ملکہ برطانیہ الیزبیتھ (دوم) کےجیون ساتھی، ڈیوک آف ایڈنبرا شہزادہ فلپ کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر
برطانیہ میں آج کل سوگ کا عالم ہے۔ ملکہ برطانیہ کے شوہر شہزادہ فلپ انتقال کر گئے ہیں۔
پرنس فلپ یونانی جزیرے کورفو کے شہر مون ریپوس میں ڈنمارک کے شاہی خاندان میں پرنس اینڈریو آف گریس اینڈ ڈنمارک اور پرنسس ایلائس آف بیٹنبرگ کے ہاں 10؍ جون 1921ء کو چار بہنوں کے بعد پیدا ہوئے۔ آپ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور رشتے میں وائسرائے ہندوستان لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے بھانجے بھی تھے۔
یونان میں 1922ء میں ہونے والی فوجی بغاوت کے نتیجہ میں پرنس فلپ کا خاندان پیرس کے مضافات میں منتقل ہو گیا۔ فرانس میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1933ء میں آپ جرمنی چلے گئےاور پھر برطانیہ منتقل ہو گئے۔ تکمیل تعلیم کے بعد 1939ء میں برٹش رائل نیوی میں داخلہ لیا۔ 1939ء میں ہی شاہ جارج چہارم اپنی دو بیٹیوں شہزادی الیزبیتھ اور شہزادی مارگریٹ کے ہمراہ رائل نیول کالج ڈارٹماؤتھ کے دورے پر آئے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے توسط سے شہزادہ فلپ کی ڈیوٹی دونوں شہزادیوں کے ہمراہ لگی۔ اِس دوران فلپ کے اچھے اخلاق اور کردار کی بنا پر شہزادی الیزبیتھ شہزادہ فلپ کی محبت میں گرفتار ہوگئی۔ جنگِ عظیم دوم میں شہزادہ فلپ نے برطانوی فوج میں مختلف محاذوں پر گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ جولائی 1947ء میں شہزادی اور شہزادے کی منگنی کا اعلان ہوا اور نومبر 1947ء کو دونوں کی شادی ہوگئی۔ شادی کی یہ تقریب بی بی سی ریڈیو نے نشر کی جسے پوری دُنیا میں قریباً دوسو ملین افراد نے سنا۔ 1952ء میں شہزادہ اور شہزادی کینیا کے دورہ پر تھے جب شاہ جارج چہارم کی وفات ہوئی اور یہ دونوں برطانیہ لوٹ آئے۔ 1953ء میں شہزادی الیزبیتھ کی تاجپوشی ہوئی جس کے بعد شہزادی الیزبیتھ ملکہ الیزبیتھ کہلانے لگیں۔ نوجوان جوڑے کے ہاں پہلا بچہ 1948ء میں ہوا جس کا نام چارلس فلپ آرتھر جارج رکھا گیا۔ شہزادہ فلپ اور شہزادی الیزبیتھ کے ہاں تین مزید بچے شہزادی این الیزبیتھ ایلائس لوئس 1950ء، البرٹ کرسچن ایڈورڈ 1960ء اور ایڈورڈ اینتھونی رچرڈ لوئس 1964ء میں پیدا ہوئے۔ اپنی سوویں سالگرہ سے دو مہینے پہلے شہزادہ فلپ 99 سال کی عمر میں 9؍ اپریل 2021ء کو وفات پا گئے۔اس خبر کو سنتے ہی برطانیہ کے لوگ مرحوم شہزادہ فلپ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے بکنگھم پیلس لندن کے سامنے جمع ہونا شروع ہوگئے۔
شہزادہ فلپ نے تمام زندگی اپنی بیوی ملکہ الیزبیتھ کے شانہ بشانہ گزاری۔ آپ آٹھ سو سے زائد تنظیموں کے نگران یا سربراہ تھے۔ اپنی اہلیہ ملکہ برطانیہ سے وفاداری اور ہر مشکل وقت میں اس کا ساتھ دینے کی بنا پر پرنس فلپ کو دُنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کے ہم عصر نیوی کے لوگ کہتے ہیں کہ شہزادہ فلپ میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر نیوی کے سربراہ بن سکتے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے اپنے دوستوں سے شکایت کی کہ ’’میں ملک کا واحد آدمی ہوں جسے اجازت نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اپنا نام دے۔‘‘
شہزادہ چارلس کی سوانح عمری لکھنے والے جوناتھن ڈمبلبی کے مطابق جوانی میں شہزادہ چارلس عوامی جگہوں پر اپنے والد کی طرف سے سرزنش کی وجہ سے آبدیدہ ہو جاتے تھے اور والد اور بڑے بیٹے کے درمیان تعلقات زیادہ تر خوشگوار نہیں رہے۔
1956ء میں شہزادہ فلپ نے ڈیوک آف ایڈنبرا ایوارڈ شروع کیا جس کے تحت آج تک قریباً ساٹھ لاکھ جسمانی معذور مگر قابل افراد کو جسمانی، ذہنی اور جذباتی طور پر کاروبارِ زندگی میں حصہ لینے کے قابل بنایا گیا۔ شہزادہ فلپ جنگلی حیات اور ماحولیات کے ایک پرجوش حمایتی بھی تھے۔
2017ء میں شہزادہ فلپ عوامی زندگی سے کنارہ کش ہوئے اور ایک اندازے کے مطابق اپنی ریٹائرمنٹ تک انفرادی طور پر 22219 شاہی تقریبات میں شرکت کی۔
تمام عمر کھیلوں سے پیار کرنے والے شہزادہ فلپ کے متعلق ملکہ برطانیہ نے اپنی شادی کی پچاسویں سالگرہ پر ایک بیان میں کہا کہ ’’وہ (شہزادہ فلپ) ایسے شخص ہیں جو آسانی سے تعریف نہیں سنتے، لیکن وہ اتنے برسوں سے میری طاقت اور ساتھ رہے ہیں۔ میرے پر، ان کے پورے خاندان پر اور بہت سارے دوسرے ملکوں پر، ان کا بہت قرض ہے، جو کہ اس سے زیادہ ہے جس کا وہ کبھی دعویٰ نہیں کریں گے یا ہم کبھی بھی جانیں گے۔‘‘
عالمی رہنماؤں کی طرف سے شاہی خاندان کو تعزیتی پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ ییلجیم کے بادشاہ فلپ نے ملکہ کو ایک نجی پیغام بھیجا ہے اور کہا ہے کہ جب ممکن ہو گا وہ ان سے ملاقات کریں گے۔
مالٹا کے وزیر اعظم رابرٹ ابیلا نے اپنے تعزیتی پیغام میں لکھا ہے کہ وہ پرنس فلپ کی موت پر سوگوار ہیں، جنہوں نے مالٹا کو اپنا گھر بنا رکھا تھا اور وہ اکثر یہاں آتے تھے۔ ہمارے لوگ ہمیشہ ان کی یاد کو قیمتی اثاثہ سمجھیں گے۔
ڈچ شاہی خاندان نے کہا کہ وہ شہزادہ فلپ کو انتہائی احترام سے یاد رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا: ’اُنہوں نے اپنی طویل زندگی برطانیہ کے عوام کی خدمت اور اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائیگی میں گزاری۔‘
آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ مورسن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ایک ایسی نسل میں پروان چڑھے جسے ہم پھر کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔ ملک کے سابق رہنما جولیا گلارڈ نے کہا کہ ڈیوک ایک فرض شناس اور حس مزاح رکھنے والی شخصیت کے مالک تھے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ میں شہزادہ فلپ کی وفات پر تعزیت کی اور انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ نے ایک ذہین شخصیت کھوئی ہے جن میں عوامی خدمت کرنے کا اچھوتا جذبہ موجود تھا۔’پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں ان کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔‘
کووڈ 19 کی وجہ سے کہا جا رہا ہے کہ شہزادہ فلپ کی تدفین کی رسومات بڑے پیمانے پر نہیں ہوں گی۔ اور کورونا وائرس کی وجہ سے عائد پابندیوں کا مطلب یہ ہے کہ تدفین میں صرف 30 افراد شرکت کرسکیں گے۔ بکنگھم پیلس اور ونڈسر کاسل و دیگر شاہی مقامات پر تعزیت کے لیے آنے والے شہریوں سے درخواست کی جا رہی ہے کہ سماجی فاصلوں کا خاص خیال رکھا جائے اور جتنا ممکن ہو تدفین کی تقریب ٹیلی ویژن پر دیکھی جائے۔
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے مطابق شہزادہ فلپ کی آخری رسومات سے قبل ملک بھر میں آٹھ روز تک قومی سوگ منایا جائے گا اور ان کی آخری رسومات ایک شہزادے کی موت پر ہونے والی بڑی ریاستی تقریب کے بجائے ایک رسمی تقریب میں ادا کی جائیں گی جبکہ شاہی خاندان دو ہفتے تک سوگ منائے گا۔
آخری رسومات کے دن شہزادہ فلپ کے تابوت کو دعائیہ تقریب کے لیے کچھ فاصلے پر موجود سینٹ جارج چیپل لے جایا جائے گا۔ قلعہ ونڈسر سے ان کا جسد خاکی سینٹ جارج چیپل ایک خصوصی طور پر تیار کردہ لینڈ رووَر میں لے جایا جائے گا۔ اس لینڈ روور کو ڈیزائن کرنے میں خود شہزادہ فلپ نے مدد کی تھی۔اس دوران انہیں فوجی دستہ سلامی پیش کرے گا جس میں آٹھ منٹ کا وقت لگے گا اور کرفیو بیل بھی بجائی جائے گی۔
پرنس آف ویلز سمیت شاہی خاندان کے اراکین ان کے جنازے کے پیچھے چلیں گے جبکہ ملکہ برطانیہ الگ سے چیپل جائیں گی۔شہزادہ فلپ کی آخری رسومات کے بعد ان کی تدفین چیپل کے شاہی والٹ میں کی جائے گی۔
٭…٭…٭