متفرق مضامین

’’دارالذکر‘‘ لاہور کی یادیں اور باتیں، تاریخ کے آئینے میں (قسط دوم۔ آخری)

(منور علی شاہد۔ جرمنی)

خلفائے احمدیت کی دارالذکرلاہور میں آمد اور خطبات جمعہ

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے خلافت پر متمکن ہونے کے بعد 30؍ستمبر 1966ء کو دارالذکر میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ اس موقع پر حضورؒ نے انجینئرنگ یونیورسٹی میں متعدد گولڈ میڈل لینے پر انعام کے طور خادم لاہور مکرم ملک طاہر احمد کا نکاح بھی پڑہایا۔دوسری بار لاہور میں دس روزہ قیام کے دوران 10؍اکتوبر 1969ء کو نمازِ جمعہ پڑھائی اور تیسری بارمارچ 1974ء میں دارالذکرلاہور میں نماز جمعہ پڑھائی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الربع رحمہ اللہ نے دارالذکر لاہور میں ایک ہی خطبہ جمعہ مورخہ 14؍اکتوبر1983ء کو ارشاد فرمایا اور پھر اپریل 1984ء میں برطانیہ ہجرت ہوگئی۔ اس روز دارالذکر میں احمدیوں کی بڑی تعداد نے نماز جمعہ ادا کی تھی۔

’’انچارج مربی ضلع‘‘نظام کا آغاز

لاہورکی بعض دیگر مساجد کی طرح دارالذکر میں مربی صاحب موجود تھے جو نمازوں کے علاوہ جمعہ کی نماز پڑھایا کرتے تھے۔ یہاں تعینات مربیان سلسلہ کی ایک طویل فہرست ہے جنہیں دارالذکر لاہور میں خدمت کی توفیق ملی۔ مارچ 1991ء میں مکرم حنیف صاحب مربی سلسلہ کی دارالذکر میں تقرری ہوئی۔ آپ جولائی1998ءتک دارالذکر مربی ہائوس میں قیام پذیر رہے۔ اس دَور کی اہم بات یہ ہے کہ لاہور میں پہلی بار ’’انچارج مربی ضلع‘‘کا نظام نافذ ہوا۔ آپ نے خاکسار کو بتایا کہ

’’مجھ سے پہلے مکرم خورشید سنوری صاحب بطور مربی یہاں کام کر رہے تھے۔ جب میں دارالذکر لاہور میں تعینات ہوا تو اس وقت یہاں پورے لاہور میں کل 5 مربیان کرام خدمات بجا لا رہے تھے(دہلی گیٹ، مغلپورہ، دارالذکر، کڑک ہائوس اور ہڈیارہ)، اور جب میں نے دارالذکر کو الوداع کیا تو اس وقت لاہور میں مربیان کی تعداد 21؍تعداد ہو چکی تھی۔ 1993ءمیں پہلی بار لاہور میں ’’انچارج مربی ضلع‘‘کا نظام شروع ہوا تھا اور خاکسار کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔‘‘

موصوف نے بتایا کہ انہیں لاہور میں قیام کے دوران کچھ تحقیقی کام کرنے کی توفیق بھی ملی۔ اس دور میں جو کتب منظرِ عام پر آئیں ان میں ’’لاہور کی روحانی قدریں ‘‘، اور لیکھرام کے حوالے سے ایک تحقیقی کتاب شامل ہیں۔ ان کے بعد مکرم آصف صاحب دارالذکر میں تعینات ہوئے۔ محترم حنیف صاحب کی الوادعی اور محترم آصف صاحب کی استقبالیہ تقریب مجلس خدام الاحمدیہ ضلع لاہور کی طرف سے 20؍ جون 1998ء کو دارالذکر میں منعقد کی گئی۔ انہی کے دور میں خاکسار کا قلم اور صحافت سے ایسا تعلق بنا جو ابھی تک قائم ہے۔ بعد ازاں انہی دنوں میں پھر رائٹر زفورم سے بھی منسلک ہونے کی توفیق مل گئی تھی جس نے حقیقی معنوں میں تحقیق اور تحریر کی راہ پر گامزن کردیا فالحمد للہ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے دورۂ لاہور کے دوران دارالذکر میں احمدیوں کا ہجوم

لاہور میں امارت کی تبدیلی

2009ءمیں لاہور کی امارت میں تبدیلی ہوئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے محترم منیر احمد شیخ صاحب لاہور کے نئے امیر مقرر ہوئے۔ اس سے پہلے آپ گارڈن ٹائون کے صدر جماعت تھے۔ آپ کا دَور امارت انتہائی مختصر رہا کیونکہ مئی2010ء میں دارالذکر پر ہونے والے حملہ میں آپ شہید ہو گئے ۔ خاکسار ان کی مجلس عاملہ کا ممبر تھا۔ آپ کی شہادت تک کے عرصہ میں ان کی شفیق شخصیت کے بہت سے پہلوئوں کو دیکھا تھا۔ انہی کے دَور میں ایک دفعہ ربوہ سے مکرم عبد السمیع خان صاحب ایڈیٹر روزنامہ الفضل اور مکرم نائب ایڈیٹر صاحب کچھ دنوں کے لیے لاہور آئے تو انہوں نے دارالذکر میں قیام فرمایا۔ محترم منیر احمد شیخ صاحب نے ان کی مہمان نوازی کے لیے خاکسار کی ڈیوٹی لگائی۔ محترم امیر صاحب نے مہمانان کرام کو اپنے گھر گارڈن ٹائون میں مدعو بھی فرمایا تھا۔ آپ کے دَور میں ایک قابل ذکر تقریب آپ کی شہادت سے دو ماہ قبل14؍مارچ2010ء کو دارالذکر میں منعقد ہوئی جس میں مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی ربوہ اور سابق امیر لاہور محترم حمید نصراللہ خان صاحب نے شرکت کی تھی۔ یہ تقریب حسب سابق قادیان جلسہ پر ڈیوٹیاں دینے والے خدام، انصار کے اعزاز میں ہوئی تھی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شہادت کے بعد خطبہ جمعہ فرمودہ11؍جون2010ء میں آپ کے اوصاف حمیدہ بیان کرتے ہوئے فرمایا :

’’ان کا علم بھی بڑا وسیع تھا۔ بڑے دلیر تھے۔ قوتِ فیصلہ بہت تھی۔ ملازموں اور غریبوں سے بڑی ہمدردی کیا کرتے تھے۔ درویش صفت انسان تھے۔ جب بھی مَیں ان کو ملا ہوں جہاں تک میں نے دیکھا ہے ان کی طبیعت میں بڑی سادگی تھی۔ فضلِ عمر فاوٴنڈیشن کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ اس کے علاوہ شروع میں ماڈل ٹاوٴن حلقہ میں زعیم اعلیٰ کے طورپربھی خدمات رہی ہیں۔ گارڈن ٹاوٴن حلقہ کے صدر بھی رہے…

گزشتہ سال جب میں نے ان کو امیر جماعت لاہور مقرر کیا ہے تو انہیں لکھا کہ اگر کوئی مشکل ہو براہِ راست رہنمائی لینی چاہتے ہوں تو بے شک لے لیا کریں اور بے شک مجھ سے رابطہ رکھیں۔ …بڑے منجھے ہوئے شخص تھے۔ سب جو کارکنان تھے، ان کے ساتھ کام کرنے والے ان کو ساتھ لے کر چلنے والے تھے۔ لجنہ ضلع لاہور کی صدر نے مجھے بتایا کہ جب یہ مقرر ہوئے ہیں تو ہمیں خیال تھا کہ یہ کس شخص کو آپ نے امیر جماعت مقرر کر دیا ہے جس کو زیادہ تر لوگ جانتے بھی نہیں۔ لیکن ان کے ساتھ کام کرنے سے پتہ چلا کہ یقیناً انہوں نے اپنی ذمہ داری کا حق ادا کر دیا اور بڑے پیار سے ساروں کو ساتھ لے کر چلے۔ بے شمار خصوصیات کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں میں ان کو جگہ دے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍جون2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍جولائی2010ءصفحہ5تا6)

دارالذکر پر دہشت گردوں کا حملہ

2010ء کے سال نے یک دم سب کچھ بدل دیا، گو کہ اس سے پہلے ہی آسمان پر کہیں کہیں سرخ لالی دکھائی دیتی تھی، لیکن حقیقی معنوں میں ’’حالت امن کے دارالذکر‘‘کو اس دہشت گردی کے حملے نے نگل لیا تھا۔ اہالیان لاہور نے اس دن اپنے لہو سے نئی تاریخ رقم کی جو ان شہداء کو ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ ان شاء اللہ۔ 28؍مئی 2010ءایک ایسا دن تھا جب دنیا نے مذہب کے نام پر خانۂ خدا کے اندر انسانی جانوں سے خون کی ہولی کھیلی جاتے دیکھی۔ وہ دن دَور حاضر کی تاریخ کا یقیناً بدترین اور سیاہ ترین دنوں میں سے ایک تھا کہ خدا کی عبادت کے لیے اکٹھے ہونے والوں پر محاذجنگ کی طرح گولیوں اور بموں کی بوچھاڑکردی گئی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ’’دارالذکر‘‘ کے در و دیوار عاشقان مسیح موعودؑ و خلافت احمدیت کے فرمانبرداروں کے خون سے سرخ ہو گئے تھے۔ ’’دارالذکر‘‘ کے اندر مین ہال اور صحن میں انسانی خون پانی کی طرح بہ رہا تھا، جوتوں کے جوڑے انسانی خون میں نہ صرف لت پت تھے بلکہ بارود کی آگ کی وجہ سے جل بھی چکے تھے۔ بارود کی بدبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ تین دن تک یہی مناظر دیکھتے رہے۔ پھر وہاں وقار عمل کیا گیا۔ اسی روز مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن پر بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔ شہدائے دارالذکر میں مکرم منیر احمد شیخ صاحب امیر جماعت لاہور، مکرم اعجاز نصراللہ خان صاحب (بھتیجے حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ)، مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب اور دیگر شامل تھے۔ جبکہ اس روز دونوں مساجد میں کل ملا کر 80 سے زائد احمدیوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

حملہ کے وقت مکرم مربی صاحب خطبہ جمعہ دے رہے تھے۔ مکرم منیر احمد شیخ صاحب امیر لاہور کی شہادت کے بعدمکرم ملک صاحب کو امیر لاہور مقرر کردیا گیا تھا۔ محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب مرکزی نمائندگی میں دس دن تک دارالذکر میں قیام پذیر رہے اور خاکسار نے محترم امیر صاحب کی ہدایت پران کے ساتھ صبح سے رات گئے تک دس دن ڈیوٹی دی۔ میرے ذمہ صبح سویرے لاہور کے تمام اردو، انگریزی، چھوٹے، بڑے صبح اور شام کے اخبارات کی فراہمی کی ذمہ داری تھی جسے نبھانے کی توفیق ملی۔ اس کے علاوہ انٹرنیشنل، اور ملکی میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیموں، وفود کی ان سے ملاقات بھی خاکسار کے ذمہ تھی۔ محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کی اجازت سے جدید گیسٹ ہائوس میں ان سے ملاقات کراتا۔ ان ایام میں بی بی سی لاہور نے بھی محترم صاحبزادہ صاحب کے ساتھ متعدد انٹرویوز کیے تھے۔ ان دنوں ہر روز رات خاکسار ڈائری میں دن بھر کی کہانی لکھ دیتا۔ ( دس دن کی یہ چشم دیدرپورٹ ڈائری میں لکھی خاکسار کے پاس آج بھی موجود ہے)۔

گورنر پنجاب سلمان تاثیر جب دارالذکر تشریف لائے تو جدید گیسٹ ہائوس صحافیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ملاقات کے فوراً بعد انہیں رپورٹروں نے دارالذکر صحن میں گھیر لیا اور سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ جدید گیسٹ ہاؤس کے سرسبز لان میں پرہجوم پریس کانفرنس بھی ایک اہم واقعہ تھا۔ یہ پریس کانفرنس محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب اور محترم راجہ غالب احمد صاحب(صدر پریس رابطہ کمیٹی) نے کی تھی، محترم میر قمر صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ خاکسار کی معاونت میں دیگر ممبران پریس کمیٹی نے بھی احسن طریقے سے ذمہ داری ادا کرنے کی توفیق پائی۔

اس المناک سانحہ پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’آج ہمارے شہداء کی خاک سے بھی یقیناً یہ خوشبو آ رہی ہے جو ہمارے دماغوں کو معطر کر رہی ہے۔ ان کی استقامت ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ جس استقامت اور صبر کا دامن تم نے پکڑا ہے، اسے کبھی نہ چھوڑنا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کا سچا ہے۔ ابتلاء کا لمبا ہونا تمہارے پائے استقلال کو ہلا نہ دے۔

پس ہمارا رونا اور ہمارا غم خدا تعالیٰ کے حضور ہے اور اس میں ہمیں کبھی کمی نہیں ہونے دینی چاہئے۔ آپ لاہور کے وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ الہام ہوا تھا کہ ’’لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں ‘‘۔ (تذکرہ صفحہ328جدید ایڈیشن) اور ’’لاہور میں ہمارے پاک محبّ ہیں ‘‘۔ (تذکرہ صفحہ328) پس یہ آپ لوگوں کا اعزاز ہے جسے آپ لوگوں نے قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کو صبر اور دعا سے حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اور پھر اس تعلق میں بہت سی خوشخبریاں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بتائی ہیں۔ پس خوش قسمت ہیں آپ جن کے شہر کے نام کے ساتھ خوشخبریاں وہاں کے رہنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک مسیح علیہ السلام کے ذریعہ دی ہیں۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ4؍جون2010ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل25؍جون2010ءصفحہ7)

2013ءمیں روزنامہ الفضل کے قیام پر ایک صدی پوری ہوئی تو اس سلسلہ میں الفضل صد سالہ تقریبات کی مناسبت سے ربوہ میں ایک سیمینار کا انعقاد ہوا جس میں خاکسار نے محترم امیر صاحب لاہور کی ہدایت پربحیثیت سیکرٹری اشاعت شرکت کی سعادت پائی۔ بعد ازاں مرکزی ہدایت پر24؍فروری 2013ءکو دارالذکر میں بھی ایک سیمینار منعقد کیا گیا کیونکہ تقسیم ہند کے بعد الفضل لاہور سے بھی شائع ہوتا رہا تھا۔ اس سیمینار میں مرکز سے محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ناظر دیوان اور ممبر بورڈ الفضل ربوہ، مکرم عبدالسمیع خان صاحب ایڈیٹر روزنامہ الفضل (حال استاذ جامعہ احمدیہ گھانا)اور محترم طاہر مہدی امتیاز صاحب مینیجر الفضل ربوہ (حال مینیجر الفضل انٹرنیشنل لندن) نے شرکت کی۔ مقامی طور پر صدر صاحبان حلقہ جات، ممبران عاملہ ضلع، مربیان لاہور کے علاوہ مجلس خدام الاحمدیہ، انصاراللہ کی ضلعی عاملہ کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس کی ایک رپورٹ الفضل4؍مارچ2013ء کو صفحہ اوّل پر شائع ہوئی۔ سیمینار کے اختتام پر تاریخی موقع کی نسبت سے محراب کے سامنے مرکزی نمائندگان کے ساتھ گروپ فوٹوز بھی بنائی گئیں۔ یہ ایک تاریخی تقریب تھی جس میں روزنامہ الفضل کے ایک سو سال کے سفر کی روئیداد پر مختصر مقالے پڑھے گئے۔

’’دارالذکر‘‘نے بحیثیت مرکزی عمارت، نہ صرف جماعت احمدیہ لاہور جماعت کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا بلکہ ذیلی تنظیموں کو تنظیمی طور پر فعال کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا کیونکہ اسی عمارت میں سب کے مرکزی دفاتر ہوا کرتے تھے۔ ان دفاتر میں امیر صاحب لاہور اور نائب امراء کے دفاتر کے علاوہ ذیلی تنظیموں مجلس خدام الاحمدیہ ضلع، مجلس انصاراللہ ضلع اور لجنہ اماءللہ ضلع لاہور شامل ہیں۔ علاوہ ازیں مربی صاحب ضلع کی رہائش گاہ ’’مربی ہائوس‘‘دارالذکر میں تعمیر ہو گئی تھی۔ 2016ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے لاہور میں لوکل امارات کا نیا نظام رائج کردیا گیا جس پر یکم جولائی 2016ء سے عمل درآمد شروع ہو چکا ہے اور دارالذکر کی مرکزی حیثیت (تقریبا 62 سال بعد) کام میں وسعت کی بدولت ختم ہو گئی اور ضلع لاہور کی یکجا امارت 8 مقامی امارتوں میں تقسیم ہوگئی۔ ان مقامی امارتوں کی تفصیل درج ذیل ہیں:

امارت مغلپورہ، امارت ڈیفنس، امارت دارالذکر، امارت ماڈل ٹائون، امارت ٹائون شپ، امارت دہلی گیٹ، امارت سمن آباد اور امارت علامہ اقبال ٹائون ۔

لاہور میں لوکل امارت کے نظام کے نفاذ کے بعد اب یہاں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اب ’’دارالذکر‘‘انتظامی طور پر لوکل امارت دارالذکر کے تحت آتا ہے۔

مکرم میاں نذیر احمد صاحب انجینئر دارالذکر

میاں نذیر احمد صاحب انجینئر دارالذکر

مکرم میاں نذیر احمد صاحب سترہ مارچ1913ء کو پیدا ہوئے۔ 1930ءمیں آپ نے بیعت کی، بعد ازاں آپ نظام وصیت میں شامل ہوگئے۔ آپ کی وصیت نمبر4766ہے۔ آپ ایک سول انجینئر تھے اور لاہور میں پاکستان مِنٹ میں رہتے تھے۔ آپ دارالذکر کی تعمیراتی کمیٹی میں شامل تھے اور وہیں سے گڑھی شاہو آیا کرتے تھے۔

بحیثیت انجینئر آپ نے پی ڈبلیو ڈی کے محکمہ میں ملازمت کی۔ آپ نے بادشاہی مسجد لاہور کی بیرونی گیلری، میناروں اور گنبد کی ڈیزائننگ اور مرمت کے کاموں کی نگرانی کی تھی اور تیار کیے تھے۔ جب دارالذکر کی تعمیرکا کام تیز ہوا تو آپ نے 1962ء میں ریٹائرمنٹ لے لی اور خود کودارالذکر کی ڈیزائننگ اور تعمیر کے لیے وقف کردیا۔ اس کام کے لیے دارالذکر سے چند منٹوں کے فاصلے پر گھر لے لیا۔ یوں پوری یکسوئی کے ساتھ خدمت کی توفیق پائی۔ آپ انتہائی پاکیزہ خیالات رکھنے والے پرہیز گار اور کم گو انسان تھے۔ آپ کی وفات18؍فروری1999ءکو ہوئی اور ماڈل ٹائون قبرستان میں امانتاً دفن ہوئے۔ ان کے کتبہ پر بھی انجنیئر’’دارالذکر‘‘ لاہور لکھا ہوا ہے۔ آپ محترم شیخ ریاض احمد صاحب نائب امیر و سیکرٹری ضیافت لاہور کے سسر تھے۔

دارالذکر کی تعمیر کا پس منظر

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جب 1947ءمیں تقسیم ہند کے بعد چند سال رتن باغ لاہور قیام فرمایا تو اس وقت لاہور کی مرکزی مسجد واقع دہلی دروازہ ہوا کرتی تھی۔ حضورؓ نے 1948ءمیں لاہور میں نئی مسجد کی تعمیر کے لیے تحریک فرمائی ۔ حضورؓنے فرمایا:

’’میں آیا تو اس ارادہ سے تھا کہ اس مضمون کو بیان کروں جسے میں نے گزشتہ جمعہ میں شروع کیا تھا اور جس کے لئے میں نے قرآن پاک کی بعض آیات سے بھی استد لال کیا تھا، لیکن یہاں آنے کے بعد میری رائے بدل گئی اور میں نے سمجھا کہ میں سردست جماعت احمدیہ لاہور کو پھر اس امر کی طرف توجہ دلادوں جس کی طرف میں ایک دفعہ پہلے دلا چکا ہوں کہ جماعت کو ایک دوسری مسجد بنانے کی طرف فورا ًتوجہ کرنی چاہیے ‘‘(روزنامہ الفضل 26؍جنوری1949ء صفحہ3)

حضورؓ نے فرمایا: ’’تبلیغ کی وسعت کے پیش نظر لاہور میں ایک نئی مسجد کی تعمیر نہایت ضروری ہے۔ ‘‘

(روزنامہ الفضل 26؍جنوری1949ء صفحہ3)

تاریخ اور ریکارڈ کے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس وقت کے امیر جماعت لاہور محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو ارشاد فرمایا کہ ایک وسیع مسجد کی تعمیر کے لیے دس ہزار روپیہ اکٹھا کیا جائے تاکہ مسجد کی تعمیر کےلیے زمین خریدی جاسکے۔ اس حوالے سے تاریخ احمدیت لاہور میں محترم بابوفضل دین سیالکوٹی صاحب ریٹائرڈ سپرنٹندنٹ ہائی کورٹ کا ایک بیان درج ہے جس کے مطابق:

’’محترم شیخ صاحب نے انہیں اور محترم میاں غلام محمد صاحب اختر کو فرمایا کہ میری کار لو اور مسجد کی زمین کے لئے چندہ جمع کرو، ہم نے اسی روز شام تک پانچ ہزار روپے کے وعدے اور پانچ ہزار نقد محترم امیر صاحب کی خدمت میں پیش کئے جس پر حضور نے خوشنودی کا اظہار کیا ‘‘

(تاریخ احمدیت لاہور، صفحہ نمبر476نیا ایڈیشن)

حضرت مصلح موعودؓ نے 1954ء میں رتن باغ میں ایک اور تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جو نئی مساجد کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں تھا۔ حضور ؓفرماتے ہیں :

’’تمہیں کیا معلوم کہ خدا تعالیٰ یہاں احمدیت کو کتنی بڑی ترقی دینا چاہتا ہے، فرض کرو تم دو یا چار کنال میں جامع مسجد بنا دو اور لاہور کے دس لاکھ آدمیوں میں سے دو لاکھ احمدی ہو جائیں تو اس میں جمعہ کی نماز کہاں پڑھ سکتے ہیں ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍جنوری1954ءبمقام رتن باغ لاہور مطبوعہ ہفت روزہ بدر قادیان14؍مارچ1954ء)

حضورؓ نے لاہور کے احباب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’لاہور کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ اپنے لئے جلد سے جلد نئی مسجد بنائیں اور اتنی بڑی بنائیں کہ وہ اسے پُر نہ کر سکیں ‘‘

(المصلح کراچی، 2؍مارچ1954ءصفحہ2)

حضورؓ نے مزید فرمایا:’’میں نے لاہور کی جماعت کو تحریک کی تھی کہ اب یہاں کی مسجد ان کی ضروریات کیلئے کافی نہیں ہے، انہیں کوئی اَور مسجد بنانی چاہئے‘‘(ایضاً صفحہ3)

فرمایا:’’نمازوں کے لئے یہاں ایک وسیع مسجد کا ہونا اشد ضروری ہے۔‘‘(ایضاً)

حضورؓ نے فرمایا:’’لاہور کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ جلدی مسجد بنائیں، اس کے لئے تم زیادہ انتظار نہ کرو، معمولی چار دیواری بنائو اور نماز پڑھنی شروع کردو، دھوپ ہو تو سائبان کھڑے کئے اور نماز پڑھ لی۔‘‘(ایضاً صفحہ4)

فرمایا:’’پس جلدی کرو اور مسجد کے لئے زمین خریدو‘‘

(ایضاً صفحہ4)

نئی مسجد کے لیے زمین کی خریداری اور پھر پرشکوہ عمارت تعمیر کرنے کا کام لاہور کے تین امراء کے دَور میں مکمل ہوا۔ ان میں محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ، محترم چودھری اسد اللہ خان صاحب اور محترم چودھری حمید نصراللہ خان صاحب شامل ہیں۔

محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی لاہور کی امارت کا دَور 1934ءمیں شروع ہوا اور مئی1954ءتک جاری رہا۔ اس کے بعدمحترم چودھری اسد اللہ خان صاحب کا دَور ہے جو1954ءسے1975ءتک جاری رہا اور اسی دَور میں ایک ’’دارالذکر کمیٹی‘‘تشکیل دی گئی جس کی نگرانی میں رقم اکٹھی کی گئی جو دارالذکر کی تعمیر پراستعمال ہونے لگی۔ کمیٹی ساتھ ساتھ مسجد کی تعمیر کی نگرانی بھی کرتی تھی۔ میاں نذیر احمد صاحب انجینئر اس کمیٹی میں شامل تھے جنہوں نے بعد میں تعمیر کے سب کام مکمل کرائے۔ لاہور کے بزرگ کہتے تھے کہ اس دَور میں ہر جمعہ سے پہلے بعض احباب ایک چادر کے چاروں کونے پکڑ کر کھڑے ہوتے تھے اور احباب جماعت حسب توفیق اس میں چندہ ڈال دیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ کئی سال جاری رہا۔ جن احباب کی یہ ڈیوٹی تھی ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں :

مکرم شیخ محمد شریف احمد صاحب، مکرم چودھری نور احمد صاحب سیکرٹری مال جماعت لاہور، مکرم ٹھیکیدار شریف احمد صاحب اور مکرم میاں محمد یحیٰ صاحب آف نیلا گنبد۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی محترم عبد اللطیف ستکوہی صاحب بھی اس چادر کا کونا پکڑے کھڑے ہوتے تھے ( بشکریہ محترم شیخ ریاض محمود صاحب) چادر کے ذریعہ چندہ اکٹھا کرنے کا کام مکرم حمیدنصراللہ خان صاحب کے دَور تک جاری رہا۔

دارالذکر کی تعمیر حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک اور دعائوں کا نتیجہ ہے۔ اس کی بنیادوں میں اس پاک وجود کی دعائیں شامل ہیں۔ تاریخ احمدیت لاہور اور دیگر کتب کے مطابق ’’دارالذکر‘‘ کا سنگ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے22؍فروری1954ءکورکھا تھا۔23؍ نومبر 1954ء کو چھپر ڈال کر وہاں پہلی نماز جمعہ پڑھائی گئی اور19؍ دسمبر1958ء کو ’’دارالذکر کمیٹی‘‘کی نگرانی میں دارالذکر کی باقاعدہ تعمیر کا آغاز ہوا ۔

(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ 555نیا ایڈیشن)

ہفت روزہ بدر قادیان کے شمارہ14؍مئی1954ءصفحہ نمبر 2 پر دارالذکر کے سنگ بنیاد بارے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس کے مندرجات کچھ یوں ہیں :

’’فروری میں حضور نے لاہور میں آ کر دو دفعہ جمعہ رتن باغ میں پڑھایا، دونوں بار مجلس خدام نے ہر طرح کا انتظام کیا۔ لاہور میں جو زمین مسجد کے لئے خریدکی گئی ہے، اس بارے میں حضور نے فرمایا تھا کہ اس کا سنگ بنیاد رکھ دینا چاہیے اور حضور نے اس کے لئے 22؍فروری اتوار کا دن مقرر فرمایا تھا۔ مجلس عاملہ خدام نے اس مسجد کی بنیاد کی کھدائی کی۔ حضور کی تقریر کے لئے پنڈال منتخب کرکے بیچ میں اینٹوں کی ایک سٹیج بنائی، سڑک سے سٹیج تک اور سٹیج سے جائے بنیاد تک اینٹوں کا راستہ بنایا جو قریباً پانچ سو فٹ لمبا تھا۔ تمام انتظامات دریوں، شامیانے، قناتوں کا خدام نے کیا اور حفاظت کا مکمل انتظام کیا گیا چنانچہ سڑک سے سٹیج تک معروف اور مخلص خدام کودو رویہ کھڑا کیا گیا اور اسی طرح وہاں سے جائے بنیاد تک انتظام کیا گیا، اس راستے میں کسی اور شخص کو نہیں آنے دیا گیا، حضور دس بجے تشریف لائے، حضور نے پہلی زیر تجویز جگہ کی بجائے ایک دوسری جگہ بنیاد کے لئے پسند فرمائی، چنانچہ خدام نے دوران تقریر ہی اس کی کھدائی کر لی اور حضور نے سنگ بنیاد رکھا اور دعا فرمائی۔ ‘‘

سنگ بنیاد کے موقع پر بکرے کی قربانی بھی دی گئی تھی۔

دارالذکر کی تعمیر اور بنیادوں کی کھدائی

دارالذکر کے سنگ بنیاد رکھے جانے کے بعد اس کی تعمیر کے لیے کثیر سرمایہ کی ضرورت تھی۔ زمین کے لیے جس طرح رقم اکٹھی کی گئی تھی اس کا تذکرہ اوپر کیا جا چکا ہے۔ کئی سال تک چندوں کی مدد سے رقم اکٹھی کی جاتی رہی۔ 18؍جنوری1959ء کو باقاعدہ بنیادیں کھودی گئیں جس کے لیے لاہور کے خدام و احباب نے ایک وسیع وقار عمل کیا تھا جن کل تعداد ایک صد سے زائد تھی۔ اس وقارِ عمل میں لاہور کے امیر جماعت مکرم چودھری اسد اللہ خان صاحب نے بھی شرکت کی تھی۔ بنیادوں کو کھودنے کے بعد مٹی کو دوسری جگہ لے جانے اور ہموار کرنے کے لیے اجتماعی وقار عمل کیا گیا جو صبح دس بجے سے دوپہر ایک بجے تک جاری رہا تھا۔ تعلیم یافتہ اور خوش پوش خدام ذوق شوق سے مٹی کھودتے اور ٹوکریاں اٹھاتے تھے۔ مکرم امیر صاحب لاہور نے اس موقع پر خدام کی کارکردگی پر خوشنودی کا اظہار کیا۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 31؍جنوری1959ءصفحہ6)

دارالذکر بنیادوں کی کھدائی کا منظر

مکرم فہیم احمد صاحب ناگی (حال مقیم یوکے) لکھتے ہیں کہ

’’جب مسجد کے وقار عمل کا آغاز ہوا تو ابا جان( میاں عبدالقیوم ناگی صاحب) ناظم مال تھے۔ ان کے ذمہ تھا کہ وہ خدام کے لیے ناشتہ اور دوپہر کے کھانے کا انتظام کریں۔ لہٰذا وہ صبح کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا اپنے گھر سے تیار کرواتے کیونکہ مالی حالات ایسے نہیں تھے کہ باہر سے پکوایا جاتا، لہٰذا میری والدہ صاحبہ( خورشید بیگم صاحبہ ) تیار کرتی تھیں۔ مگر جب وقار عمل کرنے والوں کی تعداد بڑھنے لگی تو بعض اوقات باہر سے پکوایا جاتا تھا۔‘‘

دارالذکر کے تہ خانے کی کھدائی کے دوران وقارِ عمل

دارالذکر میں ہونے والی نئی تعمیرات

مکرم چودھری حمید نصراللہ خان صاحب نے1975ء میں امیر جماعت لاہور کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو بڑھتی ہوئی ضروریات کی روشنی میں دارالذکر میں نئی تعمیرات اور توسیع کا سلسلہ شروع ہوا جو2009ءان کی امارت کے اختتام تک جاری رہا۔ اس دور میں دارالذکر کی اندرونی تعمیرات کی تکمیل ہوئی اور بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج کا دارالذکر انہی کے دَور کا تعمیر کردہ ہے۔

دارالذکر لاہورتعمیر کے مراحل میں

آج دارالذکر ایک پرشکوہ عمارت کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے جو دیکھنے والوں کو پہلی نظر ہی میں متاثر کرتی ہے۔ محترم شیخ ریاض محمود صاحب سابق سیکرٹری ضیافت لاہور کے مطابق ’’دارالذکر‘‘میں مکرم چودھری حمید نصراللہ خان صاحب کے دَور میں درج ذیل تعمیرات و توسیع وغیرہ وقوع پذیر ہوئیں:

1۔ نئے غسل خانے، مربی ہائوس کی تعمیر اور اس کے اوپر گیسٹ ہائوس، میٹنگ روم، کچن وغیرہ کی تعمیر

2۔ لجنہ گیلری اور اس کے نیچے جماعتی دفاتر اور دفتر امیر ضلع کا دفتر

3۔ پٹرول پمپ سے خریدی گئی زمین پر جدید گیسٹ ہائوس اور اس کی بالائی منزل کی تعمیر

4۔ دفتر خدام الاحمدیہ ضلع کے سامنے مہمان خانوں اور دیگر کمروں کی تعمیر

5۔ دارالذکر بیرونی گیٹ تا صحن بالمقابل تہ خانہ سیڑھیاں فرش کو چپس ڈال کر پختہ کیا گیا

6۔ سیکرٹریان جماعت کے دفاتر تعمیر کیے گئے جن کی بالائی منزل پر بھی کمرے تعمیر کیے گئے

7۔ ملحقہ شادی ہال خریدا گیا اور اسے استعمال میں لانے کے لیےتبدیلیاں کی گئیں۔ مزید برآں وہاں ایک لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس شادی ہال کو اہم اور بڑی جماعتی تقریبات کے انعقاد کے علاوہ مہمانوں کو کھانا کھلانے کے لیے بھی زیرِ استعمال لایا جاتا رہا۔ دفتر شعبہ اشاعت جس میں خاکسار بھی کام کرتا تھا کئی سال تک اسی جگہ موجود رہا۔

مضمون نگار دفتر مجلس خدام الاحمدیہ ضلع لاہور میں بحیثیت معتمد ضلع لاہور کام کرتے ہوئے

خاکسار اپنے مضمون کا اختتام دارالذکر میں منعقد ہونے والی ایک انتہائی بابرکت اور ایمان افروز تقریب کے ذکر کے ساتھ کرتا ہے۔ یہ جلسہ سیرت النبیﷺ کی روئیداد ہے جو لجنہ اماء اللہ لاہور کے زیر اہتمام منعقد ہوا تھا جس میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ اور حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ( حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ) نے شرکت کی تھی۔ اس تقریب میں احمدی، غیر احمدی ایک ہزار سے زائد مستورات نے شرکت کی تھی۔ الفضل ربوہ کی رپورٹ کے مطابق:’’لجنہ اماء اللہ لاہور کے زیر اہتمام خواتین کا ایک عظیم الشان جلسہ سیرت النبیﷺ منعقد ہوا جس میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ اور حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ(حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے بھی ازراہ کرم شمولیت فرمائی۔ یہ جلسہ کل (18؍مارچ )صبح دس بجے دارالذکر کے وسیع و عریض ہال میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مد ظلہا کی زیر صدارت شروع ہوا۔ ایک ہزار سے زائد احمدی غیر احمدی خواتین نہایت ذوق شوق سے اس میں شامل ہوئیں۔

محترمہ فضیلت بیگم صاحبہ کی تلاوت اور محترمہ صالحہ درد صاحبہ کی نظم سے اجلاس شروع ہوا۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مد ظلہا نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا:

’’…حضورﷺ ایک آئینہ تھے، جس نے ہمیں خدا تعالیٰ کا چہرہ دکھلا دیا۔ آپﷺ ختم المرسلین ہیں، رحمۃ للعالمین ہیں، سید نا اولین و الآخرین ہیں۔ آپﷺ ہی کے مبارک وجود کا ذکر کرنے اور آپﷺ کی سیرت طیبہ بیان کرنے کے لئے یہ جلسہ منعقد کیا جا رہا ہے، مجھے امید ہے کہ اس جلسہ میں جو تقاریر ہوں گی وہ سب بہنیں غور سے خاموشی سے اور ادب و احترام سے سنیں گی۔‘‘

جلسہ میں اختتامی خطاب حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کاتھا…۔ یہ بابرکت اجلاس حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مد ظلہا کی لمبی اور پرسوز اجتماعی دعا کے ساتھ دوپہر ایک بجے اختتام پذیر ہوا تھا۔ خدام الاحمدیہ لاہور کا خاص طور پر ذکر اور شکریہ ادا کیا گیا تھا۔

( روزنامہ الفضل ربوہ22؍مارچ1962ءصفحہ5)

٭…٭…٭

[تصاویر بشکریہ محترم محمود خان صاحب۔ یوکے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button