احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
پنڈت دیانند سرسوتی
سوامی دیانند کی پیدائش 1881ءبکرمی بمطابق 1824ء کو کاٹھیا واڑ (گجرات) میں ہوئی۔ 1828ء میں تعلیم شروع کی اور 1831ء سے یجروید اور دوسری کتب پڑھنا شروع کیں۔ پنڈت جی کے تمام گھر والے شیو کے بھگت تھے۔ ایک دفعہ باپ نے مٹی کا رِنگ بنا کر اسے پوجنے کو کہا۔ پوجا کرتے کرتے تمام لوگ سو گئے پنڈت صاحب پوجا کرتے رہے۔ اچانک ایک چوہا آ کر بت پر بیٹھ گیا جس کی وجہ سے پنڈت صاحب کا دل بتوں سے اچاٹ ہو گیا (ماخوذ از جیون چرتر ص 3 تا ص7) اور وہ گھر سے بھاگ نکلے۔
پنڈت دیانند نے اپنی تحریرات میں دوسرے مذہبی پیشواؤں اور مذہبی مقدس کتابوں اور بزرگوں کا بے ادبی اور توہین آمیزطریق سے ذکرکیا ہے اورایساہی رسول کریمﷺ کی شان میں بھی بے باکانہ گستاخی کااندازروارکھا۔ حضوراقدسؑ تحریر فرماتے ہیں کہ
’’براہین احمدیہ کی تالیف کا یہ باعث ہوا تھا کہ پنڈت دیانند نے سر نکالتے ہی اسلام پر زبان کھولی اور اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی بےادبی کی اور قران شریف کا بہت توہین کے ساتھ ذکر کیا۔‘‘
(چشمۂ معرفت ص الف، روحانی خزائن جلد 23ص 5)
حضرت اقدسؑ ان کی یاوہ گوئیوں کی وجہ لکھتے ہیں کہ
’’اس جگہ ہمیں پنڈت دیانند صاحب پر بڑا افسوس ہے جو وہ توریت اور انجیل اور قرآن شریف کی نسبت اپنے بعض رسالوں اور نیز اپنے وید بھاش کے بھومکا میں سخت سخت الفاظ استعمال میں لائے ہیں اور معاذ اللہ وید کو کھرا سونا اور باقی خدا کی ساری کتابوں کو کھوٹاسونا قرار دیا ہے سارا باعث ان واہیات باتوں اور بیہودہ چالاکیوں کا یہ ہے کہ پنڈت صاحب نہ عربی جانتے ہیں نہ فارسی اور نہ بجز سنسکرت کے کوئی اور بولی بلکہ اردو خوانی سے بھی بالکل بے بہرہ اور بے نصیب ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ دوم ص 112، روحانی خزائن جلد 1ص 104)
حضورؑ نے ان کو نصیحت فرمائی کہ ان یاوہ گوئیوں سے باز آ جاؤ فرمایا:
’’ہم ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ جو زبان درازیوں سے باز رہیں جو اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ دوم ص 114، روحانی خزائن جلد 1ص 106)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے پنڈت دیانند کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
اس احقر نے ان کو ان کی وفات سے ایک مدت پہلے راہِ راست کی طرف دعوت کی اور آخرت کی رسوائی یاد دلائی اور ان کے مذہب اور اعتقاد کا سراسر باطل ہونا براہینِ قطعیہ سے اُن پر ظاہر کیا اور نہایت عمدہ اور کامل دلائل سے بادب تمام اُن پر ثابت کردیا کہ دہریوں کے بعد تمام دنیا میں آریوں سے بدتر اور کوئی مذہب نہیں کیونکہ یہ لوگ خدائے تعالیٰ کی سخت درجہ پر تحقیر کرتے ہیں کہ اس کو خالق اور رب العالمین نہیں سمجھتے اور تمام عالم کو یہاں تک کہ دنیا کے ذرّہ ذرّہ کو اس کا شریک ٹھہراتے ہیں اور صفت قدامت اور ہستی حقیقی میں اس کے برابر سمجھتے ہیں اگر ان کو کہو کہ کیا تمہارا پرمیشر کوئی روح پیدا کرسکتا ہے یا کوئی ذرّہ جسم کا وجود میں لاسکتا ہے یا ایسا ہی کوئی اور زمین و آسمان بھی بنا سکتا ہے یا کسی اپنے عاشق صادق کو نجاتِ ابدی دے سکتا ہے اور بار بار کتا بِلّا بننے سے بچا سکتا ہے یا اپنے کسی محب خالص کی توبہ قبول کرسکتا ہے تو ان سب باتوں کا یہی جواب ہے کہ ہرگز نہیں اس کو یہ قدرت ہی نہیں کہ ایک ذرہ اپنی طرف سے پیدا کرسکے اور نہ اس میں یہ رحیمیت ہے کہ کسی اوتار یا کسی رکھی یا منی کو یا کسی ایسے کو بھی کہ جس پر وید اترا ہو ہمیشہ کے لئے نجات دے اور پھر اس کا مرتبہ ملحوظ رکھ کر مکتی خانہ سے باہر دفعہ نہ کرے اور اپنے اُس پیارے کوجس کے دل میں پرمیشر کی پریت اور محبت رچ گئی ہے بار بار ُکتابِلا بننے سے بچاوے۔
مگر افسوس کہ پنڈت صاحب نے اس نہایت ذلیل اعتقاد سے دست کشی اختیار نہ کی اور اپنے تمام بزرگوں اور اوتاروں وغیرہ کی اہانت اور ذلت جائز رکھی مگر اس ناپاک اعتقاد کو نہ چھوڑا۔ اور مرتے دم تک یہی ان کا ظن رہا کہ گو کیسا ہی اوتار ہو رام چندر ہو یا کرشن ہو یا خود وہی ہو جس پر وید اترا ہے پرمیشور کو ہرگز منظور ہی نہیں کہ اس پر دائمی فضل کرے بلکہ وہ اوتار بناکر پھر بھی انہیں کو کیڑے مکوڑے ہی بناتا رہے گا وہ کچھ ایسا سخت دل ہے کہ عشق اور محبت کا اس کو ذرا پاس نہیں اور ایسا ضعیف ہے کہ اس میں خودبخود بنانے کی ذرہ طاقت نہیں۔
یہ پنڈت صاحب کا خوش عقیدہ تھا جس کو پُرزور دلائل سے رد کرکے پنڈت صاحب پر یہ ثابت کیا گیا تھا کہ خدائے تعالیٰ ہرگز ادھورا اور ناقص نہیں بلکہ مبدء ہے تمام فیضوں کا اور جامع ہے تمام خوبیوں کا اور مستجمع ہے جمیع صفاتِ کاملہ کا اور واحد لاشریک ہے اپنی ذات میں اورصفات میں اور معبودیت میں اور پھر اس کے بعد دو دفعہ بذریعہ خط رجسٹری شدہ حقیت دین اسلام سے بدلائل واضحہ ان کو متنبہ کیا گیا اور دوسرے خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ اسلام وہ دین ہے جو اپنی حقیت پر دوہرا ثبوت ہر وقت موجود رکھتا ہے ایک معقولی دلائل جن سے اُصولِ حقہ اسلام کی دیوار روئیں کی طرح مضبوط اور مستحکم ثابت ہوتی ہیں۔ دوسری آسمانی آیات و ربانی تائیدات اور غیبی مکاشفات اور رحمانی الہامات و مخاطبات اور دیگر خوارق عادات جو اسلام کے کامل متبعین سے ظہور میں آتے ہیں جن سے حقیقی نجات ایسے جہان میں سچے ایماندار کوملتی ہے۔ یہ دونوں قسم کے ثبوت اسلام کے غیر میں ہرگز نہیں پائے جاتے اور نہ ان کو طاقت ہے کہ اس کے مقابلہ پر کچھ دم مارسکیں لیکن اسلام میں وجود اس کا متحقق ہے سو اگر ان دونوں قسم کے ثبوت میں سے کسی قسم کے ثبوت میں شک ہو تو اسی جگہ قادیان میں آکر اپنی تسلی کرلینی چاہئے اور یہ بھی پنڈت صاحب کو لکھا گیا کہ معمولی خرچ آپ کی آمدورفت کا اور نیز واجبی خرچ خوراک کا ہمارے ذمہ رہے گا اور وہ خط اُن کے بعض آریوں کو بھی دکھلایا گیا اور دونوں رجسٹریوں کی ان کی دستخطی رسید بھی آگئی پر انہوں نے حُبِّ دنیا اور ناموس دُنیوی کے باعث سےاس طرف ذرا بھی توجہ نہ کی یہاں تک کہ جس دنیا سے انہوں نے پیار کیا اور ربط بڑھایا تھا آخر بصد حسرت اس کو چھوڑ کر اور تمام درہم و دینار سے بمجبوری جدا ہوکر اس دارالفنا سے کوچ کرگئے اور بہت سی غفلت اور ظلمت اور ضلالت اور کفر کے پہاڑ اپنے سر پر لے گئے اور اُن کے سفر آخرت کی خبر بھی کہ جو اُن کو تیس اکتوبر 1883ء میں پیش آیا تخمیناً تین ماہ پہلے خداوند کریم نے اس عاجز کو دے دی تھی چنانچہ یہ خبر بعض آریہ کو بتلائی بھی گئی تھی۔ خیر یہ سفر تو ہریک کو درپیش ہی ہے اور کوئی آگے اور کوئی پیچھے اس مسافر خانہ کو چھوڑنے والا ہے مگر یہ افسوس ایک بڑا افسوس ہےکہ پنڈت صاحب کو خدا نے ایسا موقع ہدایت پانے کا دیا کہ اس عاجز کو ان کے زمانہ میں پیدا کیا مگر وہ باوصف ہرطور کے اعلام کی ہدایت پانے سے بےنصیب گئے۔ روشنی کی طرف ان کو بلایا گیا مگر انہوں نے کم بخت دنیا کی محبت سے اُس روشنی کو قبول نہ کیا اور سر سے پائوں تک تاریکی میں پھنسے رہے۔ ایک بندہ خدا نے بارہا اُن کو اُن کی بھلائی کے لئے اپنی طرف بلایا مگر انہوں نے اُس طرف قدم بھی نہ اٹھایا اور یونہی عمر کو بے جا تعصبوں اور نخوتوں میں ضائع کرکے حباب کی طرح ناپدید ہوگئے حالانکہ اس عاجز کے دس ہزار روپیہ کے اشتہار کا اول نشانہ وہی تھے اور اس وجہ سے ایک مرتبہ رسالہ برادر ھند میں بھی ان کے لئے اعلان چھپوایا گیا تھا مگر ان کی طرف سے کبھی صدا نہ اٹھی یہاں تک کہ خاک میں یا راکھ میں جاملے۔
(براہین احمدیہ حصہ چہارم ص531تا536، روحانی خزائن جلد1ص635 تا641)
حضورؑ نے نہ صرف ان کو نصیحت فرمائی بلکہ ہر طرح سے اتمام حجت کی۔ مگر انہوں نے نہ تو نصیحت سے فائدہ اٹھایااور نہ ہی حضرت اقدسؑ کی دی گئی سہولت کہ آمد و رفت اور کھانے کا خرچ ہم برداشت کریں گے تم قادیان آ کر اپنی تسلی کر لو، سے فائدہ اٹھایا۔ بالآخر حضورؑ نے ان کی وفات سے تخمیناً تین ماہ پہلے خداسے خبر پا کر ان کو وفات کی خبر دے دی تھی۔ اور وہ 30؍اکتوبر 1883ء کو تمام حسرتیں لئے اس دنیا سے کوچ کر گئے۔
کہا جاتا ہے کہ آخری عمر میں دیانند کو ویدوں کی بعض تعلیموں کی نسبت شکوک اور شبہات پڑ گئے تھے اور ویدوں پر ایمان نہیں رہاتھا۔
’’آریوں کا ذکر تھا کہ اب تو آریہ صاحبان خود ہی اقرار کرنے لگے ہیں کہ آریہ مذہب مردہ مذہب ہے اور ایک سو سال تک نیست و نابود ہو جائے گا۔ جب حضورؑ نے پیشگوئی کی تھی کہ آریہ مذہب ایک سو سال تک دنیا سے مفقود ہو جائے گا۔ تو اس وقت آریوں نے بڑا شور مچایا تھا کہ یہ مذہب ہمیشہ قائم رہے گا مرزا صاحب نے غلط کہا ہے۔ اب تعجب ہے کہ وہی آریہ صاحبان خود ہی اپنے لیکچروں اور رسالوں میں بیان فرماتے ہیں کہ آریہ مذہب مُردہ ہے۔
حضورؑ کی پیشگوئی آریہ مذہب کے متعلق فروری1903ء میں جب شائع ہوئی تھی کہ ایک صدی نہ گذرے گی جو اس مذہب پر موت وارد ہو جائے گی۔ تو اس وقت پنڈت رام بھجدت نے بڑے زور سے اس کی مخالفت کی تھی اور خود قادیان آ کر اپنے لیکچر میں اس پیشگوئی کا ذکر کیا تھا۔ اب وہی پنڈت رام بھجدت صاحب ہیں جنہوں نے 11ستمبر کے اخبار پرکاش میں فرمایا ہے کہ موجودہ آریہ سماج کبھی بھی سو برس سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا بلکہ نیست و نابود ہو جاوے گا۔ اور اس کے علاوہ نئے آریہ دھرمپال صاحب نے اپنے رسالہ اندر میں آریہ سماج کی موت پر ایک مضمون لکھ دیا ہے۔ غالباً مؤخر الذکر صاحب اسی واسطے آریہ بنے تھے کہ آریہ مت کی موت کو ثابت کرنے میں جلدی کریں۔ غرض یہ ذکر تھا جس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ
’’کوئی مذہب ہو۔ خواہ قوم ہو خواہ جماعت ہو بغیر روحانیت کے کوئی قائم نہیں رہ سکتا۔ جب تک خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پختہ نہ ہو کوئی مذہب دنیا میں کس طرح ٹھہر سکتا ہے۔ چونکہ آریہ مذہب میں روحانیت نہیں ہے اس واسطے اس کا قیام محال ہے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد نہم صفحہ 62-63)
(باقی آئندہ)