اسلام مکمل ضابطۂ حیات
عورت اور مرد ایک دوسرے کا لباس ہیں
حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نےارشادِ خداوندی کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں، کے ضمن میں اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’گزشتہ خطبہ میں میں نے میاں بیوی کے تعلقات کا بھی مختصراً ذکر کیا تھا کہ بعض حالات میں کس طرح آپس کے اختلافات کی صورت میں ایک دوسرے پر گند اچھالنے سے بھی دونوں فریق باز نہیں رہتے اور یہ بات خداتعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو، میاں کو بھی اور بیوی کو بھی، کس طرح ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا احساس دلایا ہے۔ فرماتا ہے:
ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ۔ (البقرۃ:188)
یعنی وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ یعنی آپس کےتعلقات کی پردہ پوشی جو ہےوہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ قرآن کریم میں ہی خداتعالیٰ نے جو لباس کے مقاصد بیان فرمائے ہیں وہ یہ ہیں کہ لباس ننگ کو ڈھانکتا ہے، دوسرے یہ کہ لباس زینت کا باعث بنتا ہے، خوبصورتی کا باعث بنتا ہے، تیسرے یہ کہ سردی گرمی سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔ پس اس طرح جب ایک دفعہ ایک معاہدے کے تحت آپس میں ایک ہونے کا فیصلہ جب ایک مرد اور عورت کر لیتے ہیں تو حتی المقدو ر یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ایک دوسرے کو برداشت بھی کرنا ہے اور ایک دوسرے کے عیب بھی چھپانے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نہ مردوں کو بھڑکنا چاہئے اور نہ ہی عورتوں کو۔ بلکہ ایسے تعلقات ایک احمدی جوڑے میں ہونے چاہئیں جو اس جوڑے کی خوبصورتی کو دو چند کرنے والے ہوں۔ ایسی زینت ہر احمدی جوڑے میں نظر آئے کہ دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں۔‘‘
مزید فرمایا:
’’جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ یہ سب پردے اس وقت چاک ہوتے ہیں جب جوش اور غیظ و غضب میں انسان بڑھ جاتا ہے۔ اس لئے اسے دبانے کی ضرورت ہے۔ غصّہ کو دبانا وہ عمل ہے جو خداتعالیٰ نے پسند فرمایا ہے اور اسے نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ پس ہر احمدی جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرکے یہ عہد باندھا ہے کہ میں اپنی حالت میں پاک تبدیلی پیدا کروں گا، اپنے گھریلو تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کی کوشش کروں گاتو اُس کو اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
مجھے جب ایسے جھگڑوں کا پتہ لگتا ہے اور چھوٹی چھوٹی رنجشوں کے اظہار کرکے گھروں کے ٹوٹنے کی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ تو ہمیشہ ایک بچی کا واقعہ یاد آ جاتا ہےجس نے ایک جوڑے کو بڑا اچھا سبق دیا تھا۔ اُس کے سامنے ایک جوڑا لڑائی کرنے لگا یا بحث کرنے لگے یا غصّہ میں اونچی بولنے لگے تو وہ بچی حیرت سے ان کو دیکھتی چلی جا رہی تھی۔ خیر اُن کو احساس ہوا، انہوں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے اماں ابا کبھی نہیں لڑے؟ ان کو غصہ کبھی نہیں آتا؟ اس نے کہا ہاں ان کو غصّہ تو آتا ہے لیکن جب امی کو غصّہ آتا ہے تو اباخاموش ہو جاتے ہیں اور جب میرے باپ کو غصّہ آتا ہے تو میری ماں خاموش ہو جاتی ہے۔ تو یہ برداشت جو ہے اسے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض دفعہ تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے ابتدا میں ہی گھر ٹوٹنے شروع ہو جاتے ہیں۔ چند دن شادی کو ہوئے ہوتے ہیں اور فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے دل نہیں مل سکتے۔ حالانکہ رشتے کئی کئی سال سےقائم ہوتے ہیں اس کے بعد شادی ہوئی ہوتی ہےاور پھر اصل بات یہ ہے کہ یہ جب ایک دوسرے کے راز نہیں رکھتے، باتیں جب باہر نکالی جاتی ہیں تو باہر کے لوگ بھی جو ہیں مشورہ دینے والے بھی جو ہیں وہ اپنے مزے لینے کے لئے یا ان کو عادتاً غلط مشورے دینے کی عادت ہوتی ہے وہ پھر ایسے مشورے دیتے ہیں کہ جن سے گھر ٹوٹ رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے مشورہ بھی ایک امانت ہے۔ جب ایسے لوگ، ایسے جوڑے، مرد ہوں یا عورت، لڑکا ہو یا لڑکی، کسی کے پاس آئیں تو ایک احمدی کا فرض ہے کہ ان کو ایسے مشورے دیں جن سے ان کے گھر جڑیں، نہ کہ ٹوٹیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ3؍اپریل 2009ء بمقام مسجدبیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2009ء)
(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 37تا40)
٭…٭…٭