سنت محمدیﷺ… جو قرآن کے ساتھ ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ رہے گی
اسلامی شریعت کا سب سے پہلا ، سب سے بڑا اور ناقابل تغیر ماخذ قرآن کریم ہے۔ جومحض فلسفہ نہیں عمل کی کتاب ہے۔ صرف نظریہ نہیں دلوں کو تبدیل کرنے والی اور زندگی میں انقلاب پیدا کرنے والی کتا ب ہے اس لیے لازم تھا کہ اس کے ساتھ وہ پاک وجود بھی نازل ہو جو اس کے ہر حکم کو عملی جامہ پہنا کر دکھائے اور لوگ خود استنباط کر کے فرضی اور وہمی وادیوں میں نہ بھٹکتے پھریں بلکہ اس کی پیروی کریں اوراس صراط مستقیم پر قائم ہوں جس پر خدا انہیں دیکھنا چاہتاہے۔ پس قرآن کی اس عملی تفسیر و تبیین کا نام سنتِ رسول ہے اور جیسے رسول اللہ قرآن کی اشاعت کے لیے مامور تھے ویسے ہی سنت کی اشاعت بھی آپ کے فرائض میں تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
…وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ۔ (النحل:45)
…اور ہم نے تیری طرف بھی ذکر اُتارا ہے تاکہ تُو اچھی طرح لوگوں پر اس کی وضاحت کردے جو اُن کی طرف نازل کیا گیا تھا اور تاکہ وہ تفکر کریں۔
یہ تبیین بھی وحی خفی کے ماتحت تھی جیسا کہ فرمایا:
وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی۔ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی۔ عَلَّمَہٗ شَدِیۡدُ الۡقُوٰی۔ (النجم:4تا6)
اور وہ خواہشِ نفس سے کلام نہیں کرتا۔ یہ تو محض ایک وحی ہے جو اُتاری جارہی ہے۔ اسے مضبوط طاقتوں والے نے سکھایا ہے۔
اسی مضمون کو مزید کھولتے ہوئے فرمایا:
ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ… (الجمعہ:3)
وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ اُن پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے…
یعنی رسول اللہﷺ کے 4 بنیادی کام ہیں۔ تلاوتِ آیات۔ تزکیہ نفس۔ تعلیم کتاب و تعلیم حکمت۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تلاوت آیات سمیت چاروں کاموں کا تعلق سنت رسول سے ہے اور ان لوگوں کا رد ہے جو صرف قرآن کو کافی سمجھتے ہیں۔ اور سنت و حدیث سے مستغنی ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کے مضمون سے بھرا پڑاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا۔ (الاحزاب:22)
یعنی یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتاہے۔
اگر سنت وحدیث کی ضرورت نہیں تو اطاعت رسول اور اسوہ ٔحسنہ کی پیروی سے کیا مراد ہے؟اور کلام الٰہی کا واحد ماخذ بھی تو رسول اللہﷺ کی ذات ہی ہے۔ لیکن آیئے آگے بڑھنے سے پیشتر سنت کے لغوی اور اصطلاحی معانی پر غور کریں۔
سنت کے لغوی اور اصطلاحی معانی
سنت کے لفظی معنی راستہ اور طریق کا ر کے ہیں۔ قرآن اللہ کے طریق کے لیے بھی سنت کا لفظ استعمال کرتاہے۔ اور منکرین توحید کے رویہ کے لیے بھی۔ فرمایا:
…فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا سُنَّتَ الۡاَوَّلِیۡنَ ۚ فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا۔ (الفاطر:44)
…پس کیا وہ پہلے لوگوں (پر جاری ہونے والی اللہ) کی سنّت کے سوا کوئی اور انتظار کر رہے ہیں؟ پس تُو ہرگز اللہ کی سنّت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا اور تُو ہرگز اللہ کی سنت میں کوئی تغیر نہیں پائے گا۔
اسلامی اصطلاح میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو سنت کہتے ہیں اور قول کو حدیث۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے عمل کو سنت قرار دیا فرمایا:
ذٰلِكَ مِنْ سُنَّتِي وَمَنْ أَحْيَا سُنَّتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي
(جامع ترمذی کتاب العلم باب فی الاخذبالسنۃ حدیث نمبر 2602)
یعنی (دل میں کینہ نہ رکھنا میری سنت میں شامل ہے) اور جو میری سنت زندہ کرتا ہے وہی مجھ سے محبت کرتا ہے۔
حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے سب نصائح کا خلاصہ نکالتے ہوئے فرمایا:
إِنِّي قَدْ بَلَّغْتُ، وَقَدْ تَرَكْتُ فِيْكُمْ مَا إنْ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ فَلَنْ تَضِلُّوْا أَبَدًا، أَمْرًا بَيِّنًا، كِتَابَ اللّٰهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ۔
(سیرت ابن ھشام باب حجۃ الوداع جلد 4 صفحہ 123)
اے لوگو! میں نے خدا کا پیغام پہنچا دیا ہے اور میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں اگر تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے ایک کتاب اللہ اور دوسری میری سنت۔
رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا:
أَلَا إِنِّي أُوْتِيْتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ
(سنن ابو داؤد کتاب السنۃ باب فی لزوم السنہ حدیث نمبر 3988)
مجھے کتاب دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اس جیسی اور چیز بھی۔
حضرت مسیح موعودؑ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’وحی متلوکا خاصہ ہے جو اس کے ساتھ تین چیزیں ضرور ہوتی ہیں خواہ وہ وحی رسول کی ہو یا نبی کی یا محدث کی۔
اول۔ مکاشفات صحیحہ جو اخبارات اور بیانات وحی کو کشفی طور پر ظاہر کرتے ہیں۔ گویا خبر کو معائنہ کردیتے ہیں جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو وہ بہشت اور دوزخ دکھلایا گیا جس کا قرآن کریم نے بیان کیا تھا۔ اور ان گزشتہ رسولوں سے ملاقات کرائی گئی جن کا قرآن حمید میں ذکر کیا گیا تھا۔ ایسا ہی بہت سی معاد کی خبریں کشفی طور پر ظاہر کی گئیں۔ تا وہ علم جو قرآن کے ذریعہ سے دیا گیا تھا زیادہ تر انکشاف پکڑے اور موجب طمانیت اور سکینت کا ہوجائے۔
دوئم۔ وحی متلوکے ساتھ رویائے صالحہ دی جاتی ہے جو نبی اور رسول اور محدث کےلئے ایک قسم کی وحی میں ہی داخل ہوتی ہے اور باوجود کشف کے رؤ یا کی اس لئے ضرورت ہوتی ہے کہ تا علم استعارات کا جو رؤیا پر غالب ہے وحی یاب پر کھل جائے اور علوم تعبیر میں مہارت پیدا ہو اور تاکشف اور رؤیا اور وحی بباعث تعدد طرق کے ایک دوسرے پر شاہد ہوں اور اس وجہ سے نبی اللہ کمالات اور معارف یقینیہ کی طرف ترقی رکھے۔
سوئم۔ وحی متلوکے ساتھ ایک خفی وحی عنایت ہوتی ہے جو تفہیمات الٰہیہ سے نامزد ہوسکتی ہے یہی وحی ہے جس کو وحی غیرمتلو کہتے ہیں اور متصوفہ اس کا نام وحی خفی اور وحی دل بھی رکھتے ہیں۔ اس وحی سے یہ غرض ہوتی ہے کہ بعض مجملات اور اشارات وحی متلوکے منزل علیہ پر ظاہر ہوں۔ سو یہ وہ تینوں چیزیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے أُوتیت الکتاب کے ساتھ مثلہ کا مصداق ہیں۔ اور ہر ایک رسول اور نبی اور محدث کو اس کی وحی کے ساتھ یہ تینوں چیزیں حسب مراتب اپنی اپنی حالت قرب کے دی جاتی ہیں چنانچہ اس بارے میں راقم تقریرہٰذا صاحب تجربہ ہے‘‘۔
(الحق لدھیانہ، روحانی خزائن جلد4 صفحہ 108)
پس سنت یا اسوۂ رسول ایک بہت بڑی برکت تھی لیکن روشنی کے زمانے گزرنے کے بعد اس کی حقیقت اور مدارج سمجھنے میں لوگوں کو بہت غلطی لگی۔ اور سنت و حدیث کے بارے میں غلویا افراط و تفریط سے کام لیا گیا اور اس وجہ سے علما٫ بھی بہت سے مسائل میں الجھ گئے۔ مختلف گروہوں کے خیالات اور غلوعام طور پر یہ ہیں:
افراط و تفریط کے نمونے
1۔ اکثر علما٫تو سنت و حدیث کو ایک ہی چیز قرار دیتے ہیں۔
2۔ بعض لوگوں کے نزدیک سادہ تعریف یہ ہے کہ سنت رسول اللہﷺ کا ہر فعل اور حدیث رسول اللہﷺ کاہر قول ہے اور یہ سب مدار شریعت ہیں اسی وجہ سے وہ سنت کی مختلف شکلوں اور متضاد حدیثوں میں پھنس کر رہ گئے۔
3۔ بعض لوگوں نے سنت و حدیث کے مقام میں اتنا غلو کیا کہ انہوں نے قرآن پر بھی حَکَم اور قاضی قرار دے دیا۔ اورسنت اور حدیث کے ذریعہ قرآن میں نسخ کو بھی جائز قرار دے دیا۔
4۔ رسول اللہؐ کے ہر فعل کو جو ذاتی، اور علاقائی اور وقتی پس منظر میں تھا اس کو بھی سنت قرار دے دیا اور اسے شریعت کا منشاء سمجھنے لگ گئے جیسا کہ لباس، کھانا، سواری و غیرہ۔ اور بدلتے ہوئے زمانوں میں مشکلات کا شکار ہو گئے۔
سنت وحدیث کا مقام
امت محمدیہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علمی کارناموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپؑ نے قرآن و سنت اور حدیث کا مقام بیان فرمایا اور دونوں کی ایسی واضح تعریف فرمائی جس کے نتیجے میں ہر چیز نکھر کر سامنے آ گئی۔ آپؑ نے فرمایا:
’’مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کےلئے تین چیزیں ہیں (١)قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کرہمارے ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے وہ شک اور ظن کی آلائشوں سے پاک ہے۔
(٢)دوسری سُنّت۔ اور اس جگہ ہم اہلحدیث کی اصطلاحات سے الگ ہو کر بات کرتے ہیں۔ یعنی ہم حدیث اور سُنّت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے جیسا کہ رسمی محدثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اورسنّت الگ چیز۔ سُنّت سے مُراد ہماری صرف آنحضرتﷺ کی فعلی روش ہے جو اپنے اندرتواتر رکھتی ہے اور ابتدا سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اورہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سُنّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور قدیم سے عادة اللہ یہی ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کےلئے لاتے ہیں تو اپنے فعل سے یعنی عملی طور پر اس قول کی تفسیر کر دیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں۔
(٣) تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے اور حدیث سے مُراد ہماری وہ آثار ہیں کہ جو قصّوں کے رنگ میں آنحضرتﷺ سے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعوں سے جمع کئے گئے ہیں۔
پس سنّت اور حدیث میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ سنّت ایک عملی طریق ہے جو اپنے ساتھ تواتر رکھتا ہے جس کو آنحضرتﷺ نے اپنے ہاتھ سے جاری کیا اور وہ یقینی مراتب میں قرآن شریف سے دوسرے درجہ پر ہے۔ اور جس طرح آنحضرتﷺ قرآن شریف کی اشاعت کے لئے مامور تھے ایسا ہی سنّت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے۔ پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سنّت معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے۔ یہ دونوں خدمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے بجا لائے اور دونوں کو اپنا فرض سمجھا۔ مثلاً جب نماز کے لئے حکم ہوا تو آنحضرتﷺ نے خدا تعالیٰ کے اِس قول کو اپنے فعل سے کھول کر دکھلادیا اور عملی رنگ میں ظاہر کر دیا کہ فجر کی نماز کی یہ رکعات ہیں اور مغرب کی یہ اور باقی نمازوں کے لئے یہ یہ رکعات ہیں۔ ایسا ہی حج کر کے دکھلایا اور پھر اپنے ہاتھ سے ہزار ہا صحابہ کو اِس فعل کا پابند کر کے سلسلہ تعامل بڑے زور سے قائم کر دیا۔ پس عملی نمونہ جو اب تک اُمّت میں تعامل کے رنگ میں مشہود و محسوس ہے اِسی کا نام سنّت ہے۔ لیکن حدیث کو آنحضرت صلعم نے اپنے رُوبرو نہیں لکھوایا اور نہ اس کے جمع کرنے کیلئے کوئی اہتمام کیا۔ کچھ حدیثیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جمع کی تھیں لیکن پھر تقویٰ کے خیال سے اُنہوں نے وہ سب حدیثیں جلادیں کہ یہ میرا سماع بلاواسطہ نہیں ہے خدا جانے اصل حقیقت کیا ہے۔ پھر جب وہ دَور صحابہ رضی اللہ عنہم کا گذر گیا تو بعض تبع تابعین کی طبیعت کو خدا نے اس طرف پھیر دیا کہ حدیثوں کو بھی جمع کر لینا چاہئے تب حدیثیں جمع ہوئیں۔ اِس میں شک نہیں ہوسکتاکہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متّقی اور پرہیزگار تھے اُنہوں نے جہاں تک اُن کی طاقت میں تھاحدیثوں کی تنقید کی اور ایسی حدیثوں سے بچنا چاہا جو اُن کی رائے میں موضوعات میں سے تھیں اور ہر ایک مشتبہ الحال راوی کی حدیث نہیں لی۔ بہت محنت کی مگر تا ہم چونکہ وہ ساری کارروائی بعد از وقت تھی اِس لئے وہ سب ظن کے مرتبہ پر رہی بایں ہمہ یہ سخت نا انصافی ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور نکمّی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ اُن حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی۔ یہودیوں میں بھی حدیثیں ہیں اور حضرت مسیح کے مقابل پر بھی وہی فرقہ یہودیوں کا تھا جو عامل بالحدیث کہلاتا تھا لیکن ثابت نہیں کیا گیا کہ یہودیوں کے محدثین نے ایسی احتیاط سے وہ حدیثیں جمع کی تھیں جیسا کہ اسلام کے محدثین نے۔ تاہم یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اُس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بیخبر تھے یا حج کرنے کے طریق سے ناآشنا تھے کیونکہ سلسلہ تعامل نے جو سنّت کے ذریعے سے ان میں پیدا ہوگیا تھا تمام حدود اور فرائض اسلام ان کو سکھلادیئے تھے اس لئے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اُن حدیثوں کا دنیا میں اگر وجود بھی نہ ہوتا جو مُدّت دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اِسلام کی اصلی تعلیم کا کچھ بھی حرج نہ تھا کیونکہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے اُن ضرورتوں کو پورا کر دیا تھا۔ تا ہم حدیثوں نے اس نور کو زیادہ کیا گویا اسلام نور علٰی نور ہوگیا اور حدیثیں قرآن اور سنّت کے لئے گواہ کی طرح کھڑی ہوگئیں ‘‘۔
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد19 صفحہ 209تا 211)
اس سے معلوم ہوا کہ حقیقت میں سنت کا تعلق
1۔ صرف شرعی اور دینی معاملات سے ہے۔
2۔ یہ رسول اللہﷺ کی فعلی روش ہے جو اپنے ساتھ تواتر رکھتی ہے۔
3۔ رسول اللہ نے ہزار ہا صحابہؓ کو اس پر قائم کر دیا۔
4۔ یہ سلسلہ امت محمدیہ میں تعامل کے رنگ میں آج تک قائم ہے۔
پس سنت کا لفظ بنیادی طور پر انہی شرائط کے ساتھ سمجھنا چاہیے۔ پرانے بزرگ علما٫میں سے حضرت شاہ ولی اللہ نے اس پر خوب قلم اٹھایا ہے اور کتاب الحجۃ البالغہ میں لکھا ہے کہ رسول اللہ کے افعال اور اقوال دو قسم کے ہیں ایک وہ جن کا تعلق منصب نبوت سے ہے اور دوسرے وہ جو دنیاوی امور سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً طب یا لشکر کشی وغیرہ۔ جیسے آپ نے فرمایا:
’’أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ‘‘
(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ما قالہ حدیث نمبر 4358)
تم اپنی دنیا کے امور زیادہ بہتر جانتے ہو۔
پھر فرمایا:
’’إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ دِيْنِكُمْ فَخُذُوْا بِهِ وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ رَأْيٍ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ‘‘
(حوالہ مذکورہ حدیث نمبر 4357)
جب میں تمہارے دین کے متعلق کوئی حکم دوں تو اسے پکڑ لو اور جب میں اپنی رائے سے کوئی حکم دوں تو میں ایک انسان ہی ہوں۔
شاہ ولی اللہ صاحب کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اور دوسرے صحابہؓ نے رسول اللہﷺ کو جو مشورے دیے یا کسی رائے میں اختلاف کیا وہ اسی وجہ سے تھا ورنہ خدائی احکام میں مشورہ اور اختلاف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں مسلمان جن غلطیوں میں مبتلا ہو گئے تھے ان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’…بعض لوگ اس غلطی میں مبتلا ہو گئے تھے کہ رسول کریم کے تمام اعمال جزو شریعت ہیں۔ اس وجہ سے اگر کوئی مولوی کسی کا پاجامہ ٹخنے سے نیچے دیکھتا تو جھٹ کہہ دیتا کہ یہ کافر ہے۔ کھانے کے بعد کسی کو ہاتھ دھوتے دیکھا تو کہہ دیا کافر ہے کیونکہ یہ رسول کریمﷺ کی سنت کے خلاف کرتا ہے۔ حالانکہ بات یہ ہے کہ رسول کریمﷺ کے وقت سالن میں مسالے نہ پڑتے تھے۔ زیتون کے تیل سے روٹی کھا لیتے تھے۔ اور یہ تیل بالوں کو بھی ملا جاتا تھا۔ اس لئے کھانے کے بعد منہ پر مل لیتے۔ اب سالن میں ہلدی اور کئی قسم کے مسالے پڑتے ہیں مگر اب بھی کئی مولوی منہ پر ہاتھ ملنے کو سنت قرار دینے والے، مسالے سے بھرے ہوئے ہاتھ منہ پر مل لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ سنت ہے۔ ہم کہتے ہیں اگر تم زیتون کے تیل سے کھانا کھاؤ تو بے شک ہاتھ کھانے کے بعد منہ پر مل لو۔ اور اس کے لئے ہم بھی تیار ہیں۔ مگر تم سالن میں جب تک مسالہ ہلدی اور مرچ نہ ہو، کھاتے ہی نہیں، پھر ان مسالوں کو کون منہ پر ملے۔ ایک دفعہ میں نے ایک مولوی صاحب کی دعوت کی۔ کھانے کے بعد جب ہاتھ دھونے کیلئے چلمچی آئی تو انہوں نے بڑی حقارت سے اسے پرے ہٹا کر کہا یہ سنت کے خلاف ہے میں ہاتھ نہیں دھوؤں گا۔ اور سالن سے بھرے ہوئے ہاتھ منہ پر مل لئے۔ در حقیقت یہ سنت کے خلاف نہیں۔ حدیث میں صاف آتا ہے کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کھانے سے پہلے بھی ہاتھ دھوئے اور بعد میں بھی۔‘‘
( مسیح موعود کے کارنامے، انوار العلوم جلد 10 صفحہ 175تا176)
سنت کی اقسام
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس غلطی کا ازالہ یوں فرمایا ہے کہ رسول کریمﷺ کے افعال کئی قسم کے ہیں۔ ایک وہ اعمال ہیں جو آپ ہمیشہ کرتے اور جن کے کرنے کا آپ نے دوسروں کو بھی حکم دیا اور فرمایا اس طرح کیا کرو ان کا کرنا واجب ہے۔ (2)وہ اعمال جو عام طور پر آپؐ کرتے اور دوسروں کو کرنے کی نصیحت بھی کرتے، یہ سنن ہیں۔ (3)وہ اعمال جو آپ کرتے اور دوسروں کو فرماتے کہ کر لیا کرو وہ اچھے ہیں یہ مستحب ہیں۔ (4)وہ اعمال جنہیں آپ مختلف طور پر ادا کرتے ان کا سب طریقوں سے کرنا جائز ہے۔ (5)ایک وہ اعمال ہیں جو کھانے پینے کے متعلق تھے۔ ان میں نہ آپ دوسروں کو کرنے کے لئے کہتے اور نہ کوئی ہدایت دیتے۔ آپ ان میں عرب کے رواج پر عمل کرتے۔ ان احکام میں ہر ملک کا انسان اپنے ملک کے رواج پر عمل کر سکتا ہے۔ رسول کریمﷺ کے سامنے گوہ لائی گئی جو آپ نے نہ کھائی۔ اس پر پوچھا گیا کہ اس کا کھانا حرام ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ حرام نہیں۔ مگر ہمارے ہاں لوگ اسے کھاتے نہیں۔ اس لئے میں بھی اسے نہیں کھاتا۔
اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ جن امور میں شریعت ساکت ہو اور رسول کریمﷺ کا حکم ثابت نہ ہو انہیں حتیٰ الوسع ملک کے دستور اور رواج کے مطابق کر لینا چاہیے تاکہ خواہ مخواہ لوگوں میں نفرت نہ پیدا ہو۔ ایسے امور سنت نہیں کہلاتے۔ جوں جوں ملک کے حالات کے مطابق لوگ ان میں تبدیلی کرتے جائیں اس پر عمل کرنا چاہیے۔
(4)چوتھی غلطی یہ لگ رہی تھی کہ بعض لوگوں کے نزدیک شریعت صرف کلام الٰہی تک محدود تھی۔ نبی کا شریعت سے کوئی تعلق نہ سمجھا جاتا تھا جیسا کہ چکڑالوی کہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے متعلق بتایا کہ شریعت کے دو حصے ہیں۔ (1) ایک اصولی حصہ ہے جس پر دینی، اخلاقی، تمدنی، سیاسی کاموں کا مدار ہے۔ (2)دوسرا حصہ جزئی تشریحات اور علمی تفصیلات کا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ نبیوں کے ذریعہ کراتا ہےتا کہ نبیوں سے بھی مخلوق کو تعلق پیدا ہواور وہ لوگوں کے لئے اسوہ بنیں۔ پس شریعت میں نبی کی تشریحات بھی شامل ہیں۔‘‘
( مسیح موعود کے کارنامے، انوار العلوم جلد 10 صفحہ 176تا 177)
حضورؓ نے ایک موقع پر ایک اور مثال سے اس امر کی وضاحت فرمائی۔ ایک شخص کے سوال پر کہ داڑھی کتنی لمبی ہونی چاہیے حضور نے مجلس مشاورت میں فرمایا:
’’یہ چونکہ شرعی مسئلہ ہے اس لئے سب کمیٹی کا حق نہیں کہ کوئی حد مقرر کرے۔ اصل بات یہ ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک قانون بتایا ہے اور وہ یہ کہ سنت رسول سے مراد وہ اعمال ہیں جو آپﷺ نے خود کئے اور دوسروں کو ان کے کرنے کی تحریک فرمائی۔ پس سنت کے یہ معنی نہیں کہ جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کیا وہ سنت ہے بلکہ یہ ہے کہ جو کام آپؐ نے خود کیا اور جس کے کرنے کی دوسروں کو تحریک کی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق یہ تو ثابت ہے کہ آپؐ نے داڑھی رکھی اور یہ بھی ثابت ہے کہ دوسروں سے کہا رکھو۔ مگر یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا اتنی لمبی داڑھی رکھو۔ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ بعض صحابہ کی داڑھی چھوٹی تھی۔ چنانچہ حضرت علیؓ کی چھوٹی داڑھی ہی تھی اور مؤرخوں کی رائے ہے کہ عام طور پر صحابہ کی چھوٹی داڑھی تھی…رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق تو یاد نہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق معلوم ہے کہ آپ تزئین کراتے اور داڑھی کے بال بھی ترشواتے تھے۔ میں بھی ہمیشہ اِسی طرح کراتا ہوں۔ اس وقت میری جتنی داڑھی ہے اگر میں اسے بڑھنے دوں تو اور زیادہ لمبی ہو جائے۔ حضرت مسیح موعودؑ ہفتہ وار داڑھی کے بال کتراتے جو کئی آدمیوں نے بطور تبرک رکھے ہوئے ہیں۔
(خطابات شوریٰ جلد1صفحہ242)
پس یہ درست ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرثابت شدہ فعل اور قول ہمارے لیے باعث برکت اور قابل احترام ہے مگر ہر قول وفعل شریعت کا حصہ نہیں اور نہ اس کی پیروی کی تلقین کی گئی ہے کچھ حصے لازمی اور ابدی ہیں، کچھ میں انسان کو اختیار دیا گیا ہے اور کچھ ایسے ہیں جن کی روح کو قائم رکھ کر استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ہاں محبت کی وجہ سے اگر کوئی ہر فعل کی پیروی کرے تو یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔
سنت یا تعامل کے درجات
حضرت مسیح موعودؑ نے یہ نکتہ بھی بیان فرمایا ہے کہ سنت یا تعامل کے سب پہلو برابر نہیں۔ وہ تعامل جو غیر اختلافی ہے اور سب امت کو مسلمہ ہے اس کا درجہ سب سے بلند ہے اور جس میں اختلاف پایا جاتا ہے اور جتنا جتنا پایا جاتا ہے اسی نسبت سے اس کا درجہ کم ہوتا جائے گا اور اگر کسی معاملہ میں ایک سے زیادہ سنت یا تعامل ہو اور مضبوط ہو تو دونوں کو قبول کیا جائے گا اور اسے بدعت نہیں کہا جائے گا۔ اس کی مثال حضورؑ نے رفع یدین سے دی ہے فرمایا:
’’رفع یدین یا عدم رفع یدین جو دو طور کے تعامل چلا آتا ہے ان دونوں طوروں سے جو تعامل قرن اوّل سے آج تک کثرت سے پایا جاتا ہے اس کا درجہ زیادہ ہو گا اور با ایں ہمہ دوسرے کو بدعت نہیں ٹھہرائیں گے بلکہ ان دونوں عملوں کی تطبیق کی غرض سے یہ خیال ہو گا کہ با وجود مسلسل تعامل کے پھر اس اختلاف کا پایا جانا اس بات پر دلیل ہے کہ خود آنحضرتﷺ نے ہفت قراءت کی طرح طرق ادائے صلوٰۃ میں رفع تکلیف امت کیلئے وسعت دیدی ہو گی اور اس اختلاف کو خود دانستہ رخصت میں داخل کر دیا ہو گا تا امت پر حرج نہ ہو۔‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 87)
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭