کبھی بھی دیر نہ کرنا
اٹھو نیکی کمانے میں کبھی بھی دیر نہ کرنا
جفائیں بھول جانے میں کبھی بھی دیر نہ کرنا
میری اِک عرض ہے پیارو نصیحت ہے فقیرانہ
اسے دل میں بٹھانے میں کبھی بھی دیر نہ کرنا
مریضِ لادوا کو رات کا گریہ شفا دے گا
یہ نسخہ آزمانے میں کبھی بھی دیر نہ کرنا
تمہیں شامل کرے گا ایک دن وہ سر بلندوں میں
مگر سر کو جھکا نے میں کبھی بھی دیر نہ کرنا
تمہارے واسطے جلدی کھلے یا دیر سے وہ در
اسے تم کھٹکھٹانے میں کبھی بھی دیر نہ کرنا
وہ مالک ہے دعا سن لے گا تیری جب وہ چاہے گا
تو ہاتھوں کو اٹھانے میں کبھی بھی دیر نہ کرنا
خدا کے پاک ناموں میں سکونِ قلب ہے پنہاں
انہیں تم گنگنانے میں کبھی بھی دیر نہ کرنا
میں خالی ہاتھ یارب! در پہ تیرے آن بیٹھا ہوں
میری بگڑی بنانے میں کبھی بھی دیر نہ کرنا
میرے پھیلے ہوئے ہاتھوں کی رکھ دے لاج اے مولا!
خدارا! مان جانے میں کبھی بھی دیر نہ کرنا
میرے سجدے میری بخشش کا باعث بن نہیں سکتے
تو مجھ پر رحم کھانے میں کبھی بھی دیر نہ کرنا
بہت اب ہو چکی مالک بخش دے سب خطاوٴں کو
میری خوشیاں لوٹانے میں کبھی بھی دیر نہ کرنا
تیرے ’’کن‘‘ کی تمنا دل میں لے کر جی رہے ہیں ہم
تو ہونٹوں کو ہلانے میں کبھی بھی دیر نہ کرنا
تیرے فضلوں کی بارش کے لیے ساجدؔ ترستا ہے
گھٹائیں لے کے آنے میں کبھی بھی دیر نہ کرنا
(قریشی داؤد احمد ساجدؔ)