کیا نبی کسی کا شاگرد نہیں ہوسکتا؟ (قسط اوّل)
متعصبین احمدیت نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے پر جو حملے کیے ہیں اُن میں سے ایک آپؑ کے بچپن میں عام رواج کے مطابق ابتدائی تعلیم پانے کو بھی نشانہ اعتراض بنایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلّم میرے لیے نوکر رکھا گیا جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا اور جب میری عمر تقریباًدس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لیے مقرر کیے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلالفظ بھی فضل ہی تھا …میں نے صَرفکی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نَحو اُن سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا…ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں …‘‘
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 179 تا 181 حاشیہ)
چنانچہ حضرت اقدسؑ کی اسی بات کو نشانہ بناتے ہوئے مخالفینِ احمدیت کا ایک اعتراض یوں ہمیں موصول ہوا ہے کہ
’’سچا نبی کسی استاد کا شاگرد نہیں ہوتا، اس کا علم لدنی ہوتا ہے، وہ روح قدس سے تعلیم پاتا ہے۔بلا واسطہ اس کی تعلیم و تعلّم خداوند قدوس سے ہوتا ہے۔ (جھوٹا نبی اس کے بر خلاف ہوتا ہے)‘‘
نبوت کا یہ معیار کہاں بیان ہوا ہے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا ، حوالہ دیا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ نبوت کا یہ معیار خود تراشیدہ ہے اور قرآن، حدیث اور گذشتہ صلحائے امت کی کتب میں کہیں بھی اس کا وجود نہیں اور یہ معیار اور اعتراض بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ذات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔
قرآن پاک کا علم رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت نبی اکرم ﷺ کو ’’الْأُمِّيِّ‘‘(یعنی ان پڑھ) قرار دیا ہےاور کسی نبی کو بھی اس لقب سے ذکر نہیں کیا، اگر ہر نبی کی تعلیم و تعلّم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی اور بچپن میں عام ابتدائی تعلیم کا حصول بھی معلمین و اساتذہ کی بجائے روح القدس کے ذریعہ ہوتا تو پھر محض آنحضور ﷺ کو ’’اُمّی‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ اس صورت میں صرف آپؐ کو ’’اُمّی‘‘ کہنا مشرکین اور مخالفین کو اعتراض اور ہنسی کا موقع فراہم کرتا کہ اس میں ذکر کرنے والی کون سی بات ہے یہ تو عام الٰہی قاعدہ ہے کہ نبی ابتدائے عمر سے ہی کسی کی شاگردی میں نہیں جاتا بلکہ عام بچے اتالیق، اساتذہ اورمعلمین سے تعلیم پاتے ہیں اس کے برعکس انبیاء محض خداوند قدوس کی طرف سے تعلیم دیے جاتے ہیں۔پس یہ محض آنحضرت ﷺ کا امتیاز ہے کہ آپؐ الٰہی تقدیر کے مطابق عام دستوری تعلیم سے دُور رکھے گئے (گوکہ عرب کے معاشرے میں ویسے بھی تعلیم کا رواج کم تھا اس لیے ان سب کو بھی قرآن پاک میں ’’الامیین‘‘کہا گیا ہے) اور جب نبوت کا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے ’’اِقْرَأْ‘‘ کہہ کر آپؐ کی تعلیم کا آغاز فرمایا۔ قرآن کریم میں وہ مصلحت بھی بیان ہوئی ہے جس کی وجہ سے آپؐ اُمّی رہے چنانچہ ایک جگہ فرمایا:
اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰٮۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ… (الاعراف:158)
ترجمہ: جواس رسول نبی اُمّی پر ایمان لاتے ہیں جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔
یعنی تورات و انجیل میں یہ پیشگوئی تھی کہ آنے والا موعود نبی اُمّی ہوگا۔پس اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اُمّی بنایا تاکہ یہود و نصاریٰ پر اتمام حجت ہو۔ دوسری وجہ کا ذکر قرآن کریم میں ان الفاظ میں ہے کہ
وَ مَا کُنۡتَ تَتۡلُوۡا مِنۡ قَبۡلِہٖ مِنۡ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیۡنِکَ اِذًا لَّارۡتَابَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ۔ (العنکبوت:49)
ترجمہ: اور تُو اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتا تھا اور نہ تُو اپنے داہنے ہاتھ سے اُسے لکھتا تھا ۔ اگر ایسا ہوتا تو جھٹلانے والے (تیرے بارہ میں) ضرور شک میں پڑ جاتے۔
یعنی قرآن کریم جیسی عظیم الشان اور بے مثل کتاب کا آپؐ جیسے اُمّی شخص پر نازل ہونا اس کے اعجاز ہونے کی علامت ہے اگر آپؐ کچھ پڑھے لکھے ہوتے
اِذًا لَّارۡتَابَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ
تو جھٹلانے والے ضرور شک میں پڑ جاتے کہ یہ کتاب اس نے خود بنائی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اُمّی بنایا تاکہ لوگوں کو الزام لگانے کا بہانہ نہ ملے۔پس وہ لوگ آپؐ کے قبل از بعثت حصول تعلیم کا الزام تو نہ لگا سکے لیکن نزول قرآن کے دَور میں یہ کہنے لگ گئے کہ
… اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ ؕ لِسَانُ الَّذِیۡ یُلۡحِدُوۡنَ اِلَیۡہِ اَعۡجَمِیٌّ وَّ ہٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیۡنٌ۔ (النحل:104)
ترجمہ: اسے کسی بشر نے سکھایا ہے۔ اس کی زبان،جس کی طرف یہ بات منسوب کرتے ہیں،اعجمی (یعنی غیرفصیح) ہے جبکہ یہ (قرآن کی زبان) ایک صاف اور روشن عربی زبان ہے۔
بہرحال یہ بات قطعی ہے کہ اُمّی کا لفظ صرف اور صرف آنحضرت ﷺ کے لیے مخصوص ہے، مشہور مصری عالم علامہ رشید رضا صاحب (متوفّیٰ 1354ھ) اپنی تفسیر ’’المنار‘‘میں لکھتے ہیں:
’’ولم ينقل أن اللّٰه تعالٰى بعث نبيًّا أُمّيًّا غير نبيّنًا صلى اللّٰه عليه وسلم فھو وصف خاص لا يُشارك محمّدًا صلّى اللّٰه عليه وآله وسلم فيه أحد من النبيّين.‘‘
(تفسير المنار / محمد رشيد بن علي رضا ۔الاعراف: 156)
یعنی کہیں بھی یہ نقل نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے علاوہ کسی اور نبی کو بھی اُمّی مبعوث فرمایا پس یہ (اُمی) خاص وصف ہے جس میں انبیاء میں سے کوئی ایک بھی آنحضرت ﷺ کے ساتھ مشارکت نہیں رکھتا۔
مشہور مفسر علامہ فخر الدین الرازیؒ (متوفّیٰ 606 ھ) لفظ ’’الأُمِّيِّ‘‘کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’…أنه كان رجلًا أميًا لم يتعلم من أستاذ، ولم يطالع كتاباً، ولم يتفق له مجالسة أحد من العلماء ….. وإليه الإشارة بقوله {النَّبِىِّ الامِّىِّ}‘‘
(تفسير مفاتيح الغيب ، التفسير الكبير/ الرازي ۔ سورۃ الاعراف 158)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’أنه عليه الصلاة والسلام ما تلمذ لأستاذ، ولا تعلم من معلم، ولا طالع كتاباً ولم يخالط العلماء والشعراء وأهل الأخبار،‘‘
( تفسير مفاتيح الغيب ، التفسير الكبير/ الرازي۔الاعراف: 2۔ كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ)
یعنی آنحضرت ﷺ اُمی تھے کیونکہ آپؐ نے کسی استاد سے تلمذ نہیں پایا، نہ کسی معلم سے کچھ سیکھا، نہ کوئی کتاب مطالعہ کی اور نہ ہی علماء و شعراء و اہل خبر سے میل جول رکھا۔
دوسرے معنوں میں باقی انبیاء جو کہ اُمّی نہیں تھے انہوں نے ابتدائی عمر میں استاد سے تلمذ پایا، کسی معلم سے کچھ سیکھا اور علماء سے میل جول رکھا ، اگر یہ باتیں نہیں کیں تو پھر وہ بھی اُمّی ہوئے پھر اس لحاظ سے آنحضرت ﷺ کا کوئی امتیاز باقی نہ رہا۔ قرآنی فرمان ہے :
وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ عَلَیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ جُمۡلَۃً وَّاحِدَۃً ۚۛ کَذٰلِکَ ۚۛ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَ رَتَّلۡنٰہُ تَرۡتِیۡلًا۔ (الفرقان:33)
ترجمہ: اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا وہ کہیں گے کہ اس پر قرآن یک دفعہ کیوں نہ اُتارا گیا۔ اسی طرح تاکہ ہم اس کے ذریعہ تیرے دل کو ثبات عطا کریں اور ہم نے اسے بہت مستحکم اور سلیس بنایا ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ البیضاوی(685ھ) تحریر فرماتے ہیں:
’’أي كذالك أنزلناه مفرقًا فتقوى بتفريقه فؤادك على حفظه وفھمه، لأن حاله يخالف حال موسى وداود وعيسى حيث كان عليه الصلاة والسلام أميًا وكانوا يكتبون۔ ‘‘
(تفسير انوار التنزيل واسرار التأويل/ البيضاوي ۔ سورۃ الفرقان : 33)
یعنی ہم نے اس قرآن کو تیرے دل پر مختلف وقتوں میں نازل کیا ہے تاکہ اس طرح تیرا دل اس کے یاد کرنے اور اس کو سمجھنے میں قوت پائے،بوجہ اس کے کہ آپؐ کا حال حضرت موسیٰؑ، حضرت داؤدؑ اور حضرت عیسیٰؑ سے مختلف تھاکیونکہ آپؐ اُمّی تھے جبکہ وہ انبیاء لکھ سکتے تھے۔
علامہ القرطبی (671ھ) اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’نقوي به قلبك فتعيه وتحمله لأن الكتب المتقدّمة أنزلت على أنبياء يكتبون ويقرؤون، والقرآن أنزل على نبيّ أميّ۔ ‘‘
(تفسير الجامع لاحكام القرآن/القرطبي)
یعنی ہم اس (قرآن) کے ذریعہ تیرے دل کو مضبوط کرتے ہیں تاکہ تو اس کو یاد کر لے کیونکہ پہلی سماوی کتب ان انبیاء پر نازل ہوئی تھیں جو پڑھے لکھے تھے جبکہ قرآن ایک اُمّی نبی پر نازل کیا گیا تھا۔
مشہور صوفی بزرگ اور عالم دین علامہ ابو القاسم القشیری (متوفّیٰ 465ھ) اپنی تفسیر میں آنحضرت ﷺ کے اس مقام کے متعلق لکھتے ہیں:
’’جرَّده عن كلِّ تكلُّفٍ لِتَعَلُّمٍ‘‘
( تفسير لطائف الإشارات / القشيري ۔ سورۃ الجمعۃ:2)
یعنی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو علم حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کے تکلف سے منزہ رکھا۔
مولانا شبیر احمدعثمانی ’’نبی اُمی‘‘کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’جس طرح بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے اور کسی کا شاگرد نہیں ہوتا نبی کریم ﷺ نے ساری عمر کسی مخلوق کے سامنے زانوائے تلمذ نہیں کیا…نبی امی کا لقب اس حیثیت سے آپ کے لیے مایہ صد افتخار ہے۔‘‘
(تفسیر عثمانی ۔ سورۃ الاعراف: 157)
پس قرآن حکیم میں آنحضرت ﷺ کے لیے لفظ اُمّی ہی مذکورہ بالا اعتراض کا کافی و شافی جواب ہےاور ہمارا تجربہ ہے کہ بعض غیر احمدی دوستوں نے مولوی حضرات پر بھروسہ کر کے جب اُن کا یہ وضع کردہ معیار نبوت پیش کیا تو جواب میں صرف اسی لفظ ’’اُمّی‘‘سے ہی ان کی تسلی ہوگئی اور اُن پر حقیقت واضح ہوگئی کہ اس اعتراض بنانے والے مولوی صاحبان نے جھوٹ اور دھوکا سے کام لیا ہے۔بہر کیف جہاں حضرت نبی کریم ﷺ کے اُمّی ہونے کا ذکر اس اعتراض کا ردّ پیش کرتا ہے وہاں اسلامی لٹریچر میں بعض انبیاء کے بچپن میں تعلیم پانے کا ذکر بھی موجود ہے۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تعلّم
صحیح بخاری میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذکر میں جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آپؑ اور آپؑ کی والدہ حضرت ہاجرہ کو وادی مکہ میں چھوڑ گئے تھے، لکھا ہے
’’وَشَبَّ الْغُلَامُ، وَتَعَلَّمَ الْعَرَبِيَّةَ مِنْھُمْ‘‘
(بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب یزفون۔النسلان فی المشی)
ترجمہ: اور لڑکا جوان ہوگیا اور اُن سے عربی زبان سیکھی۔
یہ حضرت اسماعیل ؑکا ذکر ہے کہ جب وہ جوان ہوگئے تو مکہ میں آباد ہوجانے والے قبیلے جرہم سے آپؑ نے عربی زبان سیکھی یعنی حضرت اسماعیلؑ کی عربی زبان کا تعلیم و تعلم براہ راست اللہ تعالیٰ سے نہیں ہوا بلکہ جرہم قبیلہ سے ہوا۔
پھر اس حوالے سے بعض روایات ہیں جس میں بعض نے کہا ہے حضرت اسماعیلؑ عربی زبان بولنے والے پہلے شخص تھے اور بعض نے کہا ہے کہ آپؑ نہیں تھے بلکہ آپؑ سے پہلے بھی عربی زبان بولنے والے لوگ موجود تھے۔چنانچہ علامہ ابن حجر العسقلانیؒ اس تضاد کا حل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’… وروی الزبیر بن بکار فی النسب من حدیث علیٰ باسناد حسن قال’’أوّل مَن فَتق اللّٰہُ لِسانہٗ بالعربیۃ المبینۃ اسماعیل‘‘،و بھذا القید یجمع بین الخبرین فتکون أوّلیتہٗ فی ذالک بحسب الزیادۃ فی البیان لا الأولیۃ المطلقۃ فیکون بعد تعلمہٖ أصل العربیۃ من جُرھم ألْھمَہٗ اللّٰہُ العربیۃ الفصیحۃ المبینۃ فنطق بِھَا، و یَشھد لھذا مَا حَکاہٗ ابن ھشام عن الشرقی بن قطامی، انّ عربیۃ اسماعیل کانَت أَفْصَح مِنْ عربیۃ یعرب بن قحطان و بقایا حمیر و جرھم…‘‘
(فتح الباری شرح صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب یزفون ۔ النسلان فی المشی)
ترجمہ: پہلا شخص جس کی زبان کو اللہ تعالیٰ نے فصیح و بلیغ عربی زبان سے کھولا وہ حضرت اسماعیل تھے، …حضرت اسماعیلؑ کا پہلا شخص ہونا بلحاظ فصیح و بلیغ عربی بولنے کے لحاظ سے ہے نہ کہ مطلقًا عربی زبان بولنے کے لحاظ سے، اس صورت میں یوں ہوگا کہ جرہم قبیلے سے مروّجہ عربی سیکھنے کے بعداللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً عربی زبان کی فصاحت و بلاغت سکھائی جو پھر آپ نے بولی اور اس بات پر گواہ ابن ہشام کی شرقی بن قطامی سے روایت ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کی عربی یعرب اور جرہم وغیرہ قبائل سے زیادہ فصیح تھی۔
یعنی ابتدائی سالوں میں حضرت اسماعیلؑ نے جرہم قبیلے سے عربی زبان سیکھی لیکن بعد میں جب اللہ تعالیٰ نے آپؑ پر وحی کا دروازہ کھولا تو آپؑ کو بذریعہ الہام عربی زبان کی فصاحت و بلاغت سکھائی جس کے نتیجے میں آپؑ عربی زبان کے لحاظ سے اپنے سکھانے والوں سے بھی آگے بڑھ گئے۔زبان سیکھنے میں شاگردی کے علاوہ تیر اندازی میں بھی شاگردی اختیار کرنا تفاسیر میں بیان ہوا ہے۔چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے انہی ایام کے متعلق علامہ برہان الدین البقاعی (متوفّیٰ 885ھ) مختلف روایات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وكان يتعلم الرمي في تلك البرية‘‘
(تفسير نظم الدرر في تناسب الآيات والسور/ البقاعي ۔ سورۃ البقرۃ: 132)
یعنی آپؑ اس بیابان میں تیر اندازی کی تعلیم پاتے تھے۔
حضرت یوسفؑ کی ابتدائی تعلیم و تربیت
قرآن پاک میں حضرت یوسف علیہ السلام کو بَلَغَ أَشُدَّهُ پر علم و حکمت عطا ہونے کا ذکر ہے لیکن اس ربّانی علم و حکمت ملنے سے پہلے عزیز مصر کے ہاں آپؑ کو جگہ دینے کا بھی ذکر ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
…وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوۡسُفَ فِی الۡاَرۡضِ ۫ وَ لِنُعَلِّمَہٗ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ … (سورۃ یوسف:22)
ترجمہ: اور اس طریقہ سے ہم نے یوسف کے لئے زمین میں جگہ بنادی اور (یہ خاص انتظام اس لئے کیا) تاکہ ہم اسے معاملات کی تہ تک پہنچنے کا علم سکھا دیں…۔
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی لکھتے ہیں:
’’حضرت یوسفؑ کی تربیت اُس وقت تک صحرا میں نیم خانہ بدوشی اور گلہ بانی کے ماحول میں ہوئی تھی…یہاں حضرت یوسفؑ کو جو تعلیم و تربیت ملی تھی اُس میں بدویانہ زندگی کے محاسن اور خانوادۂ ابراہیمی کی خدا پرستی و دینداری کے عناصر تو ضرور شامل تھے مگر اللہ تعالیٰ اُس وقت کے سب سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ ملک یعنی مصر میں اُن سے جو کام لینا چاہتا تھا اور اس کے لیے جس واقفیت، جس تجربے اور جس بصیرت کی ضرورت تھی اس کی نشوونما کا کوئی موقع بدوی زندگی میں نہ تھا اس لیے اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ انتظام فرمایا کہ انہیں سلطنت مصر کے ایک بڑے عہدہ دار کے ہاں پہنچا دیا….‘‘
(تفہیم القرآن از مولانا ابوالاعلیٰ مودودی زیر تفسیر سورت یوسف:21)
ڈاکٹر اسرار احمد لکھتے ہیں:
’’عزیز مصر کے گھر میں آپؑ کو جگہ بنا کر دینے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہاں آپؑ کو ’’معاملہ فہمی‘‘کی تربیت فراہم کی جائے۔ عزیز مصر کا گھر ایک طرح کا سیکرٹریٹ ہوگا…اس طرح بہت اعلیٰ سطح کی تعلیم و تربیت کا ایک انتظام تھا جو حضرت یوسفؑ کے لیے یہاں پر کر دیا گیا۔‘‘
(بیان القرآن ترجمہ و تفسیر از ڈاکٹر اسرار احمد۔ شائع کردہ: انجمن خدام القرآن خیبر پختونخواہ، پشاور۔اشاعت اول: جون 2015ء)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تعلّم
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے بھی بَلَغَ أَشُدَّهٗ یعنی پختگی کی عمر میں حکمت و علم ملنے کا ذکر ہے، اللہ تعالیٰ سورۃالقصص میں فرماتا ہے:
وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ اسۡتَوٰۤی اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ (القصص:15)
ترجمہ: اور جب وہ پختگی کی عمر کو پہنچا اور متوازن ہو گیا تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا کیا اور اسی طرح ہم احسان کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں۔
جمہور مفسرین نے اس موقع پر حکمت و علم سے مراد نبوت کی نفی کی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت بعد میں عطا ہوئی تھی ۔چنانچہ مشہور مفسر علامہ البغوی (المتوفّیٰ 516 ھ) اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں:
’’{اٰتَيْنَـٰهُ حُكْمًا وَعِلْمًا } ، أي: الفقه والعقل والعلم في الدين، فعلم موسى وحكم قبل أن يُبعث نبياً،…‘‘
(تفسير معالم التنزيل/ البغوي۔{ وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَىٰ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا} (القصص: 14)
یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دین کے متعلق سمجھ، فہم اور علم عطا کیا۔پس آپؑ نبوت پر سرفراز ہونے سے قبل ہی علم و حکمت دیے گئے۔
بَلَغَ أَشُدَّهٗ سےمراد18سال سے33سال کی عمرہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام اٹھارہ سال تک فارغ بیٹھے رہے کہ میں نے چونکہ نبی بننا ہے اس لیے پڑھنے لکھنے کی کیا ضرورت ہے خود ہی اللہ تعالیٰ سکھائے گا۔پس یہ ایک غیر معقول تصوّر ہے کہ نبی ابتدائی عمر میں بھی کسی سے تعلیم نہیں پاتا بلکہ اس کی تعلیم بلا واسطہ اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے۔ مولانا مودودی اس آیت کی تفسیر میں بھی لکھتے ہیں:
’’حکم سے مراد حکمت، دانائی، فہم و فراست اور قوتِ فیصلہ۔اور علم سے مراد دینی اور دنیوی علوم دونوں ہیں کیونکہ اپنے والدین کے ساتھ ربط وضبط قائم رہنے کی وجہ سے ان کو اپنے باپ دادا (حضرت یوسف، یعقوب، اسحاق اور ابراہیم علیھم السلام) کی تعلیمات سے بھی واقفیت حاصل ہوگئی اور بادشاہِ وقت کے ہاں شاہزادے کی حیثیت سے پرورش پانے کے باعث اُن کو وہ تمام دنیوی علوم بھی حاصل ہوئے جو اُس زمانے کے اہل مصر میں متداول تھے۔اس حکم اور علم کے عطیہ سے مراد نبوت کا عطیہ نہیں ہے کیونکہ حضرت موسیٰؑ کو نبوت تو اس کے کئی سال بعد عطا فرمائی گئی جیسا کہ آگے آرہا ہے …. اس زمانہ شاہزادگی کی تعلیم و تربیت کے متعلق بائبل کی کتاب الاعمال میں بتایا گیا ہے کہ ’’موسیٰ نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور وہ کام اور کلام میں قوت والا تھا۔(22:7)‘‘
(تفہیم القرآن از مولانا ابوالاعلیٰ مودودی زیر تفسیر سورۃ القصص : 14)
ڈاکٹر اسرار احمد کہتے ہیں:
’’حضرت موسیٰؑ کی تربیت کا کارخانہ فرعون کا محل قرار پایا۔‘‘
(بیان القرآن ترجمہ و تفسیر از ڈاکٹر اسرار احمد۔ شائع کردہ: انجمن خدام القرآن خیبر پختونخواہ، پشاور۔ اشاعت اول: جون 2015ء)
یعنی قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ براہ راست بذریعہ وحی و الہام آپ کو علم و حکمت سکھاتا، آپؑ کی تعلیم و تربیت فرعون کے محل میں شہزادے کی حیثیت سے ہوئی۔
ابو الحسن علی الندوی اپنی تالیف ’’قصص النبیین‘‘میں حضرت موسیٰؑ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وَ نَشَأ مُوسیٰ فی قَصْرِ الْمَلِک کَما یَنْشَأُ أَبْنَاءُ الْمُلُوْکِ۔‘‘
(قصص النبیین تالیف ابو الحسن علی الحسنی الندوی الجزء الثالث صفحہ30۔مجلس نشریات اسلام ناظم آباد نمبر1، کراچی)
یعنی حضرت موسیٰؑ نے بادشاہ کے محل میں ایسے نشو و نما پائی جیسے بادشاہوں کے بیٹے پرورش پاتے ہیں۔
قرآن کریم میں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد از نبوت بھی غیر اللہ سے تعلّم کرنے کا ذکر موجود ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ الکہف میں فرماتا ہے:
قَالَ لَہٗ مُوۡسٰی ہَلۡ اَتَّبِعُکَ عَلٰۤی اَنۡ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمۡتَ رُشۡدًا (الکہف: 67)
ترجمہ: موسٰی نے اُس سے کہا کیا میں اس غرض سے تیری پیروی کر سکتا ہوں کہ مجھے بھی اس ہدایت میں سے کچھ سکھا دے جو تجھے سکھلائی گئی ہے؟
حضرت موسیٰؑ نے جس بندے سے علم سکھانے کی بات کی تھی تفاسیر میں ان کا نام خضر بیان ہوا ہے جن کے متعلق مختلف اقوال درج ہیں۔بعض نے خضر کو نبی قرار دیا ہے اور بعض نے غیر نبی۔اگر نبی کا غیر اللہ سے تعلیم پانا منشائے الٰہی کے خلاف ہے تو پھر حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام صاحب ِشریعت نبی جن کی شریعت کے ماتحت بعد میں کئی انبیاء آئے، نے خضر سے تعلیم پانے کی کیوں زحمت اٹھائی اور (بہ معیارِ نبوت معترض مولوی صاحبان) خلافِ سنتِ انبیاء یہ کام کیوں کیا؟ پس حضرت موسیٰؑ کا یہ واقعہ بھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے خلاف اعتراض بنانے والوں کا جھوٹ ظاہر کررہا ہے۔
علامہ البیضاوی سورۃ الکہف کی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’ولا ينافي نبوته وكونه صاحب شريعة أن يتعلم من غيره ما لم يكن شرطاً في أبواب الدين،‘‘
(تفسير انوار التنزيل واسرار التأويل/ البيضاوي ۔ سورۃ الکہف : 66)
یعنی حضرت موسیٰؑ کا کسی غیر سے تعلیم پانا آپ کی شان نبوت اور آپ کے صاحب شریعت ہونے کے منافی نہیں ہے کیونکہ دین میں (نبی کا کسی دوسرے سے کچھ سیکھنا) ایسی کوئی شرط نہیں ہے۔
مزید برآں یہ کہ مفسرین نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس انداز گفتگو سے آداب شاگردی سیکھنے کا سبق دیا ہے۔
مشہور مفسر امام الطبرانی (المتوفّیٰ 360ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’قال الزجَّاجُ: فِي فِعْلِ مُوسَى عليه السلام – وَهُوَ مِنْ كِبَارِ الأَنْبِيَاءِ – مِنْ طَلَبِ الْعِلْمِ وَالرِّحْلَةِ دَلِيْلٌ عَلَى أنَّهُ لاَ يَنْبَغِي لأَحَدٍ أنْ يَتْرُكَ طَلَبَ الْعِلْمِ، وَإنْ كَانَ قَدْ بَلَغَ نِھَايَتَهُ، وَأنْ يَتَوَاضَعَ لِمَنْ هُوَ أعْلَمُ مِنْهُ۔ ‘‘
(تفسير التفسير الكبير / للإمام الطبراني۔ سورۃ الکہف: 66)
یعنی زجاج نے کہا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے کبار انبیاء کے علم کی طلب کے لیے سفر کرنے کے فعل میں اس بات کی دلیل ہے کہ کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ تحصیل علم کو چھوڑ دے خواہ وہ علم کی انتہاء تک پہنچ چکا ہو اور دوسرا (حضرت موسیٰؑ کے فعل میں) یہ سبق ہے کہ انسان اپنے سے زیادہ علم والے انسان کے سامنے انکساری اختیار کرے۔
آٹھویں صدی کے مفسر ابن جزی الغرناطی (المتوفّیٰ 741ھ)لکھتے ہیں:
’’مخاطبة فيھا ملاطفة وتواضع وكذالك ينبغي أن يكون الإنسان مع من يريد أن يتعلم منه۔‘‘
(تفسير التسهيل لعلوم التنزيل / ابن جزي الغرناطي ۔ الکہف:66)
یعنی اس آیت میں نرمی اور انکساری کا خطاب ہے اور اسی طرح انسان کو اُس شخص کے ساتھ ہونا چاہیے جس سے وہ تعلم کرنے (سیکھنے) کا ارادہ کرتا ہے۔
حضرت علامہ ابن حجر العسقلانیؒ (متوفّیٰ 852ھ) حضرت موسیٰؑ کے اس سفر کے متعلق لکھتے ہیں:
’’…حرص موسیٰ علَی الاِلْتِقاء بِالخضرعلیھما السلام و طَلب التّعلُّم مِنْہُ تَعلیْمًا لِقَوْمِہٖ أَنْ یَّتَأَدَّبُوْا بِأَدَبِہٖ، وَ تَنْبِیھًا لِمَنْ زَکی نفْسَہٗ أنْ یسْلک مسلک التواضع۔‘‘
(فتح الباری شرح صحیح بخاری کتاب العلم باب ما ذُکِرَ فی ذَھَاب موسیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی البحر…)
یعنی حضرت موسیٰؑ کا حضرت خضر کی ملاقات کی خواہش کرنا اور اُن سے تعلم کی مانگ کرنا اپنی قوم کو سبق دینے کی خاطر ہے کہ وہ آپؑ کے طریق کی پیروی کریں اور جو شخص اپنے آپ کو پاک قرار دیتا ہے اُس کو تنبیہ کے طور پر ہے کہ وہ تواضع اور انکساری کی راہ اختیار کرے۔
(جاری ہے)