امام ابن القیمؒ، نزولِ وحی کے تئیس سال اور نبی اکرمﷺ کی صداقت……
علامہ ابن قیم کا پورا نام حافظ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن ابی بکر بن ایوب بن سعد بن حریز الزرعی الدمشقی تھا۔ آپ کی شہرت ابن قیم کے نام سے ہے۔آپ کی ولادت 7؍صفر 691ھ بمطابق 28؍جنوری 1292ء کو اور وفات 13؍رجب 751ھ بمطابق 15؍ستمبر 1350ء کو دمشق میں ہوئی۔ آپ ابن تیمیہ کے شاگردوں میں سے تھے اور تعلق امام احمد بن حنبل کے فقہ سے تھا۔ آپ کی تصانیف کی تعداد ساٹھ سے زیادہ ہے۔
امام ابن القیمؒ اپنی کتاب ’’ھدایۃ الحیاریٰ فی الرد علی الیہود والنصاریٰ‘‘کی چھٹی فصل (مناظرۃ المؤلف لأحد کبار الیہود) میں صفحہ 124پر ایک یہودی عالم سے اپنے مناظرہ کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ عربی کا ترجمہ کچھ یوں ہے۔
’’ایک بڑے یہودی عالم سے مصر میں میرا مناظرہ ہوا۔ اثنائے کلام میں مَیں نے اسے کہا کہ جب تم محمدﷺ کی تکذیب کرتے ہو تو تم اللہ تعالیٰ کو بہت بڑی گالی دیتے ہو۔ اسے اس پر تعجب ہوا اور کہنے لگا کہ اپنی اس بات کی کوئی مثال بیان کرو۔ میں نے اسے کہا کہ جب تم یہ کہتے ہو کہ محمدﷺ ایک ظالم بادشاہ تھے جنہوں نے لوگوں پر تلوار سے ظلم کیے اور وہ اللہ کی طرف سے رسول نہیں تھے حالانکہ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور تمام مخلوق کی طرف بھیجے گئے ہیں، کرنے کے بعد تیئس برس زندہ رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فلاں بات کا حکم دیا اور فلاں بات سے منع کیا اور ان پر وحی کی اور تمہارے نزدیک ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ پس یہ دعویٰ دو باتوں میں سے ایک سے خالی نہیں۔
یا تو تم لوگ یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے اس دعویٰ کی اطلاع تھی اور وہ اس کا گواہ تھا اور علم رکھتا تھایا پھر یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ سے یہ بات چھپی رہ گئی اور اسے کچھ علم نہ ہوا۔
پس اگر یہ کہو کہ اسے علم نہ تھا تو تم نے اس سے قبیح ترین جہالت منسوب کی کیونکہ وہ تو سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔
اور اگر یہ کہو کہ اسے اس بات کی اطلاع تھی اور وہ اس کا علم رکھتاتھا اور ان کے دعویٰ کا گواہ تھا تب بھی دوباتوں میں سے ایک لازم آئے گی۔ یا یہ کہ وہ اس بات پر قادر تھا کہ انہیں اپنے ہاتھ سے پکڑلیتا اورانہیں پھیلنے سے روک دیتا۔ یا وہ قادر نہیں تھا۔ اگر وہ قادر نہیں تھا تو تم نے اللہ تعالیٰ کی طرف قبیح ترین عجز و بیچارگی منسوب کی جو ربوبیت کے منافی ہے۔
اور اگر وہ قادر تھا تو اس نے اس قدرت کے باوجود انہیں غلبہ دیا، ان کی مدد کی، تائید کی اور انہیں اور ان کے کلمہ کو بلندی عطا کی اور ان کی دعاؤں کو قبولیت بخشی اور ان کے دشمنوں کے مقابل پر انہیں تمکنت بخشی اور ان کے ہاتھ سے ہزاروں معجزات و کرامات ظاہر فرمائیں اور کوئی ایسا نہیں جس نے ان کے ساتھ برائی کا قصد کیا ہو اور اللہ نے انہیں فتح نہ بخشی ہو اور ان کی کوئی دعا ایسی نہیں جو قبول نہ ہوئی ہو۔ پس یہ بہت بڑا ظلم اور حماقت ہے کہ عاقل فاضل لوگوں میں سے کوئی ایک بھی رب السمٰوٰت والارض کی طرف ایسی بات کی نسبت کرے۔
پس یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنی تائید اور کلام اور ان کی دعوت و تبلیغ کے لوگوں میں پھیلنے کے ذریعہ ان کی صداقت کی گواہی دیتا ہو اور تمہارے نزدیک ان کا دعویٰ جھوٹ اور کذب ہو۔
جب اس نے یہ سنا تو کہنے لگا کہ اللہ کی پناہ کہ اللہ تعالیٰ کسی مفتری کذاب کے ساتھ ایسا سلوک کرے جیسا کہ اس نے محمدﷺ کے ساتھ کیا ہے بلکہ وہ تو سچے نبی ہیں۔ جو ان کی اتباع کرے گا فلاح پاجائے گا۔ میں نے کہا کہ پھر تم ان کے دین میں داخل کیوں نہیں ہوتے؟ اس نے کہا کہ وہ امیوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے جن کے پاس کوئی کتاب نہیں تھی جبکہ ہمارے پاس کتاب موجود ہے جس کی ہم اتباع کرتے ہیں۔‘‘
(ھدایۃ الحیاریٰ فی الرد علی الیہود والنصاریٰ صفحہ 124تا125دار مکتبہ بالحیاۃ بیروت لبنان)
مترجم ’’زاد المعاد‘‘ میں اس مناظرہ کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے: ’’میں نے کہا بلکہ اس سے بھی زیادہ اور آپﷺ پر جرح صرف اللہ کے انکار وکفر سے ہی ممکن ہے۔ اس کی تشریح اس طرح ہے کہ اگر محمدﷺ تمہارے خیال کے مطابق نبی صادق نہیں اور تمہارے گمانِ فاسد کے مطابق (نعوذ باللہ )وہ ایک ظالم بادشاہ ہیں تو کیا اللہ نے انہیں مدد اس لیے دی کہ وہ اللہ پر افترا باندھیں اور ایسی باتیں بیان کریں جو اس نے (وحی)نہیں کیں؟اور اللہ ان تمام باتوں کو پورا کر دے۔ یہ معاملہ چلتا رہے…اور یہ تمام امور وہ اللہ کی جانب منسوب کریں اور بشری عادت کے مطابق وہ اسی طریقہ پر گامزن رہیں اور اسی حالت میں تئیس برس گزر جائیں ان تمام باتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ ان کی نصرت وحمایت کرتا رہے۔ اس کے امر کو رفعت بخشتا رہے۔ اور نصرت کے تمام خارجی اسباب بھی مہیا کر دے جو عمومی طور پر بشری قوت سے بالاتر ہوتے ہیں اور سب سے تعجب خیز معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرے، ان کے دشمنوں کو ذاتی محنت وسبب وغیرہ کے بغیر ہی ہلاک کر دے کبھی محض بد دعا سے ہی اور کبھی آپﷺ کی بددعا کے بغیر مزید برآں وہ جس ضرورت کا سوال کریں اللہ وہ ضرورت پوری کر دے اور آپﷺ سے ہر قسم کی کامرانی کا وعدہ کرے۔ پھر وہ وعدہ بہترین انداز میں پورا بھی کر دے حالانکہ وہ اس کے نزدیک کا ذب ومفتری اور ظالم ہو۔ (نعوذ باللہ )
اب تمہارے قول کے مطابق دو باتیں ضرور لازم آئیں گی، یا تو کہو کہ دنیا بنانے والا اور مدبر کوئی نہیں۔ اور اگر عالم کا کوئی بنانے والا اور مدبر مان لیا گیا جو قدیر وحکیم بھی ہو۔ تو وہ ایسے (نبی )کے دونوں ہاتھ پکڑ لیتا اور اس کا سخت ترین مقابلہ کرتا اور ظالموں کے لیے اسے عبرت بنا دیتا کیونکہ بادشاہوں کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ پھر آسمانوں اور زمینوں کے بادشاہ اور احکم الحاکمین کے متعلق یہ تصور کیسے ہوسکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ظلم ومفاہت، تعدی اور مخلوق کو گمراہ کرنے کا غلط الزام پروردگارِکریم پر آتا ہے کہ وہ ابد الآباد تک ایسا ہی کرتا رہا۔ نہیں بلکہ ایک کاذب (نعوذ باللہ )کی مدد کرتا اور اسے زمین پر تسلط دیتا۔ اس کی دعاؤں کو قبولیت بخشتا۔ اس کی وفات کے بعد اس کے دین کو قائم رکھتا اور ابد تک اس کی آواز کو رفعت عطا کرتا ہے۔ اس کی دعوت کا اظہار اور ہر جماعت وقوم کے اندر سب کے سامنے علی الاعلان صدیوں کے بعد بھی اس کی نبوت کی شہادت دینا لازم آئے۔ یہ معاملہ احکم الحاکمین اور ارحم الراحمین کی جانب سے کیسے ہوسکتا ہے؟
تم نے اپنے مخصوص طریق نقد سے رب العالمین پر شدید ترین جرح کی اور اس پر طعن کی زبان کھولی اور تم نے اس کا سرے سے انکار کر دیا۔ البتہ ہم انکار نہیں کرتے۔ کئی کذاب دنیا میں آئے۔ ان کی شوکت وسطوت بھی ظاہر ہوئی لیکن ان کی دعوت مکمل نہ ہو سکی۔ نہ انہیں زیادہ مہلت دی گئی بلکہ ان پر انبیاء علیہم السلام اور ان کے اتباع کو مسلط کر دیا گیا۔ انہوں نے ان کا نشان تک مٹا دیا اور انہیں حرف غلط کی طرح ختم کر دیا۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر قیامت تک اس کے بندوں میں اس کی یہ سنت چلی آتی ہے۔
جب اس نے میری یہ گفتگو سنی تو کہنے لگا، اللہ کی پناہ ہم انہیں ظالم یا کاذب نہیں کہتے، بلکہ اہل کتاب میں سے ہر انصاف پسند اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ جو آپﷺ کی اطاعت میں آیا اور آپﷺ کے طریق کار پر چلا وہ ناجی اور سعید ہے اور اسے آپﷺ کی رسالت ماننا ہی پڑتی ہے لیکن اہل کتاب کی جانب آپﷺ مبعوث نہیں ہوئے۔‘‘
(زاد المعاد از حافظ ابن قیم، مترجم سید رئیس احمد جعفری ندوی صفحہ190تا192نفیس اکیڈیمی اردو بازار کراچی )
امام ابن قیمؒ کی اس دلیل کی بنیاد قرآن میں بار بار بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر افترا کرنے والا کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا بلکہ مفتری اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والے کو سزا ملتی ہے۔ مناظرہ میں جب امام ابن قیمؒ نے رسول کریمﷺ کی صداقت کے طور پریہ دلیل پیش کی تو اس یہودی عالم نے بس اتنا ہی کہا کہ ’’ہم انہیں (رسول کریمﷺ ) ظالم یا کاذب نہیں کہتے ‘‘اور اپنے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ بیان کی کہ رسول اللہﷺ امیوں کی طرف رسول بن کر آئے ہیں اور ہم اہل کتاب ہیں۔ گویا اس دلیل کی سچائی سے وہ یہودی عالم بھی انکار نہیں کر سکا اور لکھا ہے کہ وہ مناظرہ چھوڑ کر چلا گیاتھا۔ اسے بھی تسلیم کرنا پڑا کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والا کبھی کامیاب نہیں ہوتا اور یہ ایک ایسی عمومی حقیقت ہے جسے تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ جیسے کہ امام ابن قیمؒ نے دلیل پیش کرتے ہوئے اس بات کا ذکر کیا کہ رسول کریمﷺ نے تئیس سال تک اللہ تعالیٰ کی طرف الہام منسوب کیے۔ اگر آپﷺ (نعوذ باللہ)جھوٹے ہوتے تواللہ تعالیٰ کبھی آپﷺ کی تائیدونصرت نہ کرتا اورکبھی سزا کے بغیر نہ چھوڑتا۔
آج کل کے غیر احمدی علماء کے سامنے جب یہی دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے طور پر پیش کی جاتی ہے تو وہ اس دلیل کو دلیل ماننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں اور دلیل کے حوالے سے طرح طرح کے عذر تراش کر اس دلیل سے ہی بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت جو فرمایا کہ اگر وہ ہمارے پرکچھ افترا کرتا تو ہم اُس کو ہلاک کر دیتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف خدا تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ غیرت اپنی ظاہر کرتا ہے کہ آپ اگر مفتری ہوتے تو آپ کو ہلاک کردیتا۔ مگر دوسروں کی نسبت یہ غیرت نہیں ہے اور دُوسرے خواہ کیسا ہی خدا پر افتراء کریں اور جھوٹے الہام بنا کر خدا کی طرف منسوب کر دیا کریں اُن کی نسبت خدا کی غیرت جوش نہیں مارتی۔ یہ خیال جیسا کہ غیر معقول ہے۔ ایسا ہی خدا کی تمام کتابوں کے بر خلاف بھی ہے اور اب تک توریت میں بھی یہ فقرہ موجود ہے کہ جو شخص خدا پر افتراکرے گا اورجھوٹا دعویٰ نبوت کا کرے گا وہ ہلاک کیاجاوے گا۔ علاوہ اس کے قدیم سے علماء اسلام آیت لَوْتَقَوَّلَ عَلَیْنَا کوعیسائیوں اور یہودیوں کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے لئے بطور دلیل پیش کرتے رہے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جب تک کسی بات میں عموم نہ ہو وہ دلیل کا کام نہیں دے سکتی۔ بھلا یہ کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر افترا کرتے تو ہلاک کئے جاتے اور تمام کام بگڑ جاتا لیکن اگر کوئی دوسرا افترا کرے تو خدا ناراض نہیں ہوتا بلکہ اس سے پیار کرتا ہے اور اُس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ مہلت دیتا ہے اور اُس کی نصرت اور تائید کرتا ہے اِس کا نام تو دلیل نہیں رکھنا چاہئے بلکہ یہ تو ایک دعویٰ ہے کہ جو خود دلیل کا محتاج ہے۔ افسوس میری عداوت کے لئے اِن لوگوں کی کہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے نشانوں پر بھی حملے کرنے لگے۔ چونکہ ان لوگوں کو معلوم ہے کہ میرے اِس دعویٰ وحی اورالہام پر پچیس25 سال سے زیادہ گذر چکے ہیں جو آنحضرتؐ کے ایام بعثت سے بھی زیادہ ہیں کیونکہ وہ تیئیس 23برس تھے اور یہ تیس30سال کے قریب اور ابھی معلوم نہیں کہ کہاں تک خدا تعالیٰ کے علم میں میرے ایام دعوت کا سلسلہ ہے اس لئے یہ لوگ باوجود مولوی کہلانے کے یہ کہتے ہیں کہ ایک خدا پر افترا کرنیوالا اور جھوٹا ملہم بننے والا اپنے ابتدائے افترا سے تیس سال تک بھی زندہ رہ سکتاہے اور خدا اس کی نصرت اور تائید کر سکتا ہے اور اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کرتے۔ اے بیباک لوگو! جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے۔ جو کچھ خدا نے اپنے لطف و کرم سے میرے ساتھ معاملہ کیا یہاں تک کہ اِس مُدّت دراز میں ہر ایک دن میرے لئے ترقی کا دن تھا اور ہر ایک مقدمہ جو میرے تباہ کرنے کے لئے اُٹھا یا گیا خدا نے دشمنوں کو رسوا کیا۔ اگر اس مُدّت اور اُس تائید اور نصرت کی تمہارے پاس کوئی نظیر ہے تو پیش کرو۔ ورنہ بموجب آیت
لَوْتَقَوَّلَ عَلَیْنَا (الحاقۃ: 45)
یہ نشان بھی ثابت ہو گیا اور تم اِس سے پوچھے جاؤگے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ 214تا215)
(مرسلہ: ابن قدسی)
٭…٭…٭