فضائل القرآن (2) (قسط سوم)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
نفع کے لحاظ سے فضیلت
اٹھارھویں۔ کسی چیز کی فضیلت معلوم کرنے کے لئے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس کا استعمال کس قدر ذمہ واریاں ڈالتا ہے اور اس کے مقابلہ میں نفع کس قدر ہے۔ میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے کیونکہ اس کے لینے میں خرچ کم ہوتا ہے اور نفع زیادہ۔
ہر قسم کے نقصان سے مبرا ہونے کے لحاظ سے فضیلت
انیسویں۔ اس لئے بھی ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دے دی جاتی ہے کہ اس کے استعمال سے نقصان تو نہیں ہوتا۔ جب نقصان نہیں ہوتا تو اسے استعمال کر لیا جاتا ہے۔ مثلاً دو دوائیاں ہیں جن میں سے ایک تھوڑے نفع والی ہے مگر کوئی نقصان اس سے پہنچنے کا خدشہ نہیں ہے تو اسے ہم استعمال کر لیتے ہیں اور زیادہ نفع دینے والی جس کے استعمال سے نقصان کا بھی خطرہ ہو اسے استعمال نہیں کرتے۔ اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کی فضیلت کا ثبوت ملتا ہے۔
دعوتِ عام کے لحاظ سے فضلیت
بیسویں۔ کسی چیز کو فضیلت اس وجہ سے بھی دی جاتی ہے کہ وہ اپنی چیز ہوتی ہے۔ جب میں نے قرآن کریم کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ صرف قرآن ہی اپنا تھا۔ باقی سب کتب میں مجھے غیریت نظر آئی۔ قرآن کریم کو میں نے ایک ہندو کی نظر سے بھی دیکھا اور ایک عیسائی کی نظر سے بھی۔ ایک پارسی کی نظر سے بھی اور ایک بُدھ کی نظر سے بھی۔ پھر کبھی میں سید بن کر اس کے پاس گیا کبھی مغل بن کر، کبھی شیخ بن کر کبھی راجپوت بن کر، کبھی عالم کے رنگ میں اور کبھی جاہل کے رنگ میں۔ مگر ہر دفعہ اس نے یہی کہا کہ آئو تم میرے ہو اور میں تمہارا ہوں۔ لیکن دوسری کتب کے پاس جس حالت میں بھی میں گیا۔ انہوں نے مجھے دھتکارا اور اپنے پاس تک پھٹکنے نہ دیا۔
علاجُ الامراض کے لحاظ سے فضیلت
اکیسویں۔ کسی چیز کو اس لحاظ سے بھی ہم فضیلت دیا کرتے ہیں کہ وہ ان بیماریوں کا علاج ہو جو ہم میں پائی جاتی ہیں۔ میں نے جب دیکھا تو قرآن کریم میں مجھے یہ بھی فضیلت نظر آئی۔
زائد فوائد کے لحاظ سے فضیلت
بائیسویں۔ ایک چیز کو دوسری پر ہم اس لئے بھی مقدم کیا کرتے ہیں کہ اس سے ہمیں زائد فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اس لحاظ سے بھی قرآن کریم دوسری کتب سے افضل ہے۔
مطمح نظر کی وسعت کے لحاظ سے فضیلت
تئیسویں۔ مذہب کی افضلیت کی ایک علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ ترقیات کی امید پیدا کرکے انسان کا مطمح نظر وسیع کرے۔ اپنے پیروئوں کی ہمت بڑھائے۔ ان میں مایوسی اور ناامیدی نہ آنے دے اور ان کی امنگوں کو قائم رکھے۔ میں نے دیکھا کہ اسلام اعلیٰ سے اعلیٰ ترقیات اور تعلق باللہ کا دروازہ ہمارے لئے کھولتا ہے اور اس طرح ہماری امید کو نہ صرف قائم رکھتا ہے بلکہ اسے وسیع کر کے ہماری ہمت کو بڑھاتا ہے۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ انسانی ترقی اس کے مستقبل کے خواب میں ہی پوشیدہ ہوتی ہے۔ پس اس لحاظ سے بھی مجھے قرآن کریم ہی افضل نظر آیا۔
دوسری کتب سے مستغنی کرنے کے لحاظ سے افضلیت
چوبیسویں۔ اس لحاظ سے بھی کسی چیز کو دوسری چیزوں سے افضل قرار دیا جاتا ہے کہ وہ کس حد تک دوسری اشیاء کی ضرورت سے مستغنی کر دیتی ہے۔ ایسی چیز کی لوگ زیادہ قدر کرتے ہیں کیونکہ انہیں دوسری چیزوں کی فکر نہیں کرنی پڑتی۔ میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے۔
صحیح علوم کی طرف راہنمائی کرنے کے لحاظ سے فضیلت
پچیسویں۔ کسی چیز کی افضلیت کا ایک یہ بھی باعث ہوتا ہے کہ وہ صحیح علوم کی طرف لوگوں کی راہنمائی کرتی اور انہیں لغو امور میں حصہ لینے سے بچاتی ہے۔ کتاب الہی چونکہ معلم ہوتی ہے اس لئے اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کی توجہ صحیح طرف لگائے۔ انہیں لغویات سے روکے اور صحیح علوم کی طرف ان کی راہنمائی کرے۔ میں نے دیکھا کہ قرآن کریم اس لحاظ سے بھی افضل ہے۔
اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لحاظ سے فضیلت
چھبیسویں۔ اس امر کے لحاظ سے بھی ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت حاصل ہوتی ہے کہ وہ کس حد تک اس ضرورت کو پورا کرتی ہے جس کے لئے اسے حاصل کیا گیا تھا۔ اگر ایک چیز اپنی ضرورت کو پورا نہیں کرتی تو لازماً اس دوسری چیز کو ترجیح دی جائے گی جو اس ضرورت کو پورا کر سکتی ہو۔ میں نے دیکھا کہ اس پہلو کے لحاظ سے بھی قرآن کریم کو دوسری کتب پر فضیلت حاصل ہے۔
غرض غور کرتے وقت مجھے فضیلت کی یہ چھبیس وجوہات نظر آئیں۔ گو جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں ممکن ہے کہ اور بھی کئی باتیں غور کرنے سے نکل آئیں۔ بہرحال جب میں نے ان پر قرآن کریم کو پرکھا تو اسے ہر بات میں دوسری کتب سے افضل پایا۔
قرآن کریم کا دعویٰ اور افضلیت
مگر پیشتر اس کے کہ ان امور پر تفصیلی بحث کی جائے سب سے پہلا سوال جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا قرآن کریم نے خود بھی دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کیا ہے یا نہیں کہ وہ تمام کتب الہیہ سے افضل ہے۔ اگر قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہو تو پھر تو اس کی افضیلت اور برتری کے وجوہ پر بھی بحث کی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر اس کا یہ دعویٰ ہی نہ ہو تو اس کی افضلیت کے وجوہ پیش کرنا ’’مدعی سست اور گواہ چست ‘‘والی بات بن جاتی ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے اپنی افضلیت کا بڑے واضح الفاظ میں دعویٰ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے۔
اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ ٭ۖ تَقۡشَعِرُّ مِنۡہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ(الزمر:24)
یعنی اللہ تعالیٰ نے نہایت زور، طاقت اور قوت کے ساتھ اس کتاب کو اتارا ہے جو اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ ہے۔ یعنی ساری الہامی کتابوں سے افضل ہے۔ یہ کس طرح کہا گیا کہ ساری الہامی کتابوں سے افضل ہے۔ اول اس لئے کہ جب قرآن خدا تعالیٰ کی کتاب ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ دوسرے انسانوں کی کتابوں سے افضل ہے۔ اعتراض کے موقع پر تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلاں کتاب الہامی نہیں بلکہ انسانی دست برد کی آماجگاہ بن چکی ہے لیکن اصولی طور پر ان کو انسانی کتب قرار دے کر قرآن کو ان کے مقابلہ میں لانا بے وقوفی ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہوگی جیسے ایک پہلوان کہے کہ دیکھو میں فلاں بچہ سے طاقت ور ہوں۔ ہاں اگر بچہ پہلوان کو آ کر کہے کہ میں تمہیں گرا دوں گا آئو تم میرا مقابلہ کر لو تو پہلوان اسے بیشک کہہ سکتا ہے کہ جا چلا جا ورنہ تو میرے ایک ہی تھپڑ سے مر جائے گا۔
اس آیت میں حدیث کا لفظ جو استعمال کیا گیا ہے یہ پہلی الہامی کتابوں کے متعلق ہے۔ اور قرآن کریم کے دوسرے مقامات میں انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ایک مقام پر فرماتا ہے۔
فَذَرۡنِیۡ وَ مَنۡ یُّکَذِّبُ بِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ(القلم :45)
یعنی تو مجھے اور اس کو جو اس کتاب کو جھٹلاتا ہے چھوڑ دے۔ اسی طرح فرماتا ہے
وَ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ ذِکۡرٍ مِّنَ الرَّحۡمٰنِ مُحۡدَثٍ اِلَّا کَانُوۡا عَنۡہُ مُعۡرِضِیۡنَ (الشعراء:6)
یعنی رحمٰن خدا کی طرف سے کبھی کوئی نیا ذکر نہیں آتا کہ جس سے لوگ اعراض نہ کرتے ہوں۔ چونکہ انبیاء کا کلام ضرور کسی نئی شے کو لے کر آتا ہے۔ یعنی وہ حسب ضرورت آتا ہے خواہ شریعت لائے خواہ فہم لائے،خواہ ایمان کی تجدید کے سامان لائے، اس لئے اسے حدیث کہتے ہیں اور قرآن کریم اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ ہے یعنی جنس حدیث میں یا دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ کلام الہی میں سب سے افضل ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہےاَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰبًا۔ یہ کتاب جو نازل کی گئی ہے ان تمام کتابوں سے جو اس سے پہلے نازل ہوئیں بڑھی ہوئی ہے۔ پس قرآن کریم سے ہمیں اس کی افضلیت کا دعویٰ ملتا ہے۔
پھر قرآن کریم کی افضلیت کا دعویٰ اس آیت میں بھی موجود ہے کہ
مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا ؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (البقرہ:107)
فرماتا ہے۔ ہم کوئی کلام الہی منسوخ نہیں کرتے یا فراموش نہیں کراتے جب تک کہ اس سے بہتر یا اس جیسا کلام نہ لائیں۔ یعنی جسے منسوخ کرتے ہیں اس سے بہتر لاتے ہیں اور جو بھول چکا ہوتا ہے مگر عمل کے قابل ہوتا ہے اسے ویسا ہی لے آتے ہیں۔اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ اے مخاطب! تجھے یہ کیوں عجیب بات معلوم ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے کر سکتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
تورات میں ایک نئی شریعت نازل ہونےکی پیشگوئی
جب قرآن کریم پہلی الہامی کتب کا ناسخ ہے تو ضروری تھا کہ وہ کچھ تعلیم تو ان تعلیموں سے بہتر لائے اور کچھ وہ لائے جو مٹ گئی ہو۔ جب میں نے اس پہلو سے غور کیا تو قرآن کریم کے اس دعویٰ کی تصدیق دوسری کتابوں سے بھی معلوم ہوئی۔ چنانچہ بائیبل میں آتا ہے۔
’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کرونگا اور اپنا کلام اس کے مونہہ میں ڈالوں گا۔ اور جو کچھ میں اسے فرمائونگا وہ سب ان سے کہے گا‘‘۔ (استثناء باب 18 آیت 18 برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لندن مطبوعہ 1887ء)
اس میں یہ خبر دی گئی تھی کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جب موسیٰ علیہ السلام جیسا نبی مبعوث ہوگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام چونکہ صاحب شریعت نبی تھے اس لئے ان جیسے نبی کے آنے کے لازماً یہ معنی تھے کہ وہ بھی صاحب شریعت ہوگا۔ پھر جب وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے گا تو معلوم ہوا کہ جو کتاب وہ لائے گا اس میں بعض باتیں زائد بھی ہونگی جو بائیبل میں موجود نہ ہونگی، ورنہ نئی شریعت کے آنے کی کیا ضرورت تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت منسوخ کرنے میں کیا حکمت تھی۔ لیکن جب وہ منسوخ کی گئی تو ضروری تھا کہ آنیوالی شریعت اس سے افضل ہو۔ پس قرآن کریم کی افضلیت بائیبل کے اس حوالہ سے بھی ثابت ہے کیونکہ شریعت جدیدہ ناسخہ عقلاً شریعت منسوخہ سے حقیقی طور پر یا نسبتی طور پر افضل ہونی چاہئے۔
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭