شکرگزاری کی عادت پُرسکون گھر کی ضمانت
اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔
لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ
(اے لوگو!)اگر تم شکر گزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا ۔(سُورت ابراہیم آیت 8ترجمہ ازتفسیر صغیر)
اگر انسان اپنے ارد گرد نظر دوڑائے توہماری زندگی ایسی بے شمار نعمتوں سے بھری پڑی ہے جس کے لیے شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہوتاہے۔اس کا بہترین طریقہ عبادت ہے، جس کے ذریعےانسان اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ یہ اس غفورورحیم خدا کا احسان ہے کہ ہمیں نیا دن نصیب ہوا۔اس کے لیے ہمارے آقاو مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ والٰہٖ وسلم نے خوبصورت دعا بتائی ہے کہ ’’سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیںمرنے (نیند)کےبعدزندہ(بیدار)کیا۔‘‘
سیدنا امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ فرماتاہے اگر تم شکر گزاربنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا۔ اسی طرح اور بھی بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اس شکر کے مضمون پر توجہ دلائی ہے کہ مومنین کی نشانی شکرگزاری ہی ہے۔ لیکن غیر مومن شکرگزار نہیں ہوتے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں اور احسانوں کا ذکر کرتے ہوئے انسان کے ناشکرے پن کاذکریوں فرماتاہے کہ
اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایَشْکُرُوْنَ۔(البقرة:244)
کہ اللہ لوگوں پر یقیناًبڑافضل کرنے والاہے مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ اتنے فضلوں اور احسانوں کے بعدجو شکرگزاری کا حق ہے اُسے اداکرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ انسان کی روحانی ترقی کے بھی سامان فرماتاہے اور دنیاوی اور ظاہری ترقی کے بھی سامان فرماتاہے۔ پس ایک مومن جب یہ دونوں طرح کے فضل اللہ تعالیٰ کی طرف سے برستے دیکھتاہے تواللہ تعالیٰ کی شکرگزاری میں پہلے سے بڑھتاہے۔ اور خداتعالیٰ کی شکرگزاری کا سب سے بہترین طریق اس کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اس کی عبادت کرنا ہے جسے ہروقت ہرمومن کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے۔ اس کے آگے جھکنا ہے اور اپنے ہر کام کے نیک نتائج کو خداتعالیٰ کی ذات کی طرف منسوب کرنا ہے، اس کے فضل کی طرف منسوب کرنا ہے۔ اور یہی حقیقی مومن کہلاتے ہیں جو اس سوچ کے ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔ یہی اللہ کے نام کے ساتھ ہر کام کے شروع کرنے کا ادراک رکھنے والے ہوتے ہیں۔ اوریہی اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمانیت اور رحیمیت کواپنے کاموں کے انجام تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 27؍اگست تا 2؍ستمبر 2010 صفحہ 5 تا 8)
عائلی زندگی میں شکر گزاری کی اہمیت
اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو اُن کی حیثیت سے باہر ہیں۔‘‘(کشتی ٔنوح۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ80-81)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ایک موقع پر عورتوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:’’پھر شکر کی عادت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور دے گا۔ تمہارے پر نعمتوں کو بڑھاتا چلا جائے گا۔ پس اپنی گھریلو زندگی میں بھی اُس کا شکر ادا کریں۔ اپنے خاوندوں کی کمائی دیکھیں۔ اُن کے اندر خرچوں میں رہ کے گزارہ کریں، گھر چلائیں، اُس کا شکر ادا کریں۔ خاص طور پر بعض نئی شادی شدہ لڑکیوں کے بعض مسائل مجھے آ جاتے ہیں۔ کہاں تک یہ صحیح ہے یا غلط ہے لیکن لڑکا لڑکی پرالزام لگا رہا ہوتا ہے اور لڑکی لڑکے پر۔ لڑکے کا الزام یہ ہوتا ہے کہ اس کا مطالبہ بہت زیادہ ہے اور بعض دفعہ یہ صحیح ثابت ہوتا ہے کہ لڑکیاں کہتی ہیں کہ یہ ہماری ڈیمانڈ پوری نہیں کرتا۔ یہ ہر مہینے یا ہر ہفتے ہمیں بیوٹی پارلر نہیں لے کے جاتا۔ بیوٹی پارلر جانا تو ایک احمدی عورت کا یا احمدی لڑکی کا مقصد نہیں ہے۔ اگر کسی کے پاس توفیق نہیں ہے تو کس طرح لے جاسکتا ہے؟ اپنی حدوں کے اندر رہ کر گزارہ کریں تو تبھی رشتے قائم رہ سکتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم شکر کرو گے تو میں تمہیں بڑھاؤں گا۔ ہر نیا جوڑا جو اپنی نئی زندگی شروع کرتا ہے اُس کی ابتدا تھوڑے سے ہی ہوتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے اور آہستہ آہستہ جوں جوں زندگی گزرتی ہے تجربہ حاصل ہوتا ہے مردوں کی آمدنیاں بھی بڑھتی رہتی ہیں اور وسائل بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ پس یہ نوجوان لڑکیوں کو خاص طور پر میں کہتا ہوں کہ صبر اور حوصلے اور شکر کی عادت ڈالیں گی تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے رشتے بھی قائم رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بھی وارث بنتی چلی جائیں گی اور اُن لوگوں میں شمار ہوں گی جن کو پھر اللہ تعالیٰ پیار کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اپنے عہد پورے کرنے والی ہوں گی۔‘‘
( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍نومبر 2012ء)
عورتوں کی ناجائز خواہشات اور مطالبات
گھروں کے ٹوٹنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے حضورایّدہ اللہ تعالیٰ ایک خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :
’’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عورتوں میں قناعت کا مادہ کم ہوتاہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے خاوند کی جیب کو دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھ کھولے، اپنے دوستوں، سہیلیوں یاہمسایوں کی طر ف دیکھتی ہیں جن کے حالات ان سے بہتر ہوتے ہیں اور پھر خرچ کرلیتی ہیں پھر خاوندوں سے مطالبہ ہوتاہے کہ اور دو۔ پھر آہستہ آہستہ یہ حالت مزید بگڑتی ہے اور اس قدر بے صبری کی حالت اختیار کر لیتی ہے کہ بعض دفعہ باوجود اس کے کہ دودو تین تین بچے بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس بے صبری کی قناعت کی وجہ سے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل نہ ہونے کی وجہ سے۔ کیونکہ ایسے لوگ صرف دنیا داری کے خیالات سے ہی اپنے دماغوں کو بھرے رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر اس وجہ سے یقین بھی کم ہو جاتاہے اور اگر خداتعالیٰ پر یقین نہ ہو تو پھر اس کے سامنے جھکتے بھی نہیں، اس سے دعا بھی نہیں کرتے۔ تو یہ ایک سلسلہ جب چلتاہے تو پھر دوسرا سلسلہ چلتا چلا جاتاہے اور پھر جو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے نہ ہوں ان پر توکل کیسے رہ سکتاہے۔ تو ایسی عورتیں پھر اپنے گھروں کو برباد کردیتی ہیں۔ خاوندوں سے علیحدہ ہونے کے مطالبے شروع ہوجاتے ہیں اور پھر جیساکہ میں نے کہا کہ ایک برائی سے دوسری برائی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔‘‘
( الفضل انٹرنیشنل 10؍اکتوبر 2003ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیزنے عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے جہاں وہ اس بات کا خیال رکھے کہ خاوند کے گھر کو کسی قسم کا بھی نقصان نہ ہو۔ کسی قسم کا کوئی مادی نقصان بھی نہ ہواور روحانی نقصان بھی نہ ہو۔ اُس کے پیسے کا بے جا استعمال نہ ہو کیونکہ بے جا استعمال، اسراف جو ہے یہی گھروں میں بے چینیاں پیدا کردیتا ہے۔ عورتوں کے مطالبے بڑھ جاتے ہیں۔ خاوند اگر کمزور اعصاب کا مالک ہے تو اِن مطالبوں کو پورا کرنے کے لئے پھر قرض لے کر اپنی عورتوں کے مطالبات پورے کرتا ہےاور بعض دفعہ اس وجہ سے مقروض ہونے کی وجہ سے، اس قرضے کی وجہ سے جب بےسکونی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو فکروں میں مبتلا ہوتا ہےاور اگر اس کی طبیعت صبر کرنے والی بھی ہے تو پھرمریض بن جاتا ہے۔ کوئی شوگر کا مریض بن گیا، کوئی بلڈ پریشر کا مریض بن گیا۔ اگر خاوند نہیں مانتا تو بعض عورتیں اپنے خاوندوں کے رویہ کی وجہ سے شوگر اور بلڈ پریشر کی مریض بن جاتی ہیں۔ لیکن اگر آپ نگرانی کا صحیح حق ادا کرنے والی ہوں گی تو نہ تو آپ کسی قسم کا مریض بن رہی ہوں گی نہ آپ کے خاوند کسی قسم کے مریض بن رہے ہوں گے۔ اگر کوئی خاوند بے صبرا ہے تو گھر میں ہر وقت توُ تکار رہتی ہے یہ بھی مریض بنارہی ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں وہی گھر جو جنت کا گہوارہ ہونا چاہئے، جنت نظیر ہونا چاہئے ان لڑائیوں جھگڑوں کی وجہ سے جہنم کا نمونہ پیش کررہا ہوتا ہے۔ پھر بچوں کے ذہنوں پر اس کی وجہ سے علیحدہ اثر ہورہا ہوتا ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت متاثر ہورہی ہوتی ہے۔
اس معاشرے میں سچ کہنے کی عادت ڈالی جاتی ہے اور معاشرہ کیونکہ بالکل آزاد ہے اس لئے بعض بچے ماں باپ کے منہ پر کہہ دیتے ہیں کہ بجائے ہماری اصلاح کے پہلے اپنی اصلاح کریں۔ تو اس طرح جو عورت خاوند کے گھر کی، اس کے مال اور بچوں کی، نگران بنائی گئی ہے، اپنی خواہشات کی وجہ سے اس گھر کی نگرانی کے بجائے اس کو لٹوانے کا سامان کر رہی ہوتی ہے۔
پس ہر احمدی عورت کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ اپنی دنیاوی خواہشات کی تکمیل کے لئے نہیں بلکہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کی عبادت اور اس کے حکموں پر عمل کرنے کے لئے اس دنیا میں آئی ہے۔‘‘
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍جون2015ء)
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭