رمضان …گنتی کے دنوں کا مہمان
مہمان کا استقبال
ہر انسان اپنے مہمانوں کے ساتھ رسماً یا اللہ رسول کے حکم کے پیش نظر اچھا سلوک کرتا ہے۔لیکن اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ آپ کا کوئی پسندیدہ شخص آپ کے ہاں مہمان بن کر آرہا ہے تو آپ کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ آپ اس کی آمد سے پہلے اس کی تیاری کرنے لگتے ہیں۔ گلی کوچے کی صفائی کرتے ہیں۔ اپنے گھر کو آراستہ کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو ٹھیک ٹھاک کرتے اور اچھے کپڑے پہن کر خوشبو لگاتے ہیں۔ عمدہ چیزیں بطور مہمان نوازی تیار کرتے ہیں۔ بڑی محبت اور خوشدلی کے ساتھ مہمان کا استقبال کرتے ہیں۔ پھر ہر طرح اس کے آرام کا خیال رکھتے ہیں اور بہترین چیزوں سے اس کی تواضع اور خاطر داری کرتے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپ سے کوئی ایسی بات سرزد نہ ہو جو مہمان کو ناگوار گزرے۔ اس لیے کہ اس مہمان کی آپ کے ہاں قدرومنزلت ہے اور اس کے ساتھ آپ کا ایک تعلقِ خاطر ہے۔ یہی نہیں بلکہ جب وہ مہمان جانے لگتا ہے تو دل یہی چاہتا ہے کہ یہ مہمان کچھ دیر مزید ہمارے پاس رہے۔ جب واپس جانے لگے تو اس کو الوداع کرنے کے لیے دور تک اس کے ساتھ جاتے ہیں کہ جس قدر مزید رفاقت اور صحبت میسر آجائے اتنا ہی اچھا ہے۔
رمضان ایک مہمان
یہی حال رمضان کا ہے جو ’’اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ‘‘کے لیے آپ کا مہمان بن کر آتا ہے۔ اگر آپ کو یہ مہمان پیارا ہے تو آپ اس کے لیے ویسی ہی تیاری کریں گے جیسی آپ اپنے کسی عزیز مہمان کے لیے کرتے ہیں اور اگر یہ مہمان آپ کو محبوب نہیں تو پھر یقیناً اس کی آمد آپ پر بہت شاق اور گراں گزرے گی۔
بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اوہو، رمضان آگیا۔ اب روزے رکھنے پڑیں گے، بڑی مشکل ہوگی۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو عذر بہانے تلاش کرنے لگتے ہیں کہ کسی طرح روزے نہ رکھنے پڑیں اور معمولی معمولی عذر رکھ کر روزوں سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب رمضان گزر جاتا ہے تو بڑے خوش ہوتے ہیں کہ اب ان پابندیوں سے، جو اگرچہ دنیا دکھاوے کے لیے تھیں، نجات حاصل ہوئی۔
تاہم بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو رمضان کی آمد کو خدائے رحمٰن کی طرف سے ایک عظیم نعمت سمجھ کر بڑی محبت اور مسرت سے اس کا استقبال کرتے ہیں اور اس کے انتظار میں آنکھیں لگائے رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد آئے اور ہم اپنے رب کی رحمت کو قریب سے دیکھیں۔ اپنے رب کی عبادات بجا لائیں، راتوں کو اٹھ کر نوافل ادا کریں، زیادہ سے زیادہ اس کے کلام کی تلاوت کریں اور کم از کم ایک دَور تو ضرور مکمل کریں۔ زیادہ سے زیادہ صدقات وخیرات کریں اور زیادہ سے زیادہ دعائیں کریں، استغفار کریں اور اپنے رب سے اپنے گناہ بخشوا لیں کہ یہ دن خدا کے فضلوں اور رحمتوں کے دن ہیں۔
اس مہمان کا استقبال کیسے کریں؟
آنحضرتﷺ کی سیرت طیبہ، جو ہر شعبۂ حیات میں ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے، میں رمضان کے استقبال کے حوالے سے بھی ہمارے لیے بے مثل رہ نمائی ملتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ آپ رمضان کا استقبال کیسے کرتے تھے اور اس بارے میں صحابہؓ کو کیا تعلیم دیتے تھے۔
رمضان میں چونکہ مسلسل تیس یا انتیس دن روزے رکھنے ہوتے ہیں، اس لیے وہ شخص جس کو نفلی روزے رکھنے کی عادت نہیں اس کو ایک دم سے روزے شروع کرتے وقت یقیناً مشکل پیش آئے گی۔ لیکن اگر وہ رمضان شروع ہونے سے قبل وقفے وقفے سے کچھ روزے رکھ لے تو رمضان کے روزے نہ صرف جسمانی لحاظ سے اس کے لیے آسان ہو جائیں گے بلکہ روحانی لحاظ سے بھی وہ رمضان کے استقبال کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے والا ہو گا۔ ہر چند آنحضرتﷺ ہر ماہ کچھ دن التزاماً نفلی روزے رکھتے تھےجن میں سوموار اورجمعرات کا روزہ اور ایامِ بیض (یعنی ہر ماہ کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ) کے روزے شامل ہیں۔ لیکن رمضان سے پہلے شعبان کے مہینے میں ان مذکورہ ایام کے علاوہ بھی کثرت سے روزے رکھتے تھے۔ یہ آپ کی رمضان کے استقبال کی تیاری ہوتی تھی۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الشَّهْرِ مِنْ السَّنَةِ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ.
(صحيح مسلم، كتاب الصيام)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رمضان کے علاوہ سال کے باقی مہینوں میں آنحضرتﷺ سب سے زیادہ روزے شعبان کے مہینے میں رکھا کرتے تھے۔
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی سے مروی ہے کہ
مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ قَطُّ إِلَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ مِنْهُ صِيَامًا فِي شَعْبَانَ۔
(صحيح مسلم، كتاب الصيام)
میں نے رسول اللہﷺ کو رمضان کے علاوہ کبھی پورا مہینہ روزے رکھتے نہیں دیکھا اور شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں نفلی روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ یعنی رمضان میں تو پورا مہینہ فرض روزے رکھتے تھے۔ باقی مہینوں میں کچھ دن نفلی روزے رکھتے تھے اور سب سے زیادہ نفلی روزے شعبان کے مہینے میں رکھتے تھے جو رمضان سے پہلے آتا ہے۔ بلکہ حضرت عائشہؓ ہی سے ترمذی میں یہ روایت بھی آتی ہے کہ
كَانَ يَصُومُهُ إِلَّا قَلِيْلًا
کہ آپؐ ماسوائے چند دن کے سارا شعبان ہی روزے رکھتے تھے۔
(سنن الترمذي، كتاب الصوم عن رسول اللّٰه)
حضرت عائشہؓ خود رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے آئندہ شعبان میں رکھا کرتی تھیں۔ جیسا کہ صحیح بخاری کی درج ذیل روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
عنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا تَقُوْلُ كَانَ يَكُوْنُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ فَمَا أَسْتَطِيْعُ أَنْ أَقْضِيَ إِلَّا فِيْ شَعْبَانَ
ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ فرماتیں کہ رمضان کے روزے جو (بوجہ ایام مخصوصہ کے) مجھ سے چھوٹ جاتے تھے وہ میں شعبان کے مہینے میں ادا کرپاتی تھی۔
(صحيح البخاري، كتاب الصوم، باب متی يقضى قضاء الصيام)
رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ نہ رکھیں
ہر چند رمضان کے استقبال کے لیے بطور تیاری شعبان میں روزے رکھنا مسنون اور پسندیدہ ہے مگر یاد رہے کہ اس مہمان یعنی رمضان کی فضیلت واہمیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کا آغاز الگ سے کیا جائے، اس لیے یہ مناسب نہیں کہ رمضان سے پہلے شعبان کے آخری دن میں بھی روزہ رکھا جائے اور یہ امتیاز ہی نہ رہے کہ رمضان شروع ہو گیا ہے۔ اس لیے آنحضرتﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ شعبان کے آخری دو دن یعنی 29؍اور30؍شعبان کو روزہ رکھا جائے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں روایت ہے:
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمَهُ فَلْيَصُمْ ذَلِكَ الْيَوْمَ.
(صحيح البخاري، كتاب الصوم)
آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ تم میں سے کوئی بھی رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھے۔ ہاں اگر کوئی اپنے معمول کے مطابق روزہ رکھتا ہے تو وہ اس دن روزہ رکھ سکتا ہے۔
یعنی مثلاً اگر کوئی ہر جمعرات کو روزہ رکھتا ہے اور اتفاق سے جمعرات آخری شعبان کو آگئی ہے تو ایسا شخص اس دن روزہ رکھ سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ہر سوموار کے دن التزام کے ساتھ روزہ رکھتا ہے اور اتفاقاً شعبان کی آخری تاریخ سوموار کو آگئی ہے تو ایسا شخص اس دن روزہ رکھ سکتا ہے، لیکن اگر کسی کا یہ معمول نہیں تو پھر اس کے لیے جائز نہیں کہ شعبان کے آخری دن روزہ رکھے۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ رمضان سے قبل ایک دن یا دو دن روزہ نہ رکھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شعبان 29؍ دن کا بھی ہو سکتا ہے اور 30؍دن کا بھی۔ اس لیے بہتر ہے کہ 29؍اور 30؍دونوں دن روزہ نہ رکھے۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَصُومُوا قَبْلَ رَمَضَانَ صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ
(سنن الترمذي، كتاب الصوم عن رسول الله)
اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ رمضان سے فورًا پہلے روزہ نہ رکھو بلکہ رمضان کا چاند دیکھنے کے بعد رمضان کے روزے شروع کرو۔
جب مہمان آجائے تو اس کی خاطر داری کیسے کریں؟
جب کوئی معزز اور پیارا مہمان گھر آتا ہے تو کیسے سب اہل خانہ اس کا اکرام کرتے اور اس کی تواضع اور مہمان نوازی میں ہمہ تن مصروف ہوجاتے ہیں اور مہمان کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں اور اس کے آرام کو اپنے آرام پر ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے ہی جب رمضان آتا تو آنحضرتﷺ کی سیرت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کمر کس لیتے اور عبادات، صدقات وخیرات اور تلاوتِ قرآن کریم میں معمول کے دنوں سے بہت بڑھ جاتے تھے۔ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِيْنَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ فَلَرَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ۔
(صحيح البخاري، كتاب بدء الوحي)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سب لوگوں سے بڑھ کر صدقہ وخیرات کرنے والے تھے تاہم رمضان میں آپ صدقہ وخیرات میں اپنی انتہا کو پہنچ جاتے تھے۔ اس وقت حضرت جبریلؑ آپ سے ملاقات کرتے تھے۔ حضرت جبریلؑ رمضان کی ہر رات آپ سے ملتے اور آپ کو تمام نازل شدہ قرآن کی دُہرائی کرواتے۔ پس آنحضرتﷺ (رمضان میں ) تندوتیز ہوا کی مانند ہر قسم کی نیکی کرتے۔
تہجد آپ کا معمول تھا جسے رمضان میں جاری رکھتےمگر غیرمعمولی عمدگی کے ساتھ اور بہت لمبی نماز ادا فرماتے۔
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا كَانَ يَزِيْدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا۔ (صحيح البخاري، كتاب صلاة التراويح)
حضرت ابو سلمہؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا کہ رمضان میں آنحضرتﷺ کی نمازِ تہجد کیسی ہوتی تھی؟تو حضرت عائشہؓ نے جواب دیا کہ رمضان میں اور اس کے علاوہ بھی عموماً آپ گیارہ رکعت سے زیادہ ادا نہیں فرماتے تھے۔ (دو دو کرکے) چار رکعت ادا کرتے، پھر کچھ توقف کرکے اسی طرح مزید چار رکعت ادا فرماتے۔ یہ مت پوچھیں کہ وہ کیسی خوبصورت اور کتنی لمبی ہوتی تھیں۔ یعنی بہت زیادہ عمدگی کے ساتھ اور بہت لمبی رکعات ادا فرماتے تھےجن کی حسن وخوبی ناقابلِ بیان ہے۔ پھر تین رکعت وتر کے ادا فرماتے۔
یہی آپ صحابہؓ کو بھی نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ دن کو روزہ اس کی شرائط کے ساتھ ادا کرو جس میں نمازوں کا التزام ہو اور ہر بری بات سے اجتناب ہو، کوئی گندی بات نہ ہو اور نہ کوئی نافرمانی ہو یہاں تک کہ اگر کوئی آپ کے ساتھ بدزبانی بھی کرے تو جواب نہ دو اور صرف یہ کہہ کر اعراض کرو کہ میں تو روزے سے ہوں۔ اور رات کو اٹھ کر اپنے رب کی عبادت بجا لاؤ اور اس سے عفوو درگزر کے طالب ہو تو یہ دونوں باتیں یعنی دن کو روزہ اور رات کو عبادت بجالانا گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہوں گی۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ۔
(سنن الترمذي، كتاب الصوم عن رسول اللّٰه)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اور محاسبۂ نفس کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اور رمضان کی راتوں کو اٹھ کر نماز تہجد ادا کرے تو اس کے گذشتہ سب گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح جو ایمان اور خوداحتسابی کے ساتھ لیلۃ القدر میں اٹھ کر نماز میں خدا کے حضور گریہ وزاری کرکے مغفرت طلب کرے تو اس کے بھی گذشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔
مگر کینہ ور کے گناہ نہیں بخشے جاتے
مغفرت اور بخشش کے مواقع سے فیضیاب ہونےکے لیے ایک شرط تو یہ ہے کہ انسان شرک سے اجتناب کرے اور دوسری شرط یہ ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کے خلاف اپنے دل میں کینہ نہ رکھے اور اگر کسی کے لیے دل میں بغض وعناد ہے تو اسے دور کرکے اور اپنے دل کو صاف کرکے اس سے صلح کرے۔ تب وہ خدا کی بخشش کا مستحق ہوگا۔ ورنہ خدا کو کسی کے بھوکا پیاسا رہنے کی کیا حاجت ہے۔ مغفرت کے بعض مواقع کا ذکر کرتے ہوئے آنحضرتﷺ نے فرمایا:
يُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ لَا يُشْرِكُ بِاللّٰهِ شَيْئًا إِلَّا رَجُلًا كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ فَيُقَالُ أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا۔ (صحيح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب)
کہ بعض دنوں میں جب اللہ تعالیٰ کے حضور اعمال پیش کیے جاتے ہیں تو اللہ اس شخص کے سب گناہ بخش دیتا ہے جو شرک نہیں کرتا سوائے ایسے شخص کے جو اپنے بھائی کے لیے اپنے دل میں کینہ رکھتا ہے۔ ایسے شخص کی بخشش کو روک لیا جاتا ہے اور اس کو مہلت دی جاتی ہے کہ وہ اپنا دل صاف کرکے صلح کرلے۔
رمضان میں بھی اللہ تعالیٰ روزے دار کی مغفرت فرماتا ہے مگر کیا ایسا شخص جو دل میں دوسروں کے خلاف کینہ رکھتا ہو وہ مغفرت کا امیدوار ہوسکتا ہے جبکہ عام دنوں میں بھی کینہ ور کے گناہ نہیں بخشے جاتے؟
مہمان کی خاطرداری میں غفلت نہ ہو
جب مہمان آپ کے پاس آتا ہے تو شروع میں بالطبع انسان ہر طرح سے اس کا خیال رکھتا ہے لیکن کچھ دنوں کے بعد مہمان نوازی میں وہ مستعدی اور جوش باقی نہیں رہتا اور اس بات کا قوی احتمال ہوتا ہے کہ انسان مہمان نوازی میں غفلت کا شکار ہو جائے۔ مگر آنحضرتﷺ نے ہمیں بتایا کہ رمضان ایک ایسا مہمان ہے جس کے اکرام میں کبھی غفلت نہیں ہونی چاہیے بلکہ آپ کا اپنا نمونہ تو یہ تھا کہ آخری دنوں میں زیادہ مستعدی کے ساتھ اس مہمان کا خیال رکھتے تھے اور پہلے سے بڑھ کر اس کے حقوق ادا فرماتے تھے۔ چنانچہ احادیث میں ذکر ملتا ہے:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ۔
(صحيح البخاري، كتاب صلاة التراويح، باب العمل في العشر الأواخر من رمضان)
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ جب رمضان کے آخری عشرے میں داخل ہوتے تو کمر کس لیتے اور زیادہ مستعدی کے ساتھ اپنی راتوں کو زندہ کرتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی راتوں کو جگاتے کہ وہ بھی اپنی راتوں کو عبادت الٰہی کے ساتھ زندہ کریں۔
اسی طرح بعض دیگر روایات میں آتا ہے کہ آپ رمضان کے آخری عشرے میں اپنے اہل خانہ سے بالکل الگ ہوکر اعتکاف فرماتے جس میں اپنے آپ کو کلیۃً عبادت وذکرِ الٰہی میں مشغول فرما لیتے۔
جس طرح عبادات میں نماز مومن کی معراج ہے اور نماز میں حالتِ سجدہ نماز کی معراج ہے۔ اسی طرح روزوں کی معراج لیلۃ القدر ہے جو اسی آخری عشرے سے وابستہ کردی گئی ہے تاکہ ایک مومن ہر طرح سے اپنی معراج کو پہنچ جائے اور ایمان کے اعلیٰ معیار کو حاصل کرنے والا ہو۔
مہمان کو الوداع کیسے کریں؟
جب آپ کا کوئی عزیز مہمان رخصت ہونے لگتا ہے تو آپ کا دل کرتا ہے کہ آپ کو اس کی مزید کچھ رفاقت میسر آجائے۔ آپ کہتے ہیں اتنی جلدی کیا ہے، کچھ اور ٹھہریں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اس کو الوداع کرنے کےلیے گھر سے باہر نکل کر کچھ دور تک اس کے ساتھ جاتے ہیں۔ بعض دفعہ اسٹیشن یا سواری تک چھوڑنے کے لیے اس مہمان کے ساتھ جاتے ہیں اور جب تک وہ آپ کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو جاتا آپ ہاتھ لہرا کر اس کو سلام کرتے رہتے ہیں۔ یہی حال اس معزز مہمان کا ہےجس کو رمضان کہتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ اس کو کیسے الوداع کرتے تھے۔ رمضان کو رخصت کرتے وقت آپ عید کی صورت میں رمضان کی الوداعی دعوت کرتے اور پھر اس کو رخصت کرنے کے لیے کچھ دور تک اس کے ساتھ اس طرح جاتے کہ شوال کے چھ روزے رکھتے۔ یہی تعلیم آپ نے صحابہؓ کو بھی دی کہ اگر آپ لوگوں نے رمضان کا واجب اکرام کیا اور پھر اس طرح سے اس کو الوداع کیا تو یہ بات آپ کی اس مہمان سے دائمی محبت اور دلی وابستگی کی دلیل ہو گی، ایسی محبت جو ہمیشہ دل میں قائم رہتی ہے۔ ہر چند آپ نے اس کو الوداع کر دیا مگر درحقیقت وہ ہمیشہ آپ کے دل میں بستا ہے، گویا آپ سے کبھی جدا نہیں ہوتا۔ چنانچہ فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ۔ (صحيح مسلم، كتاب الصيام)
جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے سارے سال کے روزے رکھ لیے۔ یعنی وہ کبھی روزے سے روحانی طور پر الگ نہیں ہوگا اور دلی طور پر ہمیشہ اس سے وابستہ متصور ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ وہ پھر سارا سال اس کے ثواب اور اجر کا حقدار ہوگا۔
یوں بھی نہیں کہ پاس ہے میرےوہ ہم نفس
یہ بھی غلط کہ مجھ سے جدا ہو گیا وہ شخص