تعارف کتاب

واقعۂ ناگزیر

(اواب سعد حیات)

(مصنفہ حضرت سید حامد علی سیالکوٹی رضی اللہ عنہ، ولادت:1856ء۔ وفات: 6؍ستمبر1898ء)

[تسلسل کے لیے دیکھیں الفضل انٹرنیشنل 16؍اپریل2021ء]

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے صحابی سید خصیلت علی شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کورٹ انسپکٹر کی وفات پر ان کے قریبی دوست سید حامد علی شاہ صاحب سیالکوٹیؓ نے ان کے ذکر خیر پر ایک مختصر رسالہ مرتب کیا جسے شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے مطبع انوار احمدیہ قادیان سے نومبر 1898ء میں چار سو کی تعداد میں شائع کیا۔

مصنف کتاب ہٰذا حضرت سید حامد علی صاحب رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ’’سیّد حامد شاہ صاحب سیالکوٹی۔ یہ سید صاحب محب صادق اور اس عاجز کے ایک نہایت مخلص دوست کے بیٹے ہیں جس قدر خدائے تعالیٰ نے شعر اورسخن میں اُن کو قوت بیان دی ہے وہ رسالہ قول فصیح کے دیکھنے سے ظاہر ہوگی۔ میرحامد شاہ کے بشرہ سے علامات صدق واخلاص و محبت ظاہرہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ اسلام کی تائید میں اپنی نظم و نثر سے عمدہ عمدہ خدمتیں بجالائیں گے۔ اُن کا جوش سے بھرا ہوا اخلاص اور ان کی محبت صافی جس حد تک مجھے معلوم ہوتی ہے۔ مَیں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ مجھے نہایت خوشی ہے کہ وہ میرے پُرانے دوست مِیر حسام الدین صاحب رئیس سیالکوٹ کے خلف رشید ہیں۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ524)

حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحبؓ 1856ء میں ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں مالومہے میں ایک باعظمت سادات خاندان میں پیدا ہوئے۔ اس خاندان کو مغلیہ دربار میں خاص دخل رہا ہے۔ آپ کے والد سید ہدایت شاہ صاحب اپنی پارسائی کی وجہ سے علاقہ بھر میں مشہور تھے۔ آپ کے تین بھائی سارجنٹ درجہ اول تھے اور سب کو حضرت اقدس علیہ السلام کا صحابی ہونے کا شرف حاصل تھا۔ ایک بھائی حضرت سید امیر علی شاہ صاحبؓ کا نام 313؍ اصحاب میں 79؍نمبر پر اور دوسرے بھائی حضرت سید احمد علی شاہ صاحبؓ کا نام 228؍ نمبر پر درج ہے۔

حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحبؓ کی شادی 1877ء میں حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب رئیس سیالکوٹ کی صاحبزادی سے ہوئی۔ نیز آپ کے بھائی حضرت سید احمد علی شاہ صاحبؓ کو بھی حضرت میر صاحبؓ کی دامادی کا شرف حاصل ہوا اور یہی تعلق آپؓ کے خاندان کے سیالکوٹ میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا باعث بنا۔ حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحبؓ 1878ء میں محکمہ پولیس میں ملازم ہوئے اور اپنی خداداد لیاقت سے بیس سالہ ملازمت کے دوران انسپکٹر کے عہدہ تک پہنچے۔ 9؍جولائی 1891ء کو آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل ہوئی۔ رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپؓ کا نام 183؍نمبر پر درج ہے جبکہ حضورؑ نے 313؍ اصحاب میں آپؓ کا نام 226؍نمبر پر درج فرمایا۔

دسمبر 1892ء میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ میں بھی آپؓ شامل ہوئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مہمانوں کی فہرست میں آپؓ کا نام 21؍نمبر پر درج فرمایا۔ حضرت اقدسؑ سے آپؓ کی خط و کتابت بھی رہی۔ اپنے ایک خط میں حضورؑ نے آپؓ کو اپنے اہل خانہ سے نرمی برتنے کی نہایت پُراثر نصیحت فرمائی۔ اس خط کا متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے:

’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہٗ ونصلّی علیٰ رسولہِ الکریم

محبیّ اخویم سید خصیلت علی شاہ صاحب سلّمہٗ

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

آپ کا عنایت نامہ چند روز ہوئے کہ پونچا تھا مجھ کو معلوم نہیں کہ میں نے جواب لکھ دیا تھا یا نہیں۔ غالباً یہی خیال آتا ہے کہ جواب لکھ دیا گیا تھا۔ اب باعث تکلیف دہی یہ ہے کہ میں نے بعض آپ کے سچے دوستوں کی زبانی جو درحقیقت آپ سے تعلق اخلاص اور محبت اور حسن ظن رکھتے ہیں سنا ہے کہ امور معاشرت میں جو بیویوں اور اہل خانہ سے کرنی چاہیے کسی قدر آپ شدّت رکھتے ہیں یعنے غیظ و غضب کے استعمال میں بعض اوقات اعتدال کا اندازہ ملحوظ نہیں رہتا۔ میں نے اس شکایت کو تعجب کی نظر سے نہیں دیکھا۔ کیونکہ اوّل تو بیان کرنے والے آپ کی تمام صفات حمیدہ کے قائل اور دلی محبت آپ سے رکھتے ہیں۔ اور دوسری چونکہ مردوں کو عورتوں پر ایک گونہ حکومت قسام ازلی نے دے رکھی ہے اور ذرہ ذرہ سی باتوں میں تادیب کی نیت سے یا غیرت کے تقاضا سے وہ اپنی حکومت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مگر چونکہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ معاشرت کے بارے میں نہایت حلم اور برداشت کی تاکید کی ہے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ آپ جیسے رشید اور سعید کو اس تاکید سے کسی قدر اطلاع کروں۔ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔ عَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(النساء: 20) یعنے اپنی بیویوں سے تم ایسے معاشرت کرو جس میں کوئی امر خلاف اخلاق معروفہ کے نہ ہو اور کوئی وحشیانہ حالت نہ ہو۔ بلکہ ان کو اس مسافرخانہ میں اپنا ایک دلی رفیق سمجھو اور احسان کے ساتھ معاشرت کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ بِاَھْلِہٖ۔ یعنی تم میں سے بہتر وہ انسان ہے جو بیوی سے نیکی سے پیش آوے اور حسن معاشرت کے لئے اس قدر تاکید ہے کہ میں اس خط میں لکھ نہیں سکتا۔ عزیز من! انسان کی بیوی ایک مسکین اور ضعیف ہے جس کو خدا نے اس کے حوالہ کردیا اور وہ دیکھتا ہے کہ ہر یک انسان اس سے کیا معاملہ کرتا ہے۔ نرمی برتنی چاہئے اور ہر یک وقت دل میں یہ خیال کرنا چاہئے کہ میری بیوی ایک مہمان عزیز ہے جس کو خداتعالیٰ نے میرے سپرد کیا ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ میں کیونکر شرائط مہمانداری بجالاتا ہوں اور میں ایک خدا کا بندہ ہوں اور یہ بھی ایک خدا کی بندی ہے مجھے اس پر کونسی زیادتی ہے۔ خونخوار انسان نہیں بننا چاہیے۔ بیویوں پر رحم کرنا چاہیے اور ان کو دین سکھلانا چاہیے۔ درحقیقت میرا یہی عقیدہ ہے کہ انسان کے اخلاق کے امتحان کا پہلا موقعہ اس کی بیوی ہے۔ میں جب کبھی اتفاقاً ایک ذرّہ درشتی اپنی بیوی سے کروں تو میرا بدن کانپ جاتا ہے کہ ایک شخص کو خدا نے صدہا کوس سے میرے حوالہ کیا ہے۔ شاید معصیت ہوگی کہ مجھ سے ایسا ہوا۔ تب میں ان کو کہتا ہوں کہ تم اپنی نماز میں میرے لئے دعا کرو کہ اگر یہ امر خلاف مرضی حق تعالیٰ ہے تو مجھے معاف فرماویں۔ اور میں بہت ڈرتا ہوں کہ ہم کسی ظالمانہ حرکت میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ سو میں امید رکھتا ہوں کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے۔ ہمارے سید و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر اپنی بیویوں سے حلم کرتے تھے۔ زیادہ کیا لکھوں۔

والسلام

خاکسار

مرزا غلام احمد‘‘

(مکتوبات احمد جلد چہارم صفحہ 159تا 160)

حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحب 6؍ستمبر 1898ء کو ایک مختصر بیماری کے بعد وفات پاگئے اور تدفین آپ کے آبائی گاؤں میں ہوئی۔

حضرت سید حامد علی شاہ صاحبؓ کا بیان ہے کہ حضرت خصیلت علی شاہ صاحبؓ خلیق، متواضع، شب بیدار، تہجد خوان، غیرت مند اور باحیا انسان تھے۔ غض بصر اُن کی خاص صفت تھی۔ اپنے ہم عصروں کے لیے ایک اعلیٰ درجہ کا نمونہ بن گئے۔ قرآن کے ساتھ ایسی محبت تھی کہ ایک احمدی حافظ کو ملازم رکھا ہوا تھا اور اُن کے ساتھ درس قرآن کا سلسلہ خاص انداز سے جاری تھا۔ حوصلہ ایسا فراخ تھا کہ کبھی کسی محتاج سے دریغ نہیں کیا۔ آپؓ کی فقیرانہ زندگی کا ثبوت یہ تھا کہ وفات کے بعد گھر سے دس روپے برآمد ہوئے اور 36؍روپے قرض لے کر کاربراری ہوئی۔

حضرت شاہ صاحبؓ نے ایک بار حضور اقدسؑ کی خدمت میں اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا:

’’…(خاکسار) اقرار کرتا ہے اور حضورکو شاہد کرتا ہے کہ حضور کا من جانب اللہ ہونا اپنے ایمان سے مانتا ہے اور موعود ہونا جانتا ہے … اس اقرار کے آپ شاہد رہیں کہ اس عاجز کو اللہ پاک آپ کے ایمان لانے والوں میں لکھے اور … دعا فرماویں کہ قرآن شریف کا زیادہ شوق ہو اور توفیق تفہیم حاصل ہو۔ اس وقت وہ جوش ہے جس کو یہ عاجز روک نہیں سکتا۔‘‘

(ماخوذ از الفضل ڈائجسٹ، 29؍ستمبر 2018ء، انٹرنیٹ ایڈیشن)

سید خصیلت شاہ صاحب کے ایک پوتے سید ارشاد علی صاحب کو سانحہ 28؍مئی 2010ء میں شہادت کا منصب نصیب ہوا۔ سیدنا امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے شہید مرحوم کے ذکر خیر میں فرمایاکہ

’’سید ارشاد علی صاحب شہید ابن مکرم سید سمیع اللہ صاحب۔ شہید مرحوم کوچہ میر حسام الدین (سیالکوٹ) کے رہنے والے تھے۔ ان کے دادا حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور نانا حضرت سید میر حامد شاہ صاحبؓ سیالکوٹی صحابی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقائے خاص میں شامل تھے۔ سیالکوٹ میں قیام کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے گھر قیام کیا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍جون 2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل9؍جولائی 2010ءصفحہ8)

اس کتابچہ کے شروع اور آخر پر منظوم کلام بھی موجود ہے، جو اردو اور فارسی زبان میں ہے۔ اس میں ایک تعزیتی کلام فارسی زبان میں منشی رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کورٹ انسپکٹر انبالہ کا بھی ہے۔

مصنف کتاب نے ابتدا میں مرحوم کا خاندانی تعارف تفصیل سے درج کرکے ان کی آخری بیماری کا احوال لکھا ہے، اور منظر کشی کی ہے کہ کس طرح بیماری نے اچانک ترقی کی اور جنازہ کس ماحول میں ہوا۔

سید حامد علی شاہ صاحبؓ آپ کی بیعت کا حال یوں بیان کرتے ہیں کہ جب آپؓ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں امرتسر کی ایک حویلی میں حاضر ہوئے تو اگلے روز صبح حضورؑ باہر تشریف لائے۔ جب حضورؑ نے وعظ شروع فرمایا تو آپؓ کو نیند کے جھونکے آنے لگے۔ جاگنے کی بہت کوشش کی لیکن نیند بار بار مغلوب کرتی تھی۔ آخر جاکر پانی کے چھینٹے منہ پر مارے اور دوبارہ حضورؑ کے قریب آکر بیٹھ گئے۔ بیٹھتے ہی نیند نے پھر مغلوب کیا اور آپؓ نے نظارہ دیکھا کہ گویا ایک باغ ہے جس میں ایک مکان ہے …دیواروں میں طاق بنے ہوئے ہیں، کتابیں بھی ہیں۔ آپؓ کو اپنے والد محترم ملے جنہوں نے کہا کہ یہ کتابیں طاقوں میں رکھ دو۔ آپؓ نے ایسا ہی کیا اور اس کے ساتھ ہی آنکھ کھل گئی۔ معاً یہ تفہیم ہوئی کہ پہلا علم بالائے طاق رکھو۔ چنانچہ اسی وقت بیعت کی توفیق پائی۔ بیعت کے بعد آپؓ کی روحانی قوتیں مزید صیقل ہوئیں اور ترقی کرنے لگیں۔ کشوف اور الہام ہونے لگے اور رؤیا صادقہ کی نعمت نصیب ہوئی۔

مصنف نے اس کتابچہ میں مرحوم کے مختصر حالات زندگی بتاکر پھر لکھا کہ’’بڑا عجیب اور قابل ذکر زمانہ ان کی زندگی کا وہ حصہ ہے جوانہوں نے اپنے مرشد اور امام سیدنا حضور مسیح موعودمہدی مسعود کی تعلیمات کے نیچے بسر کیا ہے۔ خلیق متواضع، شب بیدار، تہجد خوان، غیرت مند۔ باحیا۔ مروت کش انسان تھے۔ غض بصر کی خاص صفت ان میں تھی۔ باوجود مصروفیات سرکاری جس کی انجام دہی کا بہانہ غافل ملازموں کو نماز پڑھنے کی فرصت بھی نہیں دیتا۔ یہ مرحوم مغفور ان سب خدمات کو بوجہ احسن بجا لاکر پھر فرائض الٰہی کے بھی ایسے پابند تھے…پچھلی رات کو جب ساری مخلوقات غفلت کے لحافوں میں پڑی سوتی ہے۔ پاک صاف ہوکر نماز میں کھڑا ہونا قضا نہیں کیا۔ اور باقی ذکر و شغل اس کے علاوہ تھے۔ …‘‘

مصنف نے مرحوم کی نمازاور قرآن کریم کی تلاوت میں باقاعدگی اور تدبر کا بتا کر ان یادداشتوں کا اندراج کیا ہے جو مرحوم نے اپنی تاریخ بیعت سے محسوس و مشہود کی تھیں۔

یہ یادداشتیں، جہاں مرحوم کے تعلق باللہ، صفائی قلب اور دیگر اوصاف حمیدہ پر اطلاع دیتی ہیں وہاں زمانہ مسیح موعودعلیہ السلام کے مقدس شب و روز کا احوال بھی دیتی ہیں اور تاریخ احمدیت کے ابتدائی دَور کی جھلکیاں پیش کررہی ہیں۔

مرحوم نے صرف 42؍سال کی عمر پائی اور ناگہانی طور پرایک مرض میں گرفتارہوکر جلد ہی اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے۔ حضورؑ کو جب آپؓ کی ناگہانی وفات کی اطلاع ہوئی تو آپؑ کو بہت دکھ ہوا اور آپؑ نے اپنے ایک مکتوب میں آپؓ کے سسر کو لکھا:

’’خبر سن کر وہ صدمہ دل پر ہے جو تحریر و تقریر سے باہر ہے۔ طبیعت اس غم سے بیقرار ہوئی جاتی ہے…شاہ صاحب کو جس قدر خدا تعالیٰ نے اخلاص بخشا تھا اور جس قدر انہوں نے ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کی تھی اور جیسے انہوں نے اپنی سعادت مندی اور نیک چلنی اور صدق اور محبت کا عمدہ نمونہ دکھایا تھا یہ باتیں عمر بھر کبھی بھولنے کی نہیں …‘‘

مزید تحریر فرمایا:

’’بعض خدا کے بندے جب دنیا سے انقطاع کرکے خداتعالیٰ سے ملیں گے تو ان کے نامہ اعمال میں مصیبتوں کے وقت میں صبر کرنا بھی ایک بڑا عمل پایا جائے گا تو اسی عمل کے لئے بخشے جائیں گے۔‘‘

حضور علیہ السلام نے 9؍ستمبر 1898ءکو نماز جمعہ سے قبل حضرت شاہ صاحبؓ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی اور پھر بہت دیر تک چپ چاپ کھڑے دعائیں مانگتے رہے۔ حضرت شاہ صاحبؓ کی وفات کے قریباً چار سال بعد ایک بار پھر حضرت اقدسؑ نے آپؓ کا اور بعض دیگر مرحوم صحابہؓ کے اخلاص اور وفا کا تذکرہ بڑی شفقت سے اپنی مجلس میں فرمایا۔

فرمایا: ’’ہماری جماعت جو اب ایک لاکھ تک پہنچی ہے۔ سب آپس میں بھائی ہیں۔ اس لیے اتنے بڑے کنبہ میں کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی نہ کوئی دردناک آواز نہ آتی ہو۔ جو گزر گئے وہ بھی بڑے ہی مخلص تھے۔ جیسے ڈاکٹر بوڑے خاں، سید خصیلت علی شاہ۔ ایوب بیگ۔ منشی جلال الدین خدا ان سب پر رحم کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 305تا 306)

اس مختصر کتابچہ کے مؤلف نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے مقدس خط کے بعد دیگر احباب کے تعزیتی خطوط کے متن شامل اشاعت کیے ہیں مثلا ًخط از حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ جس کے آخر پر لاہور جماعت کے 30؍احباب کے اسماء بھی درج ہیں کہ ان سب کی طرف سے یہ تعزیتی عریضہ بھیجا جاتا ہے۔

مرحوم کے ذکر خیر اور دیگر کوائف کے اندراج کے بعد مصنف نے لکھا کہ’’اس مختصر سے رسالہ کا تذکرہ ایک بار حضرت امام ہمام مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور ہوا تو آپ نے سید صاحب کے اخلاص صدق اور الٰہی محبت کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کے ایک خط کا ذکر کیا جو انہوں نے حضور علیہ السلام کے نام لکھا تھا۔‘‘

مرتب کتاب ہٰذا حضرت سید حامد علی شاہ صاحب سیالکوٹیؓ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے عطا فرمانے پر یہ خط کتاب کے آخر پر من وعن درج کیا ہے جس سے گویا مرحوم کے اوصاف حمیدہ کی فوٹوہی نظر آجاتی ہے۔

اس خط کا متن حسب ذیل ہے:

’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نحمدہٗ ونصلّی علیٰ رسولہِ الکریم

حضرت! جناب مولٰنا و امامنا مسیح الزمان حضرت دستگیر دام ظلکم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

تسلیم۔ نیاز فرزندانہ کے بعد عرض ہے کہ تہانہ کھاریاں میں آنے میں حکمت اور نعمت خداوندی یہ ہے کہ اس عاجز کو حضور کی دعا سے بامعنے قرآن شریف پڑہنے کا موقعہ ملا۔ آٹھواں پارہ شروع ہے۔ اپنی سمجہہ کے متعلق اس آئیت شریف نے اس عاجز کے ایمان کو ایک ایسا پشتہ لگادیا کہ مضبوطی کمال تک پہونچ گئی اور وہ یہ

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ

تو گویا یہ شناخت صادق کی ہے کہ

یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ پھر تم ایسا کرو فَمَنِ اتَّقٰی وَ اَصۡلَحَ۔

تو اس سلسلہ کو ختم نہیں کیا حکم تعمیلی ہے۔ مخالفین نے ضد اور جھگڑا میں حضور کو شناخت تو کیا مگر عمداً مونہہ پھیرا کیونکہ وہ قرآن پڑہتے ہیں۔

گو یہ خاکسار حضور کا مرید ہے مگر مکرر اقرار کرتا ہے اور حضور کو شاہد کرتا ہے کہ حضور کو من جانب اللہ ہونا اپنے ایمان سے مانتا ہے اور موعود ہونا جانتا ہے … اس پر کامل ایمان رکھتا ہے۔ اس اقرار کے آپ شاہد رہیں کہ اس عاجز کو اللہ پاک آپ پر ایمان لانیوالوں میں لکہے۔ اور درخواست ہے کہ آپ دعاء فرماویں کہ قرآن شریف کا زیادہ شوق ہو اور توفیق تفہیم حاصل ہو۔

اس وقت وہ جوش ہے جس کو یہ عاجز روک نہیں سکتا۔ والسلام

یہ خاکسار بیمار ہے قلم مبارک کے حروف دیکہنے کی طبیعت حریص ہے والسلام۔

غلامان غلام

خصیلت علی شاہ ڈپٹی انسپکٹر

کھاریاں ‘‘

الغرض یہ مختصر کتابچہ تاریخ احمدیت کی جھلکیاں، اصحاب احمد کے شب و روز کی داستان اور ان کے قابل تقلید نمونوں سے آگاہ کرنے والا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button