خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍ اپریل 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروق اعظم، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کےلیے آنحضورﷺ نے یہ دعا بھی کی تھی کہ اے اللہ! ان دو اشخاص یعنی ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے اپنے زیادہ محبوب شخص کے ذریعے اسلام کو عزت عطا کر

چھ مرحومین مکرم احمد محمد عثمان شبوتی صاحب صدر جماعت احمدیہ یمن، مکرم قریشی ذکاءاللہ صاحب اکاؤنٹنٹ دفتر جلسہ سالانہ، مکرم ملک خالق داد صاحب کینیڈا، مکرم محمد سلیم صابر صاحب کارکن نظارت امورِ عامہ، محترمہ نعیمہ لطیف صاحبہ اہلیہ صاحبزادہ مہدی لطیف صاحب آف امریکہ اور محترمہ صفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد شریف صاحب آف کینیڈاکا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍ اپریل 2021ء بمطابق 23؍شہادت1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 23؍ اپریل 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم عدیل طیب صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج مَیں حضرت عمربن خطابؓ کاذکر کروں گا۔آپؓ کا تعلق قبیلہ بنوعدی بن کعب بن لُؤَی سے تھا۔آپؓ کے والد کا نام خطاب بن نفیل جبکہ والدہ کا نام حنتمہ بنت ہاشم تھا۔ حضرت عمرؓ کی تاریخِ پیدائش کےمتعلق مختلف روایات ملتی ہیں مثلاً ایک رائے یہ ہے کہ حضرت عمرؓ بڑی جنگِ فجار سے چار سال قبل یا دوسری رائے کے مطابق چار سال بعد پیدا ہوئے تھے۔ایک روایت میں آپؓ کا سنِ ولادت عام الفیل 570 عیسوی کےتیرہ سال بعد یعنی 583ء بیان کیاگیا ہے۔ایک روایت میں کہاگیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے 6؍نبوی میں26 برس کی عمرمیں اسلام قبول کیا یوں آپؓ کا سنِ ولادت 590ء بنتا ہے۔ایک اور روایت یہ ہے کہ حضرت عمرؓ تب پیدا ہوئے جب نبی کریمﷺ اکیس سال کے تھے۔ حضرت عمرؓ کی کنیت ابو حفص تھی۔

ایک مرتبہ حضرت ابنِ عباس نے حضرت عمرؓ سے دریافت کیا کہ آپؓ کا لقب فاروق کس طرح رکھا گیا۔ حضرت عمرؓ نےفرمایا کہ مَیں حضرت حمزہؓ کے اسلام قبول کرنے اور مسجد حرام میں ابوجہل کو کمان مار کر زخمی کرنے کے تیسرے دن باہر نکلا۔ راستے میں بنو مخزوم کے ایک شخص سے عِلْم ہوا کہ میری بہن اور بہنوئی نے اسلام قبول کرلیا ہے جس پر مَیں اپنی بہن کےگھر گیا جہاں مجھے کچھ پڑھے جانے کی سرگوشیاں سنائی دیں۔ مَیں اندر داخل ہوا اور وہاں بات بڑھ جانےپر مَیں نے اپنےبہنوئی کا سر پکڑلیا اور اس کو مار مار کر لہولہان کردیا۔ ایک روایت میں بہن کے زخمی ہونے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ خون بہتادیکھ کر مجھے شرمندگی ہوئی،مَیں بیٹھ گیا اور کہا مجھے وہ کتاب دکھاؤ جو تم لوگ پڑھ رہے تھے۔میری بہن نے کہا کہ پہلے تم غسل کرو۔ جب مَیں نے غسل کیا تو انہوں نے وہ صحیفہ میرے لیے نکالایہ سورۂ طہٰ کی آیات 2تا 9تھیں جن کی عظمت کا میرے دل پر بڑا اثر ہوا۔ مَیں فوراً وہاں سے دارِارقم گیا اور رسول اللہﷺ کےحضور حاضرہوکر مَیں نےاسلام قبول کرلیا جس پر تمام صحابہ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا جسے اہلِ مکّہ نے سنا۔ اس کے بعد ہم دو صفوں میں ہوکر مسجدِ حرام میں داخل ہوئے۔ ایک صف میں مَیں تھا جبکہ دوسری صف میں حمزہ۔ جب قریش نے مجھے اور حمزہ کو دیکھا تو انہیں ایسا شدید دکھ اور تکلیف پہنچی کہ ایسی تکلیف پہلے کبھی نہیں پہنچی تھی۔ اس روز رسول اللہﷺ نے میرا نام ’فاروق‘ یعنی حق اور باطل کے درمیان امتیاز پیدا کرنے والا رکھا۔روایت کے مطابق حضرت عمرؓ دارِارقم میں اسلام قبول کرنے والےآخری شخص تھے۔

گھڑ سواری اور کُشتی کے ماہر، دراز قد اور مضبوط جسم والے حضرت عمرؓ قریش کے اُن سترہ آدمیوں میں سے تھے جولکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ قبولِ اسلام سے پیشتر قریش کی طرف سے سفارت کا عُہدہ آپؓ کے سپرد تھا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کو اسلام سے شدید دشمنی تھی لیکن اُن میں روحانی قابلیت بھی موجود تھی۔ باوجود رسول کریمﷺ اور آپؐ کے صحابہ کو تکالیف پہنچانے کے ان کے اندر جذبۂ رقت بھی موجود تھا۔ چنانچہ ہجرتِ حبشہ کی رات ،اندھیرے میں حضرت عمرؓ مکّہ کا چکّر لگا رہے تھے کہ ایک صحابیہ کو سفر کی تیاری کرکے کہیں جاتے دیکھا۔دریافت کرنے پر اُن صحابیہ نے کہا کہ عمرؓ! ہم اس لیے وطن چھوڑ کر جارہے ہیں کہ تم اور تمہارے بھائی ہمارا یہاں رہنا پسند نہیں کرتے اور ہمیں خدائے واحد کی عبادت کرنے میں یہاں آزادی میسر نہیں۔ یہ جواب سُن کر حضرت عمرؓ پر رقت کا ایسا جذبہ آیا کہ آپؓ نے منہ دوسری طرف پھیرلیا اور کہا اچھا جاؤ! خدا تمہارا حافظ ہو۔

حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنےکےلیے آنحضورﷺ نے یہ دعا بھی کی تھی کہ اے اللہ! ان دو اشخاص یعنی ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے اپنے زیادہ محبوب شخص کے ذریعے اسلام کو عزت عطا کر۔ ذوالحجہ 6 نبوی میں جب حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تواس وقت مکّے میں مسلمان مَردوں کی تعداد چالیس تھی۔آپؓ کے قبولِ اسلام کے موقعے پر حضرت جبرئیل نازل ہوئے اورآنحضورﷺ کومخاطب کرکے کہا کہ اے محمدؐ! عمر کے اسلام لانے سے آسمان والے بھی خوش ہیں۔

حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کی وجہ بننے والے متعدد واقعات و روایات کتب حدیث اور سیرت میں مذکور ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ابوجہل نے حضورﷺکو قتل کرنے والے شخص کے لیے بہت بڑے انعام کا اعلان کیا تو حضرت عمرؓ آنحضورﷺ کے قتل کے ارادے سے ننگی تلوار لےکر نکلے۔ راستے میں حضرت عمرؓ نے ایک بچھڑا ذبح ہوتے دیکھا اور اس کے پیٹ میں سے یہ آواز سنی کہ اے آلِ ذَریح! ذَریح اس بچھڑے کا نام تھا۔ ایک پکارنے والا اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول اللہﷺ کی رسالت کی گواہی کی طرف بلارہا ہے۔ حضرت عمرؓ نے سوچا کہ یہ تو میری طرف اشارہ ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ اگر یہ روایت صحیح ہے تو لگتا ہے کوئی کشفی نظارہ تھا جو آپؓ نے وہاں اس وقت دیکھا۔

ایک دوسری روایت اس طرح بیان کی جاتی ہے ایک رات مسجدِ حرام میں حضرت عمرؓ نے حضورﷺ کو نماز میں مشغول دیکھا۔ آنحضورﷺ سورۂ رحمٰن کی تلاوت فرمارہے تھے۔حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب مَیں نے قرآن کریم سنا تو میرا دل اس کی وجہ سے پگھل گیا اور میں رو پڑا اور اسلام میرے اندر داخل ہوگیا۔

ایسی ہی ایک روایت میں حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک رات میری بہن کو دردِ زہ اٹھا تو مَیں دعا کرنے کےلیے کعبہ کے پردوں سے لپٹ گیا۔ اس وقت حضرت عمرؓ نے آنحضورﷺ کو نماز میں تلاوت کرتے سنا۔ اس کلام نے آپؓ کے دل پر ایسا اثر کیا کہ جب حضورﷺ وہاں سے جانے لگے تو آپؓ رسول کریمﷺ کے پیچھے پیچھے چل دیے۔ حضورﷺ نے دیکھاتو فرمایا: اے عمرؓ! تم مجھے نہ رات کو چھوڑتے ہو نہ دن کو۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ ڈرگئے کہ کہیں حضوراکرمﷺ ان کےلیے بددعا نہ کریں چنانچہ آپؓ نے فوراً کلمۂ شہادت پڑھ لیا۔

ایک اَور روایت میں آپؓ کے قبولِ اسلام کا یوں ذکر ملتا ہے کہ ایک دن آپؓ نے حضورﷺ کو سورة الحاقہ کی تلاوت کرتے سنا تو قرآن کریم کی بناوٹ اور ترکیب سے متعجب ہوکر سوچاکہ بخدا!یہ تو کسی شاعر کا کلام ہے۔آپؓ بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں نے یہ سوچا تو آپؐ نے یہ آیات پڑھیں کہ

اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ وَّ مَا ہُوَ بِقَوۡلِ شَاعِرٍ…

یعنی یقیناً یہ عزت والے رسول کا قول ہے اور یہ کسی شاعر کی بات نہیں۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ اس پر مَیں نے سوچا کہ یہ تو کاہن یعنی جادوگر ہے تو آنحضورﷺ نے یہ پڑھا کہ

وَلَابِقَوۡلِ کَاہِنٍؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ

یعنی یہ کسی کاہن کا قول نہیں، بہت تھوڑا ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اس وقت سے اسلام میرے دل میں گھر کر گیا۔

حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام سے متعلق روایات پر تبصرہ کرتے ہوئے حضورِانور نے فرمایا کہ تاریخ و سیرت کی کتب میں مختلف روایات ملتی ہیں ، ان روایتوں کو جنہوں نے بھی صحت پر سمجھا ہے بیان کی ہیں۔ ہم تو اسی روایت کو صحیح مانتے ہیں جو بہن اور بہنوئی کے گھر والا معاملہ تھااور پھر وہاں سے آپؓ دارِ ارقم گئے۔ عین ممکن ہے کہ مذکورہ تمام روایات اپنی جگہ درست ہوں جن سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مختلف مواقع پر حضرت عمرؓ کے دل میں تبدیلی کے واقعات ہوتے رہے اور آخری واقعہ وہی ہوا جب بہن کے گھر میں قرآن کریم سنا اور اسلام قبول کرنے کےلیے دربارِ رسالت میں حاضر ہوگئے۔

خطبے کے آخری حصّے میں حضرت عمرؓ کاذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا:

1۔ مکرم احمد محمد عثمان شبوتی صاحب صدر جماعت احمدیہ یمن جو9؍اپریل کو 87سال کی عمر میں مصر میں وفات پاگئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

2۔ مکرم قریشی ذکاءاللہ صاحب اکاؤنٹنٹ دفتر جلسہ سالانہ۔ یہ بھی 9؍اپریل کو87برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

3۔مکرم ملک خالق داد صاحب کینیڈا جو 85 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

4۔ مکرم محمد سلیم صابر صاحب کارکن نظارت امورِ عامہ۔ آپ 27؍مارچ کو 77سال کی عمر میں وفات پاگئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

5۔ محترمہ نعیمہ لطیف صاحبہ اہلیہ صاحبزادہ مہدی لطیف صاحب آف امریکہ۔ مرحومہ 10؍مارچ کو وفات پاگئی تھیں۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

6۔ محترمہ صفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد شریف صاحب آف کینیڈا۔ مرحومہ 11؍ مارچ کو 80 برس کی عمر میں وفات پاگئی تھیں۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندئ درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button