گستاخ رسول کون ہیں؟ دیوبندی یا بریلوی
اہل سنت والجماعت کے دو بڑے مکتبہ فکر دیو بندی اور بریلوی ہیں۔ ان دونوں مکتبہ فکر کے علماء کے درمیان1979ء میں ایک مناظرہ ہوا جو’’ مناظرہ جھنگ‘‘کے نام سےمعروف ہے۔
اس مناظرےکا پس منظر کچھ یوں ہے کہ جھنگ صدر کے ایک محلہ پپلیانوالہ کی مسجد میں ایک مولوی حق نواز دیوبندی نے بریلوی مسلک کے خلاف بولنا شروع کیا۔ مناظرےکی روئیداد میں لکھا ہے کہ
’’مولوی صاحب (حق نواز ) نے حضرت اہل سنت کو کافر، مشرک، گمراہ، بدباطن، مشرکین مکہ، جہنمی، بے ایمان اور لعنتی جیسے القاب سے پکارنا شروع کر دیا‘‘
(مناظرہ جھنگ صفحہ 6 اہل السنہ پبلی کیشنز دینہ ضلع جہلم)
انتظامیہ نے معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن معاملہ مناظرےتک پہنچا۔ مناظرہ اس موضوع پر ہونا طے پایا کہ
’’دیوبندی مناظر یہ ثابت کرے گا کہ علماء بریلی کی عبارات جو ان کی کتب معتبرہ میں موجود ہیں گستاخی اور توہین انبیاء پر مبنی ہیں جبکہ بریلوی مناظر یہ ثابت کرے گا کہ علمائے دیوبند کی عبارات جو ان کی کتب معتبرہ میں موجود ہیں گستاخی اور توہین انبیاء پر مبنی ہیں۔‘‘
یہ مناظرہ باقاعدہ شرائط وغیرہ طے کرنے کے بعد ہوا۔ دونوں گروہوں نے متفقہ طور پر تین منصفین مقرر کیے اور کمیٹیاں بنائی گئیں۔ دیوبندیوں کی طرف سے صدر مناظرہ منظور احمد چنیوٹی(شدید معاند احمدیت ) اور مناظر مولوی حق نواز تھے۔ بریلویوں کی طرف سے صدر مناظرہ عبد الرشید رضوی جھنگوی اور مناظرمحمد اشرف سیالوی تھے۔
یہ مناظرہ 27؍اگست 1979ء بمقام نول والا بنگلہ جھنگ میں ہوا۔ اس کی نگرانی ضلعی انتظامیہ جھنگ نے کی۔
اس مناظرے کے منصفین کا فیصلہ ان کے دستخطوں کے ساتھ شائع شدہ مناظرہ میں شامل ہے۔ فیصلہ یہ تھا:
’’آج مؤرخہ 79-8-27کو بمقام بنگلہ نول والہ تحصیل جھنگ مولانا حق نواز صاحبِ علم دیوبندی اور مولانا محمد اشرف سیالوی صاحبِ علم بریلوی کے مابین مناظرہ منعقد ہوا۔ جس کا موضوع یہ تھا۔
’’دیوبندی مناظر یہ ثابت کرے گا کہ علمائے بریلی کی عبارات جو ان کی کتب معتبرہ میں موجود ہیں۔ گستاخانہ اور توہین انبیاء پر مبنی ہیں۔ جبکہ بریلوی مناظر یہ ثابت کرے گا کہ علمائے دیوبند کی عبارات جو ان کی کتب ِمعتبرہ میں موجود ہیں گستاخی اور توہین انبیاء پر مبنی ہیں۔‘‘مناظرہ مذکورہ میں دیوبندی مکتب فکر کی جانب سے مولانا منظور احمد صاحب چنیوٹی اور بریلوی مکتب فکر کی جانب سے مولانا عبد الرشید صاحب رضوی نے صدر مناظرہ کے فرائض انجام دیئے۔
ہم ’’منصفین‘‘بالاتفاق فیصلہ کرتے ہیں اور اس مناظرہ میں مولانا محمداشرف صاحب سیالوی، بریلوی مناظر کو ان کے نسبتاً وزنی استدلال کی بنا پر کامیاب قرار دیتے ہیں۔‘‘
(مناظرہ جھنگ صفحہ 285اہل لسنہ پبلی کیشنز دینہ ضلع جہلم )
اس کے ساتھ منصفین پروفیسر تقی الدین انجم، محمد منظور خاں ایڈووکیٹ، غلام باری ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکول ریل بازار کے دستخط موجود ہیں۔
قابل غور امر
اس مناظرے میں دونوں اطراف سے وہ تحریرات پیش کی گئیں جن میں ان کے خیال کے مطابق انبیاء کی گستاخی پائی جاتی تھی پھر اس پر بحثیں ہوئیں۔ بحث کے دوران ان الفاظ کو بار بار دہرایا گیا جن میں ایک فریق کے خیال میں گستاخی موجود تھی۔ اب یہ عجیب ماحول تھا۔ ایک کے خیال میں گستاخی موجود تھی دوسرا اس کا جواب دیتا اور جواب میں پہلے کی کتابوں سے حوالے دیتا کہ تمہاری کتب میں بھی گستاخی پائی جاتی ہے۔ منصفین کے فیصلہ میں بھی لکھا ہے کہ نسبتاً وزنی استدلال کی بنا پر بریلوی مناظر کامیاب ہوا۔ اس کا مطلب استدلال دونوں اطراف سے تھے لیکن دیوبندیوں کی کتب میں گستاخی کی موجودگی کا استدلال وزنی تھا۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ دیوبندی اور بریلوی دونوں مکتبہ فکر کے علماء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کو سیاق وسباق سے ہٹا کر پیش کرتے ہیں اور اپنی طرف سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان تحریرات میں انبیاء کی گستاخی پائی جاتی ہے حالانکہ ان دونوں مکتبہ فکر کی کتب میں ایسی تحریرات موجود ہیں جن سے دوسرے کے نزدیک انبیاء کی گستاخی پائی جاتی ہے۔
مخالفین احمدیت گستاخ انبیاء کا الزام لگا کر احمدیوں پر ظلم وستم کرتے ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ دو بڑے مکتبہ فکر بھی اس الزام کے نیچے ہیں۔ اگر صرف الزام لگانے سے گستاخی ثابت ہوتی ہے تو پھر یہ دونوں بھی اسی طرح گستاخ انبیاء ہیں۔ ایک نسبتاً زیادہ گستاخ اور دوسرا نسبتاً کم۔ ’’مناظرہ جھنگ‘‘ کا فیصلہ موجود ہے۔
احمدیوں پر جو الزام لگایا جاتا ہے اس کا مدلل جواب دیا جاتا ہے اور جواب ایسا مسکت اور مضبوط استدلال لیے ہوتا ہے کہ جس کا جواب مخالفین احمدیت کے پاس نہیں۔ اسی وجہ سے احمدیہ لٹریچر پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ اس کے بالمقابل جن دو مکتبہ فکر کی کتابوں میں دونوں مکتبہ فکر کے علماء کے مطابق گستاخ انبیاء والی عبارات موجود ہیں ان کی اشاعت پر کوئی پابندی نہیں اور وہ شائع ہوتی ہیں۔ مناظرہ جھنگ کی مکمل روئیداد بھی انٹر نیٹ پر مہیا ہے اس میں بھی وہ عبارات پڑھی جاسکتی ہیں۔
(مرسلہ:’ابن قدسی‘)
٭…٭…٭