حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (2) (قسط نہم)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

قرآن کریم کی مقفیٰ عبارت

چہارم قرآن کریم کی عبارت مقفیٰ ہوتی ہے۔ قافیہ بندی کے ساتھ اگر مضمون خراب ہو جائے تو وہ مقفیٰ عبارت بری معلوم ہوتی ہے۔ لیکن قرآن کریم کی عبارت باوجود مقفیٰ ہونے کے ایسی ہے جس سے صرف مضمون کی عظمت ہی قائم نہیں ہوتی بلکہ نئے نئے معارف بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کی مثال کے طور پر سورۂ جمعہ کو لے لیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ الۡمَلِکِ الۡقُدُّوۡسِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ ۔ ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ۔ وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ۔ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ(الجمعہ:2تا5)

دیکھو کس طرح ان آیات میں توازن کو قائم رکھا گیا ہے۔ یہ ہے تو نثر مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ اشعار ہیں۔ مگر باوجود اس کے کوئی لفظ زائد نہیں۔ شاعر تو مضمون کے لحاظ سے الفاظ کو آگے پیچھے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں مگر یہاں ایسا نہیں کیا گیا۔

یہ آیتیں اس زمانہ کے متعلق ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ شعر ہیں۔ وزن قائم رکھنے کے لئے ان میں توازن کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور مقفیٰ عبارت ہے مگر ترتیب خراب نہیں ہوئی۔ نہ کوئی زائد چیز آئی ہے، ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر ہے۔

سورۃ جمعہ کی ابتدائی آیات کی تفسیر

خدا تعالیٰ فرماتا ہے

یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ

ہر ایک چیز خواہ وہ آسمانوں میں ہے خواہ زمین میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ یعنی ہر چیز ثابت کرتی ہے کہ خدا بے عیب ہے۔

الۡمَلِکِ الۡقُدُّوۡسِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ۔

وہ ملک ہے، قدوس ہے، عزیز ہے، حکیم ہے۔ یہاں قافیہ کے لحاظ سے حکیم پیچھے آیا ہے۔ اگر ملک پیچھے آتا تو وزن قائم نہ رہتا۔ آگے اسی ترتیب سے مضمون چلتا ہے۔ پہلی صفت خدا تعالیٰ کی یہ بیان کی تھی کہ وہ الۡمَلِکِ یعنی بادشاہ ہے۔ اور بادشاہ کا یہ کام ہوتا ہے کہ رعایا کی بہتری اور بہبودی کے احکام جاری کرے۔ اس لئے فرمایا

ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ۔

جب خدا تعالیٰ ساری دنیا کا بادشاہ ہے تو اس نے اپنی رعایا کو احکام پہنچانے کے لئے اُمِّیِّیْنَ میں ایک رسول بھیجا اور اپنا نائب مقرر کیا مگر یہ نائب باہر سے مقرر نہیں کیا بلکہ تم میں سے ہی بھیجا۔

دوسری صفت یہ بیان کی تھی کہ وہ اَلْقُدُّوْس ہے اس کے متعلق فرمایا

یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ

وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہر ایک چیز پاکیزہ ہو اس لئے اس نے رسول کو اپنی آیات دے کر بھیجا تا کہ وہ آیات لوگوں کو سنائے اور ان میں دماغی اور روحانی پاکیزگی پیدا کرے۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی آیات سکھا کر انسانی دماغ کو پاک کرے اور پھر یُزَکِّیۡہِمۡ ان کے اعمال کو پاک کرے۔

تیسری صفت یہ بیان کی تھی کہ العزیز وہ غالب ہے۔ اس کے لئے فرمایا۔

وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ۔

ان کو کتاب سکھائے۔ یہ سیدھی بات ہے کہ کوئی بات وہی سکھا سکتا ہے جس کے شاگرد ہوں۔ چونکہ عزیز کے معنی غالب کے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلہ میں یہ رکھا کہ اس رسول کو ہم ایک جماعت دیں گے جسے یہ سکھائے گا اور اسے دنیا پر غلبہ بخشے گا۔ کیونکہ میں اسے اپنی صفت عزیر کے ماتحت بھیج رہا ہوں۔

چوتھی صفت الۡحَکِیۡمِ بیان کی تھی۔ اس کے متعلق فرمایا وَالۡحِکۡمَۃَ کہ وہ حکمت سکھائے گا۔ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ اور گو اس سے پہلے وہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے مگر پھر بھی یہ رسول اس کتاب کو منوالے گا۔

اس کے بعد فرمایا

وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ۔

یہ رسول کچھ اور لوگوں کو بھی سکھائے گا جو ابھی ان سے نہیں ملے۔

وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ

اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ قرآن کی عبارت تو مقفیٰ بتائی جاتی ہے لیکن یہ ترتیب کیسی ہے کہ انہیں الفاظ کو پھر دہرا دیا گیا ہے جو پہلے آچکے ہیں اور بغیر ضرورت کے صرف قافیہ بندی کے لئے لائے گئے ہیں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ یہی الفاظ آنے چاہئیں تھے۔ اس کی وجہ ہے کہ جب کہا گیا

وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ

کہ یہ رسول ایک اور جماعت کو بھی سکھائے گا جو ان لوگوں سے نہیں ملی تو گویا بتایا کہ ان لوگوں میں اور اس جماعت میں ایک وقفہ ہوگا۔ اور دوسرے لوگ کچھ مدت کے بعد آئیں گے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک عرصہ گذرنے کے بعد مسلمانوں میں سے قرآن مٹ جائے گا اور پھر بعد میں آنے والوں کو سکھایا جائے گا۔ ورنہ اگر وقفہ نہیں پڑنا تھا تو یہ بات بیان کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ پیچھے آنے والے آخر پہلوں سے ہی سیکھا کرتے ہیں۔ اس کے ذکر کی یہی وجہ ہے کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا تھا جس میں قرآن دانی مٹ جانی تھی۔ اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا کو قرآن سکھایا جانے والا تھا۔

اب یہ صاف بات ہے کہ درمیانی وقفہ کسی نقص کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے۔ اور اس نقص کے ازالہ سے ہی اس امر کو دوبارہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ پس دوبارہ عزیز و حکیم کہہ کر بتایا کہ یہ وقفہ دشمنان اسلام کے غلبہ ظاہری اور ان کی علمی اور فلسفی اور سائنس کی ترقی کی وجہ سے ہوگا۔ اور مسلمان ان سے متاثر ہو کر قرآن کو چھوڑ دیں گے۔ مگر پھر خدا تعالیٰ ان کو غلبہ عطا فرمائے گا۔ کیونکہ وہ عزیز ہے۔ چونکہ دوسروں کو حکومت ملنی تھی اور اس سے مسلمانوں پر رعب چھا جانا تھا اور ایسے علوم نکل آنے تھے جن کی وجہ سے اسلام پر حملہ کیا جاتا اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس وقت بھی اپنی صفات عزیز اور حکیم کا اظہار کریں گے اور مسلمانوں کو دوسروں کے مقابلہ میں غلبہ دیں گے۔ اور ان علوم کا بھی رد کریں گے جو قرآن کے مقابلہ پر آئیں گے۔ کیونکہ اصل غلبہ اللہ تعالیٰ کو ہے اور علوم اس کے بھیجے ہوئے ہیں۔ پس وہ باوجود ان فتن کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دوبارہ دنیا میں قائم کر دے گا۔

غرض ان الفاظ کا تکرار صرف مقفیٰ عبارت کے لئے نہیں بلکہ عین اس ترتیب کے ماتحت ہے جس کی یہاں ضرورت تھی۔

قرآنی آیات کا لطیف توازن

(5) پھر قرآن کریم کی ایک ظاہری خوبی اس کے الفاظ کا لطیف توازن ہے کہ بظاہر نثر ہے مگر نظم کے مشابہ ہے اور یہ امر اس کی عبارت کو ایسا خوبصورت بنا دیتا ہے کہ کوئی اور کتاب اب تک اس کی نقل نہیں کر سکی خواہ وہ ناقص نقل ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بھی قرآن کریم کی ایک بہت بڑی خوبی ہے۔ چونکہ قرآن کریم حفظ کیا جانا تھا اس لئے ضروری تھا کہ یا تو اشعار میں ہوتا یا اشعار سے ملتا جلتا ہوتا۔ قرآن کریم کو خدا تعالیٰ نے ایسے انداز میں رکھا کہ جس قدر جلدی یہ حفظ ہو سکتا ہے اور کوئی کتاب نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ توازن الفاظ ہی ہے اور پڑھتے وقت ایک قسم کی ربودگی انسان پر طاری ہو جاتی ہے۔

قرآن کریم میں ذکر الٰہی کی کثرت

(۶) چھٹی خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر کی اس میں اتنی کثرت ہے کہ جب انسان قرآن کھولتا ہے تو اسے یوں معلوم ہوتا ہے کہ سارے کا سارا قرآن ہی خدا تعالیٰ کے ذکر سے پر ہے۔ چنانچہ مکہ کے کئی مخالف جو سخت دشمن ہوا کرتے تھے جب کبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھ جاتے تو کہتے وہاں تو اللہ تعالیٰ کا ہی ذکر ہوتا رہتا ہے۔ غرض قرآن کریم نے اس طرح عظمت الٰہی کو بار بار بیان کیا ہے کہ انسان اس امر کو محسوس کئے بغیر نہیں رہتا۔ اور ہر خدا تعالیٰ سے محبت رکھنے والا دل اس کثرت سے ذکر الٰہی کو دیکھ کر باغ باغ ہو جاتا ہے۔ ایک فرانسیسی مصنف لکھتا ہے۔ محمدؐ کے متعلق خواہ کچھ کہو لیکن اس کے کلام میں خدا ہی خدا کا ذکر ہے۔ وہ جو بات پیش کرتا ہے اس میں خدا کا ذکر ضرور لاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کا عاشق ہے۔ یہ مخالفین کی قرآن کریم کے متعلق گواہی ہے کہ وہ ذکر الٰہی سے بھرا ہوا ہے۔ اور ذکر الٰہی ہی مذہب کی جان ہے۔ لیکن دوسری کتب اس سے عاری ہیں اور ادھر ادھر کی باتوں میں وقت کو ضائع کرتی ہیں بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں بندوں کے قصے کہانیاں زیادہ ہیں اور اللہ کا ذکر کم ہے۔

سخت کلامی سے مبرا کتاب

ساتویں خوبی قرآن کریم کی یہ ہے کہ وہ سخت کلامی سے مبرا ہے اور یہ بھی حسن کلام کی ایک قسم ہے۔ کوئی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ اس میں گالیاں ہیں۔ پھر نہ صرف قرآن سخت کلامی سے مبرا ہے بلکہ نہایت لطیف اور دلنشین پیرایہ میں یہ نصیحت کرتا ہے کہ

وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ(الانعام:109)

یعنی تم ان معبودان باطلہ کو گالیاں مت دو جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے سوا پرستش کرتے ہیں۔ اور اگر تم ان کو گالیاں دو گے تو وہ اللہ کو گالیاں دیں گے بغیر یہ سمجھنے کے کہ اللہ تو سب کا ہے۔

پھرفرماتاہے

کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَہُمۡ (الانعام:109)

اسی طرح ہم نے ہر ایک قوم کے لئے اس کے عمل خوبصورت کر کے دکھائے ہیں۔ یعنی یہ نہ سمجھا جائے کہ چونکہ ان لوگوں کے معبود جھوٹے ہیں اس لئے انہیں برا بھلا کہنے میں کیا حرج ہے۔ یہ لوگ اب شرک کے عادی ہو چکے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنے اس برے کام کو بھی اچھا سمجھنے لگ گئے ہیں اس لئے اگر تم انہیں گالیاں دو گے تو فتنہ پیدا ہوگا اور یہ لوگ خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے لگ جائیں گے۔

کیا ہی لطیف نکتہ قیام امن کے متعلق بیان کیا کہ کسی کے بزرگوں اور قابل تعظیم چیزوں کو برا بھلا نہ کہا جائے کیونکہ اس سے آپس کے بہت سے جھگڑے اور فساد رک سکتے اور بہت اچھے تعلقات پیدا ہو سکتے ہیں۔

فحش کلامی اور ہر قسم کی بد اخلاقی سے منزہ کتاب

آٹھویں ظاہری خوبی قرآن کریم میں یہ ہے کہ وہ فحش کلامی اور ہر قسم کی بداخلاقی کی تعلیم سے منزہ ہے۔ یعنی اس میں کوئی ایسی بات نہیں جسے پڑھ کر طبیعت منغض ہو جائے یا شرمائے یا بد اخلاقی معلوم ہو۔ قرآن کریم ایک شریعت کی کتاب ہے۔ اور بوجہ شریعت ہونے کے اسے ایسے مضامین پر بھی بحث کرنی پڑتی ہے جو نہایت نازک ہوتے ہیں مگر وہ اس طرح ان کو بیان کر جاتا ہے کہ جن کو پڑھ کر جو واقف ہے وہ تو سمجھ جائے اور جس کی عمر ابھی سمجھنے کی نہیں اسے خاموش گذار دیا جائے۔ مثلاً اس میں مرد اور عورت کے تعلقات کا ذکر ہے۔ طہارت اور پاکیزگی کے متعلق احکام بیان ہیں۔ مگر ان احکام کو ایسی عمدگی سے بیان کیا گیا ہے کہ بات بھی کہہ دی گئی ہے اور عریاں الفاظ بھی استعمال نہیں کئے گئے۔ لیکن اس کے مقابلہ میں دوسری کتابوں میں ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جن کو پڑھتے ہوئے شرم آ جاتی ہے۔ جیسا کہ پیدائش باب 19 آیت 31تا 38 میں حضرت لوط علیہ السلام کے متعلق ایک گندے واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ چونکہ یہاں عورتیں بھی بیٹھی ہیں اس لئے میں اس حوالہ کو نہیں پڑھتا۔ احباب بائیبل سے اس حوالہ کو خود پڑھ لیں۔ انجیل میں فحش تو نہیں مگر ایک بات اس میں بھی ایسی ہے جو بچوں کے اخلاق پر برا اثر ڈالتی ہے۔ اور وہ یہ کہ متی باب ۱۲ میں لکھا ہے۔

’’جب وہ (مسیح) بھیڑ سے یہ کہہ ہی رہا تھا کہ تو دیکھو اس کی ماں اور بھائی باہر کھڑے تھے اور اس سے باتیں کرنی چاہتے تھے۔ کسی نے اس سے کہا۔ دیکھ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے ہیں اور تجھ سے باتیں کرنی چاہتے ہیں۔ اس نے خبر دینے والے کو جواب میں کہا۔ کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی۔ اور اپنے شاگردوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا۔ دیکھو میری ماں اور میرے بھائی یہ ہیں کیونکہ جو کوئی میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلے وہی میرا بھائی اور بہن اور ماں ہے۔‘‘(متی باب 12 آیت 46 تا 50 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ 1906ء)

حضرت مریمؑ حضرت مسیحؑ پر ایمان لانے والی تھیں، مخالف نہ تھیں مگر باوجود اس کے انجیل کے بیان کے مطابق آپ نے ان کی پروا نہ کی۔ لیکن قرآن کہتا ہے۔ ماں باپ خواہ مخالف ہوں، ان کی عزت و توقیر کرنا تمہارا فرض ہے۔

پھر رگوید جلد اول کتاب 4 دعا 18 میں اندر دیوتا کی پیدائش کا ذکر ان الفاظ میں ہے۔

Not this way go I forth: hard is the passage. Forth from the side obligquely will I issue. Much that is yet undone must I accomplish.

(The Hymns of the Rigveda Vol:1 Book IV Humn XVIII, P.416 Benares, 1920.)

یعنی اندر نے اپنی پیدائش کے وقت کہا۔ میں ماں کی پسلیوں میں سے نکل کر جائوں گا۔

اسی طرح اتھروید جلد اول کتاب 3 دعا 25 میں عمل حب بتایا گیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ اے عورت تو چوری چھپے اپنے ماں باپ کے گھر سے نکل کر بھاگ چل۔

اتھروید جلد اول کتاب 5دعا 25صفحہ229-230 میں لڑکا پیدا ہونے کے متعلق نہایت فحش دعا درج ہے۔ پھر مرد عورت کے تعلقات کا ایسا گندا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ کوئی ماں باپ اپنے لڑکے لڑکیوں کو پڑھنے کے لیے ایسی کتاب نہیں دے سکتے۔ لیکن قرآن کریم شروع سے لے کر آخر تک ایسی پاک زبان میں ہے کہ بڑے سے بڑا دشمن بھی اس پر اعتراض نہیں کر سکتا۔

٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button