسی زمانہ کے لیے بطور پیشگوئی ہے۔‘‘(بدر جلد 7 نمبر 1 صفحہ 11 مورخہ 9 جنوری 1908ء)]، مَیں دیکھ رہا تھاتو جب مَیں نے اس قصّہ کو غور سے پڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس میں بعینہ اسی زمانہ کا حال درج ہے۔ جیسے لکھاہے کہ جب اس نے سفر کیا توایسی جگہ پہنچا جہاں کہ اُسے معلوم ہوا کہ سورج کیچڑ میں ڈوب گیاہے اور یہ اس کا مغربی سفر تھا۔ اور اس کے بعدپھر وہ ایسے لوگوں کے پاس پہنچتاہے جو دھوپ میں ہیں اور جن پر کوئی سایہ نہیں۔ پھر ایک تیسری قوم اُسے ملتی ہے جو یاجوج ماجوج کے حالات بیان کرکے اس سے حمایت طلب کرتی ہے۔ اب مثالی طورپر تو خدا تعالیٰ نے یہی بیان کیاہے لیکن ذوالقرنین تو اس کو بھی کہتے ہیں جس نے دوصدیاں پائی ہوں اورہم نے د و صدیوں کو اس قدر لیا ہے کہ اعتراض کا موقعہ ہی نہیں رہتا۔ مَیں نے ہر صدی پر دو صدیوں سے حصہ لیاہے۔ تم حساب کر کے دیکھ لو۔ اور یہ جو قرآ ن میں قصص پائے جاتے ہیں تو یہ صرف قصّہ کہانیاں نہیں بلکہ یہ عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں۔ جو شخص ان کو صرف قصّے کہانیاں سمجھتاہے وہ مسلمان نہیں۔ غرض اس حساب سے تومجھے بھی ذوالقرنین ماننا پڑے گا اور ائمہ دین میں سے بھی ایک نے ذوالقرنین سے مسیح مراد لیاہے۔ اب خدا تعالیٰ نے اس قصّہ میں مغربی اور مشرقی دو قوموں کا ذکر کیاہے۔ مغربی قوم سے مراد تو وہ لوگ ہیں جن کوانجیل اور دیگر صحیفہ جات کا صاف شفاف پانی دیا گیاتھا مگر وہ روشن تعلیم انہوں نے ضائع کردی اور اپنے پاس کیچڑ اور گند باقی رہنے دیا۔ اورمشرقی قوم سے و ہ مسلمان لوگ مراد ہیں جوامام کے سایہ کے نیچے نہیں آئے [بدر میں ہے: ’’وہ قرآن مجید سے کچھ فائدہ اٹھانا نہیں جانتے بلکہ جاہلیت میں مر رہے ہیں۔ چنانچہ فرمایا
مَنْ مَّاتَ وَ لَمْ یَعْرِف اِمَامَ زَمَانِہٖ فَقَدْ مَاتَ مِیْتَۃً جَاہِلِیَّۃً۔
(بدر جلد 7 نمبر 1 صفحہ 12 مورخہ 9 جنوری 1908ء)]اوردھوپ کی شعاعوں سے جھُلسے جارہے ہیں۔ لیکن ہماری جماعت بہت خوش نصیب ہے [بدر میں ہے: ’’تیسری ہماری قوم جو بڑی خوش نصیب ہے یہ امام کے سایہ میں آ گئے اور چاہا کہ یاجوج ماجوج کے آگے انہیں سَدّ بنا دی جائے۔‘‘ (بدر جلد 7 نمبر1صفحہ 12 مورخہ 9 ؍جنوری 1908ء)]اس کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے اپنے فضل سے ہدایت عطا فرمائی لیکن یہ ابھی ابتدائی حالت ہے۔
(ملفوظات جلد 5صفحہ 405-407۔ ایڈیشن 2003ء)