الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقاپوریؓ
حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقاپوریؓ کے بارے میں اُن کے پوتے مکرم محمد سلیمان صاحب بقاپوری کا ایک مضمون روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 2؍مارچ 2013ء میں شائع ہوا ہے۔
حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقاپوریؓ 1873ء میں حافظ آباد کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ چند سال سرکاری مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ اپنے آبائی گاؤں بقاپور (ضلع گوجرانوالہ)میں آکر قرآن اور فارسی سیکھتے رہے۔ مزید تعلیم لاہور اور لدھیانہ میں بھی حاصل کی۔ 1891ء میں پہلی بار لدھیانہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت سے مشرف ہوئے اور حضورؑ کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ پھر قادیان بھی آنا جانا ہوتا رہا جہاں آپ کے پرانے دوست حضرت یعقوب علی عرفانیؓ اور حضرت مولانا سیّد سرور شاہ صاحبؓ بھی مقیم تھے۔ باقاعدہ بیعت 1905ء میں کی جب حضرت اقدسؑ نے چارپائی پر اپنے ساتھ بٹھاکر دستی بیعت لی۔
بیعت کے وقت آپ اپنےننہیال کے گاؤں میں امام مسجد کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ آپؓ کے احمدیت قبول کرنے کے بعد سخت مخالفت شروع ہوگئی تو آپؓ خود ہی امامت سے دستبردار ہوگئے۔ آپؓ کا خسر جو آپؓ کا ماموں بھی تھااُس نے گھر سے نکال دیا۔ بھرپور مخالفت کے باوجود آپؓ نے تبلیغ جاری رکھی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا جو ایمان میں مضبوطی کا باعث بنا۔ بالآخر ماموں نے گاؤں سے نکل جانے پر مجبور کردیا تو آپؓ اپنے آبائی گاؤں بقاپور آگئے۔
تبلیغ کے نتیجے میں بقاپور میں بھی آپؓ کی سخت مخالفت شروع ہوگئی۔ والد اور بھائی بھی مخالف ہوگئے اور اکثر بُرابھلا کہنے لگے۔ البتہ والدہ نے بیٹے کی نیکی اور عبادت میں بڑھتے ہوئے شغف کو دیکھ کر آپؓ کا ساتھ دیا۔ وہ کہا کرتیں کہ امام مہدی تو ہدایت یافتہ لوگوں کا امام ہے اور اُن کو ماننے سے تو میرے بیٹے کو زیادہ ہدایت نصیب ہوئی ہے۔ پھر والدہ نے بیعت کا خط لکھنے کے لیے کہہ دیا۔ کچھ عرصے بعد والد، چھوٹا بھائی اور دونوں بھاوجوں نے بھی بیعت کرلی۔ بڑے بھائی نے خلافتِ اولیٰ میں بیعت کی۔
1908ء تک آپؓ بقاپور میں دعوت الی اللہ میں مصروف رہے۔ یہ دن سخت مالی اور بدنی ابتلاؤں کے دن تھے اور فاقہ کشی تک نوبت جاپہنچی۔دسمبر 1908ء میں آپؓ کی بیوی فوت ہوگئیں۔آپؓ جلسہ سالانہ میں حاضر ہوئے اور حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی خدمت میں دوسرے نکاح کے لیے دعا کی درخواست کی۔ حضورؓ نے دعا کا وعدہ فرمایا اور جب آپؓ رخصت ہونے لگے تو حضورؓ نے فرمایا کہ مَیں نے آپ کے نکاح کے متعلق دعا کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتلایا ہے کہ دعا قبول کرلی گئی ہے۔
چند ماہ بعد آپؓ کو رؤیا میں ایک لڑکی دکھائی گئی۔ اس رؤیا کا ذکر جب آپؓ نے اپنے چچا سے کیا تو انہوں نے اس شکل و شباہت والی ایک لڑکی کی نشاندہی کی جو ضلع سرگودھا کے گاؤں 98شمالی کے امام الصلوٰۃ میاں غلام حسین قریشی صاحب کی بیٹی تھی۔ قریشی صاحب نے رشتے کی منظوری کے لیے کچھ شرائط پیش کیں۔ خداتعالیٰ کی حکمت کے تحت احمدیوں کا مخالفین سے ایک مباحثہ درپیش تھا اور مولوی بقاپوری صاحبؓ بھی احمدیوں کی نمائندگی کررہے تھے۔ مخالف مولوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر پر جو ایک حدیث کے بارے میں تھی ایک اعتراض کیا۔ مولانا نے صرفی نحوی قواعد کے ماتحت ایسا جواب دیا کہ مخالف مولوی شکست کھاگیا اور احمدیت کی فتح ہوئی۔ اگلے روز قریشی صاحب نے اپنی پیش کردہ شرائط کو خود ہی نظرانداز کرتے ہوئے رشتہ منظور کرلیا۔ اس کے علاوہ وہاں کے احمدیوں پر مولانا کی قابلیت کا ایسا گہرا اثر تھا کہ اُنہوں نے آپؓ سے دو سال وہاں ٹھہرنے پر اصرار کیا چنانچہ آپؓ کو 1909ء سے 1914ء تک اس علاقے میں خوب دعوت الی اللہ کرنے اور کئی جماعتیں قائم کرنے کی توفیق ملی۔
1914ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے آپؓ کو قادیان بلاکر نظارت دعوت الی اللہ کے تحت باقاعدہ کام کرنے کی ہدایت فرمائی۔ آپؓ نے کہا کہ مَیں تو پہلے ہی تبلیغ کا کام بغیر کسی معاوضے کے کررہا ہوں۔ لیکن حضورؓ نے باقاعدہ انجمن کے تحت کام کرنے کی ہدایت فرمائی اور گزارہ الاؤنس بھی جاری فرمادیا۔ حضورؓ نے 1936ءکی مجلس مشاورت میں فرمایا: ’’حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادی، مولوی غلام رسول صاحب راجیکی، مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری۔ انہوں نے ایسے وقتوں میں کام کیا جبکہ ان کی کوئی مدد نہ کی جاتی تھی اور اس کام کی وجہ سے ان کی کوئی آمد نہ تھی۔ اس طرح انہوں نے قربانی کا عملی ثبوت پیش کرکے بتادیا کہ وہ دین کی خدمت بغیر کسی معاوضے کے کرسکتے ہیں۔‘‘
1938ء تک آپ مختلف مقامات پر خدمت بجالاتے رہے جن میں سندھ، امرتسر، راولپنڈی اور سرگودھا نمایاں ہیں۔ 1923ء سے 1928ء تک آپ امیرالتبلیغ رہے جس کے دوران حضورؓ نے بیعت لینے کی بھی اجازت عطا فرمائی۔ آپؓ دورانِ تبلیغ جہاں بھی گئے فتح سے ہمکنار ہوئے۔ مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں، عیسائیوں اور آریوں سے بھی کامیاب مناظرے کیے، غیرمبائعین احمدیوں سے بھی کئی کامیاب مباحثات کیے۔
آپؓ نہایت سادہ اور بےتکلّف طبیعت کے مالک تھے۔ سندھ میں قیام کے دوران سندھی زبان پر بھی عبور حاصل کیا۔اُس وقت آریوں نے سندھ میں ارتداد کا جال بچھادیا تھا۔ ایک مرتبہ آپؓ کو علم ہوا کہ لاڑکانہ کے قریب ایک شہر کی سنجوگی قوم کو شدھ کیا جائے گا۔ آپؓ نے فوراً وہاں پہنچ کر رئیس کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن اُس نے کہا کہ ہم تو وعدہ کرچکے ہیں اور پرسوں سارا شہر ہندو بن جائے گا۔ اُس کے اصرار پر کہ وہ عہدوپیمان کو توڑنا جرم سمجھتے ہیں، آپؓ زار زار رونے لگے اور سمجھایا کہ ایمان سے بڑھ کر کونسا عہد ہے! یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی اور انہوں نے آریوںکو خط لکھا دیا کہ اُس کے شہر میں آنے کی زحمت نہ کریں۔
دورانِ فرائض اطاعت کا یہ عالم تھا کہ اپنی ایک لائق نوجوان بیٹی کی مرض الموت کے دوران آپؓ کراچی میں تھے اور گو آپؓ کو اُس کی حالت کی اطلاع ملتی رہی لیکن چونکہ تھوڑا عرصہ قبل ہی قادیان سے گئے تھے اس لیے واپسی کی درخواست دینے میں حجاب محسوس کرتے رہے۔ یہاں تک کہ ناظر تبلیغ کی طرف سے تار دے کر بلایا گیا۔
حضرت مولانا صاحبؓ بہت دعاگو اور صاحب کشف و الہام بزرگ تھے۔آپؓ کی زندگی قبولیت دعا کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ دوست خود آکر اور خطوط کے ذریعے حاجات بیان کرتے۔ آپؓ کی عادت تھی کہ اُسی وقت ہاتھ اٹھاکر دعا کرتے اور اکثر دعا کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع پاکر درخواست گزار کو جواب بھی دے دیتے۔ ایک دوست کی سرکاری ملازمت کے سلسلے میں دعا کے بعد 1959ء میں انہیں اطلاع دی کہ اُن کی تقرری پہلے پشاور میں ہوگی پھر ایک نئے شہر میں جس کے اطراف میں پہاڑیاں ہوں گی اور اس کے بعد کراچی میں۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ جس شہر کا نام مولانا نہ بتاسکے وہ اسلام آباد تھا جس کی بنیاد دعا کے چند سال بعد رکھی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ شہر مولانا صاحبؓ کو دکھادیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد آپؓ کچھ عرصہ ماڈل ٹاؤن میں اپنے بیٹے محمد اسحٰق بقاپوری صاحب کے ہاں مقیم رہے۔ ماڈل ٹاؤن کا پہلا مرکز نماز بھی آپؓ نے قائم کیا۔ بعد میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی اجازت سے ربوہ منتقل ہوگئے۔ 1950ء کی دہائی میں اپنی ایمان افروز خودنوشت ’’حیات بقاپوری‘‘ تحریر کرکے شائع کروائی۔
حضر ت مولانا صاحبؓ نے 1964ء میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپرد خاک ہوئے۔
………٭………٭………٭………
مکرم الحاج ڈاکٹر ملک عطاءاللہ خان صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 12؍مارچ 2013ء میں مکرم ڈاکٹر ملک نسیم اللہ خان صاحب نےاپنے والدمحترم الحاج ڈاکٹر ملک عطاءاللہ خان صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
مکرم ڈاکٹر ملک عطاءاللہ خان صاحب جنوری 1914ء میں پاکپتن میں پیدا ہوئے جہاں آپ کے والد حضرت ڈاکٹر نیازمحمد صاحبؓ سول ہسپتال میں تعینات تھے۔ حضرت ملک برکت علی صاحبؓ آپ کے دادا اور محترم ملک صلاح الدین صاحب مؤلف ’’اصحاب احمد‘‘ آپ کے بڑے بھائی تھے۔
پاکپتن میں چوتھی جماعت پاس کرنے کے بعد آپ قادیان چلے گئے اور چودہ سال کی عمر میں میٹرک وہیں سے پاس کیا۔ پھر میڈیکل سکول امرتسر سے L.S.M.F کرکے آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔ کچھ عرصے بعد انڈین آرمی میں بطور کیپٹن چلے گئے۔ بسلسلہ ملازمت دس ممالک میں مقیم رہے۔ قیام پاکستان کے بعد ملازمت ترک کرکے کنگ ایڈورڈ کالج لاہور سے M.B.B.S کیا۔ اُس وقت آپ پانچ بچوں کے باپ بن چکے تھے۔ پھر ایکسرے میں سپیشلائز کیا اس کے بعد سعودی عرب چلے گئے جہاں پندرہ سال بطور ریڈیالوجسٹ ملازم رہے۔ اس دوران سولہ مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔
………٭………٭………٭………
کیوبا (Cuba)
ماہنامہ’’تشحیذالاذہان‘‘ربوہ دسمبر 2012ء میں مکرم سلطان احمد نصیر صاحب کے قلم سےبحیرہ کریبین میں واقع چند جزائر پر مشتمل ایک ملک کیوبا کے بارے میں مختصر معلوماتی مضمون شامل ہے۔ جسے 1492ء میں کرسٹوفر کولمبس نے دریافت کیا اور بعدازاں اس کی وجہ سے ہی امریکہ دریافت ہوا۔
کیوبا کا بڑا جزیرہ خلیج میکسیکو سے ہیٹی تک جاتا ہے۔اس کا سب سےبڑا شہر اور دارالحکومت ہاوانا (Havana) ہے۔ کیوبا کا رقبہ ساڑھے بیالیس ہزار مربع میل اور آبادی بارہ ملین کے قریب ہے۔ یہاں کی شرح خواندگی قریباً سوفیصد ہے۔
1898ء تک کیوبا پر سپین نے حکومت کی۔ پھر امریکہ اور سپین کی جنگ کے بعد یہ امریکہ کے زیرتسلّط آگیا۔ 1902ء میں کیوبا نے باضابطہ طور پر آزادی حاصل کرلی۔ یہ بہت صحت افزا مقام ہے اور یہاں سیاحت کو صنعت کے طور پر اختیار کیا گیا ہے۔ تاہم 1997ء تک یہاں کے مقامی لوگوں کا غیرملکی سیاحوں کے ساتھ ملنا جلنا ایک قانونی جرم سمجھا جاتا تھا۔
کسی وقت کیوبا دنیا کا سب سے بڑا چینی پیدا کرنے والا ملک تھا لیکن بعد میں بہت سی قدرتی آفات نے اس صنعت کو کافی نقصان پہنچایا۔ کیوبا میں خام تیل،گیس اور بہت سی معدنیات خصوصاً نکل (Nickel) دھات پائی جاتی ہے۔
………٭………٭………٭………