25؍اپریل 2021ء: مسجد ناصر سُرینام کے پچاس سال
مسجد! خدائے واحد ویگانہ کے حضور سربسجود ہونے کی جگہ۔ روئے زمین پر وہ چنیدہ مقام جس کی فضیلت قرآن مجید نے بیان کی۔
اِنَّمَا یَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِوَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَوَ لَمۡ یَخۡشَ اِلَّا اللّٰہَ…۔ (توبہ :18)
اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یومِ آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے۔
وَّ اَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا۔ (الجن : 19)
اور یقیناً مسجدیں اللہ ہی کے لئے ہیں پس اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔
مسجد!وہ عمارت جسے فخر موجوداتﷺ نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا، اور کُل اُمت کو اس کی تحریص دلائی۔
عَنْ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لِلّٰهِ تَعَالَى، يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللّٰهِ، بَنَى اللّٰهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
’’جو شخص اللہ کے لیے مسجد بنائے، اور صرف اللہ کی رضامندی اس کو مقصود ہو، تو اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔‘‘
(صحيح مسلم۔ كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة۔ باب فَضْلِ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ وَالْحَثِّ عَلَيْهَا)
عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: مَنْ بَنَى لِلّٰهِ مَسْجِدًا صَغِيرًا كَانَ أَوْ كَبِيرًا بَنَى اللّٰهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ۔
حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت کی گئی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’جس نے اللہ کے لیے کوئی مسجد بنائی، چھوٹی ہو یا بڑی، اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔‘‘
(سنن ترمذي۔ كتاب الصلاة۔ باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ بُنْيَانِ الْمَسْجِدِ)
ربّ ذُوالجلال کا وہ عاشق صادق جس کے لیے تمام زمین مسجد بنائی گئی، اُس نے جہاں آخری زمانے میں مساجد کی ہدایت سے خالی ہونے کی پیشگوئی کی وہیں مسیح آخر الزمان کے ذریعہ ایمان وایقان کو ثریا سے واپس لانے کا مژدہ جانفزا بھی سنایا۔ اور اُسی رسول اطہرﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق جب وہ مسیح محمدی ظاہر ہوا تو اُس نے بھی اسلام کے حقیقی غلبہ کی داغ بیل ڈالنے کے ساتھ دار الامان میں مسجد مبارک تعمیر کروائی اور جماعت کو بار بار مساجد کی تعمیر اور ان کو آباد رکھنے کی طرف توجہ دلا کر اپنے منصب کا حق ادا کیا۔
سُرینام دنیا کے ان خوش نصیب ممالک میں سے ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لخت جگر اور موعود خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بابرکت دَور میں احمدیت کا پیغام پہنچا۔ اور جنوبی امریکہ کے اس چھوٹے سے ملک کے ایک باشندے کو طویل سفر کے بعد ربوہ پہنچنے اور تقریباً چار سال حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سایہ شفقت میں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ محترم عبد العزیز جمن بخش صاحب کی ذاتی ڈائری کے مطابق آپ اتوار 20؍دسمبر 1953ء کی شام ربوہ پہنچے، اور 22؍دسمبر 1953ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ پھر بیعت کی توفیق پائی اور بذریعہ خط نمبر BF-381/25-1-1955 حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے بیعت کی قبولیت کی خوشخبری ملی۔ اس خط کی کاپی جماعتی ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
جماعت کی پہلی مسجد
نومبر 1956ء میں مرکزی مبلغ شیخ رشید احمد اسحاق صاحب کی آمد کے بعد سُرینام میں باقاعدہ جماعت قائم ہوئی، اور آغاز میں جن لوگوں کو دعوت حق قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ان میں ایک محترم حسینی بدولہ صاحب بھی تھے۔ خداتعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اوردین سے فطری لگاؤ کے باعث قبول احمدیت کے چند سال بعدانہوں نے اپنی ملکیتی زمین پر مسجد بنانے کی ٹھانی، اس مقصد کے لیے تین ہزار مربع میٹر (0.741ایکڑ)زمین جماعت کے لیے وقف کی، اور مسجد کی تعمیر شروع کی۔ مسجد کی تعمیر کے آغاز کے چند دن بعد مورخہ 18؍جون 1961ء بروز اتوارباقاعدہ افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ محترم مولانا بشیر احمد صاحب آرچرڈ مبلغ سلسلہ گیانا اس تقریب میں شمولیت کے لیے خاص طور پر سُرینام تشریف لائے۔ سنگ بنیاد رکھنے کے بعد حسینی بدولہ صاحب حسب توفیق خرچ اکٹھا کرکے مسجد کی تعمیر میں مصروف رہےآپ اس مسجد کے معمار بھی تھے اورمزدور بھی۔ ان کی اہلیہ محترمہ نصیرن بدولہ صاحبہ نے لمبا عرصہ کپڑوں کی سلائی کا کام کرکے مالی معاونت فراہم کی۔ روزمرہ امور کی انجام دہی کے بعد سہ پہر کے وقت مسجد کی تعمیر کا کام کیا جاتا۔ اس کار خیر میں ان کے بیٹوں نے بھی شانہ بشانہ حصہ لیا۔ جولائی 1969ء میں مشن کی تعمیر بھی شروع ہوئی، اور یہ کام بھی ساتھ ساتھ جاری رہا۔ مسجد کی تعمیر پیسے اور افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے تقریباً دس سال میں مکمل ہوئی۔
1966ء کے بعد سے ملک میں کوئی مبلغ نہیں تھا اس لیےمحترم مولانا غلام احمد نسیم صاحب اور مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب نے ہمسایہ ملک گیانا سے سُرینام کا دورہ کر کے کام کی نگرانی کی۔
جماعت کی پہلی مسجد کا افتتاح
25؍اپریل1971ء بروز اتوار جماعت احمدیہ سُرینام کی تاریخ کا وہ یادگا ردن ہے جب مسجدناصر کا افتتاح عمل میں آیا۔ اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اور وکیل التبشیرمحترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا تحریری پیغام موصول ہوا۔ نیز افتتاح کے دن وکالت تبشیر کی طرف سے مبارک باد کا ٹیلی گرام بھی موصول ہوا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کا پیغام
حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام میں فرمایا:
’’جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد کے افتتاح کے موقعہ پر مبارک باد دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس مسجد کو ہر ایک کے لئے برکات الٰہیہ کا سر چشمہ بنادے، آمین۔ جماعت کو یہ بات ہمیشہ یاد رہے کہ تمام برکتیں خدا کی فرما نبرداری اور خدا کے چنیدہ بندوں کی فرمانبرداری میں ہیں خواہ خدا کے نبی ہوں یا نبی کے خلفا ء۔ خلافت اللہ تعالیٰ کی برکتیں لاتی ہے اس لئےاس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے۔
مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح ۔‘‘
وکیل التبشیر کا پیغام
محترم صاحبزادہ مرزامبارک احمدصاحب نے اپنے پیغام میں تحریر کیا:
’’پیارے بھائیو!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مجھے یہ معلوم کرکے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ سرینام میں بھی ایک مسجد تعمیر ہوئی ہے جس کا آج افتتاح ہورہا ہے، میں تہہ دل سے اس شاندار کار نامہ پر آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔ یہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ احمدی مسلمانوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ اسلام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری کوششوں میں برکت ڈالی ہے کہ ہم اس قابل ہوئے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں اسلام کی خدمت کر سکیں اور ایسے علا قوں میں اسلام پہنچائیں جہاں پہلے نہ تھا۔ میں اس مبارک موقعہ پر آپ کویہ بات بھی یاد دلادیناضروری سمجھتا ہوں کہ اسلا م کی خدمت کا کام صرف مسجد بنا دینے پر ختم نہیں ہو جاتا، مسجد تو صرف ایک علامت ہے، اصل اور حقیقی چیز عبادت الٰہی ہے۔ جب ساری جماعت لگاتار باقاعدگی اور خلوصِ دل سے خدا کی عبادت کرے تب اصل مقصد پورا ہوگا۔ چاہیے کہ میرے بھائی اس فرض کو ہمیشہ پورا کریں۔ میں یہ بھی کہوں گا کہ حقیقی عبادت الٰہی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ قرآن مجید کا پورا علم ہو۔ قرآن مجید ہی وہ پاک کتاب ہے جو ہمیں صحیح ہدایت دے سکتی ہے اور جس کے ذریعہ ہمیں روحا نی دینی اور دنیاوی ترقیات مل سکتی ہیں، سو آؤ ہم اس کی طرف متوجہ ہوں، اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہم نے قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر انگریزی کے علاوہ بہت سی زبانوں میں شائع کر دیا ہے۔ مثلاً جرمن، ڈچ، ڈینش، سواحیلی، لوگنڈا، پس جو زبان آپ کو پسند ہو اس زبان کا ترجمہ پڑھو۔ میں دعا کرتا ہوں کہ یہ مسجد اسلام کے اعلیٰ مقصد کے حصول کا پیش خیمہ بنے اور بڑی بڑی کامیابیاں نصیب ہوں۔ آپ کا مخلص مرزا مبارک احمد‘‘۔
افتتاحی تقریب
افتتاحی تقریب کے لیے باقاعدہ دعوتی کارڈ چھپوائے گئے، ریڈیو پر تین بار اعلان کروایا گیا۔ اس موقع پرمولانا فضل الٰہی بشیر صاحب نے36صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ بھی تیار کیا، جس میں مسیح کی آمد کی پیشگوئیاں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ اورقرآن مجید سے اس کی تصدیق، جماعت احمدیہ اور لاہوری جماعت میں فرق، خلافت احمدیہ کی برکات جماعت احمدیہ کے کام اور ان کے شیریں ثمرات، سلسلہ کی مختصر تاریخ کے ساتھ ساتھ رجل فارس کے متعلق رسول کریمﷺ کی پیشگوئی کا بھی ذکر کیا۔
پروگرام سے قبل بعض مخالفین نے گھر گھر جاکر لوگوں کو اس تقریب میں شمولیت سے روکا، مگر ہندو، عیسائی، مسلمان، لاہوری احمدی سب اس تقریب میں شامل ہوئے۔ مسجد کورنگارنگ جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا۔ دعا کے بعد مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب نے مسجد کادروازہ کھولا اور عصر کی اذان دی گئی۔ نماز کے بعد تلاوت قرآن مجید سے تقریب کا آغاز ہوا۔
سب سے پہلے محترم حسینی بدولہ صاحب نے کھڑے ہوکر یہ اعلان کیا کہ
’’میں بقائمی ہوش و حواس اللہ کو گواہ ٹھہراتے ہوئے اعلان کرتا ہوں کہ میں نے اور میری بیوی نے صرف اور صرف اس نیت سے یہ زمین دی اور اس پر یہ مسجد تعمیر کی تا اس ملک سُرینام جنوبی امریکہ میں جماعت احمدیہ کی شاخ مضبوطی سے قائم ہو اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تبلیغ ہواور خدائے واحد لاشریک کی عبادت کی جاوے۔ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت مرزا غلام احمدقادیانی مسیح موعود علیہ السلام امتی نبی ہیں اور آپ کے بعد خلافت احمدیہ بر حق ہے۔ میں اور میری بیوی اسی عقیدہ پر قائم ہیں، اور خلا فت احمدیہ سے وابستہ ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہوں کہ اس نے ہماری نیت اور ارادہ کے مطابق اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ میں ان سب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس کام میں میری مدد کی۔ آپ سب بھائیوں اور بہنوں کی موجودگی میں مَیں اس مسجد اور اس قطعہ زمین کی ملکیت کے حقوق سے دستبراد ہوتا ہوں۔ نہ میں اور نہ کوئی میرا وارث اس زمین اور مسجد کا حق دار ہوگا۔ آج سے اس کا مالک و مختار ہمارے آقا و مطاع حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز ہوں گے۔ حضور جس طرح چاہیں اس قطعہ زمین اورمسجد کو سرینام گورنمنٹ کے قانون کے مطابق مجھ سے لکھوا لیں۔ مجھے کوئی عذر نہ ہوگا۔ آپ سب گواہ رہیں میں آپ سب کے سامنے چابی حضرت خلیفۃ المسیح کے نمائندے مولانا فضل الٰہی بشیر صا حب مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے سپرد کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ میری اس حقیر قربانی کو قبول فرمائے۔ مجھے میری بیوی اور ہماری اولاد کو ہمیشہ احمدیت پر قائم رکھے، اور دین کی خدمت کی توفیق دیتا رہے۔ العبد۔ حسینی بدولہ‘‘۔
اس اعلان کے ساتھ ہی محترم مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب نے مسجد کی چابی وصول کی جس سے حا ضرین بے حد متاثر ہوئے۔ پھر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ اورمحترم وکیل التبشیر کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔ آخر میں مولانا صاحب نے خطاب کیا۔ چند غیر از جماعت لوگوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ نماز مغرب کے بعد تمام شاملین کو کھانا پیش کیا گیا۔ سُرینام میں یہ پہلی مسجد تھی جس کے نام کے ساتھ ’’احمدیہ‘‘لفظ جوڑا گیا۔ اس موقع پر اخبار کا نمائندہ بھی موجود تھا اور مقامی اخبار میں اس تقریب کی خبر بھی شائع ہوئی۔
ایک ایسی جگہ جہاں غیر از جماعت مسلمان، لاہوری جماعت سے تعلق رکھنے والے دوست، اور خواجہ اسماعیل صاحب کے گروہ ’’السابقون‘‘سے تعلق رکھنے والے لوگ مسجد کی تعمیر میں مسلسل روڑے اٹکا رہے تھے اور اس جائیداد کی جماعت کے نام منتقلی کی مخالفت پر کمر بستہ تھےایک تنہا شخص کا استقامت دکھانا، اپنے مقصد پرڈٹے رہنا اور اس کام کو منطقی انجام تک پہنچانا محترم حسینی بدولہ صاحب کے اخلاص اور عزم و ہمت کا یادگار نمونہ ہے۔ محترم مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب جو تعمیری کام کی نگرانی اور افتتاحی تقریب کی تیاری کے لیے فروری 1971ء میں ہمسایہ ملک گیانا سے سرینام پہنچے انہیں بھی مخالفین کی طرف شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ 6؍اپریل کو ایک تبلیغی نشست میں چند افراد نے بانی جماعت احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ افتتاحی تقریب سے صرف دو دن پہلے مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب نے اپنے ہاتھ سے مسجد کی پیشانی پر ’’احمدیہ مسجد ناصر‘‘کے الفاظ لکھےاور افتتاح کی تاریخ کندہ کی۔
حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں رپورٹ
محترم مولانا فضل الٰہی بشیر صاحب نے مورخہ یکم مئی 1971ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں مسجد کی تعمیر کی تاریخ، محترم حسینی بدولہ صاحب کی قربانی اور اخلاص اور مسجد کی افتتاحی تقریب کی تفصیلی رپورٹ بھجوائی اور خاص طور پر اس بات کاذکر کیا کہ حضور سرینام میں اہل پیغام کی18؍مساجد ہیں مگر اس ملک میں یہ پہلی مسجد ہے جس کانام ’’احمدیہ مسجد ناصر‘‘رکھا گیا ہے۔ اور لاہوری جماعت کے افراد کو چہ میگو ئیاں کرتے سنا گیا کہ یہ جماعت جو عقیدہ رکھتی ہے برملا اس کا اظہار بھی کرتی ہے۔ بعد ازاں محراب کے دائیں جانب 85مربع میٹر کے دوہال اور کچن تیار ہوا۔ ان کی تعمیر کا سہرا بھی محترم حسینی بدولہ صاحب کے سر ہے۔
ایک غیر مسلم کا مسجد کےلیے تحفہ
جولائی 1987ءمیں مسجد کی بنیادوں کی حفاظت کے لیے اس کےساتھ ساتھ فرش بنوانے کا فیصلہ کیا گیا، اس مقصد کے لیےخدام وانصار نے ایک ہفتہ وقار عمل کیا، اور تین اطراف ایک، ایک میٹرزمین تین فٹ گہری کھود کر سیمنٹ کےبلاکس سے فرش بنایا، تاکہ بنیادیں پانی کی زد سے محفوظ ہو جائیں۔ اس کام کے لیے رتن نامی ایک ہندو نے جس کی بلڈنگ میٹیریل کی دکان تھی، دو ٹرک ریت، 20بوری سیمنٹ اور2100 بلاک تحفہ دیے۔
تعمیر میں توسیع
سال 1991ء میں جماعتی پروگرامز کے لیے شیڈ کی تعمیر کا کام شروع ہوا، مگر فنڈز کی کمی کی وجہ سے مکمل نہ ہو سکا، اور1997ء میں محترم مولانا حمید احمد ظفر صاحب نے180؍مربع میٹر کا یہ شیڈ مکمل کروایا، نیزمشن ہاؤس کی چھت کی ڈھلوان میں اضافہ کرکے ٹین مکمل طور پر تبدیل کروایا۔ دفتر اور گیسٹ روم تعمیر کروائے۔ اس کے علاوہ مسجد کے پورے پلاٹ کی چار دیواری بنوائی۔ ان کاموں کے لیے افراد جماعت نے دل کھول کر مالی قربانی کی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا دورہ سرینام
مورخہ 29؍مئی تا 4؍جون 1991ء حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے سرینام کا دورہ فرمایااور 31؍مئی کو مسجد ناصر میں ’’شکر‘‘ کے موضوع پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا، اور ’’خطبات امام‘‘براہ راست اور باقاعدہ سننے کی زبردست تحریک فرمائی۔ حضورؒ نے فرمایا:
’’آپ سے میں توقع رکھتا ہوں کہ آپ اپنی نسلوں کو خطبات باقاعدہ سنوایا کریں یا پڑھایا کریں یا سمجھایا کریں۔ کیونکہ خلیفہ وقت کے یہ خطبات جو اس دور میں دئیے جارہے ہیں یہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والی نئی ایجادات کے سہارے بیک وقت ساری دنیا میں پھیل رہے ہیں۔ اور ساری دنیا کی جماعتیں ان کو براہ راست سنتی اور فائدہ اٹھاتی اور ایک قوم بن رہی ہیں، اور امت واحدہ بنانے کے سامان پیدا ہو رہے ہیں۔ اس لئے خواہ فجی کے احمدی ہوں یا سرینام کے احمدی ہوں، ماریشس کے ہوں یا چین جاپان کے ہوں، روس کے ہوں یا امریکہ کے، سب اگر خلیفہ وقت کی نصیحتوں کو براہ راست سنیں گے تو سب کی تربیت ایک رنگ میں ہوگی۔ وہ سارے ایک قوم بن جائیں گے، خواہ ظاہری طور پر ان کی قوموں کافرق ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے رنگ چہروں کے لحاظ سے جلدوں کے لحاظ سے الگ الگ ہوں گے، مگر دل کا ایک ہی رنگ ہوگا۔ ان کے حلیے اپنے ناک نقشے کے لحاظ سے تو الگ الگ ہوں گے، لیکن روح کا حلیہ ایک ہی ہوگا۔ وہ ایسے روحانی وجود بنیں گے جو خدا کی نگاہ میں مقبول ٹھہریں گے کیونکہ وہ قرآن کریم کی روشنی میں تربیت پارہے ہوں گے اور قرآن کے نور سے حصہ لے رہے ہوں گے …اس رنگ میں آپ شکریہ کا حق ادا کرنے والے ہوں گےکہ اپنی اولادوں کو ہمیشہ خطبات سے جوڑ دیں، اگر آپ یہ کریں گے تو ان پر بہت بڑا احسان کریں گے۔ اپنی آئندہ نسلوں کے ایمان کی حفاظت کرنے والے ہوں گے، ان کو غیروں کے حملوں سے بچانے والے ہوں گے، ان کےاخلاق کی حفاظت کرنے والے ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ آپ کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے، اور خدا تعالیٰ آپ کی جماعت کو بہت ترقی دے۔ میں نے یہاں آکر دیکھا ہےکہ سُرینام کی جماعت میں اللہ کے فضل سے بہت اخلاص کا مادہ ہے، یہاں اخلاص کی کان ہے لیکن اگر کانوں کو کھودا نہ جائے اور ان سے قیمتی جواہر نکالے نہ جائیں تو کیا فائدہ؟ وہ مٹی میں ملی رہتی ہیں، آپ لوگوں کے اندر خدا نے اخلاص کا وہ مادہ عطا کیا ہے کہ اگر مبلغ یا مربی اور آپ کے عہدیدار اس اخلاص کی کان سے فائدہ اٹھائیں اور ان جواہر کو باہر نکالیں تو آپ کے فیض سے سارا علاقہ اللہ کے فضل کے ساتھ اسلام اور احمدیت کے نور سے بھر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 31؍مئی 1991ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 10صفحہ 471تا472)
مسجد کی تزئین نَو
2006ء میں مسجد ناصر کی مکمل تزئین نو کی گئی۔ چھت کی تمام لکڑی نکال کر سٹیل کا فریم تیار کرکے لگایا گیا۔ PVC شیٹ کی سیلنگ لگوائی گئی۔ تمام ونڈوز کا سائز یکساں کیا گیا، اور ایلومینیم کے دروازے اور ونڈوز لگوائی گئیں۔ فرش پر نیا میٹ بچھایا گیا۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے پیش نظر مسجد میں ایئر کنڈیشن لگوائے گئے۔ یوں مسجد کی ہیئت یکسر بدل گئی۔ افراد جماعت نے اجتماعی وقار عمل سے اس کار خیر کو انجام دیا۔ محترم حسینی بدولہ صاحب کے تین نواسوں کو تزئین نو میں نمایاں حصہ لینے کی توفیق ملی۔ کام مکمل ہونے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں مفصّل رپورٹ بھجوائی گئی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے جواب میں تحریر فرمایا:
’’آپ کی طرف سے مسجد سرینام کی RENOVATIONکی رپورٹ ملی ہے، جس کے ساتھ تصاویر بھی ہیں۔ ماشاء اللہ بڑی خوبصورت بن گئی ہے۔ آپ نے بتایا ہے کہ اس کابہت سا کام وقار عمل سے ہوا ہے، اور حسینی بدولہ صاحب کے نواسوں کا Contributionبھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزا دے اور ان کے اموال اور نفوس میں برکت ڈالے۔‘‘
(خط محررہ T-10869/15-2-07.)
اکتوبر 2011ء میں مسجد سے ملحقہ ہال کا فرش نیا بنا کر ٹائل لگائی گئی، اور جماعتی روایات کے مطابق یہ کام وقار عمل کے ذریعہ مکمل کیا گیا۔
سال 2014ء میں جماعت نے خطیر رقم خرچ کرکے مسجد کے لیے بجلی کا ٹرانسفارمر لگوایا، اسی سال مسجد کے ساتھ ایک اور گیسٹ روم کی تعمیر کی توفیق ملی۔ مسجد کے تین اطراف دو میٹر کا پختہ فرش بنا کر ٹائل لگوائی گئی۔ مسجد کے صحن میں چار سو مربع میڑ ایریا میں فرشی ٹائل لگوائی گئی، نیز بیرونی دیوار از سر نو تعمیر کی گئی۔ اس دیوار کی تعمیر کا کام مکمل ہونے کے بعد اس پر گرل لگانے اور مین گیٹ کی تیاری کے لیے خاکسار نے جماعت کے ایک ناصر محترم فاروق جمن بخش صاحب جو ویلڈنگ کا وسیع تجربہ رکھنے والے بزرگ ہیں، اور جماعت کی دونوں مساجد کی چھتوں کے لیے سٹیل کا فریم تیار کرنے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ہم آپ کو میٹیریل خرید دیتے ہیں، آپ گرلز اور گیٹ تیار کر دیں۔ انہوں نے اس کام کی حامی بھر لی۔ اگلے دن مسجد آئے اور کہنے لگے کہ میں نے اپنی اہلیہ سے مشورہ کیا ہے۔ ہم اپنے خرچ پر یہ خدمت انجام دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے تمام سامان خرید کر پیمائش کے مطابق تمام گرلز اور گیٹ اپنے گھر پہ تیار کرکے مسجد میں لاکر فکس کر دیے۔ اسی طرح مسجد کی چھت کے لیے نیا ٹین خریدنے کی غرض سے خاکسار مجلس عاملہ کے ایک ممبر کے ساتھ ایک غیر از جماعت بزرگ کی دکان پر گیا اور اپنا مدعا بیان کیا۔ انہوں نے ٹین کا سائز اور تعداد پوچھنے کے بعد اپنے ملازم کو بلا یااور بل تیار کرکے لانے کاکہا۔ وہ بل انہوں نے میرے سامنے رکھا اور کہنے لگے اس میں سے جتنی رقم چاہیں کاٹ دیں، بل دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا کہ نصف کاٹ دوں، لیکن اگلے لمحے مَیں نے ان سے گذارش کی کہ آپ خود جتنا مناسب سمجھیں کاٹ دیں۔ چنا نچہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے نصف رقم کاٹ کے بل مجھے تھما دیا کہ جائیں ادائیگی کر دیں۔ اس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے لیے آسانیاں پیدا فرمائیں۔ اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
مسجد ناصر سُرینام کو یہ سعادت حاصل ہے کہ امام آخر الزّمان کے مقدس و مطہر خلیفہ نے یہاں نمازوں کی امامت کروائی اور جمعہ بھی پڑھایا۔ اس کے علاوہ جماعت ہائے احمدیہ امریکہ، کینیڈا، ٹرینیڈاڈ اور گیانا کے مبلغ انچارج مختلف وقتوں میں یہاں تشریف لا چکے ہیں۔ محترم مولانا محمد اسلم قریشی شہید نےکیریبین (گیانا اور ٹرینیڈاڈ)میں قیام کے دوران پانچ مرتبہ یہاں جماعتی پروگرامز میں شرکت کی۔ محترم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب نےستمبر تا نومبر1986ء یہاں قیام کیا۔ گذشتہ بیس سالوں کےدوران جمہوریہ سرینام کے دو نائب صدر، متعدد وزراء، اراکین پارلیمنٹ اور متعدد ملکوں کے سفیر اس مسجد کا دورہ کر چکے ہیں۔
احباب جماعت سے جماعت سرینام کے نفوس و اموال میں برکت کے لیے دعا کی درخواست ہے۔
٭…٭…٭