اسلام مکمل ضابطۂ حیات
غصّہ پر قابو
عائلی مسائل کو پیدا ہونے سے روکنے کےلیےفریقین کا اپنے غصّہ پر قابو پانانہایت ضروری ہے۔ اِس ضمن میں حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’پس مرد اور عورت کو پھر میں یہ کہتا ہوں کہ پردہ پوشی بھی اس وقت ہوتی ہے جب غصّہ پر قابو ہو اور یہ اس وقت ہو گا جب خداتعالیٰ کا خوف ہو گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ لباسِ تقویٰ کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمۡ لِبَاسًا یُّوَارِیۡ سَوۡاٰتِکُمۡ وَ رِیۡشًا ؕ وَ لِبَاسُ التَّقۡوٰی ۙ ذٰلِکَ خَیۡرٌ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّہُمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ۔ (الاعراف:27)
اے بنی آدم یقیناً ہم نے تم پر لباس اتارا ہے جو تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت کے طور پر ہے اور رہا تقویٰ کا لباس تو وہ سب سے بہتر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے کچھ ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ یہاں پھر اس بات کا ذکر ہے جو میں پہلے بھی کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں لباس دیا ہے۔ تمہارا ننگ ڈھانپنے کے لئے اور تمہاری خوبصورتی کے سامان کے لئے۔ یہ تو ظاہری سامان ہے جو ایک تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا۔ انسان کو دوسری مخلوق سے ممتاز کرنے کے لئے ایک لباس دیا ہے جس سے اس کی زینت بھی ظاہر ہو اور اس کا ننگ بھی ڈھانپے۔ لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ اصل لباس، لباسِ تقویٰ ہے۔
یہاں میں ایک اور بات کی بھی وضاحت کر دوں کہ ایک مومن کے اور ایک غیر مومن کے لباس کی زینت کا معیار مختلف ہوتا ہے اور کسی بھی شریف آدمی کے لباس کا، جو زینت کا معیار ہے وہ مختلف ہے۔ آج کل مغرب میں اور مشرق میں بھی فیشن ایبل Fashionable اور دنیا دار طبقے میں لباس کی زینت اُس کو سمجھا جاتا ہے بلکہ مغرب میں تو ہر طبقہ میں سمجھا جاتا ہے جس میں لباس میں سے ننگ ظاہر ہو رہا ہو اور جسم کی نمائش ہو رہی ہو۔ مرد کے لئے تو کہتے ہیں کہ ڈھکا ہوا لباس زینت ہے۔ لیکن مرد ہی یہ بھی خواہش رکھ رہے ہوتے ہیں کہ عورت کا لباس ڈھکا ہوا نہ ہو۔ اور عورت جو ہے، اکثر جگہ عورت بھی یہی چاہتی ہے۔ وہ عورت جسے اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہوتا، اس کے پاس لباس تقویٰ نہیں ہے۔ اور ایسے مرد بھی یہی چاہتے ہیں۔ ایک طبقہ جو ہے مردوں کا وہ یہ چاہتا ہے کہ عورت جدید لباس سے آراستہ ہو بلکہ اپنی بیویوں کے لئے بھی وہی پسند کرتے ہیں تاکہ سوسائٹی میں ان کو اعلیٰ اور فیشن ایبل سمجھا جائے۔ چاہے اس لباس سے ننگ ڈھک رہا ہو یا نہ ڈھک رہاہو۔
لیکن ایک مومن اور وہ جسے اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ چاہے مرد ہو یا عورت وہ یہی چاہیں گے کہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے وہ لباس پہنیں جو خد اکی رضا کے حصول کا ذریعہ بھی بنے اور وہ لباس اس وقت ہو گا جب تقویٰ کے لباس کی تلاش ہو گی۔ جب ایک خاص احتیاط کے ساتھ اپنے ظاہری لباسوں کا بھی خیال رکھا جا رہا ہو گا اور جب تقویٰ کے ساتھ میاں بیوی کا جو ایک دوسرے کا لباس ہیں اس کا بھی خیال رکھا جائے گا اور اسی طرح معاشرے میں ایک دوسرے کی عیب پوشی کرنے کے لئے آپس کے تعلقات میں بھی کسی اونچ نیچ کی صورت میں تقویٰ کو مدنظر رکھا جائے گا۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍اپریل 2009ء مسجدبیت الفتوح، لندن۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2009ء)
حضورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مذکورہ بالامضمون کوقرآنی تعلیمات کے حوالے سےذیل میں یوں بیان فرمایا:
’’ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ۔ (البقرۃ:188)
یعنی وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ پھر یہ بھی حکم دیا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لباس ہیں یعنی مرد اور عورت ایک دوسرے کے رازداربھی ہیں۔ یہاں مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم ہے۔ یہ رازداری ہمیشہ راز داری ہی رہنی چاہئے۔ یہ نہیں کہ کبھی جھگڑے ہوئے تو ایک دوسرے کی غیر ضروری باتوں کی تشہیر شروع کر دو، لوگوں کو بتانا شروع کر دو۔ پھر یہ بھی ہے کہ خاوند بیوی کے اگر آپس میں اچھے تعلقات ہیں، معاشرے کو پتہ ہے کہ اچھے تعلقات ہیں، تو معاشرے میں بھی عورت اور مرد کا ایک مقام بنا رہتا ہے۔ کسی کو نہ عورت پر انگلی اٹھانے کی جرأت ہوتی ہے اور نہ کسی کو مرد پر انگلی اٹھانے کی جرأت ہوتی ہے۔ تو یہاں خاوند اور بیوی کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ نہ مرد، عورت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے اور نہ عورت، مرد کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے۔ فرمایاکہ اس سے نہ صرف تم اپنی گھریلو زندگی خوشگوار بناؤ گے، اچھے تعلقات رکھ کر، بلکہ اپنی نسلوں کو بھی محفوظ کر رہے ہو گے۔ ان کو محفوظ کرنے کے بھی سامان کر رہے ہو گے۔ تو اس طرح بہت سے حقوق اور فرائض اللہ تعالیٰ نے عورت اور مردکے رکھے ہیں اور دونوں پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ ان کی ادائیگی کریں۔ عورت بھی معاشرے کا اسی طرح اہم حصہ ہے جس طرح مرداور دونوں اگر صحیح ہوں گے تو اگلی نسل بھی صحیح طریق پر پروان چڑھے گی، اس کی تربیت بھی صحیح ہو گی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے دونوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ‘‘
(جلسہ سالانہ جرمنی خطاب مستورات فرمودہ21؍اگست2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم مئی 2015ء)
(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 40تا43)
٭…٭…٭